قرآنی تراجم کے بارے میں کچھ معلومات

دوست

محفلین
اسلام و علیکم
مجھے اردو قرآنی تراجم کے بارے میں کچھ معلومات درکار ہیں۔ اردو میں سب سے پہلا ترجمہ کب ہوا، اور کیا یہ ترجمہ آنلائن دستیاب ہے؟ مجھے گوگل سے سرچ کے دوران سب سے پرانا ترجمہ 1910 میں احمد رضا خان صاحب کا ملا ہے، جو کہ آنلائن بھی کئی جگہ دستیاب ہے۔ کیا اس سے پہلے کا کوئی ترجمہ بھی آنلائن دستیاب ہے؟ تفسیر نہیں، ترجمہ۔
وسلام
 

محمد امین

لائبریرین
اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب کے مقابلے میں مولانا شاہ عبد القادر کا ترجمہ زیادہ قدیم ہے۔ اور غالباً انہی کے خاندان کے ایک دو صاحبان بھی تراجم کرگئے تھے۔ بہرحال یہ تو تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خانوادے ہی میں سے کسی نے اردو میں پہلا قرآنی ترجمہ کیا تھا اور یہ انیسویں صدی کے اوائل کی بات ہوگی۔ گھر جا کر کوشش کروں گا کہ مل جائے یا کوئی معلومات حاصل ہوں۔۔
 
اردو کاسب سے پہلا ترجمہ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کا ہی ہے اور دوسرا شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کا ہے جو شاہعبدالقادر رحمتہ اللہ کےچھوٹے بھائی ہے
 
موضح القرآن
الحمد للہ وکفیٰ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ۔
تفسیر عثمانی پچھلے ساٹھ برسوں سے برصغیر کی اردو تفاسیر میں ایک نہایت مقبول اور انتہائی معتبر نام رہا ہے۔ اس غیرمعمولی مقبولیت کی وجہ اس تفسیر کی وہ بعض خصوصیات تو ہیں ہی جو دوسری تفاسیر میں مفقود ہیں اور جن کا مختصر ذکر ان سطور میں ان شاء اللہ آگے آئے گا لیکن میرے خیال میں اس کی اصل وجہ ان تین اکابر کا علم و فضل، اخلاص و للّٰہیت اور کمال اور احتیاط و ادب کے ساتھ قرآن کریم کی خدمت کی دھن ہے جو اصل تفسیر عثمانی کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ یہ تین بڑے نام حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی، حضرت شیخ مولانا محمود حسن صاحب اور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہم کے ہیں۔ تفیسر عثمانی کے افادیت، خصوصیات اور اہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے اس کا تاریخی پس منظر جانناضروری ہے۔ اس پس منظر میں قارئین کے لیے اس تفسیر کے اصل مقام کو متعین کرنے میں سہولت ہو گی۔
موضح القرآن:
حضرت شاہ عبدالقادرؒ کا اردو ترجمہ "موضح القرآن" اپنی غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے بر صغیر کے مسلمانوں میں "الہامی ترجمہ" کے نام سے مشہور رہا ہے۔ اور حقیقت میں یہ قرآن کریم کا واحد ترجمہ ہے جو اردو میں پہلا با محاورہ ترجمہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآنی الفاظ کی ترتیب اور اس کے معانی و مفہوم سے حیرت انگیز طور پر قریب ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اس ترجمہ کی تکمیل میں تقریباً چالیس سال جو محنت شاقہ اٹھائی ہے وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔قرآن کریم کا یہ ترجمہ اردو زبان کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ جس کی حفاظت ہندوپاک کے مسلمانوں کے لیے ایک دینی فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ نے اس ترجمہ میں متعدد خوبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے۔
"حضرت ممدوح علیہ الرحمتہ کا ترجمہ جیسے استعمال محاورات میں بے نظیر سمجھا جاتا ہے ویسے ہی باوجود پابندی محاورہ، قلت تغیر اور خفت تبدل میں بھی بے مثل ہے"۔ (مقدمہ ترجمہ شیخ الہند۔ دارالتصنیف۔ کراچی)
چودہویں صدی کے آغاز تک اردو میں قرآن کریم کے متعدد ترجمے شائع ہو چکے تھے۔ ان میں بعض ترجمے بامحاورہ اور مروج زبان میں اہل علم و اہل ذہانت حضرات کے تھے۔ اور اس کے مقابلے میں بعض تراجم ایسے بھی آئے جو آزاد خیال حضرات نے کیے تھے اور جن میں گوناگوں اغلاط و مفاسد پائے جاتے تھے۔ اور ان میں قرآن کریم کے مفاہیم پر زبان کے تقاضوں کو ترجیح دی گئ تھی آسان اور با محاورہ زبان کی وجہ سے یہ ترجمے عوام میں مقبول ہونے لگے۔
دوسری طرف حضرت شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمے سے استفادہ عام میں کچھ دشواریاں پیش آنے لگیں اول تو یہ کہ اس ترجمے کے بعض الفاظ اور محاورات وقت گزرنے کے ساتھ یا تو متروک ہو گئے یا ان کا استعمال بہت کم ہو گیا۔
دوسری دشواری ترجمہ کی وجہ سے نہیں بلکہ طبیعتوں کی سہل پسندی کی وجہ سے پیدا ہوئی یعنی اس ترجمہ کی جو سب سے نمایاں اور ممتاز خوبی تھی کہ کم سےکم الفاظ میں قرآن کریم کے مفہوم و منشاء کی تعبیر۔ یہی خوبی ان طبیعتوں پر گراں گزرنے لگی جو غوروفکر کی عادی نہیں رہیں۔ اس وجہ سے بھی ان کا میلان ان جدید ترجموں کی طرف زیادہ ہونے لگا۔ ان ترجموں کی غلطیوں اور مفاسد سے لوگوں کو بچانے کیلئے اس وقت کے علمائے کرام کو اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک نیا ترجمہ سہل اور آسان اردو میں ایسا کیا جائے جو ایک طرف ان مفاسد سے بھی پاک ہو اور دوسری طرف مروجہ محاورے کے مطابق سہل اور آسان ہو۔
ترجمہ شیخ الہند:
