غزل: کیا چین سے بیٹھوں کہ سکوں دل کو نہیں ہے

ن

نامعلوم اول

مہمان
کیا چین سے بیٹھوں کہ سکوں دل کو نہیں ہے​
آنکھوں سے تری فتنۂ محشر بہ کمیں ہے​
یہ دل کہ ہے گُلچینِ سمن زارِ تمّنا​
خارِ المِ ہجر سے آگاہ نہیں ہے​
اے محوِ تغافل اثرِ خونِ جگر دیکھ​
جو اشک بہا سو ترے خاتم کا نگیں ہے​
آغازو سر انجامِ وفا محملِ لیلیٰ​
منزل گہِ مجنوں نہ فلک ہے نہ زمیں ہے​
وہ کیوں کرے اصنامِ خود آرا کی پرستش​
جوخاکِ درِ یار سے آلودہ جبیں ہے​
کاملؔ بہ خیالِ رخِ زیبائے دل آرا​
صحرا بھی مجھے غیرتِ فردوسِ بریں ہے​
 
ماشاللہ ُآپ تو چھپے رستم نکلے
کل آپ کی ایک غزل پڑھی تھی
بہت پسند آئی
اور تقینی طور پر باقی کلام بھی بہت اچھا ہو گا
شاد و آباد رہیں
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
خوب!
'صحرا' کا آپ استعمال جان دار کرتے ہیں۔
جا رہا ہے کوئی صحرا کی طرف
جاؤ دیکھو کہیں کامل تو نہیں
آداب عرض ہے!

اس غزل کی ایک کہانی بھی ہے۔ غزل کالج یونیورسٹی کے زمانے میں کہی تھی۔ "پی سی ایس" کے امتحان کے انٹرویو میں سنائی۔ بورڈ نے باقی سوالوں میں غلطیوں کے باوجود ٹھیک ٹھاک نمبر دیے تھے۔ محض اس ایک غزل کی وجہ سے!
 

Tahira Masood

محفلین
اے محوِ تغافل اثرِ خونِ جگر دیکھ​
جو اشک بہا سو ترے خاتم کا نگیں ہے​
بہت خوب جناب داد حاضر ہے​
 
یہ دل کہ ہے گُلچینِ سمن زارِ تمّنا​
خارِ المِ ہجر سے آگاہ نہیں ہے​
اے محوِ تغافل اثرِ خونِ جگر دیکھ​
جو اشک بہا سو ترے خاتم کا نگیں ہے​
واو وا۔ واہ وا۔ جناب کاشف عمران بھائی بہت خوب۔ بہت داد قبول فرمائیے۔ کیا عمدہ غزل ہے، کیا خوب صورت انداز ہے، کیا ادائیگی ہے۔ آپ کی یہ غزل تو خاتمِ محفل کا نگیں کہلائے جانے کی مستحق ہے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
واو وا۔ واہ وا۔ جناب کاشف عمران بھائی بہت خوب۔ بہت داد قبول فرمائیے۔ کیا عمدہ غزل ہے، کیا خوب صورت انداز ہے، کیا ادائیگی ہے۔ آپ کی یہ غزل تو خاتمِ محفل کا نگیں کہلائے جانے کی مستحق ہے۔

آپ کا ممنون ہوں محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔ یہی حوصلہ افزائی تو انسان کو مزید محنت کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کاشف عمران صاحب! یقینا ۔ آپ کی زندگی کی کہانی بھی اچھی ہے اور غزل بھی۔ غالب کے انداز سے قریب تر انداز میں کہنے والے شاید آپ پہلے شاعر ہیں۔کم از کم میں کسی اور کو نہیں جانتا۔آپ کو بنا سمجھے پڑھنےمیں بھی ایک لذت ہے اور سمجھ کر پڑھنے میں بھی ایک لذت'''''''' مطلع کے دوسرے مصرعے میں ’’سے ‘‘ کی جگہ ’’میں‘‘ ہوگا شاید۔یہ میں اپنی سمجھ کے اعتبار سے کہہ رہاہوں، میں کوئی شاعر واعر نہیں ہوں کہ فنی غلطیوں کی نشاندہی کرسکوں۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کاشف عمران صاحب! یقینا ۔ آپ کی زندگی کی کہانی بھی اچھی ہے اور غزل بھی۔ غالب کے انداز سے قریب تر انداز میں کہنے والے شاید آپ پہلے شاعر ہیں۔کم از کم میں کسی اور کو نہیں جانتا۔آپ کو بنا سمجھے پڑھنےمیں بھی ایک لذت ہے اور سمجھ کر پڑھنے میں بھی ایک لذت'''''''' مطلع کے دوسرے مصرعے میں ’’سے ‘‘ کی جگہ ’’میں‘‘ ہوگا شاید۔یہ میں اپنی سمجھ کے اعتبار سے کہہ رہاہوں، میں کوئی شاعر واعر نہیں ہوں کہ فنی غلطیوں کی نشاندہی کرسکوں۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔

تعریف کے لیے شکر گزار ہوں۔ آپ غالباً تیسرے چوتھے قاری ہوں گے، جنھوں نے غالب سے میرا موازنہ کیا ہے۔ اپنی خوش قسمتی ہی کہہ سکتا ہوں۔ میں خود بھی ابتدا سے کوشش کر رہا ہوں کہ سودا - غالب کے سلسلے کی تیسری کڑی بن سکوں۔ مقصد مشکل ضرور ہے، مگر کوشش تو کی جا سکتی ہے۔

مطلع کے دوسرے مصرعے سے متعلق آپ کی رائے وزن سے خالی نہیں۔ اگر یہاں "میں" ہو، تب بھی ظاہر ہے شعر بامعنی ہو گا۔ مگر حقیقت میں میں نے "سے" ہی باندھا ہے۔ اگر آپ نے فنِّ شاعری اور میرے "نظریہءِ جدیدیت" سے متعلق میری پچھلی مباحث دیکھی ہوں، تو آپ کو علم ہو گا کہ میں، اکثر روایات کا پابند ہونے کے باوجود، اردو شاعری اور نثر میں نئے تجربات کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا دامن وسیع کرنے کی سعی بھی کر رہا ہوں۔ ظاہر ہے ایسا کرتے ہوئے کچھ تنازعات بھی جنم لیں گے (گے کیا، یہیں محفل پر جنم لے چکے ہیں!)۔ مگر میں ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہوں۔ اصل بات کی طرف آتے ہوئے، یہاں "سے" سے میری مراد ہے:

"تمہاری آنکھوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے قیامت، کمیں گاہ میں گھات لگائے بیٹھی ہو۔"​
دوسرے لفظوں میں "سے" کا استعمال کر کے "میں" میں موجود قطعیت کا رخ تشبیہ کی لطافت کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے۔​
"سے" = "سے ظاہر ہوتا ہے یا لگتا ہے"۔​
میں اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہوں، اس کا فیصلہ تو مستقبل کا مؤرخ ہی کرے گا۔​
پسند کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے کا ایک بار پھر شکریہ۔ میرے لیے آپ حضرات کی پسند ایک انعام سے کم نہیں۔​
 

مہ جبین

محفلین
کیا چین سے بیٹھوں کہ سکوں دل کو نہیں ہے
آنکھوں سے تری فتنۂ محشر بہ کمیں ہے
کاشف عمران غالب کے کلام کی ایک جھلک آپ کے کلام میں نظر آتی ہے ماشاءاللہ
بہت خوب
 
Top