اپنی بات
غزل ہمیشہ تنقید کے نشانے پہ رہی ہے ۔ زیادہ تر ناقدین ادب نے اس کی بے پناہ مقبولیت کے با وجود اسے منہہ نہیں لگا یا ۔ ہمیشہ اس کی کم مائگی اور سہل پسندی کا رونا روتے رہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ غزل مدتوں کچھ بندھے ٹِکے موضوعات کی امر بیل میں جکڑی رہی۔ حالانکہ اس کی سب سے بڑی وجہہ یہ تھی کہ اس عہد کے مطابق غزل درباری آداب کے پیش نظر لکھی جاتی تھی ۔ اس لیے شاعر ہمیشہ میخانے سے نکلتا ہوا؛ اور کوٹھوں سے اتر تا دکھائی دیتا تھا ۔ اس حقیقت سےبھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت کے نوابین حضرات اور راجے مہا راجے شاعروں کی پرورش ہی نہیں ناز برداری بھی کرتے رہتے تھے ۔ تاریخ سے آنکھ مچولی کرتی ہوئی غزل جیسے ہی گلی کے موڑ ، شہر کے چوراہوں ، قصبات کے چبوتروں، گاؤں کی پگڈنڈیوں اور کھیت کھلیانوں میں بھی موضوعات کی تلاش میں بھٹکنے لگی تو اس نے نئے نئے منظر نامے تلاش کرلیے ۔ خاص طور سے آزادی کے بعد تقسیم کی تلوار سے کٹے پھٹے رشتو ں کی بنتی بگڑتی تصویروں ، بھرے گھر میں تنہا ہونے کے احساس، بے سمتی کی طرف جاتی ہوئی تیز رفتار زندگی اور گھر آنگن میں ابھرے ہوئے لا تعلقی کے صحراؤں نے غزل کے لیے نئے نئے موضوعات کے ڈھیر لگادیے۔
ہر خاص و عام لغت کے مطابق غزل کا مطلب محبوب سے باتیں کرنا ہے۔ اگر اسے سچ مان لیا جائے تو محبوب ’ماں‘ کیوں نہیں ہوسکتی !کیا دنیا کے سب سے مضبوط، سدا بہار اور پاکیزہ رشتے کو غزل بنانا گناہ ہے، کیا تقدس کے ’’پھول بستر‘‘ پر غزل کو سلانا جرم ہے ۔ میری شاعری پر اکثر زیادہ پڑھے لکھے لوگ جذباتی استحسال کی الزام لگاتے رہے ہیں۔ اگر اسے درست مان لیا جائے تو پھر محبوب کے حسن و شباب، اس کے تن و توش، اس کے لب و رخسار ، اس کے رخ و گیسو، اس ک سینے اور کمر کی پیمائش کو عیاشی کیوں نہیں کہا جاتا ہے !
اگر میرے شعر Emotional Blackmailing ہیں تو پھر ؎
’’جنت ماں کے پیروں کے نیچے ہے۔ ‘‘
’’ موسیٰ اب تو تیری وہ ماں بھی نہیں رہی جس کی دعائیں تھے بچالیا کرتی تھیں۔‘‘
’’ اگر مرد کو دوسرے سجدے کی اجازت ہوتی تو ماں کے قدموں پر ہوتی ۔‘‘
’’ میدان حشر میں تمہیں تمہاری ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا ۔‘‘ جیسے جملے کیا بے معنی ہیں ؟
میں پوری ایمانداری سے اس بات کا تحریری اقرار کرتا وہں کہ میں دنیا کے سب مقدس اور عظیم رشتے کا پر چار صرف اس لیے کرتا ہوں کہ اگر میرے شعر پڑھ کر کوئی بھی بیٹا اپنی ماں کا خیال کرنے لگے، رشتوں کی نزاکت کا احترام کرنے لگے تو شاید اس کے اجر میں میرے کچھ گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔
یہ کتاب بھی آپ کی خدمت تک صرف اس لیے پہنچا نا چاہتا ہوں کہ آپ میری اس چھوٹی سی کوشش کے گواہ بن سکیں اور مجھے بھی اپنی دعاؤں میں شامل کرتے رہیں۔
ذرا سی بات ہے لیکن ہوا کو کون سمجھا ئے
دیئے سے میری ماں میرے لئے کاجل بناتی ہے
طالب دعا
منورؔ رانا