غزل: بے وفا آپ کو کہا صاحب

ن

نامعلوم اول

مہمان
بے وفا آپ کو کہا صاحب
میرا کہنا بُرا لگا صاحب​
ہو گئی مجھ سے کیا خطا صاحب
کیوں ہوے مائلِ جفا صاحب​
چھوڑ بیٹھے ہیں دل وہ اہلِ ہوس
تھا جنھیں دعوئِ وفا صاحب​
میں نے تم کو صنم کہا تھا کبھی
اور تم بن گئے خدا صاحب​
نام دشمن کا جب لیا میں نے
رو دیے آپ کیا ہوا صاحب​
کہہ چکے ہیں جب آپ کو اپنا
کیا کریں آپ سے گلہ صاحب​
اک ذرا سا ہی ترس کھا لیتے
دلِ کاملؔ تھا بے نوا صاحب​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
امجد صاحب، غزل پسند کرنے کا شکریہ۔جی اس عاجز کا تخلّص 'کامل' ہی ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
آپ تو ہیں کمال کے شاعر
ہم پہ یہ بھید اب کھلا صاحب
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
آپ سب کی پسند کا شکریہ۔ شروع میں کافی سوچا کہ اس غزل کو مع کچھ اور ایسے ہی کلام کے دیوان سے خارج کر دوں کہ میرا نمائندہ کلام نہیں۔ پھر کافی سوچ بچار کے بعد رہنے دیا کہ چلو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہی سہی۔

آپ سب حضرات کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟کیا اس کلام کو دیوان میں رہنے دوں؟ اگر ہاں تو کیا ایسے مزید شعر ہونے چاہیں یا بس اتنا ہی کافی ہے؟
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
آپ سب کی پسند کا شکریہ۔ شروع میں کافی سوچا کہ اس غزل کو مع کچھ اور ایسے ہی کلام کے دیوان سے خارج کر دوں کہ میرا نمائندہ کلام نہیں۔ پھر کافی سوچ بچار کے بعد رہنے دیا کہ چلو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہی سہی۔

آپ سب حضرات کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟کیا اس کلام کو دیوان میں رہنے دوں؟ اگر ہاں تو کیا ایسے مزید شعر ہونے چاہیں یا بس اتنا ہی کافی ہے؟

اگر آپ معتقدِ غالب ہیں تو نکال دیں وگرنہ رہنے دیں ۔۔۔ ایسے خوب صورت کلام سے ہمیں محروم کرنا زیادتی ہے محترم!
 

سید ذیشان

محفلین
اگر آپ معتقدِ غالب ہیں تو نکال دیں وگرنہ رہنے دیں ۔۔۔ ایسے خوب صورت کلام سے ہمیں محروم کرنا زیادتی ہے محترم!

آپ کو شائد معلوم ہو کہ غالب نے آخیر عمر میں پیچیدہ گوئی کو ترک کر دیا تھا اور زیادہ تر سادہ الفاظ استعمال کرتے تھے۔

میرے خیال میں تو یہ اچھی غزل ہے اور اس کو برقرار رکھنا چاہیے :)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
آپ کو شائد معلوم ہو کہ غالب نے آخیر عمر میں پیچیدہ گوئی کو ترک کر دیا تھا اور زیادہ تر سادہ الفاظ استعمال کرتے تھے۔

میرے خیال میں تو یہ اچھی غزل ہے اور اس کو برقرار رکھنا چاہیے :)

جی ہاں! آپ درست فرما رہے ہیں ۔۔۔ لیکن میں کسی اور تناظر میں کہہ رہا ہوں محترم ۔۔۔ غالب میاں نے اپنے دیوان کو نہایت مختصر کر چھوڑا تھا ۔۔۔ اشعار کے اشعار نکال دیے ۔۔۔ پیچیدہ کیا اور آسان کیا!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جی ہاں! آپ درست فرما رہے ہیں ۔۔۔ لیکن میں کسی اور تناظر میں کہہ رہا ہوں محترم ۔۔۔ غالب میاں نے اپنے دیوان کو نہایت مختصر کر چھوڑا تھا ۔۔۔ اشعار کے اشعار نکال دیے ۔۔۔ پیچیدہ کیا اور آسان کیا!
آپ حضرات کی رائے کا شکریہ۔ دھند چھٹ رہی ہے۔پہلے ایک بات آپ لوگوں کی دلچسپی کے لیے۔ میں نے اپنے ذہن میں آنے والے ہزار ہا اشعار کو مسترد کیا ہو گا۔ میں تو اس وقت تک خیال کو کاغذ پر منتقل ہی نہیں کرتا جب تک یقین نہ ہو کہ اس میں کچھ نہ کچھ دم ہے! اس منزل کے بعد بھی سیکڑوں ہزاروں مرتبہ ایک ایک حرف اور لفظ پر غور کرتا ہوں۔ نوجوانی میں کچھ نہ کچھ مہارت حاصل کر نے کے بعد (بشمول دیگر وجوہات کے جن کا ذکر ہو چکا) شاعری اس لیےبھی ترک کی تھی کہ کچھ اور کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔

