عبدالقیوم چوہدری
محفلین
پہلے درویش نے بیڑی کا کش لگایا اور آنکھیں موند کر گویا ہوا....:
صاحبو یہ فقیر پرتقصیر خاک در خاک کھرڑیانوالہ ضلع فیصل آباد کا ساکن ہے-بچپن سے ہی طبیعت ایڈونچر کی طرف مائل تھی چنانچہ شاہی سپاہ میں جا بھرتی ہوا اور ایک طویل عرصہ تک جنگ وجدل میں دشمن کو لوہے کے چنے چبوائے-زندگی بھر صحراؤں اور ویرانوں کی خاک چھان کر عازم ریٹائرمنٹ ہوا اور سرکار سے اڑھائی ہزار سکہ رائج الوقت کے لگ بھگ پنشن پائی - ذہن مائل بہ تجارت تھا چنانچہ کل جمع پونجی داؤ پر لگائی اور ایک آٹا پیسنے والی چکی لگا بیٹھا- لیکن افسوس بلبل ہزار داستان گلشن تقدیر میں یوں چہکا کہ جب بھی آٹا تولا جاتا ,دانوں سے کم نکلتا چنانچہ گھر کے آٹے سے سبسڈی دینی پڑتی- یوں رفتہ رفتہ گھر کا رزق خلاص ہوا اور بندہ فقیر قلاش ہوا -فکر معاش نے آن گھیرا تو چکی آدھی قیمت پر بیچ کر دارلسلطنت کا رخ کیا کہ کاخ امراہ بہتوں کی امان گاہ ہے - دارلسلطنت آکر ایک بھاری سفارش کے طفیل ریاض بحریہ میں کوتوالی کا کار نصیب ہوا,مشاہرہ 10 ہزار سکہ رائج الوقت بمعہ روٹی رہائش - فکر معاش تم چکا تھا اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ یکایک ایک دن ہنگامہ محشر بپا ہوا اور دارلسلطنت میں دھرنے کی آمد آمد ہوئی- بندہ پرتقصیر ایسے ہنگام سیاست سے ہمیشہ کوسوں دور بھاگتا تھا لیکن حالات سے آگاہی ضرور رکھتا - شہر بھر میں رنگیں ٹوپی والی رقاصاؤں اور ریشمی دوپٹے والے خواجہ سراؤں کا چرچا تھا-رات دیر تک اسپیکر سے آنے والی عطااللہ عیسی خیلوی کی کوک دل میں سوراخ سی کرتی طبیعت کہتی کہ اڑ کر اس ہنگامہ رقص و سرود میں جا پہنچوں لیکن صاحبو !! اپنی چٹی داڑھی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا سوچ کر لاحول پڑھتا اور سو جاتا-تماش بینوں کے ہاتھوں یہ بھی سنا کہ وہاں ایک پیر مرد کہ صورت سےمرد درویش معلوم پڑتے ہیں اور کلام وبیان میں جنکا طوطی بولتا ہے ایک لوہے کے تابوت میں زندہ دفن ہیں اور رات گئے ایسا وعظ وبیان کرتے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا- طلب دیدار تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی لیکن کوتاہ قسمت کہ بندہ فکر معاش کے ہاتھوں مجبور تھا 12گھنٹے کی کوتوالی کے بعد بمشکل نیند پوری ہوتی-
