نظر لکھنوی قطعات :- بسلسلۂ شہادتِ حضرت امام حسینؓ

1
ادراک تھا امامؓ کو کیا ہے مقامِ عشق
سب کچھ نثار کر دیا اپنا بنامِ عشق
لے جا کے کربلا میں بھرا گھر لٹا دیا
حقا حسینؓ ابنِ علیؓ ہیں امام عشق
٭
2
لختِ دلِ بتول، وہ ابنِ علیؓ حسینؓ
لاریب عاشقانِ خدا کے ولی حسینؓ
ہو کر شہید زندۂ جاوید ہو گئے
لوحِ جہاں پہ نقش، بخطِ جلی حسینؓ
٭
3
خوں فشاں صبح و مسا چشمِ شفق
مشرق و مغرب کا سینہ بھی ہے شق
سوگ میں فطرت بھی ہے تیرے لیے
اے امامِ حق، شہیدِ راہِ حق
٭
4
کربلا میں ریگ زارِ لق و دق
اور تو اس میں شہیدِ راہِ حق
اے امامِ حق نہیں تجھ سا کوئی
دیکھ لے چاہے نظرؔ چودہ طبق
٭
5
ابھری ہوئی، نکھری ہوئی، چھائی ہوئی تنویر
اب دل میں سمائی ہوئی قرآن کی تفسیر
اے حسنِ دو عالم سے سجائی ہوئی تصویر
اے خلد نشیں، روحِ جناں حضرتِ شبیرؓ
٭
6
سبطِ رسولِ پاکؐ، وہ ابنِ علیؓ حسینؓ
جنگاہِ کربلا میں ہیں دیکھو وہی حسینؓ
جانِ عزیز دے دی، دیا دیں نہ ہاتھ سے
ظلمت کدہ میں سب کے لیے روشنی حسینؓ
٭
7
سینہ شفق کا چاک جو ہوتا ہے صبح و شام
شبنم بھی گریہ کرتی ہے شب بھر بہ التزام
سوچا کہ کیوں یہ ماتمِ فطرت ہے روز و شب
دل نے کہا بہ سلسلۂ حضرتِ امامؓ
٭
8
گردابِ غم میں دل کو ڈبو لوں تو کچھ کہوں
پلکوں میں آنسوؤں کو پرو لوں تو کچھ کہوں
ذکرِ حسینؓ آیا ہے اف کربلا کے ساتھ
جی بھر کے پہلے دوستو! رو لوں تو کچھ کہوں
٭
9
راہِ خدا میں دیکھتے آئے ہیں ہم یہ حال
سر دے دیا کسی نے، کسی نے دیا ہے مال
لیکن بہت بلند ہے سطحِ حسینیت
تاریخ میں نظرؔ نہیں آتی کوئی مثال
٭
10
حق ہو ستیزہ کار تو باطل ہو سر نگوں
دم بھر میں تار تار ہو شیرازۂ فسوں
دکھلا دیا حسینؓ نے اپنا بہا کے خوں
کرتے ہیں دیکھ سینۂ باطل کو چاک یوں
٭
11
کیا کیا نہ روزگار میں آئے ہیں انقلاب
دیکھی ہے واقعاتِ زمانہ کی ہر کتاب
لیکن نظر یہ بات بہ بانگِ دہل کہوں
قصہ نہیں ہے مثلِ حسینؓ ابنِ بو ترابؓ
٭
12
دولت بھی پاس کوئی، نہ مال و منال تھا
عشقِ خدائے لم یزل و ذوالجلال تھا
قربان گاہِ عشق پہ سب کر دیا نثار
سبطِ نبیؐ میں دیکھیے کیسا کمال تھا
٭
13
میدانِ کربلا میں ضیا بار حق ہوا
باطل کے ساتھ برسرِ پیکار حق ہوا
لبیک کہہ کے آلِ نبیؐ سرخرو ہوئے
ملنے کا ان سے جب کہ طلبگار حق ہوا
٭
14
گل پوش ہے کہاں کہ ہے پُرخار راہِ عشق
میدانِ کربلا ہے کہ قربان گاہِ عشق
ہو کر شہید سارے زمانہ سے پائی داد
لاریب سب حسینؓ سے قائم ہے جاہِ عشق
٭
15
ماضی سے دیکھتے چلے آئے ہیں تا بہ حال
ایثار ہے حسینؓ کا بے مثل و بے مثال
مردانِ عشق پیشہ کو وہ روشنی ملی
لاریب تا قیامِ قیامت ہے لازوال
٭
16
بستانِ فاطمہ کے یہ خوش رنگ پھول ہیں
میدانِ کربلا میں یہ آلِ رسولؐ ہیں
فتنوں کو دیکھ دینِ خدا میں ملول ہیں
بہرِ جہاد جمع ہیں، سب با اصول ہیں
٭
17
فتنہ ہائے گوناگوں میں گھر گئی جانِ حسینؓ
شاہدِ عینی ہے اس کا ربِّ منانِ حسینؓ
دردِ دل اٹھے ہمیشہ خیر مقدم کے لیے
ہم سے ملنے آئے جب شامِ غریبانِ حسینؓ
٭
18
سکون و صبر و ضبط سب فرار دل سے ہو گئے
قسم ہے اس خدا کی جو سمیع بھی، مجیب بھی
ہزار داستاں سنی بگوشِ ہوش اے نظرؔ
مگر ہے قصۂ حسیںؓ عجیب بھی غریب بھی
٭
19
وہ داستانِ غم ہے شہِ دیں پناہ کی
جس نے سنی ہے، جب بھی سنی، دل سے آہ کی
ابلیسیوں کے کارِ لعیں پر جو کی نظرؔ
ابلیس نے بھی شرم سے نیچی نگاہ کی
٭
20
قصہ ہے الگ سب سے کہ ہے سب سے جدا تو
سن کر ترے قصے کو ہر اک آنکھ میں آنسو
وہ کام کیا ابنِ علیؓ تو نے کہ اب تک
بستی ہے ہر اک دل میں ترے پیار کی خوشبو
٭
21
اے ربِ ذو المنن تو بڑا صاحبِ کرم
جو کچھ دیا بہت ہے، نہ ہرگز کہیں گے کم
لیکن یہ کیا ہوا مجھے دے کر غمِ حسینؓ
دل ایک ہی دیا پئے اظہارِ سوزِ غم
٭
22
لیجیے جو نام ان کا، فیض بخش و با برکت
دیکھیے جو کا م ان کا، پُرشکوہ و پُرعظمت
سوچیے مقام ان کا، جن کے پاؤں میں جنت
سینکڑوں سلام ان پر اور ہزارہا رحمت
٭
23
اے عشق کی خوشبو میں بسی حسن کی تصویر
اے میانِ شجاعت کی چمکتی ہوئی شمشیر
سرخیلِ شہیدانِ وفا مردِ حق آگاہ
اے ابنِ علیؓ، سبطِ نبیؐ، حضرتِ شبیرؓ
٭
24
منہ میں زباں تو ہے پہ سخن کی نہیں ہے تاب
سینہ میں دل تو ہے پہ زبوں خستہ و خراب
لختِ دلِ بتولؓ کہاں اور میں کہاں
کرتا ہوں مدح اپنی سے تا پاؤں کچھ ثواب
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

