طارق شاہ
محفلین
فراق گورکھپوری
غزل
فسُردہ پا کے محبّت کو ، مُسکرائے جا
اب آ گیا ہے تو، اِک آگ سی لگائے جا
اِس اِضطراب میں رازِ فروغ پنہاں ہے
طلوعِ صبْح کی مانِند تھرتھرائے جا
جہاں کو دیگی محبّت کی تیغ آبِ حیات
ابھی کچُھ اور اِسے زہر میں بُجھائے جا
مِٹا مِٹا کے، محبّت سنْوار دیتی ہے
بگڑ بگڑ کے یونہی زندگی بنائے جا
وہ کیمیا ہی سہی ، پہلے خاک ہونا ہے
ابھی تو سوزِ نہانی کی آنچ کھائے جا
ابھی تو اے غمِ پنہاں جہان بدلا ہے
ابھی کچھ اور زمانے کے کام آئے جا
کھُلیں نہ حُسن کی فِطرت کے راز عاشق سے
برت خلوص بھی ، جُھوٹی قسم بھی کھائے جا
خلوصِ عشق کو، کرماورائے غفلت و ہوش
کسی کو یاد کے پردے میں کچُھ بُھلائے جا
شباب پر ہے زمانہ ، تِرے سِتم کے نِثار
اُبھر رہا ہُوں کئی رنگ سے مِٹائے جا
فراق، چھیڑ دیا تُو نے کیا فسانۂ درد
سمجھ میں کچھ نہیں آتا مگر سُنائے جا
رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری
آخری تدوین: