مغزل
محفلین
بزم کے خوبصورت رکن شین زاد سے ایک ملاقات
منگل کے دن ہوا میں خنکی اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی تھی کہ اذنِ ملاقات ملا ، بندے نے دفتر سے نکل کر بلیلہ کو لات رسید کی اور چل میرے گھوڑے۔۔ کے مصداق گاڑیوں کے اژدھام سے بمشکل تمام دیئے گئے وقت پر۔۔ طے کردہ مقام بلوچ پل پہنچا۔۔ مگر یاد آیا کہ جنا ب تو ابھی سفر میں ہیں گلشنِ حدیدسے خاصا وقت طلب سفر ہے۔۔ ہوا کے دوش پر دوبارہ رابطہ ہوا۔۔ اور میں نے شین زاد کو جیل چورنگی آنے کو کہا۔۔ اس وقت سٹی آفیسرز کلب کشمیر روڈ۔۔ میں آزاد خیال ادبی فورم کی نشست تھی۔۔۔۔۔ خدا خدا کرے جب مہمان ِ اعزازی کے پڑھنے کی باری آئی تو اطلاع ہوئی کہ جناب تشریف لے آئے ہیں۔ ہم نے بلیلہ کو ایک بار پھر لات رسید کی اور جیل چورنگی کے کنارے حمزیہ غوثیہ لان کے سامنے ہاتھ میں سیاہ رنگ کا روزنامچہ سنبھالے۔۔ سلیٹی رنگ کی پتلون اور نیلے رنگ کی قمیص میں ملبوس ایک جاذب نظر نوجوان دیکھا ۔۔ چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی ۔۔ سلیقے سے کاڑھے ہوئے بال ، لگتا ہی نہیں تھا کہ موصوف کسی بس میں سفر کرکے آئے ہیں۔۔ بہر کیف پہلی نظر میں آشنائی کے تمام مراحل طے ہوئے ہم بغلگیر ہوئے اور بلیلہ کے سفیر ہوئے ۔۔۔۔۔ نشست میں شین تو خیر تاخیر سے پہنچے تھے ۔۔ مگر ہم نے کچھ نواجوان شعراء کو جمع کیا اور ہلکے پھلے ناشتے کے بعد سٹی کلب کے سبزہ زار میں ایک شعری نشست ترتیب دی ۔۔ مہمانَ خصوصی فیصل آباد سے آئے ہوئے نوجوان شاعر علی زریون رہے ۔۔ جب کہ مہمانِ اعزازی ۔۔ جناب شین زاد ۔۔ ر ہے ۔۔شعری نشست میں جن دیگر شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ان میں راقم الحروف، نعیم سمیر راج، کامی شاہ، خیام قادری، فخراللہ شاد، سیف الرحمان سیفی،ریحان رامش، فیض عالم بابر ، توقیر تقی اوراختر عبدالرزاق شامل تھے ۔۔یوں رات گئے یہ ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی۔۔ دائیں سے بائیں : سیف الرحمان سیفی، کامی شاہ، پچھلی صف میں توقیر تقی، نیلی قمیص میں شین زاد، سیاہ قمیص میں اختر عبدالرزاق،
پچھلی صف میں ریحان رامش، ہاتھ باندھے ہوئے علی زریون، نعیم سمیر اور فیض عالم بابر