لبرل ازم ( آزاد خیالی)ایک جھوٹ اور دھوکہ ہے

x boy

محفلین
لبرل ازم ( آزاد خیالی)ایک جھوٹ اور دھوکہ ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کا غلام بنادیتا ہے
تحریر: ابن نصرۃ

لبرل ازم کے بنیادی تصورات سترویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے درمیان برطانیہ میں نمودار ہوئے اور نشونما پائے۔ ان صدیوں میں لبرل ازم کے تصورات اپنے مخالفوں کے خلاف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ لوکی نے لبرل تصورات کو بادشاہت کے خلاف برطانوی تاجروں کی اشرافیہ کی حمائت میں استعمال کیا؛ اور افادیت(Utilitarian) کے نظریات کے حامل فلاسفروں نے لبرل ازم کو برطانوی سرمایہ داروں کی حمائت میں جاگیر داروں کے خلاف استعمال کیا۔اسی دوران انتہاء پسند فرانسیسی انقلابیوں نے خفیہ برطانوی حمائت سے لبرل ازم کو اپنی ریاست اور یورپ کی دوسری ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ امریکی سرمایہ داروں کے ایک گروہ نے اس تصور کو برطانیہ میں ایک گروہ کے خلاف استعمال کیا ۔ لبرل ازم کو بین الاقوامی سطح پر عثمانی خلافت کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس کے خاتمے کے بعد اس تصور کو نئی دشمن آئیڈیالوجیز (نظریہ حیات) فاشزم اور کمیونزم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بل آخر اکیسویں صدی میں ایک بار پھر لبرل ازم کو اسلامی آئیڈیا لوجی کو اُبھرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ لہذا مخلص مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لبرل ازم کے فلسفے کو جانیں اور مغرب کے ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر اس کا فہم حاصل کریں ۔
لبرل ازم آزادی کے تصور کی ترجمانی کرتا ہے(یہ لاطینی لفظ لیبر جس کا مطلب آزاد ہے سے نکلا ہے)، جو کہ ایک بہت ہی پُرکشش نعرہ ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کا استحصال کیا جارہا ہو لیکن اس کا اصل مطلب عام زبان میں استعمال ہونے والے معنی سے مختلف ہے۔ لبرل کے عام معنی آزادی کے ہی ہیں یعنی کسی مخصوص روکاوٹ سے نجات حاصل کرنا جیسا کہ غلامی سے آزادی یا فوجی قبضے سے آزادی وغیرہ۔ لیکن سیاسی لحاظ سے آزادی کے معنی جیسا کہ لبرل ازم نے واضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے عمل اختیار کرسکے۔ لہذا سیاسی معنوں میں آزادی کا مطلب یہ تصور بن گیا کہ انسان خودمختار(اقتدار اعلیٰ) ہے۔
یہ ضروری ہے کہ آزادی کے عام معنوں سے ہٹ کر انسان کے خودمختار بننے کے تصور اور اس کے نتائج کو سمجھا جائے۔ انسان کی خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کی زندگی میں اپنے لیے راہ کا تعین خود کرے، اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی اور طاقت اور اقتدار اعلیٰ کے سامنے جھک جائے چاہے وہ ایسا اپنی مرضی سے ہی کیوں نہ کرے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص آزادنہ طور پر بادشاہت کے زیر سایہ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس نے اپنے اقتدار اعلیٰ(خود مختاری) سے دست برداری اختیار کرلی اور اس طرح اُس نے لبرل ازم کے تحت آزادی کے معنی کے الٹ راہ اختیار کی۔ انسان کا خودمختار (مقتدر) ہونا ہی وہ آزادی کا مقبول عام تصور ہے جو کہ مغربی تہذیب اور زندگی کے پیشتر نظاموں کی بنیاد ہے خصوصاً اس کے لبرل جمہوری حکومتی نظام اور اس سے نکلنے والے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی۔
آزادی کا مطلب طاقتور کے ہاتھوں انسان کی غلامی ہے
