جب دُکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل بانہوں میں
لوہُو میں کتنی لالی تھی
یُوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے
اور ناؤ پُورم پار لگی
ایسا نہ ہُوا ، ہر دھارے میں
کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں
کچھ مانجھی تھے انجان بہُت
کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں
اب جو بھی چاہو چھان کرو
اب جِتنے چاہو دوش دھرو
ندیا تو وہی ہے ، ناؤ وہی
اب تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
اب کیسے پار اُترنا ہے
جب اپنی چھاتی میں ہم نے
اِس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے
تھا ویدوں پر وشواش بہت
اور یاد بہت سےنسخے تھے
یُوں لگتا تھا بس کچھ دِن میں
ساری بپتا کٹ جائے گی
اور سب گھاؤ بھر جائیں گے
ایسا نہ ہُوا کہ روگ اپنے
کچھ اِتنے ڈھیر پُرانے تھے
وید اُن کی ٹوہ کو پا نہ سکے
اور ٹوٹکے سب بیکار گئے
اب جو بھی چاہو چھان کرو
اب جتنے چاہو دوش دھرو
چھاتی تو وہی ہے ، گھاؤ وہی
اب تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
یہ گھاؤ کیسے بھرنا ہے
دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے
پایلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے
راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آ کے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سُرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ
کبھی پاؤں میں رقصِ زنجیر
اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح
رسن در گلو، پابجولاں ہمیں
اسی قافلے میں کشاں لے چلا
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
بچوں کی ہنستی آنکھوں کے
جو آئنے چکنا چور ہوئے
اب ان کے ستاروں کی لَو سے
اس شہر کی راتیں روشن ہیں
اور رُخشاں ہے ارضِ لبنان
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
جو چہرے لہو کے غازے کی
زینت سے سوا پُرنور ہوئی
اب ان کے رنگیں پرتو سے
اس شہر کی گلیاں روشن ہیں
اور تاباں ہے ارضِ لبنان
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
ہر ویراں گھر، ہر ایک کھنڈر
ہم پایۂ قصرِ دارا ہے
ہر غازی رشکِ اسکندر
ہر دختر ہمسرِ لیلیٰ ہے
یہ شہر ازل سے قائم ہے
یہ شہر ابد تک دائم ہے
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اِک دن جیتیں گے
بالآخر اِک دن جیتیں گے
کیا خوف ز یلغارِ اعداء
ہے سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف ز یورشِ جیشِ قضا
صف بستہ ہیں ارواح الشہدا
ڈر کاہے کا!
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اِک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زَہَق الباطِل
فرمودۂ ربِّ اکبر
ہے جنت اپنے پاؤں تلے
اور سایۂ رحمت سر پر ہے
پھر کیا ڈر ہے!
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اِک دن جیتیں گے
بالآخر اِک دن جیتیں گے
نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں پیدا
کسی کے حسن میں شمشیرِ آفتاب کا حسن
نگاہ جس سے ملاؤ تو آنکھ دکھنے لگے
کسی ادا میں ادائے خرامِ بادِ صبا
جسے خیال میں لاؤ تو دل سلگنے لگے
نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں باقی
جہاں میں بزمِ گہِ حسن و عشق کا میلا
بنائے لطف و محبت، رواجِ مہر و وفا
یہ کس دیارِ عدم میں مقیم ہیں ہم تم
جہاں پہ مژدۂ دیدارِ حسنِ یار تو کیا
نویدِ آمدِ روزِ جزا نہیں آتی
یہ کس خمار کدے میں ندیم ہیں ہم تم
جہاں پہ شورشِ رندانِ میگسار تو کیا
شکستِ شیشۂ دل کی صدا نہیں آتی
میں کیا لکھوں کہ جو میرا تمہارا رشتہ ہے
وہ عاشقی کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں
لکھا گیا ہے بہت لطفِ وصل و دردِ فراق
مگر یہ کیفیت اپنی رقم نہیں ہے کہیں
یہ اپنا عشق ہم آغوش جس میں ہجر و وصال
یہ اپنا درد کہ ہے کب سے ہمدمِ مہ و سال
اس عشقِ خاص کو ہر ایک سے چھپائے ہوئے
"گزر گیا ہے زمانہ گلے لگائے ہوئے"
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی
خواب در خواب محلّات کے در وا ہیں کئی
اور مکیں کوئی نہیں ہے،
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
"کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت"
کوئی امّید، کوئی آس مسافر صورت
کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں
کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دُور ہو تم
ہر گھڑی سایہ گرِ خاطرِ رنجور ہو تم
اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
باقی ہے کوئی ساتھ تو بس ایک اُسی کا
پہلو میں لیے پھرتے ہیں جو درد کسی کا
اِک عمر سے اِس دھُن میں کہ ابھرے کوئی خورشید
بیٹھے ہیں سہارا لیے شمعِ سحری کا
جینے کے لیے مرنا
یہ کیسی سعادت ہے
مرنے کے لیے جینا
یہ کیسی حماقت ہے
۔۔۔۔۔۔
اکیلے جیو ایک شمشاد تن کی طرح
اور مل کر جیو
ایک بَن کی طرح
۔۔۔۔۔۔
ہم نے امّید کے سہارے پر
ٹوٹ کر یوں ہی زندگی کی ہے
جس طرح تم سے عاشقی کی ہے
۔۔۔۔۔۔
اِدھر نہ دیکھوکہ جو بہادر
قلم کے یا تیغ کے دھنی تھے
جو عزم و ہمت کے مدعی تھے
اب ان کے ہاتھوں میں صدقِ ایماں کی
آزمودہ پرانی تلوار مڑ گئی ہے
جو کج کلہ صاحبِ حشم تھے
جو اہلِ دستار محترم تھے
ہوس کے پرپیچ راستوں میں
کلہ کسی نے گرو رکھ دی
کسی نے دستار بیچ دی ہے
اُدھر بھی دیکھو
جو اپنے رخشاں لہو کےدینار
مفت بازار میں لٹا کر
نظر سے اوجھل ہوئے
اور اپنی لحد میں اس وقت تک غنی ہیں،
اُدھر بھی دیکھو
جو حرفِ حق کی صلیب پر اپنا تن سجا کر
جہاں سے رخصت ہوئے
اور اہلِ جہاں میں اس وقت تک نبی ہیں