عادل ـ سہیل
محفلین
ماہِ شوال اور ہم 1
رمضان کے فوراً بعد شوال کی پہلی رات میں اور پہلی صبح میں عید کی نماز سے پہلے کییے جانے والا کام زکوۃ الفطر یعنی فطرانہ کی ادائیگی ہے ، آئیے زکوۃ الفطر کے بارے میں چند لازمی بنیادی معلومات کا مطالعہ کرتےہیں ،
::: زکوۃ الفِطر :::
** ( ١ ) زکوۃ الفطر کی حِکمت **
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ( فرض رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم زکاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائمِ مِن اللَّغوِ و الرَّفَثِ ، و طُعمَۃً للمساکینِ فَمَن ادَّاھَا قَبلَ الصَّلاۃِ فَھي زکاۃٌ مقبولۃٌ ، وَ مَن ادَّاھَا بعدَ الصَّلاۃِ فَھي صدقۃٌ مِن الصَّدقاتِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوے داروں کے لیے فضول اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیئے اور غریبوں کی خوراک کےلیے زکوۃ الفطر فرض کی ، لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے ( فطرانہ ) ادا کر دِیا تو وہ ( اللہ کی طرف سے ) قُبول شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے جِس نے عید کی نماز کے بعد ( فطرانہ ) ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ) سُنن ابو داؤد/حدیث١٦٠٩/کتاب الزکاۃ/باب زکاۃ الفطر ، صحیح ابن ماجہ/حدیث١٤٨
** ( ٢ ) زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ، اور کب فرض ہوتی ہے ، اور کب تک ادا کی جانی چاہیئے
زکوۃ الفِطرہر مُسلمان پر فرض ہے ،عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ( فرض رسول اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلمزکاۃَ الفِطرِ صاعاً مِن تمرٍ او صاعاً مِن شعیرٍ علیٰ العَبدِ و الحُرِ و الذَکرِ و الاُنثیٰ و الصغیرِ و الکبیرِ مِن المسلینِ و اَمرَ بھا ان تؤدَّیَ قبل خروج الناس اِلیٰ الصَّلاۃِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُسلمانوں کے ہر غُلام اور آزاد ، مرد اور عورت ، بڑے اور چھوٹے ، پر کھجوروں کا ایک صاع یا جَو (Barley) کا ایک صاع زکوۃ الفِطر فرض کی اور حُکم فرمایا کہ لوگوں کے نماز عید کی طرف جانے سے پہلے یہ زکوۃ ادا کی جائے ) صحیح البخاری/کتاب الزکاۃ/باب٣١ ، صحیح مسلم/کتاب الزکاۃ/باب٤ و ٥ ۔
** زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا وقت شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے لے کر عید کی نماز تک ہے اور افضل وقت پہلی شوال میں فجر کے وقت سے عید کی نماز شروع ہونے تک ہے ، عید کی نماز کے بعد زکوۃ الفِطرادا نہیں ہو گی بلکہ یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ، جیسا کہ اُوپر نقل کی گئی حدیث میں ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ُ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''' اگر کوئی کِسی عُذر کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر سکا تو یہ زکوۃ اُس پر قرض رہے گی ، پہلی ہی فُرصت میں اُسے ادا کرے ، اور اگر کِسی نے زکوۃ الفِطر کی ادائیگی میں بغیر کِسی عُذر کے دیر کی تو وہ ادائیگی کے باوجود دیر کرنے کا گُناہ گار ہو گا ''' ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل میں یہ بھی ہے کہ وہ عید کے دِن سے ایک یا دو دِن پہلے بھی زکوہ الفِطر ادا کیا کرتے تھے ۔
** ( ٣ ) زکوۃ الفطر کب فرض ہوتی ہے **
فقہا کے مختلف اقوال کے مُطابق زکوۃ الفِطر رمضان کے آخری اِفطار یعنی شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے فرض ہو جاتی ہے ۔
** ( ٤ ) زکوۃ الفطر ادا کرنا کِس پر فرض ہوتا ہے ؟ **
زکوۃ الفِطر ہر اُس آزاد مسلمان پر فرض ہے جِسکے پاس اپنے اور جو کوئی بھی اُسکی کفالت میں ہے ، اُنکے ایک دِن اور ایک رات کے کھانے پینے سے زائد سامان یا مال موجود ہو ایسا شخص اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں ، والدین ، بھائی بہنوں نوکروں غُلاموں باندیوں میں سے جو بھی اُسکی کفالت میں اور زیرِ پرورش ہے اور مسلمان ہے اُنکی طرف سے بھی ادا کرے گا ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