لبرل ازم آزادی کا مسحورکُن لیکن دھوکے پر مبنی تصور ہے ،جو طاقتوروں کے ہاتھ میں ایک انتہائی مہلک ہتھیار ہے۔ حقیقت میں ایک واحد انسان یا فرد روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا؛ لہذا بل آخر یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے تجویز کردہ حل کو ہی اختیار کرتا ہے۔ لبرل معاشروں میں طاقتور لوگ مسائل کے اُن جوابات کی ترویج کرتے ہیں جو ان کے مفادات کو پورا کرنے کا باعث بنتے ہوں چاہے اس سے ایک عام شہری کا حق ہی کیوں نہ مارا جارہا ہو۔ سرمایہ دارانہ معیشت کاروباری اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور "نمائندہ " جمہوریت سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ لبرل ازم کے تحت حاصل آزادی دراصل ایک عام آدمی کی طاقتوروں کے ہاتھوں غلامی ہے۔
حقیقت میں انسان اس بات کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ وہ اپنی ذات میں خود اپنے آپ پر مقتدرہو۔ اقتدار اعلیٰ صرف اُسی کے لیے ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور صرف وہی ہے جو یہ جانتا کہ اُس نے انسان کو کیوں پیدا کیا اور صرف اُسی کے پاس انسان کی فطرت کے متعلق مکمل علم ہے۔ اپنے لیے غلط طریقے سے اقتدار اعلیٰ کا منصب حاصل کر کےاپنیخدائیکااعلانکردیاہے اور اس حق کو چھین لیا جو صرف اور صرف اُس ذات کے لیے مخصوص ہے جس نے اُسے پیدا کیا ہے ۔
انسان نے خود کو پیدا نہیں کیا بلکہ اسے پیدا کیا گیا ، انسان خود سے اپنی زندگی کا مقصد نہیں جانتا اورنہ ہی انسان کے پاس اپنی فطرت سے متعلق مکمل اور صحیح علم موجود ہے۔ انسان اس قابل ہی نہیں کے خود اپنے آپ پر مقتدر ہو بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی دوسری پیدا کی گئی یا بنائی گئی چیز خود پر مقتدر نہیں ہوتی یعنی وہ یہ نہیں جان سکتیں کہ انھیں کیوں بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کا انکار کرنے والے بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے، لہذا انسان کے لیے مقتدر ہونے کا دعویٰ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جس طرح انسان نے یہ دیکھا کہ اسے پیدا کیا گیا ویسے ہی اُسے اِس بات کی جستجو کرنی چاہیے کہ کس نے اُسے پیدا کیا ہے تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی عظمت کا معترف ہوسکے کیونکہ وہی اصل مقتدر ہے۔
لبرل ازم مذہب کا دشمن ہے
عیسائیت کے زیر سایہ ہزار برس سے بھی زائد عرصے تک رہنے کے بعد مغرب نے مذہب کو زندگی سے جدا کردیا اور لبرل ازم کو نئی تہذیب کی بنیاد کے طور پر اختیار کرلیا۔ لبرل ازم نے عیسائی دنیا کو یہ سوچ دے کر دھوکہ دیا کہ مذہبی آزادی کے تصور کے تحت وہ اپنے مذہب پر جس طرح چاہیں عمل کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں لبرل ازم مذہب کا مخالف تصور ہے جو تمام مذاہب کا دشمن ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عمل اختیار کرے۔ مذہب انسان کو ایک مخصوص نظم و ضبط کا پابند کرتا ہے چاہے وہ نظم و ضبط اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہو یا صرف اخلاقی اور روحانی مسائل تک محدود ہو۔
لبرل ازم براہ راست مذہب سے ٹکراتا ہے کیونکہ لبرل ازم انسان سے اس بات کا تقاضع کرتا ہے کو وہ خود کو صرف اور صرف لبرل تصور کا پابند بنائے ۔ لبرل ازم اللہ سبحانہ و تعالی کی جگہ انسان کو رب بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کا نقاب کو مسترد کرنا لبرل ازم کے عین مطابق ہے۔ نقاب اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کی خواہش کا پابند کردیا ہے اور یہ چیز پورے لبرل مغربی دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے چاہے ان تمام ممالک نے اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان مذہب کا پابند نہیں ہوسکتا ۔ ایک لبرل انسان مذہب کی کچھ باتوں پر عمل یا اجتناب اختیارکرسکتا ہے لیکن ایسا وہ اپنی مرضی اور خواہش کے تحت ہی کرتا ہے۔
