ن
نامعلوم اول
مہمان
جادۂ راہ ہے منزل تو نہیں
موت بھی موج ہے ساحل تو نہیں
موت بھی موج ہے ساحل تو نہیں
مجھ سے کہتے ہو کہ مر جاؤ تم
یہ بھی آسان ہے مشکل تو نہیں
یہ بھی آسان ہے مشکل تو نہیں
روک مت اشک کو بہہ جانے دے
قطرۂِ خوں ہی تو ہے دل تو نہیں
قطرۂِ خوں ہی تو ہے دل تو نہیں
روز کرتا تھا تِرا ذکرِ جفا
چارہ گر ہی کہیں قاتل تو نہیں
چارہ گر ہی کہیں قاتل تو نہیں
جی کے بہلانے کو آ جاتا ہوں
ورنہ دل اب ترا مائل تو نہیں
ورنہ دل اب ترا مائل تو نہیں
کس لیے آئے ہو خنجر لے کر
دل نئے زخم کا سائل تو نہیں
دل نئے زخم کا سائل تو نہیں
جا رہا ہے کوئی صحرا کی طرف
جاؤ دیکھو کہیں کاملؔ تو نہیں
جاؤ دیکھو کہیں کاملؔ تو نہیں