::: ماہ شوال اور ہم (1) ::: زکوۃ الفطر (فطرانہ):::

ماہِ شوال اور ہم 1
رمضان کے فوراً بعد شوال کی پہلی رات میں اور پہلی صبح میں عید کی نماز سے پہلے کییے جانے والا کام زکوۃ الفطر یعنی فطرانہ کی ادائیگی ہے ، آئیے زکوۃ الفطر کے بارے میں چند لازمی بنیادی معلومات کا مطالعہ کرتےہیں ،
::: زکوۃ الفِطر :::
** ( ١ ) زکوۃ الفطر کی حِکمت **
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ( فرض رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم زکاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائمِ مِن اللَّغوِ و الرَّفَثِ ، و طُعمَۃً للمساکینِ فَمَن ادَّاھَا قَبلَ الصَّلاۃِ فَھي زکاۃٌ مقبولۃٌ ، وَ مَن ادَّاھَا بعدَ الصَّلاۃِ فَھي صدقۃٌ مِن الصَّدقاتِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوے داروں کے لیے فضول اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیئے اور غریبوں کی خوراک کےلیے زکوۃ الفطر فرض کی ، لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے ( فطرانہ ) ادا کر دِیا تو وہ ( اللہ کی طرف سے ) قُبول شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے جِس نے عید کی نماز کے بعد ( فطرانہ ) ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ) سُنن ابو داؤد/حدیث١٦٠٩/کتاب الزکاۃ/باب زکاۃ الفطر ، صحیح ابن ماجہ/حدیث١٤٨
** ( ٢ ) زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ، اور کب فرض ہوتی ہے ، اور کب تک ادا کی جانی چاہیئے
زکوۃ الفِطرہر مُسلمان پر فرض ہے ،عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ( فرض رسول اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلمزکاۃَ الفِطرِ صاعاً مِن تمرٍ او صاعاً مِن شعیرٍ علیٰ العَبدِ و الحُرِ و الذَکرِ و الاُنثیٰ و الصغیرِ و الکبیرِ مِن المسلینِ و اَمرَ بھا ان تؤدَّیَ قبل خروج الناس اِلیٰ الصَّلاۃِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُسلمانوں کے ہر غُلام اور آزاد ، مرد اور عورت ، بڑے اور چھوٹے ، پر کھجوروں کا ایک صاع یا جَو (Barley) کا ایک صاع زکوۃ الفِطر فرض کی اور حُکم فرمایا کہ لوگوں کے نماز عید کی طرف جانے سے پہلے یہ زکوۃ ادا کی جائے ) صحیح البخاری/کتاب الزکاۃ/باب٣١ ، صحیح مسلم/کتاب الزکاۃ/باب٤ و ٥ ۔

** زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا وقت شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے لے کر عید کی نماز تک ہے اور افضل وقت پہلی شوال میں فجر کے وقت سے عید کی نماز شروع ہونے تک ہے ، عید کی نماز کے بعد زکوۃ الفِطرادا نہیں ہو گی بلکہ یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ، جیسا کہ اُوپر نقل کی گئی حدیث میں ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ُ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''' اگر کوئی کِسی عُذر کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر سکا تو یہ زکوۃ اُس پر قرض رہے گی ، پہلی ہی فُرصت میں اُسے ادا کرے ، اور اگر کِسی نے زکوۃ الفِطر کی ادائیگی میں بغیر کِسی عُذر کے دیر کی تو وہ ادائیگی کے باوجود دیر کرنے کا گُناہ گار ہو گا ''' ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل میں یہ بھی ہے کہ وہ عید کے دِن سے ایک یا دو دِن پہلے بھی زکوہ الفِطر ادا کیا کرتے تھے ۔
** ( ٣ ) زکوۃ الفطر کب فرض ہوتی ہے **
فقہا کے مختلف اقوال کے مُطابق زکوۃ الفِطر رمضان کے آخری اِفطار یعنی شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے فرض ہو جاتی ہے ۔
** ( ٤ ) زکوۃ الفطر ادا کرنا کِس پر فرض ہوتا ہے ؟ **
زکوۃ الفِطر ہر اُس آزاد مسلمان پر فرض ہے جِسکے پاس اپنے اور جو کوئی بھی اُسکی کفالت میں ہے ، اُنکے ایک دِن اور ایک رات کے کھانے پینے سے زائد سامان یا مال موجود ہو ایسا شخص اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں ، والدین ، بھائی بہنوں نوکروں غُلاموں باندیوں میں سے جو بھی اُسکی کفالت میں اور زیرِ پرورش ہے اور مسلمان ہے اُنکی طرف سے بھی ادا کرے گا ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
( اَمرَ رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم بِصدقۃِ الفِطرِ عن الصغیرو الکبیرِ والحُرِ و العبدِ ممن تمونون ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس بڑے اور چھوٹے ، غُلام اور آزاد کی طرف سے صدقہِ فِطر ادا کرنے کا حُکم دِیا ہے جو تُم لوگوں کی ذمہ داری میں ہیں ) سُنن الدارقُطنی/ حدیث ٢٠٠ ، اِرواءُ الغلیل / حدیث ٨٣٥
** ( ٥ ) زکوۃ الفطر کِن چیزوں کی میں صورت میں ادا کی جائے گی ؟ **
ابی سعید الخُد ری رضی اللہ عنہُ کا فرمان ہے ( کُنا نعطیھا یعنی صدقۃ الفِطر فی زمان النبي صلی اللہ علیہ وسلم، صاعاً مِن الطعام او صاعاً مِن التمرِاو صاعاً مِن الشعیرِ او صاعاً مِن الزبیبِ او صاعاً مِن الاقِطِ) ( ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںایک صاع کھانے ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع جَو ( Barley ) ، یا ایک صاع میوے ( خُشک انگور ) ، یا ایک صاع اقِط ( یعنی بالائی نکالے بغیر خُشک دودھ ) میں سے صدقہءِ فِطر ادا کیا کرتے تھے ) صحیح البُخاری/ کتاب الزکاۃ / باب ٤ ، صحیح مُسلم/ کتاب الزکاۃ/باب ٤
اُوپر بیان کی گئی حدیث میں جِن پانچ چیزوں کا ذِکر ہے ، اگر وہ چیزیں مُیسر ہوں اور اُن چیزوں کو معمول کے روزمرہ کھانے میں اِستعمال کیا جاتا ہو تو افضل یہ ہے کہ اِنہی پانچ چیزوں میں سے کِسی ایک کو زکوۃ الفِطرکے طور پر خرچ کیا جائے ، اور اگر کوئی مُسلمان ایسی جگہ رہتا ہے جہاں یہ چیزیں پائی نہیں جاتیں یا عام معمول میں کھائی نہیں جاتیں تو وہاں ، عام معمول میں کھائی جانے والی چیزوں میں سے کوئی چیز مقررہ مِقدار میں زکوۃ الفِطر کے طور پر خرچ کی جائے گی ، کیونکہ حدیث میں پہلی چیز جو بیان ہوئی ہے وہ ''' الطعام ''' ''' کھانا ''' ہے لہذا باقی چار چیزیں موقع محل کے مُطابق اختیار کی جانے کی گُنجائش ہے ،
** ( ٦ ) زکوۃ الفطر کی مِقدار **
:::''' زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟ '''::: میں بیان کی گئی حدیث میں ذِکر کئے گئے اشخاص میں سے ہر ایک کی طرف سے ، صرف اُن چیزوں میں سے جو ابھی اُوپر بیان کی گئی ہیں ، ایک صاع جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں رائج تھا کے برابر زکوۃ الفِطر ادا کرنی ہوتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں ایک صاع چار مُد کے برابر تھا ، اور ایک عام درمیانہ سائز کے ہاتھوں والے مرد کے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر جانے والی چیز کی مقدار ہوتی ہے ، جو تقریباً اڑھائی یعنی دو اور آدھا کیلو ہوتی ہے ، لہذا ہر ایک شخص کی طرف سے تقریباً اِس مِقدار میں اُوپر بیان کی گئی تفصیل کے مُطابق کوئی چیز بھی زکوۃ الفِطر کے طور پر دی جا سکتی ہے ۔
**** یہاں ایک بات بہت غور سے سمجھنے کی ہے ، اور وہ یہ کہ ،،، زکوہ الفِطر صِرف اور صِرف اُنہی چیزوں کی صورت میں ادا کی جائے گی جِن کا ذِکر اُوپر حدیث آیا ہے ، زکوۃ الفِطر کے طور پر اِن چیزوں کے بدلے پیسے دینا جائز نہیں جی ہاں ، جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نام لے کر چیزوں کا ذِکر کیا گیا ہے ، جبکہ اُسوقت بھی اُن چیزوں کی قیمت بطور فِطرانہ ادا کی جاسکتی تھی ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت کا ذِکر نہیں فرمایا ، بلکہ ایسا کرنے کی طرف کوئی اِشارہ تک بھی نہیں فرمایا ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اِسکو بیان فرماتے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و عمل سے بھی ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ اُنہوں نے اِن چیزوں کی بجائے اِنکی قیمت بطورِ فِطرانہ نقداً ادا کی ہو ، جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد میں آنے والے ہر کِسی سے بڑھ کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور سنتوں کو جاننے اور سمجھنے ، اور اُن پر عمل کرنے والے تھے ، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان اور عمل مُبارک کے خِلاف اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل کے خِلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ، خواہ اُس کو دُرُست بنانے کے لیے کوئی بھی عقلی یا فلسفیانہ دلیل بنائی جائے وہ کام نا جائز ہی رہے گا ۔
** ( ٧ ) زکوۃ الفطر کِن کو دی جائے گی ؟ **
صدقہ فِطر صِرف ''' مسکینوں ''' یعنی ایسے غریبوں کو دِیا جائے گا جو اچھا کھانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے جیسا کہ عنوان ( ١ ) میں ذِکر کی گئی حدیث میں آیا ہے ، کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جِن لوگوں کو زکوۃ دی جا سکتی اُنہیں ہی فِطرانہ دِیا جائے گا لیکن یہ رائے دُرُست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فِطرانہ کے لیے ''' مساکین ''' کا بطورءِ خاص ذِکر فرمایا ہے ۔
** ( ٨ ) زکوۃ الفطر کہاں ادا کی جائے گی ؟ **
زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا اصل بُنیادی حُکم یہ ہے کہ ، جِس شخص پر جہاں جِس شہر ، بستی ، وغیرہ میں زکوۃ فرض ہوئی ، اور وہ وہاں موجود ہے ، تو اُسی جگہ کے غریب مسلمانوں کے یہ زکوۃ دی جائے گی ، زکوۃ الفِطر کو کِسی دوسری جگہ ادا کرنا ، نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کِسی کے عمل سے ثابت ہے ، جبکہ غریب مُسلمان اُسوقت بھی ہر شہر اور بستی میں موجود تھے ، بلکہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں اور بستیوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ تھی ، لیکن کبھی کِسی نے زکوۃ الفِطر کِسی دوسری جگہ نہیں بھیجی ، یہ کام بھی ایسے کاموں میں سے ہے جو دِین میں شامل کیئے جا رہے ہیں ، لہذا اِن سے پرہیز کرنا ہر مُسلمان کے لیے واجب ہے ، رہا معاملہ مال و زراعت کی زکوۃ کا ، اور دیگر صدقات کا تو اگر کوئی شخص خود کِسی دوسرے شہر میں ہو اور اپنے شہر میں اپنے گھر والوں یا کِسی کے ذریعے اپنی زکوۃ وہاں یا کِسی بھی اور جگہ ادا کروائے تو یہ معاملہ زکوۃ الفِطر سے مُختلف ہے ۔ اِس پر قیاس کر کے فطرانہ کی ادائیگی کا طریقہ بدلنا درست نہیں۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ، عادل سہیل ظفر۔
 

