محمد تابش صدیقی
منتظم
1
ادراک تھا امامؓ کو کیا ہے مقامِ عشق
سب کچھ نثار کر دیا اپنا بنامِ عشق
لے جا کے کربلا میں بھرا گھر لٹا دیا
حقا حسینؓ ابنِ علیؓ ہیں امام عشق
٭
2
لختِ دلِ بتول، وہ ابنِ علیؓ حسینؓ
لاریب عاشقانِ خدا کے ولی حسینؓ
ہو کر شہید زندۂ جاوید ہو گئے
لوحِ جہاں پہ نقش، بخطِ جلی حسینؓ
٭
3
خوں فشاں صبح و مسا چشمِ شفق
مشرق و مغرب کا سینہ بھی ہے شق
سوگ میں فطرت بھی ہے تیرے لیے
اے امامِ حق، شہیدِ راہِ حق
٭
4
کربلا میں ریگ زارِ لق و دق
اور تو اس میں شہیدِ راہِ حق
اے امامِ حق نہیں تجھ سا کوئی
دیکھ لے چاہے نظرؔ چودہ طبق
٭
5
ابھری ہوئی، نکھری ہوئی، چھائی ہوئی تنویر
اب دل میں سمائی ہوئی قرآن کی تفسیر
اے حسنِ دو عالم سے سجائی ہوئی تصویر
اے خلد نشیں، روحِ جناں حضرتِ شبیرؓ
٭
6
سبطِ رسولِ پاکؐ، وہ ابنِ علیؓ حسینؓ
جنگاہِ کربلا میں ہیں دیکھو وہی حسینؓ
جانِ عزیز دے دی، دیا دیں نہ ہاتھ سے
ظلمت کدہ میں سب کے لیے روشنی حسینؓ
٭
7
سینہ شفق کا چاک جو ہوتا ہے صبح و شام
شبنم بھی گریہ کرتی ہے شب بھر بہ التزام
سوچا کہ کیوں یہ ماتمِ فطرت ہے روز و شب
دل نے کہا بہ سلسلۂ حضرتِ امامؓ
٭
8
گردابِ غم میں دل کو ڈبو لوں تو کچھ کہوں
پلکوں میں آنسوؤں کو پرو لوں تو کچھ کہوں
ذکرِ حسینؓ آیا ہے اف کربلا کے ساتھ
جی بھر کے پہلے دوستو! رو لوں تو کچھ کہوں
٭
9
راہِ خدا میں دیکھتے آئے ہیں ہم یہ حال
سر دے دیا کسی نے، کسی نے دیا ہے مال
لیکن بہت بلند ہے سطحِ حسینیت
تاریخ میں نظرؔ نہیں آتی کوئی مثال
٭
10
حق ہو ستیزہ کار تو باطل ہو سر نگوں
دم بھر میں تار تار ہو شیرازۂ فسوں
دکھلا دیا حسینؓ نے اپنا بہا کے خوں
کرتے ہیں دیکھ سینۂ باطل کو چاک یوں
٭
11
کیا کیا نہ روزگار میں آئے ہیں انقلاب
دیکھی ہے واقعاتِ زمانہ کی ہر کتاب
لیکن نظر یہ بات بہ بانگِ دہل کہوں
قصہ نہیں ہے مثلِ حسینؓ ابنِ بو ترابؓ
٭
12
دولت بھی پاس کوئی، نہ مال و منال تھا
عشقِ خدائے لم یزل و ذوالجلال تھا
قربان گاہِ عشق پہ سب کر دیا نثار
سبطِ نبیؐ میں دیکھیے کیسا کمال تھا
٭
13
میدانِ کربلا میں ضیا بار حق ہوا
باطل کے ساتھ برسرِ پیکار حق ہوا
لبیک کہہ کے آلِ نبیؐ سرخرو ہوئے
ملنے کا ان سے جب کہ طلبگار حق ہوا
٭
14
گل پوش ہے کہاں کہ ہے پُرخار راہِ عشق
میدانِ کربلا ہے کہ قربان گاہِ عشق
ہو کر شہید سارے زمانہ سے پائی داد
لاریب سب حسینؓ سے قائم ہے جاہِ عشق
٭
15
ماضی سے دیکھتے چلے آئے ہیں تا بہ حال
ایثار ہے حسینؓ کا بے مثل و بے مثال
مردانِ عشق پیشہ کو وہ روشنی ملی
لاریب تا قیامِ قیامت ہے لازوال
٭
16
بستانِ فاطمہ کے یہ خوش رنگ پھول ہیں
میدانِ کربلا میں یہ آلِ رسولؐ ہیں
فتنوں کو دیکھ دینِ خدا میں ملول ہیں
بہرِ جہاد جمع ہیں، سب با اصول ہیں
٭
17
فتنہ ہائے گوناگوں میں گھر گئی جانِ حسینؓ
شاہدِ عینی ہے اس کا ربِّ منانِ حسینؓ
