راحیل فاروق
محفلین
بہت دن ہو گئے۔ کچھ لکھا نہیں۔ عمدہ عمدہ خیال آنے بند ہو گئے۔ عین ممکن ہے کبھی آئے ہی نہ ہوں۔ محض ہمارا وہم ہو۔ لیکن اب تو وہم کو بھی ترس گئے ہیں۔ ایک سفر کے دوران کچھ مصرعے موزوں ہوئے۔ تھوڑی کھینچا تانی کے بعد اشعار کی صورت ہو گئی۔
پسند آئیں تو زہے نصیب۔ برے لگیں تو کمپنی ذمہ دار نہ ہو گی!
لوگ کہتے ہیں مجھے کام کی عادت ہی نہیں
میں سمجھتا ہوں مجھے عشق سے فرصت ہی نہیں
دل ہو اور دل میں محبت ہو تو کیا ہی کہنے
یہ وہ نعمت ہے کہ اس سے بڑی نعمت ہی نہیں
دو جہانوں میں مرے واسطے تو کافی ہے
اور خواہش ہی نہیں، اور ضرورت ہی نہیں
مت مجھے سادہ سمجھنے کا تکلف کیجے
صاف کہیے مری باتوں میں صداقت ہی نہیں
دل تو کہتا ہے وہ باتیں کہ نہ پوچھو راحیلؔ
لیکن ان باتوں کی دنیا میں حقیقت ہی نہیں
پسند آئیں تو زہے نصیب۔ برے لگیں تو کمپنی ذمہ دار نہ ہو گی!
لوگ کہتے ہیں مجھے کام کی عادت ہی نہیں
میں سمجھتا ہوں مجھے عشق سے فرصت ہی نہیں
دل ہو اور دل میں محبت ہو تو کیا ہی کہنے
یہ وہ نعمت ہے کہ اس سے بڑی نعمت ہی نہیں
دو جہانوں میں مرے واسطے تو کافی ہے
اور خواہش ہی نہیں، اور ضرورت ہی نہیں
مت مجھے سادہ سمجھنے کا تکلف کیجے
صاف کہیے مری باتوں میں صداقت ہی نہیں
دل تو کہتا ہے وہ باتیں کہ نہ پوچھو راحیلؔ
لیکن ان باتوں کی دنیا میں حقیقت ہی نہیں
راحیلؔ فاروق