ن
نامعلوم اول
مہمان
ہوں چمن میں مگر قرار نہیں
تابِ خوش خانیِ ہزار نہیں
تابِ خوش خانیِ ہزار نہیں
ایک ضد ہے کہ وہ مجھے مل جائے
ورنہ اتنا بھی اس سے پیار نہیں
ورنہ اتنا بھی اس سے پیار نہیں
ہجر میں تیرے بے قرار ہے دل
لیکن اتنا بھی بے قرار نہیں
لیکن اتنا بھی بے قرار نہیں
چشم کو دید کی طلب کیا ہو
دل ہی جب محوِ انتظار نہیں
دل ہی جب محوِ انتظار نہیں
قطعہ
میں تنزّل پہ شوق کے خوش ہوں
کاہشِ غم پہ شرمسار نہیں
کاہشِ غم پہ شرمسار نہیں
کل کیا دل نے ترکِ نالۂِ شب
آج آنکھیں بھی اشکبار نہیں
آج آنکھیں بھی اشکبار نہیں
اے عجب دشت کے مکینوں کو
غم ہے گلشن میں کیوں بہار نہیں
غم ہے گلشن میں کیوں بہار نہیں
اُس کی آمد کا سن کے خوش کیوں ہوں
جس کے وعدے پہ اعتبار نہیں
جس کے وعدے پہ اعتبار نہیں
عشق ہے پر جنوں نہیں کاملؔ
آرزو ہے پر انتظار نہیں
آرزو ہے پر انتظار نہیں