ن
نامعلوم اول
مہمان
تغافل سرخئِ خوں کے لئے وجہِ جفا کیوں ہو
نہ تم چاہو تو دستِ ناز محتاجِ حنا کیوں ہو
وہ دل جس کو قناعت پیشگی بخشے شہنشاہی
طلبگارِ کرم از سایۂ بالِ ہما کیوں ہو
بہت چاہا ہے لیکن کیوں پرستش بھی کروں اس کی
صنم کہتے ہیں سب جس کو وہی میرا خدا کیوں ہو
جسے آغوش پھیلائے بیاباں خود صدائیں دے
اسے زلفِ گرہ گیرِ صنم زنجیرِ پا کیوں ہو
نہ ہو گر طالبِ چشمِ کرم دل اس ستمگر سے
تغافل جاں ستا ں ہم کو باندازِ جفا کیوں ہو
رکھوں کیا خیر کی امّید کاملؔ وہ بتِ ظالم
کرے جب کار فرمائی ستم کی انتہا کیوں ہو