لبرل انسان اپنے رب کی نہیں بلکہ خود اپنی پرستش کرتا ہے۔ یہ اس مقتدر کی پرستش ہے جسے اُس نے خود اپنے لیے چُنا ہے کہ اُس نے کس طرح سے سوچنا ہے اور اپنی خوشی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ خود کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے بلکہ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہے۔ لبرل انسان اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے جب وہ کسیمسلمان کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ شراب پیتا ہوا بھی دیکھتا ہے۔ لبرل اس طرح کے مسلمان کو "اعتدال پسند" سمجھتا ہے، جس سے اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مذہب میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان اس شخص سے شدید نفرت کرتا ہے جو خود کو اپنے رب کے سامنے مکمل طور جھکا دیتا ہے۔
آزادی نہیں ذمہ داری
آزادی کے اس تصور نے جس چیزکو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ انسان کا ذاتی احساس ذمہ داری کا تصور ہے۔ انسان کو تخلیق کرنے والے رب نے اُس کو اپنی تمام تر تخلیقات سے برتر قرار دیا ہے کیونکہ رب نے اُسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے جس کے ذریعے وہ صراط مستقیم اور بدی کی راہ کے درمیان تفریق اور کسی ایک کا چُناؤ کرسکتا ہے۔ اسلام میں ہر بالغ، عاقل فرد ہر اس معاملے میں ذمہ دار اور قابل احتساب تصور کیا جاتا ہےجس کو اس کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہو(فقہ کی اصطلاح میں انسان "مکلف"ہے)۔ لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو اٹھائے جو اس پر ڈالی گئی ہے نہ کہ وہ یہ کہے کہ میں آزاد ہوں چاہوں تو اپنی ذمہ داری ادا کروں چاہوں تو نہ کروں۔ انسان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور وہ اپنے اس فیصلے پر قیامت کے دن جوابدہ ہوگا۔
ذمہ داری اور احتساب ، آزادی سے ایک بالکل مختلف شے ہے۔ آزادی تباہ کُن، باغیانہ اور مفاد پرستی کا تصور ہے جو انسان کو اپنی خواہشات اور مفاد کے تحت چلنے کی تعلیم دیتا ہے چاہے یہ اس کے لیے یا کسی دوسرے کے لیے کتنا ہی نقصان کا باعث ہی کیوں نہ ہو۔ ذمہ داری اس بات کا تقاضع کرتی ہے کہ انسان اس بات سے باخبر ہو کہ اس کے اٹھائے جانے والے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ نکلے گا۔ ہر عاقل و بالغ شخص اس قابل ہوتا ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں اپنے اعمال پر ذمہ دار ہو سکے کیونکہ وہ اس قابل ہوتا ہے کہ یہ جان سکے کہ اس کے اٹھائے ہوئے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ یقیناً تمام مذاہب انسان کو اس دنیا کی زندگی میں اپنے اعمال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب انسان کو آزادی فراہم نہیں کرتا ۔
لبرل ازام ایک جھوٹا فلسفہ ہے جس نے کئی نسلوں کو دھوکہ دیا اورعملاً طاقتور کو اقتدار اعلیٰ دے کر دنیا میں جبر اور استحصال کا ماحول پیدا اور عام کیا۔ یہ تصور پہلے ہی عیسائی اور اسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے جنھوں نے دنیا پر ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک اپنی بالادستی برقرار رکھی تھی۔ اب اس تصور کو اسلام کو دوبارہ ایک بالادست قوت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لبرل ازم اپنی بنیاد سے ہی غلط ہے۔ لبرل ازم کے فلسفے میں کی جانے والی تبدیلیاں اس کی غلطی اور جھوٹ کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔ لبرل ازم کو مکمل طور پر مسترد کرنا ضروری ہے جس میں مسائل پر سوچنے اور ان کے حل تک پہنچنے کا طریقہ کار بھی شامل ہے جو کہ اس غلط تصور پر قائم ہے۔ مغربی تہذیب کو لازماً ختم کردینا چاہیے اور اس کی جگہ مذہب کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب کو کھڑا کرنا چاہیے تا کہ انسان دوسرے انسانوں کی غلامی اور پرستش سے آزادی حاصل کرکے صرف اور صرف اپنے رب کی ہی عبادت کرسکے۔
تحریر: ابن نصرۃ
 

