غزل: منفعل ہو کے برسنے کو نہ ٹھہرے بادل

ن

نامعلوم اول

مہمان
منفعل ہو کے برسنے کو نہ ٹھہرے بادل
دیکھ لے گر تری زُلفوں کے سنہرے بادل

گھیر لیتے ہیں مجھے آ کے سرِشامِ فراق
چار جانب سے تری یاد کے گہرے بادل

خوشبوئیں آتی ہیں مٹی سے، جو تم شہر میں ہو
آسمانوں پہ دیا کرتے ہیں پہرے بادل

دیکھ کر شام میں سورج کی بکھرتی کرنیں
یاد آئے تری زلفوں کے سنہرے بادل

ایک لمحے کو جھکائیں جو نگاہیں اس نے
گردشِ چرخِ کہن رک گئی، ٹھہرے بادل

گیسوی وچہرۂ جاناں کی وہ چھب ہے کامل ؔ
گردِ مَہ جیسے اُمنڈ آ ئیں سنہرے بادل
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
دادِ کامل کے لیے سر پہ چلے آئے ہیں
چھوڑ کر ساری فضاؤں کے وہ پہرے بادل:)
یہ قافیہ آپ نے اچھا نبھایا۔ میں اب تک اس کے لیے ایک خیال کی تلاش میں سر گرداں ہوں۔ ہو جائے تو غزل تقریبا مکمل ہی ہو جائے۔ اس زمین کے حقوق میرے نام پر ہیں۔ اب آپ غزل ہی نہ کہہ دیجے گا!;)

دیکھ کر شام میں سورج کی بکھرتی کرنیں​
یاد آئے تری زلفوں کے سنہرے بادل​

ss3i7U7.png
 
یہ قافیہ آپ نے اچھا نبھایا۔ میں اب تک اس کے لیے ایک خیال کی تلاش میں سر گرداں ہوں۔ ہو جائے تو غزل تقریبا مکمل ہی ہو جائے۔ اس زمین کے حقوق میرے نام پر ہیں۔ اب آپ غزل ہی نہ کہہ دیجے گا!;)

دیکھ کر شام میں سورج کی بکھرتی کرنیں​
یاد آئے تری زلفوں کے سنہرے بادل​
بے فکر رہیں جناب! البتہ قافیے میں اپنے اس دھاگے میں شامل کر رہا ہوں:
آؤ-قافیے-بنائیں.
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جنابِ الف عین، محمد یعقوب آسی، مزمل شیخ بسمل، اور محمد اسامہ سَرسَری (اور دیگر اساتذہ اور ساتھی جن کے نام، بالمعذرت، یاد نہ آئے) سے ایک مشورے کا طلبگار ہوں۔ مگر پہلے قصہِ درویش اور پھر گزارش۔

آخرِ کار، محفل فورم کی برکت اور محمد اسامہ سَرسَری کی رفاقت اور عجیب و غریب دھاگوں کی بدولت، دس برس سے رُکے قلم کو پھر سے چلنے کی توفیق حاصل ہوئی (مشقِ سخن کے دوران انجانے میں ایک مربّی کا دل بھی دکھایا اور خوب پچھتایا)۔ یہ نامکمل غزل میں نے آج سے کوئی بارہ، تیرہ برس قبل یونیورسٹی (وہاں سے بھی حسبِ عادت بے آبرو ہو کر نکلا تھا۔ پوری کہانی بیاں کر ہی چکا ہوں!) کے زمانے میں کہی تھی۔ سنہرے بالوں کی داستاں پھر کبھی بیان کر ہی دوں گا۔ آج رات کے آخری پہر دو نئے شعر ہوئے اور برسوں نا مکمل رہنے والی یہ غزل بھی بالآخر مکمل ہو ہی گئی۔

نئے پرانے سارے اشعار ملا کر غزل اب یوں بنی:

منفعل ہو کے برسنے کو نہ ٹھہرے بادل​
دیکھ لے گر تری زُلفوں کے سنہرے بادل​

گھیر لیتے ہیں مجھے آ کے سرِشامِ فراق​
چار جانب سے تری یاد کے گہرے بادل​

خوشبوئیں آتی ہیں مٹی سے، جو تم شہر میں ہو
آسمانوں پہ دیا کرتے ہیں پہرے بادل

دیکھ کر شام میں سورج کی بکھرتی کرنیں​
یاد آئے تری زلفوں کے سنہرے بادل​

ایک لمحے کو جھکائیں جو نگاہیں اس نے
گردشِ چرخِ کہن رک گئی، ٹھہرے بادل

گیسوی وچہرۂ جاناں کی وہ چھب ہے کامل ؔ​
(کامل ؔ اس زلف و رخِ خوب کا عالم وہ ہے)​
گردِ مَہ جیسے اُمنڈ آ ئیں سنہرے بادل​

آپ حضرات براہِ کرم یہ مشورہ دیں کہ مقطع کے مصرعِ اولیٰ کے لیے دونوں میں سے کس کا انتخاب کروں؟ اس سے مجھے مستقبل کے لیے بھی اندازہ ہو گا کہ آپ اساتذہ کی نظر میں کون سا اسلوب زیادہ معتبر ہے۔ اسلوب پر اب خوب محنت کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ جس کے لیے آپ حضرات کی حد سے زیادہ مدد کی ضرورت پڑے گی۔​
 
(کامل ؔ اس زلف و رخِ خوب کا عالم وہ ہے)​
گردِ مَہ جیسے اُمنڈ آ ئیں سنہرے بادل​

میں اس کو یوں ترجیح دیتا ہوں کہ اس (مصرعے) میں لسانی فضا متماثل ہے۔ پہلی صورت میں ایک مغلق فارسی ترکیب کے ساتھ لفظ ’’چھب‘‘ ۔۔ غلطی تو خیر اُس کو نہیں کہا جا سکتا ۔۔ کھُب نہیں رہا۔

دوسری بات
اس سے مجھے مستقبل کے لیے بھی اندازہ ہو گا کہ آپ اساتذہ کی نظر میں کون سا اسلوب زیادہ معتبر ہے۔

اسلوب آپ کا اپنا ہو گا، کون کیا توقعات لئے بیٹھا ہے، اس بات کی اہمیت ہو سکتی ہے، تاہم ایسی نہیں کہ آپ اپنے اندر سے پھوٹتی شاعری کو ’’اساتدہ‘‘ کے ’’اعتبار‘‘ پر قربان کر دیں۔ کچھ بنیادی اور بہت معروف باتیں ہیں بس، لسانی غلطی نہ ہو، نئی لفظیات اگر آتی ہے تو اُس کی وضاحت نہ کرنی پڑے، اوزان و بحور کی غلطی نہ ہو، قوافی اور ردائف معنوی سطح پر بھی جواز رکھتے ہوں، ابلاغ کی سطح بلند ہو، زبان میں شائستگی اور شستگی ہو، صنفی تقاضوں کا احترام کیا جائے، غزل میں ملائم لہجہ اچھا لگتا ہے، الفاظ کو ادا کرنے میں سہولت ہو تو سونے پر سہاگہ۔ اختیار شاعر کے پاس ہے کہ وہ کیا کہتا ہے اور کیسے کہتا ہے۔
 
دیکھ کر شام میں سورج کی بکھرتی کرنیں​
یاد آئے تری زلفوں کے سنہرے بادل​

یہاں ’’میں‘‘ اور ’’کو‘‘ کے استعمال کو دیکھ لیجئے۔
ایک آئیڈیا اور بھی آتا ہے: ’’شام کے سورج کی ۔۔‘‘
تاہم بات وہی ہے، ترجیحات شاعر کی اپنی ہوا کرتی ہیں۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میں اس کو یوں ترجیح دیتا ہوں کہ اس (مصرعے) میں لسانی فضا متماثل ہے۔ پہلی صورت میں ایک مغلق فارسی ترکیب کے ساتھ لفظ ’’چھب‘‘ ۔۔ غلطی تو خیر اُس کو نہیں کہا جا سکتا ۔۔ کھُب نہیں رہا۔

دوسری بات

اسلوب آپ کا اپنا ہو گا، کون کیا توقعات لئے بیٹھا ہے، اس بات کی اہمیت ہو سکتی ہے، تاہم ایسی نہیں کہ آپ اپنے اندر سے پھوٹتی شاعری کو ’’اساتدہ‘‘ کے ’’اعتبار‘‘ پر قربان کر دیں۔ کچھ بنیادی اور بہت معروف باتیں ہیں بس، لسانی غلطی نہ ہو، نئی لفظیات اگر آتی ہے تو اُس کی وضاحت نہ کرنی پڑے، اوزان و بحور کی غلطی نہ ہو، قوافی اور ردائف معنوی سطح پر بھی جواز رکھتے ہوں، ابلاغ کی سطح بلند ہو، زبان میں شائستگی اور شستگی ہو، صنفی تقاضوں کا احترام کیا جائے، غزل میں ملائم لہجہ اچھا لگتا ہے، الفاظ کو ادا کرنے میں سہولت ہو تو سونے پر سہاگہ۔ اختیار شاعر کے پاس ہے کہ وہ کیا کہتا ہے اور کیسے کہتا ہے۔
محمد یعقوب آسی۔رائے مانگی ہی اس لیے کہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔ انتظار رہے گا کہ باقی اساتذہ کیا کہتے ہیں۔

جو باتیں آپ نے اسلوب کے حوالے سے کیں، یقینا نظر میں رہیں گی۔ میں ابتدائی طور پر اساتذہ کی رائے کا طلبگار اس لیے ہونا چاہتا ہوں، کہ اکثر اوقات ایک ہی خیال مختلف الفاظ کے ساتھ ذہن میں آ جاتا ہے۔ یا یہ کہ ذہن میں ایک ہی خیال کی ملتی جلتی مختلف صورتیں ابھرنے لگتی ہیں۔ ایسے میں دل کبھی "بہترین" کا انتخاب کرنے کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہو جائے تو کیا تعجب! سو اگرابتدا ہی میں تنقیدی نظر رکھنے والے دو چار مہربانوں کی مدد سے سمت کا تعین ہو جائے، تو منزل تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔

نئے دور میں "اوپن سورس سافٹ وئیر" نے نہایت شاندار کامیابی حاصل کی۔ وہیں سے میرے دل و دماغ میں شاعری میں یہ نیا تجربہ کرنے کا خیال آیا کہ اس عجیب و غریب تخلیقی عمل میں اگر شاعر اپنے ساتھ دیگر پڑھنے اور لکھنے والوں کو بھی شامل کر لے، تو کیسا رہے گا۔ ابھی تو کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہو گا، تاہم امید واثق ہے کہ خوبی ہی کی کوئی صورت نکلے گی۔ غزل کا میڈیم تو شاید اس تجربے کے لیےکچھ کم مناسب ہو، مگر میرے ذہن میں "مثنوی" کے حوالے سے ایک خیال موجود ہے، جسے جلد ہی پیشِ خدمت کروں گا۔
 
سافٹ ویئر کی تو یار لوگوں کو ابجد ہی معلوم نہیں، سو خاموشی!۔

فانی بدایونی کا دیوان پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ دیگر موضوعات کی بات کہیں آ گئی تو آ گئی، رومان ہی نمایاں موضوع ہے۔ اس کو صاحبِ دیوان نے کئی کئی مختلف پیرایوں میں باندھا ہے اور عمدہ باندھا ہے۔ کئی غزلیں تو پچاس پچاس شعروں کی ہے، قوافی کے استعمال کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔

بابائے اردو کا کام بھی آپ کی نظر سے گزرا ہو گا۔ ایسے میں اپنے بارے کوئی کیا کہے گا، اور کس منہ سے کہے گا۔
 
Top