غزل ۔ کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا ۔ محمد احمد

محمداحمد

لائبریرین
غزل

کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا

شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا

ملے تھے ہم تو موسم ہنس دیئے تھے
جہاں جو بھی ملا، خنداں جبیں تھا

سویرا تھا شبِ تیرہ کے آگے
جہاں دیوار تھی، رستہ وہیں تھا

ملی منزل کسے کارِ وفا میں
مگریہ راستہ کتنا حسیں تھا

جلو میں تشنگی، آنکھوں میں ساحل
کہیں سینے میں صحرا جاگزیں تھا

محمد احمد

 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے احمد صاحب، اچھے اشعار ہیں۔ بہت جاندار مطلع ہے، لاجواب۔

زیبِ مطلع میں 'فتح' غلط بندھ گیا ہے یہ لفظ 'درد' کے وزن پر ہے یعنی تا ساکن ہے۔

بہت داد قبول کریں جناب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ تو آپ کو خود ہی ڈھونڈنا پڑے گی :)

ویسے فقط تقدم و تاخیر سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے

شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی

لیکن اس طرح، شکست و ریخت کے ساتھ مجھے جیت بھی رواں لگ رہا ہے

شکست و ریخت کیسی، جیت کیسی

لیکن ظاہر ہے بھیا، یہ سب آپ کو خود کرنا پڑے گا :)
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! کیا ہی خوبصورت غزل ہے۔ مبارک باد قبول کیجیے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
 

کاشفی

محفلین
غزل

کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا

شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا

ملے تھے ہم تو موسم ہنس دیئے تھے
جہاں جو بھی ملا، خنداں جبیں تھا

سویرا تھا شبِ تیرہ کے آگے
جہاں دیوار تھی، رستہ وہیں تھا

ملی منزل کسے کارِ وفا میں
مگریہ راستہ کتنا حسیں تھا

جلو میں تشنگی، آنکھوں میں ساحل
کہیں سینے میں صحرا جاگزیں تھا

محمد احمد


بہت ہی خوبصورت۔۔عمدہ ۔۔محمد احمد بھائی بہت خوب۔۔
 
Top