اس وقت کے اہل علم نے حضرت شیخ الہندؒ سے ایسا ترجمہ کرنے کی درخواست کی۔ حضرتؒ نے غوروفکر کے بعد فرمایا کہ پہلی ضرورت یعنی زبان و محاورے کی سہولت تو بعض نئے ترجموں سے پوری ہو گئ جو اہل علم و فہم حضرات نے کئے ہیں۔ البتہ یہ ترجمے ان خوبیوں سے محروم ہیں جو موضح القرآن میں موجود ہیں۔ اب اگر کوئی نیا ترجمہ کیا جائے گا تو وہ آسان اور بامحاورہ تو ہو گا مگر حضرت شاہ صاحبؒ کے ترجمے کی خوبیاں کہاں سے آئیں گی؟ فرمایا کہ اب یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ نئے ترجموں کی موجودگی میں حضرت شاہ صاحب کی یہ بے مثال قرآنی خدمت کہیں رفتہ رفتہ معدوم ہی نہ ہو جائے۔ چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں۔
"اس چھان بین اور دیکھ بھال میں تقدیر الہٰی سے یہ بات دل میں جم گئ کہ حضرت شاہ صاحبؒ کا افضل و مقبول و مفید ترجمہ رفتہ رفتہ تقویم پارینہ نہ ہو جائے۔ یہ کس قدر نادانی بلکہ کفران نعمت ہے۔ اور وہ بھی سرسری عذر کی وجہ سے اور عذر بھی وہ جس میں ترجمہ کا کوئی قصور نہیں اگر قصور ہے تو لوگوں کی طلب کا قصور ہے"
اسلئے حضرت شیخ الہندؒ نے جدید ترجمہ کا ارادہ تو اسلئے نہیں فرمایا کہ حضرت شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ کی حفاظت ضروری تھی۔ البتہ اس ترجمے سے استفاد کرنے میں مذکورہ بالا دشواریاں تھیں انکو دور کرنے کا ارادہ فرما لیا۔ چنانچہ اس ارادے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں۔
"اس لئے ننگ خلائق کو یہ خیال ہوا کہ حضرت شاہ صاحب ممدوح کے مبارک مفید ترجمہ میں لوگوں کو جو کل دوخلجان ہیں یعنی ایک بعض الفاظ و محاورات کا متروک ہو جانا دوسرے بعض بعض مواقع میں ترجمہ کے الفاظ کا مختصر ہونا۔ جو اصل میں تو ترجمہ کی خوبی تھی مگر بنائے زمانہ کی سہولت پسندی اور مذاق طبیعت کی بدولت اب یہاں تک نوبت آ گئ کہ جس سے ایسے مفید اور قابل ترجمہ کے متروک ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ سو اگر غور و احتیاط کے ساتھ ان الفاظ متروکہ کی جگہ الفاظ مستعملہ لے لئے جائیں اور اختصار و اجمال کے موقعوں کو تدبر کے ساتھ کوئی لفظ مختصر زائد کر کے کچھ کھول دیا جائے تو پھر ان شاء اللہ حضرت شاہ صاحب کا یہ صدقہ فاضلہ بھی جاری رہ سکتا ہے۔" (مقدمہ ترجمہ شیخ الہند)
اس للّٰہیت و اخلاص اور احتیاط و تدبر کے ساتھ حضرت شیخ الہندؒ نے مذکورہ بالا دو مقاصد سامنے رکھ کر حضرت شاہ صاحبؒ کے ترجمے موضح القرآن میں نظر ثانی اور ترمیم کا کام شروع فرما دیا۔ اور آخر ۱۳۳۶ھ میں اس عظیم خدمت کو مکمل فرمایا۔ اور اس میں بھی جس احتیاط و ادب سے کام لیا ہے وہ حقیقت میں انہی حضرات کا حصہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اپنے ترجمے کے مقدمہ میں ارشاد فرماتےہیں۔
"جس موقع پر ہم کو لفظ بدلنے کی نوبت آئی وہاں ہم نے یہ نہیں کیا کہ اپنی طرف سے جو مناسب سمجھا بڑھا دیا۔ نہیں بلکہ حضرات اکابر کے تراجم میں سے لینے کی کوشش کی ہے۔ خود موضح القرآن میں دوسری جگہ کوئی لفظ مل گیا۔ یا حضرت مولانا رفیع الدین کے ترجمے میں یا فتح الرحمٰن میں۔ حتی الوسع ان میں سے لینے کی کوشش کی ہے۔ ایسا تغیر جسکی نظیر مقدس حضرات کے تراجم میں نہ ہو۔ ہم نے کل ترجمہ میں جائز نہیں رکھا"۔
اللہ اکبر! ان حضرات کی بے نفسی، خوف خدا اور اپنے بزرگوں کا احترام و ادب کا یہ نمونہ کتنا مفید اور سبق آموز ہے؟ تمام تراجم میں تلاش و جستجو کی یہ محنت شاقہ اسلئے اٹھائی کہ اپنی جانب سے ایک آدھ لفظ کا اضافہ بھی گوارا نہ تھا۔ اسی اخلاص و للّٰہیت ہی کا ثمرہ ہے کہ ترجمہ شیخ الہند کو جو مقام آج حاصل ہے وہ کسی دوسرے ترجمے کو حاصل نہیں۔ اس ترجمے کو موضح القرآن سے ممتاز رکھنے کیلئے آپ نے اس کا نام "موضح فرقان" تجویز فرمایا تھا۔ مگر یہ ترجمۂ شیخ الہند ہی کے نام سےمشہور و معروف ہوا۔
حضرت شیخ الہندؒ نے چھ اشعار پر مشتمل ایک قطعہ میں اس ترجمہ کی تاریخ بیان فرمائی ہے۔ اس قطعہ کا آخری شعر جس سے تاریخ نکلتی ہے۔ یہ ہے ؎
بے شش و پنج بگفتہ محمودسال اُو موضح فرقان حمید
اس شعر سے تاریخ اس طرح نکلتی ہے کہ بے شش و پنج (یعنی چھ اور پانچ ۔ کل گیارہ اعداد) کم کر دیں تو "موضح فرقان حمید" کے اعداد سے سال ۱۳۳۶ھ نکل آئے گا۔
 

حماد

محفلین
اسلام و علیکم
مجھے اردو قرآنی تراجم کے بارے میں کچھ معلومات درکار ہیں۔ اردو میں سب سے پہلا ترجمہ کب ہوا، اور کیا یہ ترجمہ آنلائن دستیاب ہے؟ مجھے گوگل سے سرچ کے دوران سب سے پرانا ترجمہ 1910 میں احمد رضا خان صاحب کا ملا ہے، جو کہ آنلائن بھی کئی جگہ دستیاب ہے۔ کیا اس سے پہلے کا کوئی ترجمہ بھی آنلائن دستیاب ہے؟ تفسیر نہیں، ترجمہ۔
وسلام
میرا خیال ہے دوست بھائ نے صرف ترجمے کی آنلائن دستیابی کے بارے میں دریافت فرمایا ہے۔
 

دوست

محفلین
جوابات کا بہت شکریہ۔
شاہ عبدالقادر والا ترجمہ کب کیا گیا تھا؟ تاریخ؟ اصل میں آنلائن والے تو سب دیکھ لیے میں نے تقریباً۔ سب سے پرانا ترجمہ بلکہ تفسیر سرسید احمد خان کی ہے 1880 سے شروع ہوتی ہے اس کی اشاعت۔ اس لیے پوچھا تھا کہ اس سے قدیم بھی ہو کوئی تو پتا چلے۔ تو شاہ صاحب والا ترجمہ بازار سے دیکھنا پڑے گا۔ موضح القران، چلیں دیکھتے ہیں۔
وسلام
 

محمد امین

لائبریرین
شاکر : شاہ عبدالقادر صاحب کے ترجمے کا سنہ وغیرہ مجھے بالتصریح یاد نہیں۔ البتہ یاد پڑتا ہے کہیں پڑھا ضرور تھا اس کے متعلق۔ میں تلاش کرتا ہوں اپنی کتب میں۔ بہرحال اونلائن ربط مل گیا ہے:

http://www.quran4u.com/quran_urdu_qh.htm

اور ہاں یہ ضرور ہے کہ سرسید کا ترجمہ اگر 1880 کا ہے تو مولانا شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ اس سے بھی پہلے کا ہے۔ میں اس کا کوئی حوالہ تلاش کرتا ہوں تو آپکو مطلع کروں گا۔۔
 

باسم

محفلین
قرآن کریم کے اردو تراجم تاریخ کے اعتبار سے wata.cc
1۔ترجمہ شاہ رفیع الدین دہلوی (1750م-1871م) بن شاہ ولی اللہ دہلوی رح
تاریخ اشاعت یا تکمیل: 1776م
اردو زبان اور اس کے جملوں کے اسلوب و بناء کی طرف نظر کیے بغیر لفظی ترجمہ کی صورت میں ہر عربی لفظ کے نیچے اس کا اردو ترجمہ لکھا گیا

2۔ موضح القرآن (1790م)
شاہ عبدالقادر دہلوی (1752م- 1814م) بن شاہ ولی اللہ دہلوی رح
اس ترجمے میں اردو زبان کا بہترین اور آسان اسلوب اختیار کیا گیا اس وجہ سے اسے پہلے با محاورہ اردو ترجمے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

3۔ فورٹ ولیم کالج کے تحت کیا گیا ترجمہ (1804م)
جون گلکرسٹ کی نگرانی میں پانچ رکنی کمیٹی نے ترجمہ کیا

4۔سید احمد خان (1817م-ن1898م) کا ترجمہ
تاریخ اشاعت (1880م)
قرآن مجید کے نصف ثانی کا ترجمہ کیا گیا

5۔ غرائب القرآن (1895م)
مولوی نذیر احمد دہلوی (1830م-1914م)

6۔ فتح المجید (1900م)
مولوی فتح محمد جالندھری
یہ ترجمہ (1969م) میں عربی متن قرآن کے بغیر (نور الہدایہ) کے نام سے بھی شائع ہوا

7۔ مولانا عاشق الہی میرٹھی (1881م-1941م) کا ترجمہ
تاریخ اشاعت یا تکمیل (1901م)
انہیں قرآن مجید کے کم عمر مترجم کا اعزاز حاصل ہے تکمیل کے وقت 20 برس عمر تھی

8۔ عبداللہ چکڑالوی کا ترجمہ
تاریخ اشاعت یا تکمیل (1907م)

9۔ معارف القرآن(1949م)
غلام احمد پرویز

10۔موضح فرقان ترجمہ شیخ الہند (1918م)
شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی (1852م- 1920م)

