کاشفی
محفلین
غزل
(پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی)
فنا کا ہوش آنا زندگی کا دردسر جانا
اجل کیا ہے خمار بادہء ہستی اُتر جانا
عزیزانِ وطن کو غنچہ و برگ و ثمر جانا
خدا کو باغباں اور قوم کو ہم نے شجر جانا
کرشمہ یہ بھی ہے اے بےخبر افلاسِ قومی کا
تلاشِ رزق میں اہلِ ہنر کا دربدر جانا
مصیبت میں بشر کے جوہر مردانہ کُھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردش ِقسمت سے ڈرجانا
اجل کی نیند میں بھی خواب ِہستی گر نظر آیا
تو پھر بیکار ہے تنگ آکے اس دنیا سے مرجانا
وہ سودا زندگی کا ہے کہ غم انساں سہتا ہے
نہیں تو ہے بہت آساں اس جینے سے مرجانا
بہت سودا رہا زاہد تجھے نارِ جہنم کا
مزہ سوزِ محبت کا بھی کچھ اے بے خبر جانا
چمن زارِ محبت میں اُسی نے باغبانی کی
کہ جس نے اپنی محنت ہی کو محنت کا ثمر جانا
وہ طبع یاس پرور نے مجھے چشمِ عقیدت دی
کہ شامِ غم کی تاریکی کو بھی نورِ سحر جانا
سدھاری منزلِ ہستی سے کس بےاعتنائی سے
تنِ خاکی کو شاید رُوح نے گردِ سفر جانا