برادر

محفلین
السلام علیکم عادل سہیل بھائی ۔ جزاک اللہ ۔ مجھے دو سوالوں کے جواب درکار ہیں۔ امید ہے آپ تفصیل سے جواب عنائیت فرمائیں گے۔
آپ نے فرمایا ۔۔۔
**** یہاں ایک بات بہت غور سے سمجھنے کی ہے ، اور وہ یہ کہ ،،، زکوہ الفِطر صِرف اور صِرف اُنہی چیزوں کی صورت میں ادا کی جائے گی جِن کا ذِکر اُوپر حدیث آیا ہے ، زکوۃ الفِطر کے طور پر اِن چیزوں کے بدلے پیسے دینا جائز نہیں جی ہاں ، جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نام لے کر چیزوں کا ذِکر کیا گیا ہے ، جبکہ اُسوقت بھی اُن چیزوں کی قیمت بطور فِطرانہ ادا کی جاسکتی تھی ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت کا ذِکر نہیں فرمایا ، بلکہ ایسا کرنے کی طرف کوئی اِشارہ تک بھی نہیں فرمایا ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اِسکو بیان فرماتے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و عمل سے بھی ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ اُنہوں نے اِن چیزوں کی بجائے اِنکی قیمت بطورِ فِطرانہ نقداً ادا کی ہو ، جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد میں آنے والے ہر کِسی سے بڑھ کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور سنتوں کو جاننے اور سمجھنے ، اور اُن پر عمل کرنے والے تھے ، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان اور عمل مُبارک کے خِلاف اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل کے خِلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ، خواہ اُس کو دُرُست بنانے کے لیے کوئی بھی عقلی یا فلسفیانہ دلیل بنائی جائے وہ کام نا جائز ہی رہے گا ۔

سوال نمبر 1 : ایسا علاقہ، ایسا شہر جہاں ان سب چیزوں میں سے کوئی ایک بھی دستیاب نہ ہوں وہاں فطرانہ کیسے ادا کیا جائے گا ؟ اسکی شکل کیا ہوگی ؟

سوال نمبر 2 : یورپ کے درجنوں ممالک اور بیسیوں شہر ایسے ہیں جہاں بہترین سماجی معاشی نظام کی وجہ سے غربت و افلاس کا مارا کوئی ایسا بھوکا ڈھونڈنا شاید ناممکن کی حد تک مشکل کام ہو۔ ایسے میں زکوۃ الفطرانہ کہاں دی جائے گی ؟

والسلام
 
السلام علیکم عادل سہیل بھائی ۔ جزاک اللہ ۔
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، و ایاک ،
مجھے دو سوالوں کے جواب درکار ہیں۔ امید ہے آپ تفصیل سے جواب عنائیت فرمائیں گے۔
آپ نے فرمایا ۔۔۔
سوال نمبر 1 : ایسا علاقہ، ایسا شہر جہاں ان سب چیزوں میں سے کوئی ایک بھی دستیاب نہ ہوں وہاں فطرانہ کیسے ادا کیا جائے گا ؟ اسکی شکل کیا ہوگی ؟
محترم بھائی ،آپ کے پہلے سوال کا جواب مضمون میں ہی موجود ہے ، عنوان رقم پانچ کے آخر میں ، آپ کی سہولت کے لیے یہاں پھر سے نقل کیے دیتا ہوں ،
*** ( ٥ ) زکوۃ الفطر کِن چیزوں کی میں صورت میں ادا کی جائے گی ؟ ***
ابی سعید الخُد ری رضی اللہ عنہُ کا فرمان ہے ( کُنا نعطیھا یعنی صدقۃ الفِطر فی زمان النبي صلی اللہ علیہ وسلم، صاعاً مِن الطعام او صاعاً مِن التمرِاو صاعاً مِن الشعیرِ او صاعاً مِن الزبیبِ او صاعاً مِن الاقِطِ) ( ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںایک صاع کھانے ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع جَو ( Barley ) ، یا ایک صاع میوے ( خُشک انگور ) ، یا ایک صاع اقِط ( یعنی بالائی نکالے بغیر خُشک دودھ ) میں سے صدقہءِ فِطر ادا کیا کرتے تھے ) صحیح البُخاری/ کتاب الزکاۃ / باب ٤ ، صحیح مُسلم/ کتاب الزکاۃ/باب ٤
اُوپر بیان کی گئی حدیث میں جِن پانچ چیزوں کا ذِکر ہے ، اگر وہ چیزیں مُیسر ہوں اور اُن چیزوں کو معمول کے روزمرہ کھانے میں اِستعمال کیا جاتا ہو تو افضل یہ ہے کہ اِنہی پانچ چیزوں میں سے کِسی ایک کو زکوۃ الفِطرکے طور پر خرچ کیا جائے ، اور اگر کوئی مُسلمان ایسی جگہ رہتا ہے جہاں یہ چیزیں پائی نہیں جاتیں یا عام معمول میں کھائی نہیں جاتیں تو وہاں ، عام معمول میں کھائی جانے والی چیزوں میں سے کوئی چیز مقررہ مِقدار میں زکوۃ الفِطر کے طور پر خرچ کی جائے گی ، کیونکہ حدیث میں پہلی چیز جو بیان ہوئی ہے وہ ''' الطعام ''' ''' کھانا ''' ہے لہذا باقی چار چیزیں موقع محل کے مُطابق اختیار کی جانے کی گُنجائش ہے ،
سوال نمبر 2 : یورپ کے درجنوں ممالک اور بیسیوں شہر ایسے ہیں جہاں بہترین سماجی معاشی نظام کی وجہ سے غربت و افلاس کا مارا کوئی ایسا بھوکا ڈھونڈنا شاید ناممکن کی حد تک مشکل کام ہو۔ ایسے میں زکوۃ الفطرانہ کہاں دی جائے گی ؟
محترم بھائی ، اگر واقعتا ایسا ہو کہ کسی جگہ کوئی مستحق مسلمان میسر نہ ہو تو یہ ایک استثنائی صورت ہو گی اور اسی صورت میں فطرانہ دینے والا کہیں بھی مستحقین تک پہنچا دے ، ان شاء اللہ کوئی حرج نہ ہوگا ، و اللہ اعلم بالصواب ، و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
عید الفطر کی آمد ہے ، ان شاء اللہ ،
اور اس سے پہلے زکاۃ الفطر کی ادائیگی کی جانی چاہیے ،
یاد دہانی کے لیے اس دھاگے کو تازہ کر رہا ہوں ،
سیلاب سے متاثر بھائیوں بہنوں کو خصوصی طور پر یاد رکھیے گا ، و السلام علیکم۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
ماہ شوال کی آمد آمد ہے ، لہذا اس سے متعلق امور کے بارے میں یاد دہانی کے لیے اس مضمون کو سامنے لایا جا رہا ہے ،
ماہ شوال سے متعلق دیگر مضامین کا مطالعہ بھی ان شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ۔
اللہ تعالیٰ اسے ہم سب کے خیر کا سبب بنائے ، و السلام علیکم۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ عادل بھائی۔

