سلمان حمید
محفلین
میں نے ایک عرصے کے بعد قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا.
"کیا لکھوں؟" خود سے سوال کیا تو دل و دماغ میں ہلچل سی ہونے لگی. شاید دل اور دماغ مشورہ کرنے میں مصروف ہو گئے اور اندر دبے بیسیوں خیالات آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے تھے کہ جیسے ٹوہ میں لگے ہوں کہ دیکھیں، کس کا بلاوا آتا ہے.
کچھ دیر تک جواب نہ ملا تو میں نے لا شعوری طور پر قلم اٹھا لیا. دماغ کے قید خانے میں مقفل خیالات کو جیسے کنکریٹ کی دیوار میں سے جھانکتی روشنی کی ایک لکیر نظر آ گئی تھی. اس چار دیواری میں کھلبلی مچ گئی اور ہر قیدی اس درز کی طرف لپکا کہ یہ باہر نکلنے کا رستہ تھا اور ہر کوئی چاہتا تھا کہ سب سے پہلے آزادی پانے والا وہی ہو. اس بھاگ دوڑ میں اس بلا کا شور ہوا کہ درو دیوار جھنجھنا اٹھے اور میں نے گھبرا کے قلم رکھ دیا.
شور تھم سا گیا تھا. کسی نے اس درز کے آگے باہر کی جانب سے پتھر کھسکا دیا تھا. ہر قیدی الٹے پاؤں اپنی اپنی دیوار کے ساتھ لگ گیا اور ان میں سے کچھ اپنے ناخنوں سے پہلے کی طرح دیواریں کھرچنے لگے.
"اف، یہ جب اپنے ناخن دیوار پر رگڑتے ہیں تو بہت الجھن ہوتی ہے. ایسے لگتا ہے دماغ کے اندر کوئی کیڑا کلبلا رہا ہو. بلکہ ایک نہیں بہت سارے کیڑے رینگ رہے ہوں." میں نے خود کلامی کی.
"تم ایک ہی بار قید خانے کا دروازہ کھول کیوں نہیں دیتے. "اندر سے بالآخر جواب آ ہی گیا.
" پاگل ہو کیا؟ لوگوں کا ایک مجمع ہے باہر جو خریداروں کی طرح سونگھنے، ماپنے اور اچھی طرح جانچ پڑتال کرنے والے آلات سے لیس کھڑا ہے. تمسخر اڑائیں گے میرا." میں اس جواب پر خوش نہیں تھا.
"اندر سے سب سے بہترین خیال نکالو اور میرے حوالے کرو، پہلے ہی میں نے بڑی مشکل سے وقت نکالا ہے." میں نے اکھڑ لہجے میں حکم چلایا تھا. قلم میرے سامنے دھرے کاغذ پر ترچھا پڑا تھا.
اندر بند قیدیوں میں پھر سے سرگوشیاں شروع ہو گئی تھیں.
"تم اگر غور کرو تو تمہارے پاس اتنا کچھ ہے کہ یہ آزاد ہوتے ہی باہر کھڑا مجمع روند ڈالیں گے." اندر سے کوئی ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھا.
دل ہی ہو گا یہ کمبخت کیونکہ ایسے عجیب و غریب مشورے وہی دیا کرتا ہے اکثر. میں نے بے زاری سے سوچا.
"اور جو اتنے سارے باہر کھڑے ان ظالموں کے ہاتھوں مارے جائیں گے وہ؟" میرا لہجہ دل کو کچا چبا جانے والا تھا.
"اندر بھی وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں گے." دل کمبخت جب بھی لاجواب کرتا ہے بہت دن کے لیے بے چینی پیدا کر دیتا ہے. میں نے کوفت سے سوچا اور زنگ آلود تالے میں چابی گھما نے لگا.