نور وجدان

لائبریرین
اللہ جزائے خیر دے ..مقام عالی ... ان کا ایسا بلند مقام ہے کہ حق تو یہ ہے حق ادا نہ ہوا...لکھنے والے سعید روحیں ...جو ہمیں آگاہ کرتی ہیں کہ کربل کی خاک بھی خوش نصیب ہے اس کو اتنا عالی خون ملا ....حق! حق! کون ہے ان جیسا؟ کون ہے؟ نہ کوئ ہے نہ کوئ ہو سکتا ...اللہ ہمیں ان کے راستے پر سچا عامل بنائے کہ یہ قربانی ... تکمیل قربانی ابراہیم ہے ..یہ دو عظیم قربانیاں راہ حق والوں کے لیے نشانیاں ...اس راہ پہ چلنا کانٹوں کے بل ...پاؤں لہو سے بھرپور ...دامن تار تار مگر استقلال کا لباس پہنے راہ حق میں نفس کی قربانی دو ..نفس کو مسخر کرو ... اللہ آپ کا پہنچایا پیغام قبول و منظور فرمائے‍ آمین
 
دے کے سر شبیرؓ نے، اسلام زندہ کردیا
کربلا کو جسکے سجدے نے معلّیٰ کردیا

حشر تک کوئی یزیدی سر اٹھا سکتا نہیں
جس کا بدلہ زندگی بھر دین چکا سکتا نہیں
فاطمہؓ کے لعلؓ نے احسان ایسا کردیا

تیریؓ قربانی سے پہلے دین کو آیا نہ چین
انبیاء سے بھی مکمّل جو نہ ہو پایا، حسینؓ
ایک سجدے نے تیرےؓ وہ کام پورا کردیا

آج بھی نازاں و فائیں ہیں تیرے عبّاسؓ پر
نہر پر غازیؓ کے دونوں کٹ گئے بازو مگر
تا ابد اسلام کے پرچم کو اونچا کردیا

مار کر ابنِ علیؓ کو چھینی زینبؓ کی ردا
جب پڑھا کلمہ نبیؐ کا پھر سرِ کرب و بلا
آلِ احمدؐ کے لئے یوں حشر برپا کردیا

ناز سے نوکِ سناں پہ اُبھرا تھا جوّادؔ جو
کیسے بھولے گا زمانہ فاطمہؓ کے چاند کو
سر کٹا کے اُسؓ نے اپنا یوں اُجالا کردیا
 