آپ کی حاضری خاصی کم ہو گئی ہے۔ اب تو بہت عرصے بعد تشریف آوری ہوئی۔
 
جزاک اللہ عادل بھائی۔

آپ کی حاضری خاصی کم ہو گئی ہے۔ اب تو بہت عرصے بعد تشریف آوری ہوئی۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، شمشاد بھائی ، مشغولیت ایسی رہتی ہے کہ مجموعی طور پر ہی انٹر نیٹ پر میری آمدورفت بہت کم ہو گئی ہے ، ان شاء اللہ جیسے جیسے اللہ نے توفیق دی حاضری ہوتی رہے گی ، و السلام علیکم۔
 

نازنین ناز

محفلین
ماہِ شوال اور ہم 1
رمضان کے فوراً بعد شوال کی پہلی رات میں اور پہلی صبح میں عید کی نماز سے پہلے کییے جانے والا کام زکوۃ الفطر یعنی فطرانہ کی ادائیگی ہے ، آئیے زکوۃ الفطر کے بارے میں چند لازمی بنیادی معلومات کا مطالعہ کرتےہیں ،
::: زکوۃ الفِطر :::
** ( ١ ) زکوۃ الفطر کی حِکمت **
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ( فرض رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم زکاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائمِ مِن اللَّغوِ و الرَّفَثِ ، و طُعمَۃً للمساکینِ فَمَن ادَّاھَا قَبلَ الصَّلاۃِ فَھي زکاۃٌ مقبولۃٌ ، وَ مَن ادَّاھَا بعدَ الصَّلاۃِ فَھي صدقۃٌ مِن الصَّدقاتِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوے داروں کے لیے فضول اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیئے اور غریبوں کی خوراک کےلیے زکوۃ الفطر فرض کی ، لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے ( فطرانہ ) ادا کر دِیا تو وہ ( اللہ کی طرف سے ) قُبول شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے جِس نے عید کی نماز کے بعد ( فطرانہ ) ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ) سُنن ابو داؤد/حدیث١٦٠٩/کتاب الزکاۃ/باب زکاۃ الفطر ، صحیح ابن ماجہ/حدیث١٤٨
** ( ٢ ) زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ، اور کب فرض ہوتی ہے ، اور کب تک ادا کی جانی چاہیئے
زکوۃ الفِطرہر مُسلمان پر فرض ہے ،عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ( فرض رسول اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلمزکاۃَ الفِطرِ صاعاً مِن تمرٍ او صاعاً مِن شعیرٍ علیٰ العَبدِ و الحُرِ و الذَکرِ و الاُنثیٰ و الصغیرِ و الکبیرِ مِن المسلینِ و اَمرَ بھا ان تؤدَّیَ قبل خروج الناس اِلیٰ الصَّلاۃِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُسلمانوں کے ہر غُلام اور آزاد ، مرد اور عورت ، بڑے اور چھوٹے ، پر کھجوروں کا ایک صاع یا جَو (Barley) کا ایک صاع زکوۃ الفِطر فرض کی اور حُکم فرمایا کہ لوگوں کے نماز عید کی طرف جانے سے پہلے یہ زکوۃ ادا کی جائے ) صحیح البخاری/کتاب الزکاۃ/باب٣١ ، صحیح مسلم/کتاب الزکاۃ/باب٤ و ٥ ۔

** زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا وقت شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے لے کر عید کی نماز تک ہے اور افضل وقت پہلی شوال میں فجر کے وقت سے عید کی نماز شروع ہونے تک ہے ، عید کی نماز کے بعد زکوۃ الفِطرادا نہیں ہو گی بلکہ یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ، جیسا کہ اُوپر نقل کی گئی حدیث میں ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ُ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''' اگر کوئی کِسی عُذر کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر سکا تو یہ زکوۃ اُس پر قرض رہے گی ، پہلی ہی فُرصت میں اُسے ادا کرے ، اور اگر کِسی نے زکوۃ الفِطر کی ادائیگی میں بغیر کِسی عُذر کے دیر کی تو وہ ادائیگی کے باوجود دیر کرنے کا گُناہ گار ہو گا ''' ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل میں یہ بھی ہے کہ وہ عید کے دِن سے ایک یا دو دِن پہلے بھی زکوہ الفِطر ادا کیا کرتے تھے ۔
** ( ٣ ) زکوۃ الفطر کب فرض ہوتی ہے **
فقہا کے مختلف اقوال کے مُطابق زکوۃ الفِطر رمضان کے آخری اِفطار یعنی شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے فرض ہو جاتی ہے ۔
** ( ٤ ) زکوۃ الفطر ادا کرنا کِس پر فرض ہوتا ہے ؟ **
زکوۃ الفِطر ہر اُس آزاد مسلمان پر فرض ہے جِسکے پاس اپنے اور جو کوئی بھی اُسکی کفالت میں ہے ، اُنکے ایک دِن اور ایک رات کے کھانے پینے سے زائد سامان یا مال موجود ہو ایسا شخص اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں ، والدین ، بھائی بہنوں نوکروں غُلاموں باندیوں میں سے جو بھی اُسکی کفالت میں اور زیرِ پرورش ہے اور مسلمان ہے اُنکی طرف سے بھی ادا کرے گا ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
( اَمرَ رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم بِصدقۃِ الفِطرِ عن الصغیرو الکبیرِ والحُرِ و العبدِ ممن تمونون ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس بڑے اور چھوٹے ، غُلام اور آزاد کی طرف سے صدقہِ فِطر ادا کرنے کا حُکم دِیا ہے جو تُم لوگوں کی ذمہ داری میں ہیں ) سُنن الدارقُطنی/ حدیث ٢٠٠ ، اِرواءُ الغلیل / حدیث ٨٣٥
** ( ٥ ) زکوۃ الفطر کِن چیزوں کی میں صورت میں ادا کی جائے گی ؟ **
ابی سعید الخُد ری رضی اللہ عنہُ کا فرمان ہے ( کُنا نعطیھا یعنی صدقۃ الفِطر فی زمان النبي صلی اللہ علیہ وسلم، صاعاً مِن الطعام او صاعاً مِن التمرِاو صاعاً مِن الشعیرِ او صاعاً مِن الزبیبِ او صاعاً مِن الاقِطِ) ( ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںایک صاع کھانے ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع جَو ( Barley ) ، یا ایک صاع میوے ( خُشک انگور ) ، یا ایک صاع اقِط ( یعنی بالائی نکالے بغیر خُشک دودھ ) میں سے صدقہءِ فِطر ادا کیا کرتے تھے ) صحیح البُخاری/ کتاب الزکاۃ / باب ٤ ، صحیح مُسلم/ کتاب الزکاۃ/باب ٤
اُوپر بیان کی گئی حدیث میں جِن پانچ چیزوں کا ذِکر ہے ، اگر وہ چیزیں مُیسر ہوں اور اُن چیزوں کو معمول کے روزمرہ کھانے میں اِستعمال کیا جاتا ہو تو افضل یہ ہے کہ اِنہی پانچ چیزوں میں سے کِسی ایک کو زکوۃ الفِطرکے طور پر خرچ کیا جائے ، اور اگر کوئی مُسلمان ایسی جگہ رہتا ہے جہاں یہ چیزیں پائی نہیں جاتیں یا عام معمول میں کھائی نہیں جاتیں تو وہاں ، عام معمول میں کھائی جانے والی چیزوں میں سے کوئی چیز مقررہ مِقدار میں زکوۃ الفِطر کے طور پر خرچ کی جائے گی ، کیونکہ حدیث میں پہلی چیز جو بیان ہوئی ہے وہ ''' الطعام ''' ''' کھانا ''' ہے لہذا باقی چار چیزیں موقع محل کے مُطابق اختیار کی جانے کی گُنجائش ہے ،
** ( ٦ ) زکوۃ الفطر کی مِقدار **
:::''' زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟ '''::: میں بیان کی گئی حدیث میں ذِکر کئے گئے اشخاص میں سے ہر ایک کی طرف سے ، صرف اُن چیزوں میں سے جو ابھی اُوپر بیان کی گئی ہیں ، ایک صاع جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں رائج تھا کے برابر زکوۃ الفِطر ادا کرنی ہوتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں ایک صاع چار مُد کے برابر تھا ، اور ایک عام درمیانہ سائز کے ہاتھوں والے مرد کے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر جانے والی چیز کی مقدار ہوتی ہے ، جو تقریباً اڑھائی یعنی دو اور آدھا کیلو ہوتی ہے ، لہذا ہر ایک شخص کی طرف سے تقریباً اِس مِقدار میں اُوپر بیان کی گئی تفصیل کے مُطابق کوئی چیز بھی زکوۃ الفِطر کے طور پر دی جا سکتی ہے ۔
**** یہاں ایک بات بہت غور سے سمجھنے کی ہے ، اور وہ یہ کہ ،،، زکوہ الفِطر صِرف اور صِرف اُنہی چیزوں کی صورت میں ادا کی جائے گی جِن کا ذِکر اُوپر حدیث آیا ہے ، زکوۃ الفِطر کے طور پر اِن چیزوں کے بدلے پیسے دینا جائز نہیں جی ہاں ، جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نام لے کر چیزوں کا ذِکر کیا گیا ہے ، جبکہ اُسوقت بھی اُن چیزوں کی قیمت بطور فِطرانہ ادا کی جاسکتی تھی ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت کا ذِکر نہیں فرمایا ، بلکہ ایسا کرنے کی طرف کوئی اِشارہ تک بھی نہیں فرمایا ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اِسکو بیان فرماتے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و عمل سے بھی ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ اُنہوں نے اِن چیزوں کی بجائے اِنکی قیمت بطورِ فِطرانہ نقداً ادا کی ہو ، جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد میں آنے والے ہر کِسی سے بڑھ کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور سنتوں کو جاننے اور سمجھنے ، اور اُن پر عمل کرنے والے تھے ، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان اور عمل مُبارک کے خِلاف اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل کے خِلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ، خواہ اُس کو دُرُست بنانے کے لیے کوئی بھی عقلی یا فلسفیانہ دلیل بنائی جائے وہ کام نا جائز ہی رہے گا ۔
** ( ٧ ) زکوۃ الفطر کِن کو دی جائے گی ؟ **
صدقہ فِطر صِرف ''' مسکینوں ''' یعنی ایسے غریبوں کو دِیا جائے گا جو اچھا کھانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے جیسا کہ عنوان ( ١ ) میں ذِکر کی گئی حدیث میں آیا ہے ، کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جِن لوگوں کو زکوۃ دی جا سکتی اُنہیں ہی فِطرانہ دِیا جائے گا لیکن یہ رائے دُرُست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فِطرانہ کے لیے ''' مساکین ''' کا بطورءِ خاص ذِکر فرمایا ہے ۔
** ( ٨ ) زکوۃ الفطر کہاں ادا کی جائے گی ؟ **
زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا اصل بُنیادی حُکم یہ ہے کہ ، جِس شخص پر جہاں جِس شہر ، بستی ، وغیرہ میں زکوۃ فرض ہوئی ، اور وہ وہاں موجود ہے ، تو اُسی جگہ کے غریب مسلمانوں کے یہ زکوۃ دی جائے گی ، زکوۃ الفِطر کو کِسی دوسری جگہ ادا کرنا ، نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کِسی کے عمل سے ثابت ہے ، جبکہ غریب مُسلمان اُسوقت بھی ہر شہر اور بستی میں موجود تھے ، بلکہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں اور بستیوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ تھی ، لیکن کبھی کِسی نے زکوۃ الفِطر کِسی دوسری جگہ نہیں بھیجی ، یہ کام بھی ایسے کاموں میں سے ہے جو دِین میں شامل کیئے جا رہے ہیں ، لہذا اِن سے پرہیز کرنا ہر مُسلمان کے لیے واجب ہے ، رہا معاملہ مال و زراعت کی زکوۃ کا ، اور دیگر صدقات کا تو اگر کوئی شخص خود کِسی دوسرے شہر میں ہو اور اپنے شہر میں اپنے گھر والوں یا کِسی کے ذریعے اپنی زکوۃ وہاں یا کِسی بھی اور جگہ ادا کروائے تو یہ معاملہ زکوۃ الفِطر سے مُختلف ہے ۔ اِس پر قیاس کر کے فطرانہ کی ادائیگی کا طریقہ بدلنا درست نہیں۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ، عادل سہیل ظفر۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عادل بھائی ماشاء اللہ بہت مفید مضمون تحریر کیا ہے۔ آپ کے مضمون کو پڑھنے کے بعد میرے ناقص علم کے مطابق صدقہ فطر سے متعلق کچھ باتوں میں اشکال محسوس ہوا تو اس کے لئے روز نامہ جنگ میں ہفتہ وار شائع ہونے والے کالم ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ کی کتابی شکل میں شائع شدہ ایڈیشن کی طرف رجوع کیا۔ اس کی جلد سوم میں صدقہ فطر کا ذکر ہے اور اس میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے صدقہ فطر کے چند مسائل اس طرح تحریر فرمائے ہیں:
۱:… صدقہٴ فطر ہر مسلمان پر جبکہ وہ بقدرِ نصاب مال کا مالک ہو، واجب ہے۔
۲:… جس شخص کے پاس اپنی استعمال اور ضروریات سے زائد اتنی چیزیں ہوں کہ اگر ان کی قیمت لگائی جائے تو ساڑھے باون تولے چاندی کی مقدار ہوجائے تو یہ شخص صاحبِ نصاب کہلائے گا، اور اس کے ذمہ صدقہٴ فطر واجب ہوگا (چاندی کی قیمت بازار سے دریافت کرلی جائے)۔
۳:… ہر شخص جو صاحبِ نصاب ہو اس کو اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہٴ فطر ادا کرنا واجب ہے، اور اگر نابالغوں کا اپنا مال ہو تو اس میں سے ادا کیا جائے۔
۴:… جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا ویسے ہی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے، صدقہٴ فطر ان پر بھی واجب ہے، جبکہ وہ کھاتے پیتے صاحبِ نصاب ہوں۔
۵:… جو بچہ عید کی رات صبحِ صادق طلوع سے پہلے پیدا ہوا، اس کا صدقہٴ فطر لازم ہے، اور اگر صبحِ صادق کے بعد پیدا ہوا تو لازم نہیں۔
۶:… جو شخص عید کی رات صبحِ صادق سے پہلے مرگیا، اس کا صدقہٴ فطر نہیں، اور اگر صبحِ صادق کے بعد مرا تو اس کا صدقہٴ فطر واجب ہے۔
۷:… عید کے دن عید کی نماز کو جانے سے پہلے صدقہٴ فطر ادا کردینا بہتر ہے، لیکن اگر پہلے نہیں کیا تو بعد میں بھی ادا کرنا جائز ہے، اور جب تک ادا نہیں کرے گا اس کے ذمہ واجب الادا رہے گا۔
۸:… صدقہٴ فطر ہر شخص کی طرف سے پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت ہے، اور اتنی قیمت کی اور چیز بھی دے سکتا ہے۔
۹:… ایک آدمی کا صدقہٴ فطر ایک سے زیادہ فقیروں، محتاجوں کو دینا بھی جائز ہے، اور کئی آدمیوں کا صدقہ ایک فقیر، محتاج کو بھی دینا دُرست ہے۔
۱۰:… جو لوگ صاحبِ نصاب نہیں، ان کو صدقہٴ فطر دینا دُرست ہے۔
۱۱:… اپنے حقیقی بھائی، بہن، چچا، پھوپھی کو صدقہٴ فطر دینا جائز ہے، میاں بیوی ایک دُوسرے کو صدقہٴ فطر نہیں دے سکتے، اسی طرح ماں باپ اولاد کو اور اولاد ماں باپ، دادا دادی کو صدقہٴ فطر نہیں دے سکتی۔
۱۲:… صدقہٴ فطر کا کسی محتاج، فقیر کو مالک بنانا ضروری ہے، اس لئے صدقہٴ فطر کی رقم مسجد میں لگانا یا کسی اور اچھائی کے کام میں لگانا دُرست نہیں۔