دردِ دل اٹھے ہمیشہ خیر مقدم کے لیے
ہم سے ملنے آئے جب شامِ غریبانِ حسینؓ
٭
18
سکون و صبر و ضبط سب فرار دل سے ہو گئے
قسم ہے اس خدا کی جو سمیع بھی، مجیب بھی
ہزار داستاں سنی بگوشِ ہوش اے نظرؔ
مگر ہے قصۂ حسیںؓ عجیب بھی غریب بھی
٭
19
وہ داستانِ غم ہے شہِ دیں پناہ کی
جس نے سنی ہے، جب بھی سنی، دل سے آہ کی
ابلیسیوں کے کارِ لعیں پر جو کی نظرؔ
ابلیس نے بھی شرم سے نیچی نگاہ کی
٭
20
قصہ ہے الگ سب سے کہ ہے سب سے جدا تو
سن کر ترے قصے کو ہر اک آنکھ میں آنسو
وہ کام کیا ابنِ علیؓ تو نے کہ اب تک
بستی ہے ہر اک دل میں ترے پیار کی خوشبو
٭
21
اے ربِ ذو المنن تو بڑا صاحبِ کرم
جو کچھ دیا بہت ہے، نہ ہرگز کہیں گے کم
لیکن یہ کیا ہوا مجھے دے کر غمِ حسینؓ
دل ایک ہی دیا پئے اظہارِ سوزِ غم
٭
22
لیجیے جو نام ان کا، فیض بخش و با برکت
دیکھیے جو کا م ان کا، پُرشکوہ و پُرعظمت
سوچیے مقام ان کا، جن کے پاؤں میں جنت
سینکڑوں سلام ان پر اور ہزارہا رحمت
٭
23
اے عشق کی خوشبو میں بسی حسن کی تصویر
اے میانِ شجاعت کی چمکتی ہوئی شمشیر
سرخیلِ شہیدانِ وفا مردِ حق آگاہ
اے ابنِ علیؓ، سبطِ نبیؐ، حضرتِ شبیرؓ
٭
24
منہ میں زباں تو ہے پہ سخن کی نہیں ہے تاب
سینہ میں دل تو ہے پہ زبوں خستہ و خراب
لختِ دلِ بتولؓ کہاں اور میں کہاں
کرتا ہوں مدح اپنی سے تا پاؤں کچھ ثواب
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
ادراک تھا امامؓ کو کیا ہے مقامِ عشق
سب کچھ نثار کر دیا اپنا بنامِ عشق
لے جا کے کربلا میں بھرا گھر لٹا دیا
حقا حسینؓ ابنِ علیؓ ہیں امام عشق
٭
2
لختِ دلِ بتول، وہ ابنِ علیؓ حسینؓ
لاریب عاشقانِ خدا کے ولی حسینؓ
ہو کر شہید زندۂ جاوید ہو گئے
لوحِ جہاں پہ نقش، بخطِ جلی حسینؓ
٭
3
خوں فشاں صبح و مسا چشمِ شفق
مشرق و مغرب کا سینہ بھی ہے شق
سوگ میں فطرت بھی ہے تیرے لیے
اے امامِ حق، شہیدِ راہِ حق
٭
4
کربلا میں ریگ زارِ لق و دق
اور تو اس میں شہیدِ راہِ حق
اے امامِ حق نہیں تجھ سا کوئی
دیکھ لے چاہے نظرؔ چودہ طبق
٭
5
ابھری ہوئی، نکھری ہوئی، چھائی ہوئی تنویر
اب دل میں سمائی ہوئی قرآن کی تفسیر
اے حسنِ دو عالم سے سجائی ہوئی تصویر
اے خلد نشیں، روحِ جناں حضرتِ شبیرؓ
٭
6
سبطِ رسولِ پاکؐ، وہ ابنِ علیؓ حسینؓ
جنگاہِ کربلا میں ہیں دیکھو وہی حسینؓ
جانِ عزیز دے دی، دیا دیں نہ ہاتھ سے
ظلمت کدہ میں سب کے لیے روشنی حسینؓ
٭
7
سینہ شفق کا چاک جو ہوتا ہے صبح و شام
شبنم بھی گریہ کرتی ہے شب بھر بہ التزام
سوچا کہ کیوں یہ ماتمِ فطرت ہے روز و شب
دل نے کہا بہ سلسلۂ حضرتِ امامؓ
٭
8
گردابِ غم میں دل کو ڈبو لوں تو کچھ کہوں
پلکوں میں آنسوؤں کو پرو لوں تو کچھ کہوں
ذکرِ حسینؓ آیا ہے اف کربلا کے ساتھ
جی بھر کے پہلے دوستو! رو لوں تو کچھ کہوں
٭
9
راہِ خدا میں دیکھتے آئے ہیں ہم یہ حال
