خرم شہزاد خرم
لائبریرین
لوگ تو ہیں سب کے سب بے باک سے
ہیں مگر سارے بہت چالاک سے
ظلم کی اک پھر کہانی ہوگئی
خون کی بُو آ رہی ہے خاک سے
بندے تو اب کر نہیں سکتے مدد
اب امیدیں بس ہمیں افلاک سے
بن نہیں جاتا ہے مجنوں ہر کوئی
بال بکھرے اور گریباں چاک سے
حال اپنا ہوگیا بے حال سا
پڑ گیا ہے پھر سے پالا ناک سے
کوزہ گر اب تُو نہیں ہے پہلے سا
سب اترنے جا رہے ہیں چاک سے
در بدر جانے کی فرصت ہی نہیں
مانگتا ہوں میں تومولا پاک سے