سید ذیشان
محفلین
چانگ چو کا خواب
چین میں ایک رات چانگ چو نامی ایک فلسفی نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک تتلی (یا پھر تتلا؟) ہے اور باغات کی فضاوں میں خراماں خراماں محوِ پرواز ہے اور پرواز سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ جب خوب سے بیدار ہوا تو ایک کشمکش میں مبتلا تھا۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس کا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ ہم جو زندگی گذار رہے ہیں وہ دراصل کسی تتلی کا خواب ہے، اور اس خواب میں تتلی ایک فلسفی یعنی چانگ چو ہے یا پھر میں ایک انسان ہوں جس نے خواب میں دیکھا کہ وہ تتلی ہے۔ اس طرح کی سوچ سے زندگی کی حقیقت پر بہت سے سوال اٹھتے ہیں۔
بلی کے خواب میں چیچڑے
اسی دور میں چین کے ہمسایہ ملک برصغیرِ ہند میں ایک اور فلسفی نے خواب میں دیکھا کہ وہ بلی ہے۔ چارپائی غالباً ایجاد ہو چکی تھی تو اس بلی نے چارپائی یا ایسی ہی کسی استراحت فرمانے والے آلے کا سہارا لے کر خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ نخریلی بلی نے اگرچہ خود کو ہندوستانی فلسفی کے روپ میں دیکھنا گوارا نہیں کیا اور مزے سے خواب میں چیچڑے دیکھنے لگی۔ اس خواب سے تتلی کے خواب کے منافی وجود، دنیا، زندگی، فکر و خیال کے بارے میں کسی قسم کے تیکھے سوالات جنم نہیں لیتے اور ویسے بھی چارپائی پر مزے سے لیٹ کر، لسی پی کر کون کافر اتنے گھمبیر سوالات پر غور و فکر کرے؟
تبصرہ
یہ تو موازنہ ہوا دو عدد فلسفیانہ خوابوں کا جو دو ہمسایہ ممالک میں قریباً ایک ہی دور میں دیکھ گئے۔ اب جن ناقدین و حاسدین کو ہر ایک بات میں میم میخ نکالنے کی عادت ہے وہ اس مستند تاریخی حقیقت پر اعتراضات اٹھائیں گے، کہیں گے کہ چانگ چو والے خواب کو تو ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے اور اس پر کبھی کبھار گفتگو بھی کر چکے ہیں، لیکن برصغیر والے فلسفی کے خواب کی قطعاً کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ورنہ اس کا کوئی ثبوت فراہم کیا جائے۔
اول تو یہ کہ ہم خود پر اعتراضات اٹھانے والوں کو لائق گفتگو نہیں سمجھتے (چاہے اعتراضات کتنے ہی بجا ہوں اور ہماری بات کتنی ہی بے تکی ہو)۔ یہ ہمارے تخلص (شانؔ) کے خلاف ہے۔
دوم یہ کہ اس مرتبہ ہم ضرور ایسے شواہد فراہم کریں گے کہ تمام ناقدین ہکا بکا رہ جائیں اور ان کی زبانیں گنگ ہو جائیں۔ تو ملاحظہ کیجئے:
ثبوت و براہین:
اپنا مدعا کسی تک پہنچانے کے تین طریقے رائج ہیں: تحریر، تقریر اور تصرف عقلی۔
1۔ ان میں سے آخری طریقے یعنی عقلی تصرف سے سب ہی قارئین بخوبی واقف ہوں گے کہ زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں آپ پر جنات قابض رہ چکے ہیں، اور آپ سے اپنے مدعا کہلوا چکے ہیں۔ (جن کو جنات پر یقین نہیں وہ جنات کی جگہ بیگمات پڑھیں)۔ اگرچہ اس کلیہ میں ان لوگوں کو استثنا حاصل ہے جو ساری زندگی خود پر پریوں کے عاشق و قابض ہونے کی حسرت میں ہی دنیا سے چل بسے۔ لیکن اس سے پہلے کہ آپ یہ مصرعہ پڑھیں
؏
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
تھوڑا توقف کیجئے۔ کہ ایسے سادہ لوحوں کے لئے محشر میں چند ایک عاملین کا انتظام، انصرام و احتمام موجود ہے جو ان مشتاق افراد کے انضمام کی خاطر کوہ قاف کی پریوں کو عالم دنیا سے عالم بالا بلانے میں مشٌاق ہیں۔
پس اس قرینے یعنی عقلی تصرف کے ذریعے بلی کے جسم میں حلول کرنا اور اس کے خواب سے آگاہی حاصل کرنے میں اب کوئی شائبہ نہیں رہ گیا۔
اب آتے ہیں تحریر و تقریر کی جانب۔
2- اگرچہ بلیوں کی تحاریر کافی موجود ہیں لیکن اب تک ان کے انسانی زبانوں میں تراجم شائع نہیں ہوئے۔ تب تک ہم ثبوت کے اس پہلو کو کسی اور وقت پر موقوف رکھتے ہیں۔
3- بلی کی تقریر کی ایک جدید مثال ایلیس (Alice) اور شرارتی مسکراہٹ والی بلی چیشائر بلی(Cheshire cat) کے مکالمے کی صورت میں ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہے:
ایلیس: ”لیکن میں پاگلوں میں نہیں جانا چاہتی“
بلی: ”اوہ، تم اس کا کچھ نہیں کر سکتی۔ یہاں سب پاگل ہیں۔ میں پاگل ہوں۔۔ تم پاگل ہو!“
ایلیس: ”تمہیں کیسے معلوم ہو کہ میں پاگل ہوں“
بلی: ”تم ضرور پاگل ہو گی۔ ورنہ یہاں نہ آتی“
اسی خیال کو مرزا غالب نے یوں بیان کیا ہے:
؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
نتیجہ
مندرجہ بالا معروضات سے اب کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ فلاسفر چانگ چو دراصل پاگل تھا۔
چین میں ایک رات چانگ چو نامی ایک فلسفی نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک تتلی (یا پھر تتلا؟) ہے اور باغات کی فضاوں میں خراماں خراماں محوِ پرواز ہے اور پرواز سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ جب خوب سے بیدار ہوا تو ایک کشمکش میں مبتلا تھا۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس کا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ ہم جو زندگی گذار رہے ہیں وہ دراصل کسی تتلی کا خواب ہے، اور اس خواب میں تتلی ایک فلسفی یعنی چانگ چو ہے یا پھر میں ایک انسان ہوں جس نے خواب میں دیکھا کہ وہ تتلی ہے۔ اس طرح کی سوچ سے زندگی کی حقیقت پر بہت سے سوال اٹھتے ہیں۔
بلی کے خواب میں چیچڑے
اسی دور میں چین کے ہمسایہ ملک برصغیرِ ہند میں ایک اور فلسفی نے خواب میں دیکھا کہ وہ بلی ہے۔ چارپائی غالباً ایجاد ہو چکی تھی تو اس بلی نے چارپائی یا ایسی ہی کسی استراحت فرمانے والے آلے کا سہارا لے کر خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ نخریلی بلی نے اگرچہ خود کو ہندوستانی فلسفی کے روپ میں دیکھنا گوارا نہیں کیا اور مزے سے خواب میں چیچڑے دیکھنے لگی۔ اس خواب سے تتلی کے خواب کے منافی وجود، دنیا، زندگی، فکر و خیال کے بارے میں کسی قسم کے تیکھے سوالات جنم نہیں لیتے اور ویسے بھی چارپائی پر مزے سے لیٹ کر، لسی پی کر کون کافر اتنے گھمبیر سوالات پر غور و فکر کرے؟
تبصرہ