arifkarim

معطل
لبرل ازام ایک جھوٹا فلسفہ ہے جس نے کئی نسلوں کو دھوکہ دیا اورعملاً طاقتور کو اقتدار اعلیٰ دے کر دنیا میں جبر اور استحصال کا ماحول پیدا اور عام کیا۔ یہ تصور پہلے ہی عیسائی اور اسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے جنھوں نے دنیا پر ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک اپنی بالادستی برقرار رکھی تھی۔ اب اس تصور کو اسلام کو دوبارہ ایک بالادست قوت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لبرل ازم اپنی بنیاد سے ہی غلط ہے۔ لبرل ازم کے فلسفے میں کی جانے والی تبدیلیاں اس کی غلطی اور جھوٹ کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔ لبرل ازم کو مکمل طور پر مسترد کرنا ضروری ہے جس میں مسائل پر سوچنے اور ان کے حل تک پہنچنے کا طریقہ کار بھی شامل ہے جو کہ اس غلط تصور پر قائم ہے۔ مغربی تہذیب کو لازماً ختم کردینا چاہیے اور اس کی جگہ مذہب کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب کو کھڑا کرنا چاہیے تا کہ انسان دوسرے انسانوں کی غلامی اور پرستش سے آزادی حاصل کرکے صرف اور صرف اپنے رب کی ہی عبادت کرسکے۔
بالکل بکواس! مغربی دنیا نے اسی لبرل ازم پر چل کر پوری دنیا کو فتح کیا اور اپنا جدید نظام زندگی کا لوحا مشرق سے مغرب تک منوایا۔عظیم جنگوں میں بھی آمریتوں اور فاشسٹوں کو اسی لبرل ازم نے شکست کا مزح چکھایا اور اہل مغرب کو عیسائی پادریوں، کلیسا کے مظالم اور اندھی تقلیدی مذہبی نظریات پر چلنے سے بھی بچایا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Liberalism
دوسرے انسانوں کی سب سے زیادہ غلامی تو خود شدت پسند اسلامی قوانین پر قائم ممالک میں سب سے زیادہ ہو رہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران میں جو انسانی حقوق اور اقدار کا فقدان ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Human_rights_in_the_Islamic_Republic_of_Iran
http://en.wikipedia.org/wiki/Human_rights_in_Saudi_Arabia

آج بھی اگر کسی تنگ دست مسلمان کو کسی اسلامی یا مغربی لبرل جمہوریت والے ملک میں نقل مکانی کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ مغرب ہی جانا پسند کرے گا۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Liberal_democracy
 

x boy

محفلین
بالکل بکواس! مغربی دنیا نے اسی لبرل ازم پر چل کر پوری دنیا کو فتح کیا اور اپنا جدید نظام زندگی کا لوحا مشرق سے مغرب تک منوایا۔عظیم جنگوں میں بھی آمریتوں اور فاشسٹوں کو اسی لبرل ازم نے شکست کا مزح چکھایا اور اہل مغرب کو عیسائی پادریوں، کلیسا کے مظالم اور اندھی تقلیدی مذہبی نظریات پر چلنے سے بھی بچایا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Liberalism
دوسرے انسانوں کی سب سے زیادہ غلامی تو خود شدت پسند اسلامی قوانین پر قائم ممالک میں سب سے زیادہ ہو رہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران میں جو انسانی حقوق اور اقدار کا فقدان ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Human_rights_in_the_Islamic_Republic_of_Iran
http://en.wikipedia.org/wiki/Human_rights_in_Saudi_Arabia