11۔کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن (1910م)
احمد رضا خان بریلوی (1854م-1923م)

12۔ ترجمان القرآن (1935م)
مولانا ابوالکلام آزاد (1888م-1958م)
سورتوں کے مطالب ومضامین پر مشتمل فہرست شامل کی جو کہ ایک نیا طریقہ تھا

13۔ تفہیم القرآن (1949م)
ابوالاعلیٰ مودودی (1903م- 1979م)

14۔ ضیاء القرآن (1979م)
پیر محمد کرم شاہ الازہری (1998م)
 

فہیم

لائبریرین
اور ابھی ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی۔

ویسے مجھے معلوم ہے کہ شاکر بھائی نے قدیم ترجمے کی بات کی
لیکن باسم صاحب کی لسٹ میں یہ نام نہیں تھے
اس لیے میں نے لکھے۔
 
جوابات کا بہت شکریہ۔
شاہ عبدالقادر والا ترجمہ کب کیا گیا تھا؟ تاریخ؟ اصل میں آنلائن والے تو سب دیکھ لیے میں نے تقریباً۔ سب سے پرانا ترجمہ بلکہ تفسیر سرسید احمد خان کی ہے 1880 سے شروع ہوتی ہے اس کی اشاعت۔ اس لیے پوچھا تھا کہ اس سے قدیم بھی ہو کوئی تو پتا چلے۔ تو شاہ صاحب والا ترجمہ بازار سے دیکھنا پڑے گا۔ موضح القران، چلیں دیکھتے ہیں۔
وسلام
تفسير سر سيد مكمل نہيں ہے 15 پاروں تك ہے
 

دوست

محفلین
جی یہ میرے علم میں آگیا تھا جب اتاری تو۔ اچھا تو عرفان القرآن اور احمد رضا خان صاحب والے ترجمے کی یونیکوڈ فائلیں کہیں سے مل سکتی ہیں؟ کئی ایک سافٹویر میں یہ تراجم شامل ہیں، کوئی دوست جو مدد کر سکے؟
وسلام
 

محمد امین

لائبریرین
جی یہ میرے علم میں آگیا تھا جب اتاری تو۔ اچھا تو عرفان القرآن اور احمد رضا خان صاحب والے ترجمے کی یونیکوڈ فائلیں کہیں سے مل سکتی ہیں؟ کئی ایک سافٹویر میں یہ تراجم شامل ہیں، کوئی دوست جو مدد کر سکے؟
وسلام

شاکر گوگل سرچ کرنے کے بعد کنز الایمان کا اردو محفل پر ہی ایک ربط ملا ہے مگر میں نے ترجمہ دیکھا تو فورمیٹنگ کے مسائل نظر آئے۔۔آپ دیکھ لیں، پروف ریڈنگ کے بارے میں بھی میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ترجمہ-کنز-الایمان.3919/
 

دوست

محفلین
بہت شکریہ۔ یہ تو میرے پاس اعجاز اختر صاحب والی ٹیکسٹ آرکائیو کی وجہ سے ہے۔ میں نے نکال لی یہ فائل۔ اور اس میں مسائل بھی نہیں ہیں صاف ستھری ٹیکسٹ فائل ہے۔ اب رہ گیا ترجمہ عرفان القرآن، آپ کے بیان کیے گئے دھاگے میں ہی قیصرانی نے اس کی بات کی تھی۔ لیکن مجھے مل نہیں سکا یہ ٹیکسٹ آرکائیو میں۔ اور اردو ویب کا وکی تو ویسے ہی فوت ہوئے عرصہ ہو گیا ہے۔ چناچہ ربط بھی ٹوٹا ہوا ہے۔ یہ مل جائے تو شاہ عبد القادر والے ترجمے کے لیے میں نے ایک ویب سائٹ سے درخواست کی ہے، وہ مجھے ان پیج دینے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اب دیکھیں ملے تو اس کی پروف ریڈنگ وغیرہ کر کے افادہ عام کے لیے بھی جاری کر دی جائے۔
 
حضرت تھانوی کا ترجمہ اشرف الشان کے نام سے اور تفسیر بیان القران کے نام شائع ہوئے ہیں ۔بیان القران کی دوجلدیں تویہں محفل پر پی ڈی ایف فارمیٹ میں بھی موجود ہیں
 
Top