غزل: گرچہ گلشن میں کھلا ہر سو گلابِ تازہ تھا

ن

نامعلوم اول

مہمان
گرچہ گلشن میں کھلا ہرسو گلابِ تازہ تھا​
حیف زندانِ الم بے روزن و دروازہ تھا​
کیا بتاؤں خستگی ہمدم تنِ رنجور کی​
مشربِ خونِ جگر ہر بار زخمِ تازہ تھا​
تیری آمد پر کیا ہے منعِ خوش رویانِ شہر​
یہ دلِ حسن آشنا پہلے تو بے دروازہ تھا​
کون ہے مشّاطہءِ فطرت بہ ہنگامِ غروب
ابرِ آتش رنگ روئے آسماں کا غازہ تھا​
جس گھڑی آیا بہ دستِ کاملِؔ رنگیں نوا​
زورِ رفتارِ قلم از بسکہ بے اندازہ تھا​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
چار سال دور رہنے کے بعد اب سے کچھ دن پہلےپھر سے شاعری شروع کی تو اس غزل کو اس شعر سے مکمل کیا:

اف وہ حسن آرائیِ فطرت کہ ہنگامِ غروب​
ابرِ آتش رنگ روئے آسماں کا غازہ تھا​

خبر نہیں کہ اتفاق تھا یا القائے غیبی مگر عجیب سی بات ہے کہ اسی روز اپنی جائے پیدائش مستونگ کو بھی شدت سے یاد کر رہا تھا۔ کسی ساتھی نے مستونگ کی کچھ تصاویر کا ایک لنک دیا۔ ان میں سے ایک تصویر ایسی نکلی کہ ہو بہو اس شعر کی تعبیر۔ اس شعر کو مستونگ کی حسین شاموں کے نام منسوب کرتا ہوں۔ آپ بھی دیکھیے۔

ptCZBUz.jpg
 

مہ جبین

محفلین
چار سال دور رہنے کے بعد اب سے کچھ دن پہلےپھر سے شاعری شروع کی تو اس غزل کو اس شعر سے مکمل کیا:

اف وہ حسن آرائیِ فطرت کہ ہنگامِ غروب​
ابرِ آتش رنگ روئے آسماں کا غازہ تھا​

خبر نہیں کہ اتفاق تھا یا القائے غیبی مگر عجیب سی بات ہے کہ اسی روز اپنی جائے پیدائش مستونگ کو بھی شدت سے یاد کر رہا تھا۔ کسی ساتھی نے مستونگ کی کچھ تصاویر کا ایک لنک دیا۔ ان میں سے ایک تصویر ایسی نکلی کہ ہو بہو اس شعر کی تعبیر۔ اس شعر کو مستونگ کی حسین شاموں کے نام منسوب کرتا ہوں۔ آپ بھی دیکھیے۔

ptCZBUz.jpg
واہ واہ کیا بات ہے
زبردست
 
کون ہے مشّاطہءِ فطرت بہ ہنگامِ غروب
ابرِ آتش رنگ روئے آسماں کا غازہ تھا
غضب خدا کا کیا شعر ہے لطف آ گیا واہ واہ
غزل کے کیا ہی کہنے
نغمگی رچاؤ روانی مترنم بحر​
ایک بہت شاہکار غزل​
داد کے لئے الفاظ نہیں​
اللہ کرے زورِ قلم زیادہ​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کون ہے مشّاطہءِ فطرت بہ ہنگامِ غروب
ابرِ آتش رنگ روئے آسماں کا غازہ تھا
غضب خدا کا کیا شعر ہے لطف آ گیا واہ واہ
غزل کے کیا ہی کہنے
نغمگی رچاؤ روانی مترنم بحر​
ایک بہت شاہکار غزل​
داد کے لئے الفاظ نہیں​
اللہ کرے زورِ قلم زیادہ​
نوازش ہے جناب کی۔ غالب کی زمین ہے۔ ذرا غالب کی غزل "شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا" والی غزل سے موازنہ کیجیے اور میرے حوصلے کی داد دیجے کہ کیسی غزل کا جواب لکھا ہے۔ اس قافیے میں اس نے یہ شعر باندھا ہے:

پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن​
دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا​
(غالب)​
ایک محبوب پری فام کا تصور کر کے غالب کا شعر پڑھیے۔ پھر اوپر دی گئی شامِ مستونگ کی تصویر کا تصور باندھ کر میرا شعر پڑھیے اور خوب سر دھنیے۔​
 
نوازش ہے جناب کی۔ غالب کی زمین ہے۔ ذرا غالب کی غزل "شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا" والی غزل سے موازنہ کیجیے اور میرے حوصلے کی داد دیجے کہ کیسی غزل کا جواب لکھا ہے۔ اس قافیے میں اس نے یہ شعر باندھا ہے:

پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن​
دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا​
(غالب)​
ایک محبوب پری فام کا تصور کر کے غالب کا شعر پڑھیے۔ پھر اوپر دی گئی شامِ مستونگ کی تصویر کا تصور باندھ کر میرا شعر پڑھیے اور خوب سر دھنیے۔​
اہا اہا اہا
کیا کہنے واہ واہ کیا نسبت دی ہے جناب
اک بار پھر لطف آ گیا ویسے اس غزل کا نشہ پرانی شراب جیسا ہے
 
Top