آج بھی اگر کسی تنگ دست مسلمان کو کسی اسلامی یا مغربی لبرل جمہوریت والے ملک میں نقل مکانی کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ مغرب ہی جانا پسند کرے گا۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Liberal_democracy
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مغربی دنیا نے کبھی ایک چھوٹی جگہہ بھی اپنے بل بوتے پر فتح نہیں کی، سب سازش کرکے غلبہ حاصل کیا ہے سوچ کر فکر اور عقل سے مراسلے کا اقتباس لیتے تو خوشی ہوتی۔
 

x boy

محفلین
ماشا ء اللہ بہت خوب
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جب جب دنیا میں گمراہ اور بہراروی والے شیطانی خطوط میں رواں دواں ہوئے تب تب اللہ پاک نے اس روح زمین میں سیدھے راہ دکھانے والے پیدا کیے ، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں ان کے بعد کوئی اور رسول نہیں مبعوث ہوگا، اس لئے یہ کام اللہ پاک نے اللہ کے بندوں کے حوالے کیا اور کہا جسکا مفہوم ہے کہ تم لوگ بہترین امت پیدا کیے گئے ہو جو حق پر ہو اور اس بات کو صبر و استقلال کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے والے ہو۔
میں ابھی طالب علم ہو یعنی قبر تک میری تعلیم رہے گی ان شاء اللہ اکبر جب تک دم میں دم رہا میں ایسے کام کرتا رہوں گا۔
جزاک اللہ
 

arifkarim

معطل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مغربی دنیا نے کبھی ایک چھوٹی جگہہ بھی اپنے بل بوتے پر فتح نہیں کی، سب سازش کرکے غلبہ حاصل کیا ہے سوچ کر فکر اور عقل سے مراسلے کا اقتباس لیتے تو خوشی ہوتی۔
تو کیا مسلمانوں نے محض اپنے بول بوتے پر تمام غیر مسلم علاقے فتح کئے تھے؟ کیا وہ سب بھی سازشی غلبہ ہی تھا؟
 

x boy

محفلین
تو کیا مسلمانوں نے محض اپنے بول بوتے پر تمام غیر مسلم علاقے فتح کئے تھے؟ کیا وہ سب بھی سازشی غلبہ ہی تھا؟
پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟، پھر اس حساب سے ہم سب مسلمان تم سے اس مسئلے پر سنجیدگی سے بات کرینگے،
کیونکہ مسلمان کبھی بھی اسطرح کی بات نہیں کرسکتا جسطرح آپ کرتے ہیں
اور حدیث کا مفہوم ہے کہ جو مسلمان ہوکر کسی غیر مسلمان کی باتیں شرعی کرلیتا ہے وہ ان میں سے ہے سختی سے یہ الفاظ بھی آتے ہیں لیس منا ،، وہ ہم میں سے نہیں۔۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟، پھر اس حساب سے ہم سب مسلمان تم سے اس مسئلے پر سنجیدگی سے بات کرینگے،
کیونکہ مسلمان کبھی بھی اسطرح کی بات نہیں کرسکتا جسطرح آپ کرتے ہیں
اور حدیث کا مفہوم ہے کہ جو مسلمان ہوکر کسی غیر مسلمان کی باتیں شرعی کرلیتا ہے وہ ان میں سے ہے سختی سے یہ الفاظ بھی آتے ہیں لیس منا ،، وہ ہم میں سے نہیں۔۔
ایک مسلمان کیسے بات کر سکتا ہے اسکا ٹھیکا آپ نے نہیں لیا ہوا۔ سیدھی سی بات ہے اگر مسلمان اپنے بل بوتے پر اور خدا کی نصرت سے دوسرے غیر مسلم علاقوں پر قابض ہوئے بالکل ویسے ہی غیر مسلمین بھی اپنے بل پوتے پر اور اپنے اپنے مذہبی خداؤں اور دیوتاؤں کی نصرت سے مسلمانوں کے علاقوں پر قابض ہوئے۔ یہ تو قانون قدرت ہے اور چلتا رہتا ہے۔ اسمیں سازشی نظریات کو ہوا دینے کی کیا ضرورت ہے؟
 

