سید لبید غزنوی
محفلین
کبھی گلاب کبھی آفتاب کبھی کنول لگتا ہے
تیرا چہرا تو مجھے میری ہی غزل لگتا ہے
آنکھ میں تیری یہ کاجل بڑا قاتل لگتا ہے
گیسوُءِ یار ساون کا سیاہ بادل لگتا ہے
چہرا تیرا سمندر ہے دل میرا ساحل لگتا ہے
پھر بھی دونوں کا جدا ہونا مشکل لگتا ہے
ماتھے پر بندیا تیرے مہتاب کی سی ہے
جوڑے میں سجا پھول خوشبو میں تیری پاگل لگتا ہے
شعر جو تم پڑھتے ہو نظمیں میری جو تم سنتے ہو
اور کچھ نہیں یہ تیرے پیار کا حاصل لگتا ہے
رونق ہر لفظ اسکا فصلِِ گل لگتا ہے
موسمِ بہار بھی مجھے اُسی کا بدل لگتا ہے
تیرا چہرا تو مجھے میری ہی غزل لگتا ہے
آنکھ میں تیری یہ کاجل بڑا قاتل لگتا ہے
گیسوُءِ یار ساون کا سیاہ بادل لگتا ہے
چہرا تیرا سمندر ہے دل میرا ساحل لگتا ہے
پھر بھی دونوں کا جدا ہونا مشکل لگتا ہے
ماتھے پر بندیا تیرے مہتاب کی سی ہے
جوڑے میں سجا پھول خوشبو میں تیری پاگل لگتا ہے
شعر جو تم پڑھتے ہو نظمیں میری جو تم سنتے ہو
اور کچھ نہیں یہ تیرے پیار کا حاصل لگتا ہے
رونق ہر لفظ اسکا فصلِِ گل لگتا ہے
موسمِ بہار بھی مجھے اُسی کا بدل لگتا ہے