اب اصل بات کی طرف۔ میری مراد فی ذاتہٖ مشکل گوئی سے نہیں بلکہ خیال کی گیرائی و گہرائی سے تھی۔ بعض اوقات مشکل الفاظ و تراکیب کا اظہار محض اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ خیال کے اچھوتے پن اور فلسفیانہ گہرائی کے سبب بات کو آسان الفاظ میں کہنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ان خیالات کو میں آسان زبان میں کیسے کہوں؟

عاجز ہوئے بہ ساحتِ کون و مکاں، دریغ!​
گو چاہتے تھے کشفِ رموزِ وجود ہم​
نیرنگِ آرزو کو بہ عنوانِ بندگی​
ڈھالا کیے بشکلِ قیام و سجود ہم​
پھر مسئلہ خیال کی ترجمانی ہی نہیں۔ خیال کو غزل کے ایک شعر میں سمیٹنا وہ بھی اس انداز میں کہ شعر کا صوتی تاثر اس کے معانی کا ساتھ دے ایک الگ باب ہے۔ دوسری طرف میں اس آسان شعر کو بھی اپنا نمائندہ سمجھتا ہوں:​
سو بلاؤں کے میزباں ٹھہرے​
تنگ آئے فراخیِ دل سے​
مگر یہ شعر آسان ترین ہونے کے باوجود اوپر دی گئی غزل سے سو فیصد مختلف ہے کہ یہاں محبوب سے ایک ایسا عام مکالمہ (عام پر بحث پھر کبھی سہی!) نہیں بلکہ زندگی کا ایک فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ الفاظ سادہ ترین ہیں کیونکہ مشکل الفاط کی ضرورت نہ پڑی۔​
آپ حضرات کی جانب سے مزید فیڈ بیک کا انتظار کروں گا۔ کہ آنے والوں دنوں میں کچھ تھوڑا بہت لکھنے لکھانے کا اردہ ہے۔ تو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کیا کام کیا جائے!​
 

حسان خان

لائبریرین
اگر ہاں تو کیا ایسے مزید شعر ہونے چاہیں یا بس اتنا ہی کافی ہے؟

یہ تو ذاتی پسند ناپسند کی بات ہے۔ مجھے ایسا اسلوب بہت پھیکا لگتا ہے جس میں فارسیت کا اور اپنی توانا کلاسیکی تہذیب کا رنگ نظر نہ آئے۔ اس لیے میں تو چاہوں گا کہ آپ اپنے نمائندہ اسلوب میں ہی زیادہ سے زیادہ غزلیں کہیں۔ :)
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
یہ تو ذاتی پسند ناپسند کی بات ہے۔ مجھے ایسا اسلوب بہت پھیکا لگتا ہے جس میں فارسیت کا اور اپنی توانا کلاسیکی تہذیب کا رنگ نظر نہ آئے۔ اس لیے میں تو چاہوں گا کہ آپ اپنے نمائندہ اسلوب میں ہی زیادہ سے زیادہ غزلیں کہیں۔ :)
یہ بے لاگ تبصرہ بڑا مفید ہے۔
ان دو اشعار پر آپ حضرات کی کیا رائے ہو گی؟

سو بلاؤں کے میزباں ٹھہرے
تنگ آئے فراخیِ دل سے
-------
وہ قیامت انڈیل ساغر میں
گر پڑیں سات آسماں ساقی
خود مجھے یہ پسند ہیں۔ ایک مرتبہ پھر اگر صاحب ذوق حضرات بے لاگ رائے دے دیں تو انتہائی مفید ثابت ہو۔​
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
یہ بے لاگ تبصرہ بڑا مفید ہے۔
ان دو اشعار پر آپ حضرات کی کیا رائے ہو گی؟

سو بلاؤں کے میزباں ٹھہرے
تنگ آئے فراخیِ دل سے
-------
وہ قیامت انڈیل ساغر میں
گر پڑیں سات آسماں ساقی
خود مجھے یہ پسند ہیں۔ ایک مرتبہ پھر اگر صاحب ذوق حضرات بے لاگ رائے دے دیں تو انتہائی مفید ثابت ہو۔​

آفاقیت کا عنصر دونوں اشعار میں موجود ہے ۔۔۔ زندہ رہنے والے شعر ہیں ۔۔۔ سچ پوچھیے تو بہت پسند آئے ۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
سو بلاؤں کے میزباں ٹھہرے
تنگ آئے فراخیِ دل سے

یہ شعر اچھا لگا۔ مضمون بھی ہماری اپنی ادبی روایات سے ماخوذ ہے، اور فارسیت کا عنصر بھی موجود ہے۔

وہ قیامت انڈیل ساغر میں
گر پڑیں سات آسماں ساقی

شعر کا مضمون اچھا ہے، اور فنی لحاظ سے بھی کوئی نقص نہیں ہے۔ لیکن میں فطرتاً ایسے اشعار سے حظ اٹھانے سے قاصر رہتا ہوں۔
 
Top