ایک دن کہ تقدیر کا پتھر سات آسمان چیر کر میرے سر پر آن ٹھہرا اور دھرنے سے ایک ایلچی نے صدا لگائی کہ اس نورانی صفت بزرگ کو رات کےلیے سیکیورٹی گارڈز کی اشد ضرورت ہے تنخواہ من چاہی تھی ,سوچا دن کو نوکری کروں گا ,رات کو اوور ٹائم لگاؤں گا اور شربت دیدار بزرگ نورانی بونس میں رہے گا-چنانچہ گاہ گاہ جلسہ گاہ جا پہنچا - جاتے ہی ایک پیر مرد ملائم طبع نے قومی شناختی کارڈز احتیاطاً رکھ لیا کہ اس ہنگام میں کہیں کھو نہ جائیں- محفل تھی کہ چراغ باطن کو روشن کرنے والی تھی-خود کو کوسا کہ اس فضیلت سے آج تک محروم کیوں رہا -صبح ڈیوٹی کا وقت قریب آیا تو اسی مرد ملائم طبع کی تلاش میں نکلا جس نے کل شناختی کارڈ ضبط کیا تھا - تلاش وبسیار کے بعد پتا چلا کہ پیر نرم طبع تو مفقود ہیں البتہ ایک اور بزرگ کہ صورت جنکی مصطفی قریشی سے ملتی تھی تشریف فرما ہیں اور انکے ارد گرد ایک مجمع جمع ہے جو کہ شناختی کارڈ شناختی کارڈ کا واویلہ مچا رہا ہے -اور حکم ہے کہ کارڈز دھرنا ختم ہونے کے بعد ملیں گے- بہت منت سماجت کی کہ ڈیوٹی کا مسئلہ ہے مگر بزرگ مصطفی قریشی کا اصرار تھا کہ کم از کم چار دن ضرور ادھر رہو تاکہ باطن میں انقلاب کی شمع روشن ہوسکے- دل تو دوڑ لگانے کو چاہا لیکن بزرگ کے دائیں بائیں کھڑے ڈنڈا برداروں نے دوبارہ بیٹھنے پر مجبور کردیا-خدا خدا کرکے چار دن کی قید کاٹی اور منت ترلا کر کے واپس ریاض بحریہ پہنچا اور قصہ عدم حاضری من و عن سنایا جنانچہ بے عزت کر کے نوکری سے فوری برخواست کردیا گیا - اب نہ تو کوئی جگہ تھی نہ ہی ٹھکانہ چنانچہ جوتیاں چٹخاتا اسی بزرگ۔۔۔ صفت کے دھرنے میں آن بیٹھا اور آج تک انقلاب کی راہ تک رہا ہوں-------
۔۔۔۔۔۔
انجینئر ظفر اعوان
ساہیوال،پاکستان
حال مقیم دوہا قطر
صاحبو یہ فقیر پرتقصیر خاک در خاک کھرڑیانوالہ ضلع فیصل آباد کا ساکن ہے-بچپن سے ہی طبیعت ایڈونچر کی طرف مائل تھی چنانچہ شاہی سپاہ میں جا بھرتی ہوا اور ایک طویل عرصہ تک جنگ وجدل میں دشمن کو لوہے کے چنے چبوائے-زندگی بھر صحراؤں اور ویرانوں کی خاک چھان کر عازم ریٹائرمنٹ ہوا اور سرکار سے اڑھائی ہزار سکہ رائج الوقت کے لگ بھگ پنشن پائی - ذہن مائل بہ تجارت تھا چنانچہ کل جمع پونجی داؤ پر لگائی اور ایک آٹا پیسنے والی چکی لگا بیٹھا- لیکن افسوس بلبل ہزار داستان گلشن تقدیر میں یوں چہکا کہ جب بھی آٹا تولا جاتا ,دانوں سے کم نکلتا چنانچہ گھر کے آٹے سے سبسڈی دینی پڑتی- یوں رفتہ رفتہ گھر کا رزق خلاص ہوا اور بندہ فقیر قلاش ہوا -فکر معاش نے آن گھیرا تو چکی آدھی قیمت پر بیچ کر دارلسلطنت کا رخ کیا کہ کاخ امراہ بہتوں کی امان گاہ ہے - دارلسلطنت آکر ایک بھاری سفارش کے طفیل ریاض بحریہ میں کوتوالی کا کار نصیب ہوا,مشاہرہ 10 ہزار سکہ رائج الوقت بمعہ روٹی رہائش - فکر معاش تم چکا تھا اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ یکایک ایک دن ہنگامہ محشر بپا ہوا اور دارلسلطنت میں دھرنے کی آمد آمد ہوئی- بندہ پرتقصیر ایسے ہنگام سیاست سے ہمیشہ کوسوں دور بھاگتا تھا لیکن حالات سے