x boy

محفلین
ایک مسلمان کیسے بات کر سکتا ہے اسکا ٹھیکا آپ نے نہیں لیا ہوا۔ سیدھی سی بات ہے اگر مسلمان اپنے بل بوتے پر اور خدا کی نصرت سے دوسرے غیر مسلم علاقوں پر قابض ہوئے بالکل ویسے ہی غیر مسلمین بھی اپنے بل پوتے پر اور اپنے اپنے مذہبی خداؤں اور دیوتاؤں کی نصرت سے مسلمانوں کے علاقوں پر قابض ہوئے۔ یہ تو قانون قدرت ہے اور چلتا رہتا ہے۔ اسمیں سازشی نظریات کو ہوا دینے کی کیا ضرورت ہے؟
ہم سب مسلمانوں نے ایک دوسرے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے، کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے شرط یہی ہے کہ مسلمان ہو منافق نہیں،
مجھے نہیں لگتا کہ آپ ہم مسلمانوں کو اچھا سمجھتے ہوں، کیونکہ جو یہود و نصارا کے کے بارہ میں ایک لفط سن نہیں سکتا تو وہ انہیں میں میں سے ہے
25 فیصد کم و بیش قرآن کریم یہود و نصارا کی ہٹ ڈرمی والے کار گزاری سے بھری ہے جب اللہ پاک نے ان کے بارہ میں لکھا ہے یہ لوگ نبیوں کی قتال کرتے ہیں جب بھی ان میں آیت اتاریں ماننے کے بجائے انکار کرتے ہیں اگر کسی وجہ سے ماننا بھی پڑے تو آگے چل کر چند دنیاوی فائدو کے عیوض اس کو بدل دیتے ہیں
ان کی سازش ایسی ہوتی ہے کہ بڑے بڑے مفکر بھی چکراجائیں، جیسا آج کل ہم مسلمان اس کو سر کررہے ہیں۔
اب تو بتادوں کہ تم کون ہو؟
 

arifkarim

معطل
ہم سب مسلمانوں نے ایک دوسرے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے، کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے شرط یہی ہے کہ مسلمان ہو منافق نہیں،
مجھے نہیں لگتا کہ آپ ہم مسلمانوں کو اچھا سمجھتے ہوں، کیونکہ جو یہود و نصارا کے کے بارہ میں ایک لفط سن نہیں سکتا تو وہ انہیں میں میں سے ہے
25 فیصد کم و بیش قرآن کریم یہود و نصارا کی ہٹ ڈرمی والے کار گزاری سے بھری ہے جب اللہ پاک نے ان کے بارہ میں لکھا ہے یہ لوگ نبیوں کی قتال کرتے ہیں جب بھی ان میں آیت اتاریں ماننے کے بجائے انکار کرتے ہیں اگر کسی وجہ سے ماننا بھی پڑے تو آگے چل کر چند دنیاوی فائدو کے عیوض اس کو بدل دیتے ہیں
ان کی سازش ایسی ہوتی ہے کہ بڑے بڑے مفکر بھی چکراجائیں، جیسا آج کل ہم مسلمان اس کو سر کررہے ہیں۔
اب تو بتادوں کہ تم کون ہو؟
لیکن پھر اسی یہود و نصاریٰ کی بنائی ہوئی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر ہم نام نہاد مسلمان عسکری و قلمی جہاد کو بھی جاتے ہیں۔ غیر مسلمین کا محض مذہب کی بنیاد پر بے دریغ قتال بھی کرتے ہیں۔ اسی یہود و نصاریٰ کے ایجاد کردہ ٹیلی فون، موبائل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ پر دہشت گردی اور تخریب کاری کی پلیننگ کرتے ہیں اور انہی کے ایجاد کردہ ہتھیار، گولہ، بم بارود، بندوق وغیرہ انہی کے خلاف بھی استعمال کرتے ہیں۔
 

