ن
نامعلوم اول
مہمان
جذبۂِ دل میں یہ کمال توہے
اسے میرا بھی کچھ خیال توہے
اسے میرا بھی کچھ خیال توہے
نہ سہی انتہائے شامِ فراق
آرزوئے شبِ وصال تو ہے
آرزوئے شبِ وصال تو ہے
میرے گھر آئے ہو رقیب کے ساتھ
اِس میں پوشیدہ کوئی چال تو ہے
اِس میں پوشیدہ کوئی چال تو ہے
قطعہ
اُن سے اک روز یہ کہا میں نے
مجھ کو اس بات کا ملال تو ہے
مجھ کو اس بات کا ملال تو ہے
آپ کا حسن لازوال نہیں
ہنس کے بولے کہ بے مثال تو ہے
ہنس کے بولے کہ بے مثال تو ہے
خوش ہوں کاملؔ اگرچہ کم ہی سہی
اسے میرا بھی کچھ خیال تو ہے
اسے میرا بھی کچھ خیال تو ہے