اس کے علاوہ مجھے اس بات میں بھی تھوڑا اشکال ہے کہ صدقہ فطر یکم شوال کی مغرب کے بعد سے نماز عید کے دوران ادا کرنا ضروری ہے کیوں کہ اکثر بڑے بڑے مدارس میں (جہاں دارالافتاء بھی موجود ہوتے ہیں) رمضان المبارک کے آخری عشرہ سے ہی صدقہ فطر مدرسہ کے لئے بھی وصول کیا جاتا ہے۔ اگر مذکورہ وقت کی ہی قید ہوتی تو میرے ناقص علم کے مطابق کم از کم اہل مدارس تو اس بات کا ضرور خیال رکھتے۔ میرے علم میں بھی یہ بات اس طرح آئی کہ میں خود ایک مدرسہ کی طالبہ ہوں۔ اس وقت تو چھٹیاں ہیں انشاء اللہ مدرسہ کھلنے پر اس بات کی بھی تحقیق کروں گی کہ صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے۔
میری اس پوسٹ کا مطلب تنقید نہیں بلکہ محض اپنے علم میں اضافہ مقصود ہے۔
 

نازنین ناز

محفلین
ماہِ شوال اور ہم 1
رمضان کے فوراً بعد شوال کی پہلی رات میں اور پہلی صبح میں عید کی نماز سے پہلے کییے جانے والا کام زکوۃ الفطر یعنی فطرانہ کی ادائیگی ہے ، آئیے زکوۃ الفطر کے بارے میں چند لازمی بنیادی معلومات کا مطالعہ کرتےہیں ،
::: زکوۃ الفِطر :::
** ( ١ ) زکوۃ الفطر کی حِکمت **
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ( فرض رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم زکاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائمِ مِن اللَّغوِ و الرَّفَثِ ، و طُعمَۃً للمساکینِ فَمَن ادَّاھَا قَبلَ الصَّلاۃِ فَھي زکاۃٌ مقبولۃٌ ، وَ مَن ادَّاھَا بعدَ الصَّلاۃِ فَھي صدقۃٌ مِن الصَّدقاتِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوے داروں کے لیے فضول اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیئے اور غریبوں کی خوراک کےلیے زکوۃ الفطر فرض کی ، لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے ( فطرانہ ) ادا کر دِیا تو وہ ( اللہ کی طرف سے ) قُبول شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے جِس نے عید کی نماز کے بعد ( فطرانہ ) ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ) سُنن ابو داؤد/حدیث١٦٠٩/کتاب الزکاۃ/باب زکاۃ الفطر ، صحیح ابن ماجہ/حدیث١٤٨
** ( ٢ ) زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ، اور کب فرض ہوتی ہے ، اور کب تک ادا کی جانی چاہیئے
زکوۃ الفِطرہر مُسلمان پر فرض ہے ،عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ( فرض رسول اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلمزکاۃَ الفِطرِ صاعاً مِن تمرٍ او صاعاً مِن شعیرٍ علیٰ العَبدِ و الحُرِ و الذَکرِ و الاُنثیٰ و الصغیرِ و الکبیرِ مِن المسلینِ و اَمرَ بھا ان تؤدَّیَ قبل خروج الناس اِلیٰ الصَّلاۃِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُسلمانوں کے ہر غُلام اور آزاد ، مرد اور عورت ، بڑے اور چھوٹے ، پر کھجوروں کا ایک صاع یا جَو (Barley) کا ایک صاع زکوۃ الفِطر فرض کی اور حُکم فرمایا کہ لوگوں کے نماز عید کی طرف جانے سے پہلے یہ زکوۃ ادا کی جائے ) صحیح البخاری/کتاب الزکاۃ/باب٣١ ، صحیح مسلم/کتاب الزکاۃ/باب٤ و ٥ ۔

** زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا وقت شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے لے کر عید کی نماز تک ہے اور افضل وقت پہلی شوال میں فجر کے وقت سے عید کی نماز شروع ہونے تک ہے ، عید کی نماز کے بعد زکوۃ الفِطرادا نہیں ہو گی بلکہ یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ، جیسا کہ اُوپر نقل کی گئی حدیث میں ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ُ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''' اگر کوئی کِسی عُذر کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر سکا تو یہ زکوۃ اُس پر قرض رہے گی ، پہلی ہی فُرصت میں اُسے ادا کرے ، اور اگر کِسی نے زکوۃ الفِطر کی ادائیگی میں بغیر کِسی عُذر کے دیر کی تو وہ ادائیگی کے باوجود دیر کرنے کا گُناہ گار ہو گا ''' ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل میں یہ بھی ہے کہ وہ عید کے دِن سے ایک یا دو دِن پہلے بھی زکوہ الفِطر ادا کیا کرتے تھے ۔
** ( ٣ ) زکوۃ الفطر کب فرض ہوتی ہے **
فقہا کے مختلف اقوال کے مُطابق زکوۃ الفِطر رمضان کے آخری اِفطار یعنی شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے فرض ہو جاتی ہے ۔
** ( ٤ ) زکوۃ الفطر ادا کرنا کِس پر فرض ہوتا ہے ؟ **
زکوۃ الفِطر ہر اُس آزاد مسلمان پر فرض ہے جِسکے پاس اپنے اور جو کوئی بھی اُسکی کفالت میں ہے ، اُنکے ایک دِن اور ایک رات کے کھانے پینے سے زائد سامان یا مال موجود ہو ایسا شخص اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں ، والدین ، بھائی بہنوں نوکروں غُلاموں باندیوں میں سے جو بھی اُسکی کفالت میں اور زیرِ پرورش ہے اور مسلمان ہے اُنکی طرف سے بھی ادا کرے گا ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
( اَمرَ رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم بِصدقۃِ الفِطرِ عن الصغیرو الکبیرِ والحُرِ و العبدِ ممن تمونون ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس بڑے اور چھوٹے ، غُلام اور آزاد کی طرف سے صدقہِ فِطر ادا کرنے کا حُکم دِیا ہے جو تُم لوگوں کی ذمہ داری میں ہیں ) سُنن الدارقُطنی/ حدیث ٢٠٠ ، اِرواءُ الغلیل / حدیث ٨٣٥
** ( ٥ ) زکوۃ الفطر کِن چیزوں کی میں صورت میں ادا کی جائے گی ؟ **
ابی سعید الخُد ری رضی اللہ عنہُ کا فرمان ہے ( کُنا نعطیھا یعنی صدقۃ الفِطر فی زمان النبي صلی اللہ علیہ وسلم، صاعاً مِن الطعام او صاعاً مِن التمرِاو صاعاً مِن الشعیرِ او صاعاً مِن الزبیبِ او صاعاً مِن الاقِطِ) ( ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںایک صاع کھانے ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع جَو ( Barley ) ، یا ایک صاع میوے ( خُشک انگور ) ، یا ایک صاع اقِط ( یعنی بالائی نکالے بغیر خُشک دودھ ) میں سے صدقہءِ فِطر ادا کیا کرتے تھے ) صحیح البُخاری/ کتاب الزکاۃ / باب ٤ ، صحیح مُسلم/ کتاب الزکاۃ/باب ٤
اُوپر بیان کی گئی حدیث میں جِن پانچ چیزوں کا ذِکر ہے ، اگر وہ چیزیں مُیسر ہوں اور اُن چیزوں کو معمول کے روزمرہ کھانے میں اِستعمال کیا جاتا ہو تو افضل یہ ہے کہ اِنہی پانچ چیزوں میں سے کِسی ایک کو زکوۃ الفِطرکے طور پر خرچ کیا جائے ، اور اگر کوئی مُسلمان ایسی جگہ رہتا ہے جہاں یہ چیزیں پائی نہیں جاتیں یا عام معمول میں کھائی نہیں جاتیں تو وہاں ، عام معمول میں کھائی جانے والی چیزوں میں سے کوئی چیز مقررہ مِقدار میں زکوۃ الفِطر کے طور پر خرچ کی جائے گی ، کیونکہ حدیث میں پہلی چیز جو بیان ہوئی ہے وہ ''' الطعام ''' ''' کھانا ''' ہے لہذا باقی چار چیزیں موقع محل کے مُطابق اختیار کی جانے کی گُنجائش ہے ،
** ( ٦ ) زکوۃ الفطر کی مِقدار **
:::''' زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟ '''::: میں بیان کی گئی حدیث میں ذِکر کئے گئے اشخاص میں سے ہر ایک کی طرف سے ، صرف اُن چیزوں میں سے جو ابھی اُوپر بیان کی گئی ہیں ، ایک صاع جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں رائج تھا کے برابر زکوۃ الفِطر ادا کرنی ہوتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں ایک صاع چار مُد کے برابر تھا ، اور ایک عام درمیانہ سائز کے ہاتھوں والے مرد کے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر جانے والی چیز کی مقدار ہوتی ہے ، جو تقریباً اڑھائی یعنی دو اور آدھا کیلو ہوتی ہے ، لہذا ہر ایک شخص کی طرف سے تقریباً اِس مِقدار میں اُوپر بیان کی گئی تفصیل کے مُطابق کوئی چیز بھی زکوۃ الفِطر کے طور پر دی جا سکتی ہے ۔
**** یہاں ایک بات بہت غور سے سمجھنے کی ہے ، اور وہ یہ کہ ،،، زکوہ الفِطر صِرف اور صِرف اُنہی چیزوں کی صورت میں ادا کی جائے گی جِن کا ذِکر اُوپر حدیث آیا ہے ، زکوۃ الفِطر کے طور پر اِن چیزوں کے بدلے پیسے دینا جائز نہیں جی ہاں ، جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نام لے کر چیزوں کا ذِکر کیا گیا ہے ، جبکہ اُسوقت بھی اُن چیزوں کی قیمت بطور فِطرانہ ادا کی جاسکتی تھی ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت کا ذِکر نہیں فرمایا ، بلکہ ایسا کرنے کی طرف کوئی اِشارہ تک بھی نہیں فرمایا ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اِسکو بیان فرماتے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و عمل سے بھی ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ اُنہوں نے اِن چیزوں کی بجائے اِنکی قیمت بطورِ فِطرانہ نقداً ادا کی ہو ، جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد میں آنے والے ہر کِسی سے بڑھ کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور سنتوں کو جاننے اور سمجھنے ، اور اُن پر عمل کرنے والے تھے ، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان اور عمل مُبارک کے خِلاف اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل کے خِلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ، خواہ اُس کو دُرُست بنانے کے لیے کوئی بھی عقلی یا فلسفیانہ دلیل بنائی جائے وہ کام نا جائز ہی رہے گا ۔
** ( ٧ ) زکوۃ الفطر کِن کو دی جائے گی ؟ **
صدقہ فِطر صِرف ''' مسکینوں ''' یعنی ایسے غریبوں کو دِیا جائے گا جو اچھا کھانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے جیسا کہ عنوان ( ١ ) میں ذِکر کی گئی حدیث میں آیا ہے ، کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جِن لوگوں کو زکوۃ دی جا سکتی اُنہیں ہی فِطرانہ دِیا جائے گا لیکن یہ رائے دُرُست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فِطرانہ کے لیے ''' مساکین ''' کا بطورءِ خاص ذِکر فرمایا ہے ۔
** ( ٨ ) زکوۃ الفطر کہاں ادا کی جائے گی ؟ **
زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا اصل بُنیادی حُکم یہ ہے کہ ، جِس شخص پر جہاں جِس شہر ، بستی ، وغیرہ میں زکوۃ فرض ہوئی ، اور وہ وہاں موجود ہے ، تو اُسی جگہ کے غریب مسلمانوں کے یہ زکوۃ دی جائے گی ، زکوۃ الفِطر کو کِسی دوسری جگہ ادا کرنا ، نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کِسی کے عمل سے ثابت ہے ، جبکہ غریب مُسلمان اُسوقت بھی ہر شہر اور بستی میں موجود تھے ، بلکہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں اور بستیوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ تھی ، لیکن کبھی کِسی نے زکوۃ الفِطر کِسی دوسری جگہ نہیں بھیجی ، یہ کام بھی ایسے کاموں میں سے ہے جو دِین میں شامل کیئے جا رہے ہیں ، لہذا اِن سے پرہیز کرنا ہر مُسلمان کے لیے واجب ہے ، رہا معاملہ مال و زراعت کی زکوۃ کا ، اور دیگر صدقات کا تو اگر کوئی شخص خود کِسی دوسرے شہر میں ہو اور اپنے شہر میں اپنے گھر والوں یا کِسی کے ذریعے اپنی زکوۃ وہاں یا کِسی بھی اور جگہ ادا کروائے تو یہ معاملہ زکوۃ الفِطر سے مُختلف ہے ۔ اِس پر قیاس کر کے فطرانہ کی ادائیگی کا طریقہ بدلنا درست نہیں۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ، عادل سہیل ظفر۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عادل بھائی ماشاء اللہ بہت مفید مضمون تحریر کیا ہے۔ آپ کے مضمون کو پڑھنے کے بعد میرے ناقص علم کے مطابق صدقہ فطر سے متعلق کچھ باتوں میں اشکال محسوس ہوا تو اس کے لئے روز نامہ جنگ میں ہفتہ وار شائع ہونے والے کالم ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ کی کتابی شکل میں شائع شدہ ایڈیشن کی طرف رجوع کیا۔ اس کی جلد سوم میں صدقہ فطر کا ذکر ہے اور اس میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے صدقہ فطر کے چند مسائل اس طرح تحریر فرمائے ہیں:
۱:… صدقہٴ فطر ہر مسلمان پر جبکہ وہ بقدرِ نصاب مال کا مالک ہو، واجب ہے۔
۲:… جس شخص کے پاس اپنی استعمال اور ضروریات سے زائد اتنی چیزیں ہوں کہ اگر ان کی قیمت لگائی جائے تو ساڑھے باون تولے چاندی کی مقدار ہوجائے تو یہ شخص صاحبِ نصاب کہلائے گا، اور اس کے ذمہ صدقہٴ فطر واجب ہوگا (چاندی کی قیمت بازار سے دریافت کرلی جائے)۔
۳:… ہر شخص جو صاحبِ نصاب ہو اس کو اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہٴ فطر ادا کرنا واجب ہے، اور اگر نابالغوں کا اپنا مال ہو تو اس میں سے ادا کیا جائے۔
۴:… جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا ویسے ہی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے، صدقہٴ فطر ان پر بھی واجب ہے، جبکہ وہ کھاتے پیتے صاحبِ نصاب ہوں۔
۵:… جو بچہ عید کی رات صبحِ صادق طلوع سے پہلے پیدا ہوا، اس کا صدقہٴ فطر لازم ہے، اور اگر صبحِ صادق کے بعد پیدا ہوا تو لازم نہیں۔
۶:… جو شخص عید کی رات صبحِ صادق سے پہلے مرگیا، اس کا صدقہٴ فطر نہیں، اور اگر صبحِ صادق کے بعد مرا تو اس کا صدقہٴ فطر واجب ہے۔
۷:… عید کے دن عید کی نماز کو جانے سے پہلے صدقہٴ فطر ادا کردینا بہتر ہے، لیکن اگر پہلے نہیں کیا تو بعد میں بھی ادا کرنا جائز ہے، اور جب تک ادا نہیں کرے گا اس کے ذمہ واجب الادا رہے گا۔
۸:… صدقہٴ فطر ہر شخص کی طرف سے پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت ہے، اور اتنی قیمت کی اور چیز بھی دے سکتا ہے۔
۹:… ایک آدمی کا صدقہٴ فطر ایک سے زیادہ فقیروں، محتاجوں کو دینا بھی جائز ہے، اور کئی آدمیوں کا صدقہ ایک فقیر، محتاج کو بھی دینا دُرست ہے۔
۱۰:… جو لوگ صاحبِ نصاب نہیں، ان کو صدقہٴ فطر دینا دُرست ہے۔
۱۱:… اپنے حقیقی بھائی، بہن، چچا، پھوپھی کو صدقہٴ فطر دینا جائز ہے، میاں بیوی ایک دُوسرے کو صدقہٴ فطر نہیں دے سکتے، اسی طرح ماں باپ اولاد کو اور اولاد ماں باپ، دادا دادی کو صدقہٴ فطر نہیں دے سکتی۔
۱۲:… صدقہٴ فطر کا کسی محتاج، فقیر کو مالک بنانا ضروری ہے، اس لئے صدقہٴ فطر کی رقم مسجد میں لگانا یا کسی اور اچھائی کے کام میں لگانا دُرست نہیں۔