x boy

محفلین
لیکن پھر اسی یہود و نصاریٰ کی بنائی ہوئی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر ہم نام نہاد مسلمان عسکری و قلمی جہاد کو بھی جاتے ہیں۔ غیر مسلمین کا محض مذہب کی بنیاد پر بے دریغ قتال بھی کرتے ہیں۔ اسی یہود و نصاریٰ کے ایجاد کردہ ٹیلی فون، موبائل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ پر دہشت گردی اور تخریب کاری کی پلیننگ کرتے ہیں اور انہی کے ایجاد کردہ ہتھیار، گولہ، بم بارود، بندوق وغیرہ انہی کے خلاف بھی استعمال کرتے ہیں۔
یہ بنائے ٹیلفون، نہ بنائے جدید آلات، مت کریں مارکیٹنگ، بل گیٹ کیا فری کا کام کرتا ہے جو بلینر ہے ہم ہر چیز پیسے سے خرید تے ہیں مفت میں نہیں لیتے ،
کوئی بھی چیز بناکر مت اڈورٹائز کرو،
ابھی تک مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی ، یہود نصارا کے ہاں تم پلے بڑے ہوئے ہوکیا؟
کیونکہ ایک بچہ جو بھی پیدا ہوتا ہے اسلامی فطرت میں پیدا ہوتا ہے بعد میں انفلونس ، ماحول سے وہ یہود ، نصارا، مجوسی، بدھ مت، ہندو،زیونیسٹ اور دیگر مذاہب (اسلام کے علاوہ) اختیار کرتا ہے۔

ارشاد ربانى ہے:
{آپ اللہ تعالى اور قيامت كے دن پر ايمان ركھنے والوں كو اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت كرنے والوں سے محبت ركھتے ہوئے ہر گز نہيں پائيں گے، چاہے وہ ان كے باپ ہوں يا ان كے بيٹے، يا ان كے بھائى ہوں يا ان كے كنبہ قبيلہ كے عزيز ہى كيوں نہ ہوں، يہى لوگ ہيں جن كے دلوں ميں اللہ تعالى نے ايمان لكھ ديا ہے، اور جن كا تائيد اپنى روح كے ساتھ كى ہے} المجادلۃ ( 22 ).


فرمان بارى تعالى ہے:

{اے ايمان والو! ميرے اور ( خود ) اپنے دشمنوں كو اپنا دوست مت بناؤ تم تو ان كى طرف دوستى كے پيغام بھيجتے ہو، اور وہ اس حق كے ساتھ جو تمہارے پاس آچكا ہے كفر كرتے ہيں} الممتحنۃ ( 1 ).

رمان بارى تعالى ہے:
{( مسلمانو! ) تمہارے ليے ابراہيم عليہ السلام ميں اور ان كے ساتھيوں ميں بہترين نمونہ ہے، جبكہ ان سب نے اپنى قوم سے برملا كہہ ديا كہ ہم تم سے اورجن جن كى تم اللہ تعالى كے سوا عبادت كرتے ہو ان سب سے بالكل بيزار ہيں، ہم تمہارے ( عقائد كے ) منكر ہيں جب تك تم اللہ تعالى وحدانيت پر ايمان نہ لاؤ ہم ميں اور تم ميں ہميشہ كے ليے بغض و عداوت ظاہر ہو گئى} الممتحنۃ ( 4 ).

رمان بارى تعالى ہے:
{مومنوں كو چاہيے كہ وہ ايمان والوں كو چھوڑ كر كافروں سے دوستياں نہ لگاتے پھريں، اور جو كوئى بھى ايسا كرے گا وہ اللہ تعالى كى كسى حمايت ميں نہيں، مگر يہ كہ ان كے شر سے كسى طرح بچاؤ مقصود ہو}آل عمران ( 28 ).