تو نے بچپن سے مرے ناز اٹھائے یارب
وہ عنایت کیا جو تجھ سے کیا میں نے طلب

تیرا محبوب ﷺ بنا عید کو میرا مرکب
روزہ رکھا تو چھپا مہر نمایاں ہوئی شب

بھوک میں خلد کا کھانا مجھے امداد کیا
بھیج کر ہرنی کا بچہ مرا دل شاد کیا

اب اگر ہے یہ تری مصلحت اے ربِّ قدیر
ہو رواں حلق پہ اس پیاسے کے آبِ شمشیر

میرے مولا بہ سر و چشم ہے حاضر شبیر
حکمِ حاکم میں یہ طاقت ہے کروں میں تاخیر

جلد گردن پہ رواں، خنجرِ برّآں ہووے
اے خوشا وہ، جو تری راہ میں قرباں ہووے

غم نہیں کچھ مجھے گو بیکس و بے یار ہوں میں
زیرِ شمشیر گلا رکھنے کو تیار ہوں میں

تو مددگار ہے، مختار ہے لاچار ہوں میں
وقتِ مشکل ہے، عنایت کا طلبگار ہوں میں

تیرے سجدے میں یہ سر تن سے جدا ہو جاوے
عہدِ طفلی کا جو وعدہ ہے، وفا ہو جاوے

سختیاں مرگ کی کر اپنے کرم سے آساں
لب پہ تکبیر ہو، جب خلق پہ خنجر ہو رواں

دل میں ہو یاد تری، بند ہو جس وقت زباں
دم بھروں تیرا ہی تن سے جو نکلنے لگے جاں

بعدِ چہلم جو مجھے قبر میسر ہووے
زخمی تن پر نہ فشار اے مرے داور ہووے

رحم کر رحم کر شرمندہ ہوں اے بارِ خدا
بندگی کا ترے جو حق تھا ادا ہو نہ سکا

خوفِ محشر سے، بدن کانپتا ہے، سرتاپا
ہوگی اعمال کی پرسش تو، کہوں گا میں کیا؟

کوئی تحفہ ترے لائق نہیں پاتا ہے حُسینؓ
ہاتھ خالی ترے دربار میں آتا ہے حٌسینؓ

تقویت دل کو کرم سے ہے ترے یا رحماں
نہیں مایوس کہ رحمت ہے تری بے پایاں

مشکلیں بندوں کی کر دیتا ہے دم میں آساں
شکر الطاف و عنایات میں قاصر ہے زباں

عاصیوں سے بھی محبت نہیں کم کرتا ہے
جرم وہ کرتے ہیں تو لطف و کرم کرتا ہے

میں تری راہ میں مظلومی سے ہوتا ہوں فدا
تو ہے آگاہ کہ دو دن کا ہوں بھوکا پیاسا

چاہتا ہوں میں یہی، اپنی شہادت کا صلا
مغفرت امّتِ عاصی کی ہو اے بارِ خدا

ہے گوارا مجھے جو کچھ کہ اذیت ہووے
ان کو دنیا میں بھی عقبیٰ میں بھی راحت ہووے

عرض کرتے تھے یہ خالق سے شۂ بندہ نواز
یک بیک عالمِ بالا سے یہ آئی آواز

اے مرے شیرؓ کے فرزند، نبی ﷺ کے دمساز
تجھ سے ہم خوش ہیں پذیرا ہے ترا عجر و نیاز

مرد ہے عاشقِ کامل ہے، وفادار ہے تو
جو کہا وہ ہی کیا، صادق الاقرار ہے تو

تو بھی مقبول ہے اور تیری عبادت بھی قبول
یہ اطاعت بھی ہے مقبول، یہ طاعت بھی قبول

عاجزی بھی تری مقبول، شہادت بھی قبول
تیری خاطر سے ہمیں بخششِ امّت بھی قبول

ہم نے خیلِ شہدا کا تجھے سردار کیا
اٌمّتِ احمدِ مختار ﷺ کا مختار کیا

(میر انیسؔ)
 
ہزار سال سے جاری ہے روایتِ ماتم
لکھی گئی ہے لہو سے حکایتِ ماتم

ہے سوگوار فضا اور اداس اداس ہے دل
کہ کربلا کی زمیں ہے علامتِ ماتم

ہر ایک دور کے مظلوم کی کہانی ہے
زمانہ لکھتا ہے خود ہی صداقتِ ماتم

لبِ فرات دریدہ ہوا ہے مشکیزہ
یہ تیرِ ظلم تھا وجہِ قیامتِ ماتم

نمودِ صبح سے پہلے ہوئی سحر پیدا
بجھے چراغ نے دی ہے شہادتِ ماتم

وہ اہلِ بیت کے خیمے تھے جو جلائے گئے
یہ آگ بنتی گئی ہے نظامتِ ماتم

رموزِ غم سے ہمیں غم زدہ ہی واقف ہیں
اسی لیے ہیں امینِ وراثتِ ماتم

(ڈاکٹر محمد امین)
 
کب دبدبۂ جبر سے دبتے ہیں کہ جن کے
ایمان و یقیں دل میں کیے رہتے ہیں تنویر
معلوم ہے ان کو کہ رہا ہوگی کسی دن
ظالم کے گراں ہاتھ سے مظلوم کی تقدیر
آخر کو سرافراز ہوا کرتے ہیں احرار
آخر کو گرا کرتی ہے ہر جور کی تعمیر
ہر دور میں سر ہوتے ہیں قصر جم و دارا
ہر عہد میں دیوار ستم ہوتی ہے تسخیر
ہر دور میں ملعون شقاوت ہے شمرؔ کی
ہر عہد میں مسعود ہے قربانئ شبیرؓ

(فیض احمد فیضؔ)
 
شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؑ کا ہے (نظم)

شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؑ کا ہے
زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؑ کا ہے

فراتِ وقتِ رواں! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے

زمین کھا گئی کیا کیا بلند و بالا درخت
ہرا بھرا ہے جو اب بھی شجر حسینؑ کا ہے

سوالِ بیعتِ شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسینؑ کا ہے

کہاں کی جنگ کہاں جا کے سر ہوئی ہے کہ اب
تمام عالمِ خیر و خبر حسینؑ کا ہے

محبتوں کے حوالوں میں ذکر آنے لگا
یہ فضل بھی تو مرے حال پر حسینؑ کا ہے

حضورِ شافع محشرﷺ، علیؑ کہیں کہ یہ شخص
گناہ گار بہت ہے مگر حسینؑ کا ہے

از افتخار عارف
 
Top