کسی نے پوچھا کہ ’’آپ کرتے کیا ہیں‘‘۔ عرض کیا ’’کمال کرتا ہوں‘‘۔ پوچھا گیا ’’کیا کمال کرتے ہیں‘‘، عرض کیا: ’’کچھ نہیں‘‘! پوچھا گیا: ’’کچھ نہ کرنا کمال کیسے ہوا؟‘‘ عرض کیا: ’’جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں‘‘۔ ہمیں اب کرنا یہ ہے کہ ’’جو لوگ‘‘ سے
زبیر مرزا کو منہا کرنا ہے کہ یہ تو واقعی کمال کرتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ کمالات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ مثلاً:
جناب
الف عین کی بزرگی کے قائل تو ہم ایک مدت سے ہیں۔ زبیر مرزا صاحب نے ہمیں ان کی ’’بزرگ تری‘‘ کا قائل کر لیا۔ جناب
محمد وارث اور جناب
محمد خلیل الرحمٰن البتہ بڑی صفائی سے اپنی بزرگی کو چھپا گئے۔ مگر چھپا نہیں پائیں گے، جی ہاں! جناب
سید زبیر صاحب بھی ما شاء اللہ ہمارے ہم قطار نکلے،
سید شہزاد ناصر البتہ خود کو بزرگ منوانے کی پوری کوشش میں ہیں۔ ہم مان لیتے ہیں صاحبو! جنابِ
تلمیذ کو دیکھ کر تاحیات تلمیذ رہنے کا جذبہ اور بھی اچھا لگنے لگا۔ ہاں ہمیں جناب
نایاب کی تصویر دیکھ کر البتہ چونکنا پڑا کہ نمائندہ تصویر میں یہ خود اپنے ہی کم سن نورِ نظر دکھائی دیا کرتے ہیں۔ کم سنی اور بزرگی کو ہم قدم کرنے کو زبیر مرزا نے
ابن سعید کی مثال پیش کر دی ہے کہ ’’بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال‘‘۔ صرف ہمارا نہیں
محمود احمد غزنوی کا بھی یہی خیال ہے۔ تبھی تو ایسے سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ چند سطور
زبیر مرزا کے خونِ جگر کی نمود اور معجزۂ فن کو تسلیم کرنے کے اظہار کے طور پر لکھ دی ہیں۔ انگلی کہیں پھسل گئی ہو تو درگزر فرمائیے گا۔ ایک زمانہ تھا جب قلم پھسلتا تھا، کلیدی تختے کی آمد کے بعد ۔۔۔ انگلیاں تو قلم نہیں ہو گئیں؟