دروازہ کھلنے کی دیر تھی کہ میں خود روندا گیا. کچھ لمحوں تک تو مجھے دن میں تارے دکھائی دیتے رہے. میں اوندھے منہ گرا ایک ہاتھ سے زمین ٹٹولتا رہا اور عینک ملتے ہی ناک پر رکھی تو سارا دھندلا منظر صاف ہو گیا. عینک لگا کر میں نے پاس پڑا قلم اٹھا لیا. دیکھتے ہی دیکھتے سارے قیدی کافی دور پہنچ گئے. میری توقع کے عین مطابق باہر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ گھات لگا کر بیٹھے نشانے لگا رہے تھے. ایک ایک کر کے میرے آزاد کردہ قیدی زمیں بوس ہو رہے تھے اور گرتے ہی مٹی میں مل کر راکھ ہو جاتے. مجھے خود پر بہت غصہ آ رہا تھا جو میں پھر دل کی باتوں میں آ گیا تھا.
میں مضبوطی سے قلم تھامے نظریں جھکائے کاغذ کالے کرتا چلا گیا جیسے دل کا غصہ قلم اور کاغذ پر نکال رہا تھا. میں شرمندگی کے مارے نظریں اٹھا کر لوگوں کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا. عینک اتار کر صاف کر کے دوبارہ نظر گھمائی تو میدان صاف پایا. کچھ نہیں چھوڑا ظالموں نے. مجھے لکھنا ہی نہیں چاہئے. غصے کی حالت میں زمین پر گرا تالا اٹھا کر قید خانے کے دروازے َکی طرف بڑھا تو دل کھڑا مسکرا رہا تھا.
"مجھے بیوقوف بنا کر ہنس رہا ہے کمبخت." میں نے سر جھٹک دیا تو دل نے ایک طرف اشارہ کیا.
میں نے اس کے اشارے کا تعاقب کیا تو بے یقینی سے قدم لڑکھڑا گئے. بہت دور ایک قیدی ہر کسی کی نظروں سے بچ بچا کر سر پٹ بھاگا چلا جا رہا تھا.
"ایسی رفتار تو منزل کے پاس پہنچ جانے والے کی ہوتی ہے. " میں نے لا شعوری طور پر اپنے آپ سے استفسار کیا تو دل نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا.
دل کا اگلا اشارہ قید خانے کے کھلے دروازے کی طرف تھا جہاں اس کشمکش کے دوران پنپنے والے بیسیوں اور، باہر ہر کسی کو روند دینے کے ارادے سے میرے قلم کے بس ایک اشارے کے منتظر کھڑے تھے.
"کیا لکھوں؟" خود سے سوال کیا تو دل و دماغ میں ہلچل سی ہونے لگی. شاید دل اور دماغ مشورہ کرنے میں مصروف ہو گئے اور اندر دبے بیسیوں خیالات آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے تھے کہ جیسے ٹوہ میں لگے ہوں کہ دیکھیں، کس کا بلاوا آتا ہے.
کچھ دیر تک جواب نہ ملا تو میں نے لا شعوری طور پر قلم اٹھا لیا. دماغ کے قید خانے میں مقفل خیالات کو جیسے کنکریٹ کی دیوار میں سے جھانکتی روشنی کی ایک لکیر نظر آ گئی تھی. اس چار دیواری میں کھلبلی مچ گئی اور ہر قیدی اس درز کی طرف لپکا کہ یہ باہر نکلنے کا رستہ تھا اور ہر کوئی چاہتا تھا کہ سب سے پہلے آزادی پانے والا وہی ہو. اس بھاگ دوڑ میں اس بلا کا شور ہوا کہ درو دیوار جھنجھنا اٹھے اور میں نے گھبرا کے قلم رکھ دیا.
شور تھم سا گیا تھا. کسی نے اس درز کے آگے باہر کی جانب سے پتھر کھسکا دیا تھا. ہر قیدی الٹے پاؤں اپنی اپنی دیوار کے ساتھ لگ گیا اور ان میں سے کچھ اپنے ناخنوں سے پہلے کی طرح دیواریں کھرچنے لگے.
"اف، یہ جب اپنے ناخن دیوار پر رگڑتے ہیں تو بہت الجھن ہوتی ہے. ایسے لگتا ہے دماغ کے اندر کوئی کیڑا کلبلا رہا ہو. بلکہ ایک نہیں بہت سارے کیڑے رینگ رہے ہوں." میں نے خود کلامی کی.
"تم ایک ہی بار قید خانے کا دروازہ کھول کیوں نہیں دیتے. "اندر سے بالآخر جواب آ ہی گیا.