سر دے دیا کسی نے، کسی نے دیا ہے مال
لیکن بہت بلند ہے سطحِ حسینیت
تاریخ میں نظرؔ نہیں آتی کوئی مثال
٭
10
حق ہو ستیزہ کار تو باطل ہو سر نگوں
دم بھر میں تار تار ہو شیرازۂ فسوں
دکھلا دیا حسینؓ نے اپنا بہا کے خوں
کرتے ہیں دیکھ سینۂ باطل کو چاک یوں
٭
11
کیا کیا نہ روزگار میں آئے ہیں انقلاب
دیکھی ہے واقعاتِ زمانہ کی ہر کتاب
لیکن نظر یہ بات بہ بانگِ دہل کہوں
قصہ نہیں ہے مثلِ حسینؓ ابنِ بو ترابؓ
٭
12
دولت بھی پاس کوئی، نہ مال و منال تھا
عشقِ خدائے لم یزل و ذوالجلال تھا
قربان گاہِ عشق پہ سب کر دیا نثار
سبطِ نبیؐ میں دیکھیے کیسا کمال تھا
٭
13
میدانِ کربلا میں ضیا بار حق ہوا
باطل کے ساتھ برسرِ پیکار حق ہوا
لبیک کہہ کے آلِ نبیؐ سرخرو ہوئے
ملنے کا ان سے جب کہ طلبگار حق ہوا
٭
14
گل پوش ہے کہاں کہ ہے پُرخار راہِ عشق
میدانِ کربلا ہے کہ قربان گاہِ عشق
ہو کر شہید سارے زمانہ سے پائی داد
لاریب سب حسینؓ سے قائم ہے جاہِ عشق
٭
15
ماضی سے دیکھتے چلے آئے ہیں تا بہ حال
ایثار ہے حسینؓ کا بے مثل و بے مثال
مردانِ عشق پیشہ کو وہ روشنی ملی
لاریب تا قیامِ قیامت ہے لازوال
٭
16
بستانِ فاطمہ کے یہ خوش رنگ پھول ہیں
میدانِ کربلا میں یہ آلِ رسولؐ ہیں
فتنوں کو دیکھ دینِ خدا میں ملول ہیں
بہرِ جہاد جمع ہیں، سب با اصول ہیں
٭
17
فتنہ ہائے گوناگوں میں گھر گئی جانِ حسینؓ
شاہدِ عینی ہے اس کا ربِّ منانِ حسینؓ
دردِ دل اٹھے ہمیشہ خیر مقدم کے لیے
ہم سے ملنے آئے جب شامِ غریبانِ حسینؓ
٭
18
سکون و صبر و ضبط سب فرار دل سے ہو گئے
قسم ہے اس خدا کی جو سمیع بھی، مجیب بھی
ہزار داستاں سنی بگوشِ ہوش اے نظرؔ
مگر ہے قصۂ حسیںؓ عجیب بھی غریب بھی
٭
19
وہ داستانِ غم ہے شہِ دیں پناہ کی
جس نے سنی ہے، جب بھی سنی، دل سے آہ کی
ابلیسیوں کے کارِ لعیں پر جو کی نظرؔ
ابلیس نے بھی شرم سے نیچی نگاہ کی
٭
20
قصہ ہے الگ سب سے کہ ہے سب سے جدا تو
سن کر ترے قصے کو ہر اک آنکھ میں آنسو
وہ کام کیا ابنِ علیؓ تو نے کہ اب تک
بستی ہے ہر اک دل میں ترے پیار کی خوشبو
٭
21
اے ربِ ذو المنن تو بڑا صاحبِ کرم
جو کچھ دیا بہت ہے، نہ ہرگز کہیں گے کم
لیکن یہ کیا ہوا مجھے دے کر غمِ حسینؓ
دل ایک ہی دیا پئے اظہارِ سوزِ غم
٭
22
لیجیے جو نام ان کا، فیض بخش و با برکت
دیکھیے جو کا م ان کا، پُرشکوہ و پُرعظمت
سوچیے مقام ان کا، جن کے پاؤں میں جنت
سینکڑوں سلام ان پر اور ہزارہا رحمت
٭
23
اے عشق کی خوشبو میں بسی حسن کی تصویر
اے میانِ شجاعت کی چمکتی ہوئی شمشیر
سرخیلِ شہیدانِ وفا مردِ حق آگاہ
اے ابنِ علیؓ، سبطِ نبیؐ، حضرتِ شبیرؓ
٭
24
منہ میں زباں تو ہے پہ سخن کی نہیں ہے تاب
سینہ میں دل تو ہے پہ زبوں خستہ و خراب
لختِ دلِ بتولؓ کہاں اور میں کہاں
کرتا ہوں مدح اپنی سے تا پاؤں کچھ ثواب
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی