غزل: جو دل کو خواہشِ تسخیرِ جادۂ غم ہے

ن

نامعلوم اول

مہمان
جو دل کو خواہشِ تسخیرِ جادۂ غم ہے
ہر ایک سانس طلبگارِ بادۂ غم ہے​
ہماری منزلِ مقصود موت ہے ہمدم
کہ سجدہ گاہِ نِگہ خاکِ جادۂ غم ہے​
بہ وجہِ صبر بہ باطن ازل سے ہوں مسرور
بدن پہ گرچہ بظاہر لبادۂ غم ہے​
بہ راہِ عشق ترا ہمسفر بنوں کیونکر
کہ میرے پاؤں میں زنجیرِ جادۂ غم ہے​
نہیں نصیب میں صہبا مرے مگر کاملؔ
صدائے خندۂ مینائے بادۂ غم ہے​
 

فرخ منظور

لائبریرین
نہیں نصیب میں صہبا مرے مگر کاملؔ
صدائے خندۂ مینائے بادۂ غم ہے

واہ کیا اچھا شعر ہے۔ بہت خوب!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
نہیں نصیب میں صہبا مرے مگر کاملؔ
صدائے خندۂ مینائے بادۂ غم ہے
واہ کیا اچھا شعر ہے۔ بہت خوب!

دھاگا پھر سے پڑھتے ہوئے نوجوانی یاد آ گئی۔ آپ کو سن کر لطف آئے گا، کہ یہ میرے ابتدائی اشعار میں سے ایک ہے۔ ڈائری میں دیکھا تو 30 جنوری چھیانوے کی تاریخ لکھی ہے۔ پوری غزل اسی دور کی ہے۔
بچپن ہی سمجھ لیجیے! آج حیران ہوتا ہوں کیسے کہہ دیا تھا! اس وقت "صدائے قلقل مینائےبادہ " کہا تھا، بعد میں "خندہ" کر دیا!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ۔
بہت خوب کاشف بھائی۔
یہ بحر کونسی ہے؟
بحروں کے نام اب یاد نہیں۔ کسی عروضی یا پھر (مشتاق یوسفی سے اقتباس) اخفش مرحوم کی بکری کو علم ہو گا۔

میں تو اس کی تقطیع "مفاعلن، فَعِلاتن، مفاعلن، فعلن" کے طور پر کرتا ہوں۔ (آخری رکن بحرکتِ "ع" یا سکون۔ فعلان بھی ہو سکتا ہے)۔ عروضیوں کا کچھ نہیں پتا!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بحروں کے نام اب یاد نہیں۔ کسی عروضی یا پھر (مشتاق یوسفی سے اقتباس) اخفش مرحوم کی بکری کو علم ہو گا۔

میں تو اس کی تقطیع "مفاعلن، فَعِلاتن، مفاعلن، فعلن" کے طور پر کرتا ہوں۔ (آخری رکن بحرکتِ "ع" یا سکون۔ فعلان بھی ہو سکتا ہے)۔ عروضیوں کا کچھ نہیں پتا!
وارث بھائی کے بلاگ سے

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
 
Top