" پاگل ہو کیا؟ لوگوں کا ایک مجمع ہے باہر جو خریداروں کی طرح سونگھنے، ماپنے اور اچھی طرح جانچ پڑتال کرنے والے آلات سے لیس کھڑا ہے. تمسخر اڑائیں گے میرا." میں اس جواب پر خوش نہیں تھا.
"اندر سے سب سے بہترین خیال نکالو اور میرے حوالے کرو، پہلے ہی میں نے بڑی مشکل سے وقت نکالا ہے." میں نے اکھڑ لہجے میں حکم چلایا تھا. قلم میرے سامنے دھرے کاغذ پر ترچھا پڑا تھا.
اندر بند قیدیوں میں پھر سے سرگوشیاں شروع ہو گئی تھیں.
"تم اگر غور کرو تو تمہارے پاس اتنا کچھ ہے کہ یہ آزاد ہوتے ہی باہر کھڑا مجمع روند ڈالیں گے." اندر سے کوئی ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھا.
دل ہی ہو گا یہ کمبخت کیونکہ ایسے عجیب و غریب مشورے وہی دیا کرتا ہے اکثر. میں نے بے زاری سے سوچا.
"اور جو اتنے سارے باہر کھڑے ان ظالموں کے ہاتھوں مارے جائیں گے وہ؟" میرا لہجہ دل کو کچا چبا جانے والا تھا.
"اندر بھی وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں گے." دل کمبخت جب بھی لاجواب کرتا ہے بہت دن کے لیے بے چینی پیدا کر دیتا ہے. میں نے کوفت سے سوچا اور زنگ آلود تالے میں چابی گھما نے لگا.
دروازہ کھلنے کی دیر تھی کہ میں خود روندا گیا. کچھ لمحوں تک تو مجھے دن میں تارے دکھائی دیتے رہے. میں اوندھے منہ گرا ایک ہاتھ سے زمین ٹٹولتا رہا اور عینک ملتے ہی ناک پر رکھی تو سارا دھندلا منظر صاف ہو گیا. عینک لگا کر میں نے پاس پڑا قلم اٹھا لیا. دیکھتے ہی دیکھتے سارے قیدی کافی دور پہنچ گئے. میری توقع کے عین مطابق باہر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ گھات لگا کر بیٹھے نشانے لگا رہے تھے. ایک ایک کر کے میرے آزاد کردہ قیدی زمیں بوس ہو رہے تھے اور گرتے ہی مٹی میں مل کر راکھ ہو جاتے. مجھے خود پر بہت غصہ آ رہا تھا جو میں پھر دل کی باتوں میں آ گیا تھا.
میں مضبوطی سے قلم تھامے نظریں جھکائے کاغذ کالے کرتا چلا گیا جیسے دل کا غصہ قلم اور کاغذ پر نکال رہا تھا. میں شرمندگی کے مارے نظریں اٹھا کر لوگوں کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا. عینک اتار کر صاف کر کے دوبارہ نظر گھمائی تو میدان صاف پایا. کچھ نہیں چھوڑا ظالموں نے. مجھے لکھنا ہی نہیں چاہئے. غصے کی حالت میں زمین پر گرا تالا اٹھا کر قید خانے کے دروازے َکی طرف بڑھا تو دل کھڑا مسکرا رہا تھا.
"مجھے بیوقوف بنا کر ہنس رہا ہے کمبخت." میں نے سر جھٹک دیا تو دل نے ایک طرف اشارہ کیا.
میں نے اس کے اشارے کا تعاقب کیا تو بے یقینی سے قدم لڑکھڑا گئے. بہت دور ایک قیدی ہر کسی کی نظروں سے بچ بچا کر سر پٹ بھاگا چلا جا رہا تھا.
"ایسی رفتار تو منزل کے پاس پہنچ جانے والے کی ہوتی ہے. " میں نے لا شعوری طور پر اپنے آپ سے استفسار کیا تو دل نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا.
دل کا اگلا اشارہ قید خانے کے کھلے دروازے کی طرف تھا جہاں اس کشمکش کے دوران پنپنے والے بیسیوں اور، باہر ہر کسی کو روند دینے کے ارادے سے میرے قلم کے بس ایک اشارے کے منتظر کھڑے تھے.
آخری تدوین: