غزل: جب سے آہِ دلِ مغموم اثر مانگے ہے

ن

نامعلوم اول

مہمان
جب سے آہِ دلِ مغموم اثر مانگے ہے
بسکہ خس خانۂِ تاثیر شرر مانگے ہے

دیکھ لے آکے ستم گار کہ دیوانہ ترا
وحشتِ دل کے سبب دشت میں گھر مانگے ہے

ہم جئیں خاک کہ بن تیرے چمن میں ظالم
خس و خاشاک تلک وصلِ شرر مانگے ہے

ہم وہ معصوم کہ اک وعدے پہ جاں دیتے ہیں
اور وہ یہ شوخ کہ دل دیجے تو سر مانگے ہے

حیف گر اب بھی نہ پوری ہوں تمنّائیں کہ آج
خود اجابت بھی دعاؤں میں اثر مانگے ہے

شعر کہنے کو نہ کہہ مجھ کو خدارا کاملؔ
شاعری سہل نہیں خونِ جگر مانگے ہے
 
میرا خیال ہے ٹائپنگ میں غلطی ہوئی، درست کر لیں:
ہم وہ معصوم کہ اک وعدے پہ جاں دیتے ہیں
اور وہ یہ شوخ کہ دل دیجے تو سر مانگے ہے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میرا خیال ہے ٹائپنگ میں غلطی ہوئی، درست کر لیں:
ہم وہ معصوم کہ اک وعدے پہ جاں دیتے ہیں
اور وہ یہ شوخ کہ دل دیجے تو سر مانگے ہے
سمجھا نہیں۔ میں نے "اور وہ یہ شوخ کہ دل دیجے تو سر مانگے ہے" لکھا تھا۔ یہی مطلوب ہے۔ کیا کچھ اور ٹائپ کر بیٹھا تھا؟
 
سمجھا نہیں۔ میں نے "اور وہ یہ شوخ کہ دل دیجے تو سر مانگے ہے" لکھا تھا۔ یہی مطلوب ہے۔ کیا کچھ اور ٹائپ کر بیٹھا تھا؟
اچھا! معافی چاہتا ہوں۔ آپ نے 'اور' کو فع لیا۔ ویسے 'فاع' لیں تو کیسا ہے؟
ہم وہ معصوم کہ اک وعدے پہ جاں دیتے ہیں
اور وہ شوخ کہ دل دیجے تو سر مانگے ہے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اچھا! معافی چاہتا ہوں۔ آپ نے 'اور' کو فع لیا۔ ویسے 'فاع' لیں تو کیسا ہے؟
ہم وہ معصوم کہ اک وعدے پہ جاں دیتے ہیں
اور وہ شوخ کہ دل دیجے تو سر مانگے ہے
وزن تو اب بھی ٹھیک ہے، جب بھی ٹھیک رہے گا۔ مگر معانی وہ نہ رہیں گے جو مقصود ہیں۔ پہلے مصرعے کے "وہ" کی ٹکر پر دوسرے مصرعے میں "یہ" آیا۔ مراد ہے: ایسا اور اتنا۔
پہلے مصرعے میں "وہ" اور دوسرے مصرعے میں "یہ" کو زور دے کر پڑھیے، تب اصل مطلب واضح ہو گا، اور شعر مزہ دے گا۔ ورنہ نہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم وہ معصوم کہ اک وعدے پہ جاں دیتے ہیں
اور وہ یہ شوخ کہ دل دیجے تو سر مانگے ہے
شعر کہنے کو نہ کہہ مجھ کو خدارا کاملؔ
شاعری سہل نہیں خونِ جگر مانگے ہے

بہت خوب کاشف عمران بھائی۔۔۔۔!

عمدہ اشعار ہیں۔
 

مہ جبین

محفلین
شعر کہنے کو نہ کہہ مجھ کو خدارا کاملؔ
شاعری سہل نہیں خونِ جگر مانگے ہے
عمدہ ہے
 
Top