ن
نامعلوم اول
مہمان
کہتے ہو تم کہ حشر بپا ہو نہ جائے گا
دیکھو گے اس طرح سے تو کیا ہو نہ جائے گا
دیکھو گے اس طرح سے تو کیا ہو نہ جائے گا
لا حاصلی کے غم سے تڑپتا رہے گا دل
جب تک ترے لبوں پہ فدا ہو نہ جائے گا
جب تک ترے لبوں پہ فدا ہو نہ جائے گا
دور اس نگار سے تو رکھوں دل کو کیا مگر
یوں صیدِ دامِ ناز و ادا ہو نہ جائے گا؟
یوں صیدِ دامِ ناز و ادا ہو نہ جائے گا؟
رازِ دل اس پہ کھول تو دوں پر وہ اس طرح
سر گرمِ ظلم و جور و جفا ہو نہ جائے گا؟
سر گرمِ ظلم و جور و جفا ہو نہ جائے گا؟
چھوٹا بھی دل اگر قفسِ عشق سے ترے
حبسِ دوامِ غم سے رہا ہو نہ جائے گا
حبسِ دوامِ غم سے رہا ہو نہ جائے گا
اچھّا ہے چشمِ یار میں کاملؔ تو اے رقیب
تیرے برا کہے سے برا ہو نہ جائے گا
تیرے برا کہے سے برا ہو نہ جائے گا