اس کے علاوہ مجھے اس بات میں بھی تھوڑا اشکال ہے کہ صدقہ فطر یکم شوال کی مغرب کے بعد سے نماز عید کے دوران ادا کرنا ضروری ہے کیوں کہ اکثر بڑے بڑے مدارس میں (جہاں دارالافتاء بھی موجود ہوتے ہیں) رمضان المبارک کے آخری عشرہ سے ہی صدقہ فطر مدرسہ کے لئے بھی وصول کیا جاتا ہے۔ اگر مذکورہ وقت کی ہی قید ہوتی تو میرے ناقص علم کے مطابق کم از کم اہل مدارس تو اس بات کا ضرور خیال رکھتے۔ میرے علم میں بھی یہ بات اس طرح آئی کہ میں خود ایک مدرسہ کی طالبہ ہوں۔ اس وقت تو چھٹیاں ہیں انشاء اللہ مدرسہ کھلنے پر اس بات کی بھی تحقیق کروں گی کہ صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے۔
میری اس پوسٹ کا مطلب تنقید نہیں بلکہ محض اپنے علم میں اضافہ مقصود ہے۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عادل بھائی ماشاء اللہ بہت مفید مضمون تحریر کیا ہے۔ آپ کے مضمون کو پڑھنے کے بعد میرے ناقص علم کے مطابق صدقہ فطر سے متعلق کچھ باتوں میں اشکال محسوس ہوا تو اس کے لئے روز نامہ جنگ میں ہفتہ وار شائع ہونے والے کالم ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ کی کتابی شکل میں شائع شدہ ایڈیشن کی طرف رجوع کیا۔ اس کی جلد سوم میں صدقہ فطر کا ذکر ہے اور اس میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے صدقہ فطر کے چند مسائل اس طرح تحریر فرمائے ہیں:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترمہ بہن نازنین ناز صاحبہ ، سب سے پہلے تو میں آپ کا اس بات پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے توجہ کے ساتھ میرے مراسلات کا مطالعہ فرمایا ، اور اس کے بعد اس بات پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میری معلومات میں خوفناک حیرت انگیز اضافہ فرمایا ،
اس کے بعد آتے ہیں یوسف لدھیانوی صاحب غفر اللہ لہ کے فتاویٰ کی طرف ،جن کی وجہ سے آپ کے سامنے میری ارسال کردہ مصدقہ معلومات کے بارے میں اشکال پیدا ہوئے ،
۱:… صدقہٴ فطر ہر مسلمان پر جبکہ وہ بقدرِ نصاب مال کا مالک ہو، واجب ہے۔
۲:… جس شخص کے پاس اپنی استعمال اور ضروریات سے زائد اتنی چیزیں ہوں کہ اگر ان کی قیمت لگائی جائے تو ساڑھے باون تولے چاندی کی مقدار ہوجائے تو یہ شخص صاحبِ نصاب کہلائے گا، اور اس کے ذمہ صدقہٴ فطر واجب ہوگا (چاندی کی قیمت بازار سے دریافت کرلی جائے)۔
۳:… ہر شخص جو صاحبِ نصاب ہو اس کو اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہٴ فطر ادا کرنا واجب ہے، اور اگر نابالغوں کا اپنا مال ہو تو اس میں سے ادا کیا جائے۔
ان تینوں فتاویٰ کے لیے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ میں کوئی دلیل نہیں ، زکوۃ الفطر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کسی نصاب کی حد کے بغیر فرض کی ہے ، اللہ ہی جانے مفتی صاحب رحمہ اللہ نے نصاب والی شق کہاں سے دریافت فرمائی ، اگر آپ کے علم میں ایسی کوئی نص ہو ، کوئی دلیل ہو جو زکوۃ الفطر کے فرض ہونے کے لیے کسی نصاب کا تقرر کرتی ہو تو مجھے ضرور آگاہ فرمایے ،
تیسرا فتویٰ بھی میرے مراسلے کے مسئلہ رقم 4 میں ذکر کردہ حدیث شریف """( اَمرَ رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم بِصدقۃِ الفِطرِ عن الصغیرو الکبیرِ والحُرِ و العبدِ ممن تمونون ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس بڑے اور چھوٹے ، غُلام اور آزاد کی طرف سے صدقہِ فِطر ادا کرنے کا حُکم دِیا ہے جو تُم لوگوں کی ذمہ داری میں ہیں ) """" کی موافقت نہیں رکھتا ،
اس حدیث شریف میں بڑی وضاحت سے یہ حکم بیان ہوا کہ ہر شخص اپنی کفالت اور معاشی ذمہ داری میں موجود لوگوں کی طرف سے اپنے مال میں سے زکوۃ الفطر ادا کرے گا ، بالغوں ، با بالغوں کی کوئی تخصیص یا قید نہیں ، اور نہ ہی ایسے کسی کے پاس اپنا ذاتی مال ہونے کی صورت میں اسی کے مال میں سے زکوۃ الفطر ادا کرنے کی کوئی شرط ہے ،


جی ہاں ، میاں بیوی کے معاملے میں اتنا ضرور ہے کہ اگر بیوی اپنا ذاتی مال رکھتی ہے تو وہ اپنی ہر زکوۃ ، زکوۃ الفطر اور صاحبہ نصاب ہونے کی صورت میں زکوۃ المال اپنے مال میں سے ادا کرے ، خاوند شرعی طور پر اس کی زکوۃ ادا کرنے کا پابند نہیں ، اگر کر دے تو یہ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک ہی مانا جانا چاہیے ،

۴:… جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا ویسے ہی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے، صدقہٴ فطر ان پر بھی واجب ہے، جبکہ وہ کھاتے پیتے صاحبِ نصاب ہوں۔
بہن جی ، میرے بیان کردہ پہلے مسئلہ میں مذکور حدیث شریف کے الفاظ پر غور فرمایے """( فرض رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم زکاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائمِ مِن اللَّغوِ و الرَّفَثِ ، و طُعمَۃً للمساکینِ فَمَن ادَّاھَا قَبلَ الصَّلاۃِ فَھي زکاۃٌ مقبولۃٌ ، وَ مَن ادَّاھَا بعدَ الصَّلاۃِ فَھي صدقۃٌ مِن الصَّدقاتِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوے داروں کے لیے فضول اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیئے اور غریبوں کی خوراک کےلیے زکوۃ الفطر فرض کی ، لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے ( فطرانہ ) ادا کر دِیا تو وہ ( اللہ کی طرف سے ) قُبول شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے جِس نے عید کی نماز کے بعد ( فطرانہ ) ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ) """ اس حدیث شریف میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ زکوۃ الفطر کے فرض کیے جانے کی علت یعنی سبب بیان ہوا ہے ، کہ روزہ داروں کی طرف سے روزے میں ہونے والے فضول کاموں اور باتوں کی طہارت اور غریبوں کے خوارک کے لیے یہ زکوۃ فرض کی گئی ، تو میری بہن جس نے غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے روزہ رکھا ہی نہیں اس کے لیے دوران روزہ فضول بات یا کام کی علت واقع ہی نہیں تو زکوۃ الفطر کیسی !!!
اور یہ بھی ملاحظہ فرمایے میری محترمہ بہن کہ اس حدیث شریف میں بھی کہیں کسی نصاب کا کوئی ذکر نہیں ،
میری بہن اللہ کے دین کے احکام اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے واضح نص کے بغیر اخذ نہیں کیے جا سکتے ، اور مفتی صاحب رحمہ اللہ کے ان فتاویٰ کے لیے کوئی ایسی نص موجود نہیں ۔

رہا معاملہ بیماری کی صورت میں روزے چھوڑنے والا کا تو اس کے بھی حکم ہے کہ وہ اپنے بدلے کسی روزہ دار کی سحری افطاری کروائے یا صحت مندی کے بعد روزے رکھے ، تو اگر وہ روشے رکھوائے گا یا روزے رکھے گا تو مذکورہ بالا حدیث شریف میں بیان فرمودہ سبب کی موجودگی کی صورت ہو گی تو زکوۃ الفطر اس پر فرض ہو گی ، و اللہ اعلم ۔

۵:… جو بچہ عید کی رات صبحِ صادق طلوع سے پہلے پیدا ہوا، اس کا صدقہٴ فطر لازم ہے، اور اگر صبحِ صادق کے بعد پیدا ہوا تو لازم نہیں۔
جی ، یہ بات درست ہے ، اس کی دلیل میرے مراسلے کے مسئلہ رقم ۲ تا 4 میں موجود ہے ، و للہ الحمد،

۶:… جو شخص عید کی رات صبحِ صادق سے پہلے مرگیا، اس کا صدقہٴ فطر نہیں، اور اگر صبحِ صادق کے بعد مرا تو اس کا صدقہٴ فطر واجب ہے۔
اگر اس شخص نے روزے رکھے تھے اور شعبان کا چاند طلوع ہونے کے بعد مرا تو سابقہ بیان کردہ احادیث مبارکہ کے مطابق اس پر زکوۃ الفطر اس پر فرض ہو چکی ، اس کے ورثاء اس کی طرف سے یہ زکوۃ ادا کریں گے ، ایسے شخص کو زکوۃ الفطر کی ادائیگی سے مبرا قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ۔

۷:… عید کے دن عید کی نماز کو جانے سے پہلے صدقہٴ فطر ادا کردینا بہتر ہے، لیکن اگر پہلے نہیں کیا تو بعد میں بھی ادا کرنا جائز ہے، اور جب تک ادا نہیں کرے گا اس کے ذمہ واجب الادا رہے گا۔

بہن جی ، مسئلہ رقم ۱ میں بیان شدہ حدیث شریف """ ( فرض رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم زکاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائمِ مِن اللَّغوِ و الرَّفَثِ ، و طُعمَۃً للمساکینِ فَمَن ادَّاھَا قَبلَ الصَّلاۃِ فَھي زکاۃٌ مقبولۃٌ ، وَ مَن ادَّاھَا بعدَ الصَّلاۃِ فَھي صدقۃٌ مِن الصَّدقاتِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوے داروں کے لیے فضول اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیئے اور غریبوں کی خوراک کےلیے زکوۃ الفطر فرض کی ، لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے ( فطرانہ ) ادا کر دِیا تو وہ ( اللہ کی طرف سے ) قُبول شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے عید کی نماز کے بعد ( فطرانہ ) ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ) """ میں سرخ کردہ الفاظ کو دیکھیے ، کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس حکم مبارک اور اس فتوے میں کوئی مطابقت ہے ؟؟؟
جی نہیں ، ((((( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ::: جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کے بارے میں فیصلہ فرما دیں تو پھر کسی ایمان والے اور ایمان والی کے لیے یہ گنجائش ہی نہیں کہ ان کے لیے کوئی اور اختیار رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو یقینا وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا ))))) سورت الاحزاب / آیت36 ،
اگر کوئی شخص کسی مقبول شرعی عذر کی وجہ سے مقرر وقت میں زکوۃ الفطر ادا نہ کر سکا ہو تو وہ عید کی نماز کے بعد کسی اور وقت میں اس کی ادائیگی کر سکتا ہے ، کیونکہ یہ زکوۃ اس پر فرض تھی لہذا جیسے ہی اس فرض کی ادائیگی سے مانع شرعی عذر دور ہو گا وہ زکوۃ ادا کر سکتا ہے ، اس کے علاوہ کسی کے لیے اس کی ادائیگی میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ، اور بغیر شرعی عذر کے تاخیر کرنے کی صورت میں وہ ادائیگی زکوۃ الفطر کی بجائے صرف ایک عام صدقہ کی ہو گی ،
مفتی صاحب رحمہ اللہ کے اس مذکورہ بالا فتوے میں اگر شرعی عذر کی بابت وضاحت شامل ہو تو بات درست بن سکتی ہے ۔

۸:… صدقہٴ فطر ہر شخص کی طرف سے پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت ہے، اور اتنی قیمت کی اور چیز بھی دے سکتا ہے۔
گندم کی قید نہیں لگائی جا سکتی ، لیکن گندم بھی دی جا سکتی ہے اور اس کے علاوہ چیز کھانے پینے کی چیزوں میں سے کچھ اور بھی ، میرے مراسلے میں مسئلہ رقم 5 میں اس کی تفصیل موجود ہے ،
۹:… ایک آدمی کا صدقہٴ فطر ایک سے زیادہ فقیروں، محتاجوں کو دینا بھی جائز ہے، اور کئی آدمیوں کا صدقہ ایک فقیر، محتاج کو بھی دینا دُرست ہے۔
جی الحمد للہ ، یہ درست ہے ، کیونکہ احادیث مبارکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال میں اس کے خلاف کچھ بیان نہیں ۔
۱۰:… جو لوگ صاحبِ نصاب نہیں، ان کو صدقہٴ فطر دینا دُرست ہے۔
میرے مراسلے کے مسئلہ رقم ۱ میں بیان کردہ حدیث شریف """ ( فرض رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم زکاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائمِ مِن اللَّغوِ و الرَّفَثِ ، و طُعمَۃً للمساکینِ فَمَن ادَّاھَا قَبلَ الصَّلاۃِ فَھي زکاۃٌ مقبولۃٌ ، وَ مَن ادَّاھَا بعدَ الصَّلاۃِ فَھي صدقۃٌ مِن الصَّدقاتِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوے داروں کے لیے فضول اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیئے اور غریبوں کی خوراک کےلیے زکوۃ الفطر فرض کی ، لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے ( فطرانہ ) ادا کر دِیا تو وہ ( اللہ کی طرف سے ) قُبول شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے جِس نے عید کی نماز کے بعد ( فطرانہ ) ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ) """" زکوہ الفطر کی فرضیت کے دو اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ ایسے غریب لوگ جو اچھے کھانے پینے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لیے عید کے دن اچھا کھانا پینا مہیا ہو سکے ، اس میں کہیں نصاب کا کوئی ذکر نہیں ، عملی طور پر ایسے ہزاروں لوگ ملتے ہیں جو صاحب نصاب نہیں لیکن مناسب کھاتے پیتے ہیں۔

۱۱:… اپنے حقیقی بھائی، بہن، چچا، پھوپھی کو صدقہٴ فطر دینا جائز ہے، میاں بیوی ایک دُوسرے کو صدقہٴ فطر نہیں دے سکتے، اسی طرح ماں باپ اولاد کو اور اولاد ماں باپ، دادا دادی کو صدقہٴ فطر نہیں دے سکتی۔
جی الحمد للہ یہ بھی درست ہے ،

۱۲:… صدقہٴ فطر کا کسی محتاج، فقیر کو مالک بنانا ضروری ہے، اس لئے صدقہٴ فطر کی رقم مسجد میں لگانا یا کسی اور اچھائی کے کام میں لگانا دُرست نہیں۔
جی الحمد للہ یہ بھی درست ہے کہ زکوۃ الفطر کی رقم کسی اور کام میں لگانا درست نہیں ، بلکہ واضح طور پر یہ کہنا چاہیے کہ زکوۃ الفطر مال و رقم کی صورت میں دینا ہی درست نہیں ، تفصیل کے لیے میرے مراسلے میں مسئلہ رقم 6 دیکھیے ۔

اس کے علاوہ مجھے اس بات میں بھی تھوڑا اشکال ہے کہ صدقہ فطر یکم شوال کی مغرب کے بعد سے نماز عید کے دوران ادا کرنا ضروری ہے کیوں کہ اکثر بڑے بڑے مدارس میں (جہاں دارالافتاء بھی موجود ہوتے ہیں) رمضان المبارک کے آخری عشرہ سے ہی صدقہ فطر مدرسہ کے لئے بھی وصول کیا جاتا ہے۔ اگر مذکورہ وقت کی ہی قید ہوتی تو میرے ناقص علم کے مطابق کم از کم اہل مدارس تو اس بات کا ضرور خیال رکھتے۔ میرے علم میں بھی یہ بات اس طرح آئی کہ میں خود ایک مدرسہ کی طالبہ ہوں۔ اس وقت تو چھٹیاں ہیں انشاء اللہ مدرسہ کھلنے پر اس بات کی بھی تحقیق کروں گی کہ صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے۔
میری اس پوسٹ کا مطلب تنقید نہیں بلکہ محض اپنے علم میں اضافہ مقصود ہے۔
میری محترمہ بہن ، زکوۃ الفطر کے جو احکام صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال میں میسر تھے الحمد للہ میں نے اس مضمون میں جمع کر دیے ، و للہ الحمد و المنۃ ،
میں نے مسئلہ رقم 2 کی آخری سطر میں لکھا ہے """ صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل میں یہ بھی ہے کہ وہ عید کے دِن سے ایک یا دو دِن پہلے بھی زکوہ الفِطر ادا کیا کرتے تھے ۔ """،
لہذا اگر کوئی مدرسے والے اپنے انتظامی امور کی بنا پر ایک دو یا چند دن پہلے زکوۃ الفطر جمع کرتے ہیں تو اِن شاء اللہکوئی حرج نہیں ،
اس سے زیادہ اہم سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا جن مدارس میں طالب علموں کے لیے زکوۃ الفطر جمع کی جاتی ہے کیا وہ طالب علم مستحق مساکین کی زمرے میں آتے ہیں ؟؟؟
اور کہیں ایسا تو نہیں تو زکوۃ الفطر میں خوراک کی بجائے مال لے کر مسکینوں کو عید کے دنوں کے کھانے مہیا کرنے کی بجائے کچھ اور کاموں میں لگا دیا جاتا ہو ؟؟؟
بہن میری ، آپ چاہیں تو تنقید بھی کر سکتی ہیں ، میں ان شاء اللہ ایک اچھے بھائی کی طرح آپ کی تنقید کو بھی خوش آمدید کہوں گا ، اور جب چاہیں جتنے چاہیں اور جس طرح چاہیں سوالات بھی کر سکتی ہیں ،
الحمد للہ اس فورمز کے علاوہ اور بھی کچھ فورمز پر میری حاضری رہتی ہے ، اگر کہیں آپ کے کسی مراسلے کا جواب نہ دے سکوں تو میرے ذاتی ای میل پر خبر کر دیجیے گا ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ہم سب کو ، ہر ایک کلمہ گو کو اس کا دین اسی طرح سمجھنے ، ماننے ، اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے جس طرح اس نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہر نازل فرمایا تھا ، اور ہمارے بزرگوں کے بارے میں ہمارے حسنء ظن کو ہمارے لیے دین میں دلیل بنا لینے سے ہمیں محفوظ رکھے ، اور جو اللہ کی طرف جا چکے اللہ ان کے ساتھ اپنی رحمت والا معاملہ فرمائے اور جو جانے والے ہیں انہیں اپنے دین حق پر چلاتا ہوا لے جائے ، والسلام علیکم۔

 
Top