آگاہی ضرور رکھتا - شہر بھر میں رنگیں ٹوپی والی رقاصاؤں اور ریشمی دوپٹے والے خواجہ سراؤں کا چرچا تھا-رات دیر تک اسپیکر سے آنے والی عطااللہ عیسی خیلوی کی کوک دل میں سوراخ سی کرتی طبیعت کہتی کہ اڑ کر اس ہنگامہ رقص و سرود میں جا پہنچوں لیکن صاحبو !! اپنی چٹی داڑھی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا سوچ کر لاحول پڑھتا اور سو جاتا-تماش بینوں کے ہاتھوں یہ بھی سنا کہ وہاں ایک پیر مرد کہ صورت سےمرد درویش معلوم پڑتے ہیں اور کلام وبیان میں جنکا طوطی بولتا ہے ایک لوہے کے تابوت میں زندہ دفن ہیں اور رات گئے ایسا وعظ وبیان کرتے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا- طلب دیدار تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی لیکن کوتاہ قسمت کہ بندہ فکر معاش کے ہاتھوں مجبور تھا 12گھنٹے کی کوتوالی کے بعد بمشکل نیند پوری ہوتی-
ایک دن کہ تقدیر کا پتھر سات آسمان چیر کر میرے سر پر آن ٹھہرا اور دھرنے سے ایک ایلچی نے صدا لگائی کہ اس نورانی صفت بزرگ کو رات کےلیے سیکیورٹی گارڈز کی اشد ضرورت ہے تنخواہ من چاہی تھی ,سوچا دن کو نوکری کروں گا ,رات کو اوور ٹائم لگاؤں گا اور شربت دیدار بزرگ نورانی بونس میں رہے گا-چنانچہ گاہ گاہ جلسہ گاہ جا پہنچا - جاتے ہی ایک پیر مرد ملائم طبع نے قومی شناختی کارڈز احتیاطاً رکھ لیا کہ اس ہنگام میں کہیں کھو نہ جائیں- محفل تھی کہ چراغ باطن کو روشن کرنے والی تھی-خود کو کوسا کہ اس فضیلت سے آج تک محروم کیوں رہا -صبح ڈیوٹی کا وقت قریب آیا تو اسی مرد ملائم طبع کی تلاش میں نکلا جس نے کل شناختی کارڈ ضبط کیا تھا - تلاش وبسیار کے بعد پتا چلا کہ پیر نرم طبع تو مفقود ہیں البتہ ایک اور بزرگ کہ صورت جنکی مصطفی قریشی سے ملتی تھی تشریف فرما ہیں اور انکے ارد گرد ایک مجمع جمع ہے جو کہ شناختی کارڈ شناختی کارڈ کا واویلہ مچا رہا ہے -اور حکم ہے کہ کارڈز دھرنا ختم ہونے کے بعد ملیں گے- بہت منت سماجت کی کہ ڈیوٹی کا مسئلہ ہے مگر بزرگ مصطفی قریشی کا اصرار تھا کہ کم از کم چار دن ضرور ادھر رہو تاکہ باطن میں انقلاب کی شمع روشن ہوسکے- دل تو دوڑ لگانے کو چاہا لیکن بزرگ کے دائیں بائیں کھڑے ڈنڈا برداروں نے دوبارہ بیٹھنے پر مجبور کردیا-خدا خدا کرکے چار دن کی قید کاٹی اور منت ترلا کر کے واپس ریاض بحریہ پہنچا اور قصہ عدم حاضری من و عن سنایا جنانچہ بے عزت کر کے نوکری سے فوری برخواست کردیا گیا - اب نہ تو کوئی جگہ تھی نہ ہی ٹھکانہ چنانچہ جوتیاں چٹخاتا اسی بزرگ۔۔۔ صفت کے دھرنے میں آن بیٹھا اور آج تک انقلاب کی راہ تک رہا ہوں-------
۔۔۔۔۔۔
انجینئر ظفر اعوان
ساہیوال،پاکستان
حال مقیم دوہا قطر