فرمان بارى تعالى يہ ہے:
{ان ميں سے بہت سے لوگوں كو آپ ديكھيں گے كہ وہ كافروں سے دوستياں كرتے ہيں، جو كچھ انہوں نے اپنے ليے آگے بھيج ركھا ہے وہ بہت برا ہے، كہ اللہ تعالى ان سے ناراض ہو اور وہ ہميشہ عذاب ميں رہيں گے، اگر وہ اللہ تعالى اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور جو اس پرنازل كيا گيا ہے اس پر ايمان ركھتے ہوتے تو يہ كفار سے دوستياں نہ كرتے، ليكن ان ميں سے اكثر لوگ فاسق ہں} المائدۃ ( 80 - 81 ).

رمان بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! تم يہود و نصارى كو دوست مت بناؤ، يہ تو آپس ميں ہى ايك دوسرے كے دوست ہيں، تم ميں سے جو بھى ان ميں سے كسى سے بھى دوستى كرے گا وہ بے شك انہى ميں سے ہو ہے، ظالموں كو اللہ تعالى ہرگز ہدايت نصيب نہيں كرتا} المائدۃ ( 51 ).

اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:
{اے ايمان والو! ميرے اور ( خود ) اپنے دشمنوں كو اپنا دوست مت بناؤ تم تو ان كى طرف دوستى كے پيغام بھيجتے ہو، اور وہ اس حق كے ساتھ جو تمہارے پاس آچكا ہے كفر كرتے ہيں، وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اور تمہيں بھى صرف اس وجہ سے جلاوطن كرتے اور گھروں سے نكالتے ہيں كہ تم اپنے رب پر ايمان ركھتے ہو} الممتحنۃ ( 1 ).
 
آخری تدوین:

عمر سیف

محفلین
بچے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
صحیح بخاری ۔۔۔
Volume 2, Book 23, Number 440:
Narrated Ibn Shihab:

The funeral prayer should be offered for every child even if he were the son of a prostitute as he was born with a true faith of Islam (i.e. to worship none but Allah Alone). If his parents are Muslims, particularly the father, even if his mother were a non-Muslim, and if he after the delivery cries (even once) before his death (i.e. born alive) then the funeral prayer must be offered. And if the child does not cry after his delivery (i.e. born dead) then his funeral prayer should not be offered, and he will be considered as a miscarriage. Abu Huraira, narrated that the Prophet said, "Every child is born with a true faith (i.e. to worship none but Allah Alone) but his parents convert him to Judaism or to Christianity or to Magainism, as an animal delivers a perfect baby animal. Do you find it mutilated?" Then Abu Huraira recited the holy verses: 'The pure Allah's Islamic nature (true faith i.e. to worship none but Allah Alone), with which He has created human beings.' " (30.30).
 

x boy

محفلین
بچے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
میں تمہیں نہیں سمجھا سکتا کیونکہ قرآن اور حدیث کی باتیں سمجھنے کے لئے دل کا صاف اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ویسے ہی ماننا ہے جیسے ان کا حکم ہے۔ اس لئے کہا گیا ہے ہے بات اپنی رکھیں ھدایت اللہ رب العزت کا پاس ہے وہ جسے چاہے دے۔ اسلئے میں نے اپنے بزرگوں سے سنا کہ جب بھی کوئی دین میں نقص نکالے اس جگہہ یہ پڑھ کر ہٹ جاؤ، میں پڑھتا ہوں، " آعوذوباللہ منکم"
 

x boy

محفلین
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
کیا پاکستان لبرل ملک ہے انڈیا کی طرح جہاں ھندو مت والے مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں
کوئی یہ نہ کہے کہ مسلمان پر ظلم نہیں ہوتے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں نمازی کو پولیس کی ڈنڈو سے گزرنا پڑتا ہے
قربانی کرنا منع ہے زبردستی ہولی میں مسلمان راہ گیروں پر رنگ برسائے جاتے ہیں
طرح طرح کے ظلم میں ان کی زبانی سنتا ہوں۔
کیا ہمیں مسلمانوں کا پاکستان چاہیے یا ھندوؤں کا لبرل ھندوستان۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top