ن
نامعلوم اول
مہمان
واسطہ کیا نشانِ منزل سے
غرقِ دریا ہوں دور ساحل سے
سو بلاؤں کے میزباں ٹھہرے
تنگ آئے فراخئِ دل سے
کوئی دریا ہی اب ملے تو بجھے
لے کر آئے ہیں پیاس ساحل سے
ایک اداسی سی چھا گئی ہر سو
کون اٹھا آج اپنی محفل سے
وقت ظالم ہے تیری یادیں بھی
محو ہو جائیں گی مرے دل سے
زندگی بھر لڑاکئے اے دوست
ایک کے بعد ایک مشکل سے
بیٹھے بیٹھے اداس ہو جانا
آپ بھی ہو گئے ہیں کاملؔ سے