یہ تو موازنہ ہوا دو عدد فلسفیانہ خوابوں کا جو دو ہمسایہ ممالک میں قریباً ایک ہی دور میں دیکھ گئے۔ اب جن ناقدین و حاسدین کو ہر ایک بات میں میم میخ نکالنے کی عادت ہے وہ اس مستند تاریخی حقیقت پر اعتراضات اٹھائیں گے، کہیں گے کہ چانگ چو والے خواب کو تو ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے اور اس پر کبھی کبھار گفتگو بھی کر چکے ہیں، لیکن برصغیر والے فلسفی کے خواب کی قطعاً کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ورنہ اس کا کوئی ثبوت فراہم کیا جائے۔
اول تو یہ کہ ہم خود پر اعتراضات اٹھانے والوں کو لائق گفتگو نہیں سمجھتے (چاہے اعتراضات کتنے ہی بجا ہوں اور ہماری بات کتنی ہی بے تکی ہو)۔ یہ ہمارے تخلص (شانؔ) کے خلاف ہے۔
دوم یہ کہ اس مرتبہ ہم ضرور ایسے شواہد فراہم کریں گے کہ تمام ناقدین ہکا بکا رہ جائیں اور ان کی زبانیں گنگ ہو جائیں۔ تو ملاحظہ کیجئے:
ثبوت و براہین:
اپنا مدعا کسی تک پہنچانے کے تین طریقے رائج ہیں: تحریر، تقریر اور تصرف عقلی۔
1۔ ان میں سے آخری طریقے یعنی عقلی تصرف سے سب ہی قارئین بخوبی واقف ہوں گے کہ زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں آپ پر جنات قابض رہ چکے ہیں، اور آپ سے اپنے مدعا کہلوا چکے ہیں۔ (جن کو جنات پر یقین نہیں وہ جنات کی جگہ بیگمات پڑھیں)۔ اگرچہ اس کلیہ میں ان لوگوں کو استثنا حاصل ہے جو ساری زندگی خود پر پریوں کے عاشق و قابض ہونے کی حسرت میں ہی دنیا سے چل بسے۔ لیکن اس سے پہلے کہ آپ یہ مصرعہ پڑھیں
؏
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
تھوڑا توقف کیجئے۔ کہ ایسے سادہ لوحوں کے لئے محشر میں چند ایک عاملین کا انتظام، انصرام و احتمام موجود ہے جو ان مشتاق افراد کے انضمام کی خاطر کوہ قاف کی پریوں کو عالم دنیا سے عالم بالا بلانے میں مشٌاق ہیں۔
پس اس قرینے یعنی عقلی تصرف کے ذریعے بلی کے جسم میں حلول کرنا اور اس کے خواب سے آگاہی حاصل کرنے میں اب کوئی شائبہ نہیں رہ گیا۔
اب آتے ہیں تحریر و تقریر کی جانب۔
2- اگرچہ بلیوں کی تحاریر کافی موجود ہیں لیکن اب تک ان کے انسانی زبانوں میں تراجم شائع نہیں ہوئے۔ تب تک ہم ثبوت کے اس پہلو کو کسی اور وقت پر موقوف رکھتے ہیں۔
3- بلی کی تقریر کی ایک جدید مثال ایلیس (Alice) اور شرارتی مسکراہٹ والی بلی چیشائر بلی(Cheshire cat) کے مکالمے کی صورت میں ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہے:
ایلیس: ”لیکن میں پاگلوں میں نہیں جانا چاہتی“
بلی: ”اوہ، تم اس کا کچھ نہیں کر سکتی۔ یہاں سب پاگل ہیں۔ میں پاگل ہوں۔۔ تم پاگل ہو!“
ایلیس: ”تمہیں کیسے معلوم ہو کہ میں پاگل ہوں“
بلی: ”تم ضرور پاگل ہو گی۔ ورنہ یہاں نہ آتی“
اسی خیال کو مرزا غالب نے یوں بیان کیا ہے:
؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
نتیجہ
مندرجہ بالا معروضات سے اب کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ فلاسفر چانگ چو دراصل پاگل تھا۔
آخری تدوین: