غزل - کوئے حرَم سے نکلی ہے کوئے بُتاں کی راہ - جعفر طاہر

محمد وارث

لائبریرین
کوئے حرَم سے نکلی ہے کوئے بُتاں کی راہ
ہائے کہاں پہ آ کے ملی ہے، کہاں کی راہ

صد آسماں بدامن و صد کہکشاں بدوش
بامِ بلندِ یار ترے آستاں کی راہ

ملکِ عدم میں قافلۂ عمر جا بسا
ہم دیکھتے ہی رہ گئے اُس بدگماں کی راہ

لُٹتا رہا ہے ذوقِ نظر گام گام پر
اب کیا رہا ہے پاس، جو ہم لیں وہاں کی راہ

اے زلفِ خم بہ خم تجھے اپنا ہی واسطہ
ہموار ہونے پائے نہ عمرِ رواں کی راہ

گُلہائے رنگ رنگ ہیں افکارِ نو بہ نو
یہ رہگزارِ شعر ہے کس گلستاں کی راہ

طاہر یہ منزلیں، یہ مقامات، یہ حرَم
اللہ رے یہ راہ، یہ کوئے بُتاں کی راہ

(جعفر طاہر)
 

فاتح

لائبریرین
واہ! واہ! واہ! بہت شکریہ حضور!
اس قدر جاندار مطلع ہے کہ پڑھتے ہی بنی اور ہر ہر شعر پر بے اختیار واہ کی صدا نکلی۔
اگر ممکن ہو تو شاعر کا تعارف بھی دیجیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب۔

جعفر طاہر مرحوم کے متعلق مجھے زیادہ معلومات تو نہیں، بہرحال ان کا تعلق جھنگ سے تھا اور ناصر کاظمی، ابنِ انشا وغیرہ کے ہم عصر تھے، نظم میں زیادہ نظم کیا ہے لیکن غزلیات بھی کافی ہیں، پچھلی صدی کی ستر کی دہائی (شاید 1977ء) میں وفات پائی۔ کافی سال قبل 'نیلام گھر' میں طارق عزیز سے انکے کچھ اشعار سننے کو ملے تھے سو انکا نام ذہن میں رہ گیا، کل نقوش غزل نمبر کی ورق گردانی کرتے ہوئے انکی غزل سامنے آ گئی تو پوسٹ کر دی :)

ویسے نیٹ پر ان کا کچھ مزید کلام بھی ملتا ہے!
 
Top