جی ہاں! آپ درست فرما رہے ہیں ۔۔۔ لیکن میں کسی اور تناظر میں کہہ رہا ہوں محترم ۔۔۔ غالب میاں نے اپنے دیوان کو نہایت مختصر کر چھوڑا تھا ۔۔۔ اشعار کے اشعار نکال دیے ۔۔۔ پیچیدہ کیا اور آسان کیا!
آپ حضرات کی رائے کا شکریہ۔ دھند چھٹ رہی ہے۔پہلے ایک بات آپ لوگوں کی دلچسپی کے لیے۔ میں نے اپنے ذہن میں آنے والے ہزار ہا اشعار کو مسترد کیا ہو گا۔ میں تو اس وقت تک خیال کو کاغذ پر منتقل ہی نہیں کرتا جب تک یقین نہ ہو کہ اس میں کچھ نہ کچھ دم ہے! اس منزل کے بعد بھی سیکڑوں ہزاروں مرتبہ ایک ایک حرف اور لفظ پر غور کرتا ہوں۔ نوجوانی میں کچھ نہ کچھ مہارت حاصل کر نے کے بعد (بشمول دیگر وجوہات کے جن کا ذکر ہو چکا) شاعری اس لیےبھی ترک کی تھی کہ کچھ اور کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔
اب اصل بات کی طرف۔ میری مراد فی ذاتہٖ مشکل گوئی سے نہیں بلکہ خیال کی گیرائی و گہرائی سے تھی۔ بعض اوقات مشکل الفاظ و تراکیب کا اظہار محض اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ خیال کے اچھوتے پن اور فلسفیانہ گہرائی کے سبب بات کو آسان الفاظ میں کہنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ان خیالات کو میں آسان زبان میں کیسے کہوں؟
عاجز ہوئے بہ ساحتِ کون و مکاں، دریغ!
گو چاہتے تھے کشفِ رموزِ وجود ہم
نیرنگِ آرزو کو بہ عنوانِ بندگی
ڈھالا کیے بشکلِ قیام و سجود ہم
پھر مسئلہ خیال کی ترجمانی ہی نہیں۔ خیال کو غزل کے ایک شعر میں سمیٹنا وہ بھی اس انداز میں کہ شعر کا صوتی تاثر اس کے معانی کا ساتھ دے ایک الگ باب ہے۔ دوسری طرف میں اس آسان شعر کو بھی اپنا نمائندہ سمجھتا ہوں:
سو بلاؤں کے میزباں ٹھہرے
تنگ آئے فراخیِ دل سے
مگر یہ شعر آسان ترین ہونے کے باوجود اوپر دی گئی غزل سے سو فیصد مختلف ہے کہ یہاں محبوب سے ایک ایسا عام مکالمہ (عام پر بحث پھر کبھی سہی!) نہیں بلکہ زندگی کا ایک فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ الفاظ سادہ ترین ہیں کیونکہ مشکل الفاط کی ضرورت نہ پڑی۔
آپ حضرات کی جانب سے مزید فیڈ بیک کا انتظار کروں گا۔ کہ آنے والوں دنوں میں کچھ تھوڑا بہت لکھنے لکھانے کا اردہ ہے۔ تو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کیا کام کیا جائے!