( اَمرَ رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم بِصدقۃِ الفِطرِ عن الصغیرو الکبیرِ والحُرِ و العبدِ ممن تمونون ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس بڑے اور چھوٹے ، غُلام اور آزاد کی طرف سے صدقہِ فِطر ادا کرنے کا حُکم دِیا ہے جو تُم لوگوں کی ذمہ داری میں ہیں ) سُنن الدارقُطنی/ حدیث ٢٠٠ ، اِرواءُ الغلیل / حدیث ٨٣٥
** ( ٥ ) زکوۃ الفطر کِن چیزوں کی میں صورت میں ادا کی جائے گی ؟ **
ابی سعید الخُد ری رضی اللہ عنہُ کا فرمان ہے ( کُنا نعطیھا یعنی صدقۃ الفِطر فی زمان النبي صلی اللہ علیہ وسلم، صاعاً مِن الطعام او صاعاً مِن التمرِاو صاعاً مِن الشعیرِ او صاعاً مِن الزبیبِ او صاعاً مِن الاقِطِ) ( ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںایک صاع کھانے ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع جَو ( Barley ) ، یا ایک صاع میوے ( خُشک انگور ) ، یا ایک صاع اقِط ( یعنی بالائی نکالے بغیر خُشک دودھ ) میں سے صدقہءِ فِطر ادا کیا کرتے تھے ) صحیح البُخاری/ کتاب الزکاۃ / باب ٤ ، صحیح مُسلم/ کتاب الزکاۃ/باب ٤
اُوپر بیان کی گئی حدیث میں جِن پانچ چیزوں کا ذِکر ہے ، اگر وہ چیزیں مُیسر ہوں اور اُن چیزوں کو معمول کے روزمرہ کھانے میں اِستعمال کیا جاتا ہو تو افضل یہ ہے کہ اِنہی پانچ چیزوں میں سے کِسی ایک کو زکوۃ الفِطرکے طور پر خرچ کیا جائے ، اور اگر کوئی مُسلمان ایسی جگہ رہتا ہے جہاں یہ چیزیں پائی نہیں جاتیں یا عام معمول میں کھائی نہیں جاتیں تو وہاں ، عام معمول میں کھائی جانے والی چیزوں میں سے کوئی چیز مقررہ مِقدار میں زکوۃ الفِطر کے طور پر خرچ کی جائے گی ، کیونکہ حدیث میں پہلی چیز جو بیان ہوئی ہے وہ ''' الطعام ''' ''' کھانا ''' ہے لہذا باقی چار چیزیں موقع محل کے مُطابق اختیار کی جانے کی گُنجائش ہے ،
** ( ٦ ) زکوۃ الفطر کی مِقدار **
:::''' زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟ '''::: میں بیان کی گئی حدیث میں ذِکر کئے گئے اشخاص میں سے ہر ایک کی طرف سے ، صرف اُن چیزوں میں سے جو ابھی اُوپر بیان کی گئی ہیں ، ایک صاع جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں رائج تھا کے برابر زکوۃ الفِطر ادا کرنی ہوتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں ایک صاع چار مُد کے برابر تھا ، اور ایک عام درمیانہ سائز کے ہاتھوں والے مرد کے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر جانے والی چیز کی مقدار ہوتی ہے ، جو تقریباً اڑھائی یعنی دو اور آدھا کیلو ہوتی ہے ، لہذا ہر ایک شخص کی طرف سے تقریباً اِس مِقدار میں اُوپر بیان کی گئی تفصیل کے مُطابق کوئی چیز بھی زکوۃ الفِطر کے طور پر دی جا سکتی ہے ۔
**** یہاں ایک بات بہت غور سے سمجھنے کی ہے ، اور وہ یہ کہ ،،، زکوہ الفِطر صِرف اور صِرف اُنہی چیزوں کی صورت میں ادا کی جائے گی جِن کا ذِکر اُوپر حدیث آیا ہے ، زکوۃ الفِطر کے طور پر اِن چیزوں کے بدلے پیسے دینا جائز نہیں جی ہاں ، جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نام لے کر چیزوں کا ذِکر کیا گیا ہے ، جبکہ اُسوقت بھی اُن چیزوں کی قیمت بطور فِطرانہ ادا کی جاسکتی تھی ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت کا ذِکر نہیں فرمایا ، بلکہ ایسا کرنے کی طرف کوئی اِشارہ تک بھی نہیں فرمایا ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اِسکو بیان فرماتے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و عمل سے بھی ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ اُنہوں نے اِن چیزوں کی بجائے اِنکی قیمت بطورِ فِطرانہ نقداً ادا کی ہو ، جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد میں آنے والے ہر کِسی سے بڑھ کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور سنتوں کو جاننے اور سمجھنے ، اور اُن پر عمل کرنے والے تھے ، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان اور عمل مُبارک کے خِلاف اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل کے خِلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ، خواہ اُس کو دُرُست بنانے کے لیے کوئی بھی عقلی یا فلسفیانہ دلیل بنائی جائے وہ کام نا جائز ہی رہے گا ۔
** ( ٧ ) زکوۃ الفطر کِن کو دی جائے گی ؟ **
صدقہ فِطر صِرف ''' مسکینوں ''' یعنی ایسے غریبوں کو دِیا جائے گا جو اچھا کھانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے جیسا کہ عنوان ( ١ ) میں ذِکر کی گئی حدیث میں آیا ہے ، کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جِن لوگوں کو زکوۃ دی جا سکتی اُنہیں ہی فِطرانہ دِیا جائے گا لیکن یہ رائے دُرُست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فِطرانہ کے لیے ''' مساکین ''' کا بطورءِ خاص ذِکر فرمایا ہے ۔
** ( ٨ ) زکوۃ الفطر کہاں ادا کی جائے گی ؟ **
زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا اصل بُنیادی حُکم یہ ہے کہ ، جِس شخص پر جہاں جِس شہر ، بستی ، وغیرہ میں زکوۃ فرض ہوئی ، اور وہ وہاں موجود ہے ، تو اُسی جگہ کے غریب مسلمانوں کے یہ زکوۃ دی جائے گی ، زکوۃ الفِطر کو کِسی دوسری جگہ ادا کرنا ، نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کِسی کے عمل سے ثابت ہے ، جبکہ غریب مُسلمان اُسوقت بھی ہر شہر اور بستی میں موجود تھے ، بلکہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں اور بستیوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ تھی ، لیکن کبھی کِسی نے زکوۃ الفِطر کِسی دوسری جگہ نہیں بھیجی ، یہ کام بھی ایسے کاموں میں سے ہے جو دِین میں شامل کیئے جا رہے ہیں ، لہذا اِن سے پرہیز کرنا ہر مُسلمان کے لیے واجب ہے ، رہا معاملہ مال و زراعت کی زکوۃ کا ، اور دیگر صدقات کا تو اگر کوئی شخص خود کِسی دوسرے شہر میں ہو اور اپنے شہر میں اپنے گھر والوں یا کِسی کے ذریعے اپنی زکوۃ وہاں یا کِسی بھی اور جگہ ادا کروائے تو یہ معاملہ زکوۃ الفِطر سے مُختلف ہے ۔ اِس پر قیاس کر کے فطرانہ کی ادائیگی کا طریقہ بدلنا درست نہیں۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ، عادل سہیل ظفر۔
رمضان کے فوراً بعد شوال کی پہلی رات میں اور پہلی صبح میں عید کی نماز سے پہلے کییے جانے والا کام زکوۃ الفطر یعنی فطرانہ کی ادائیگی ہے ، آئیے زکوۃ الفطر کے بارے میں چند لازمی بنیادی معلومات کا مطالعہ کرتےہیں ،
::: زکوۃ الفِطر :::
** ( ١ ) زکوۃ الفطر کی حِکمت **
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ( فرض رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم زکاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائمِ مِن اللَّغوِ و الرَّفَثِ ، و طُعمَۃً للمساکینِ فَمَن ادَّاھَا قَبلَ الصَّلاۃِ فَھي زکاۃٌ مقبولۃٌ ، وَ مَن ادَّاھَا بعدَ الصَّلاۃِ فَھي صدقۃٌ مِن الصَّدقاتِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوے داروں کے لیے فضول اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیئے اور غریبوں کی خوراک کےلیے زکوۃ الفطر فرض کی ، لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے ( فطرانہ ) ادا کر دِیا تو وہ ( اللہ کی طرف سے ) قُبول شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے جِس نے عید کی نماز کے بعد ( فطرانہ ) ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ) سُنن ابو داؤد/حدیث١٦٠٩/کتاب الزکاۃ/باب زکاۃ الفطر ، صحیح ابن ماجہ/حدیث١٤٨
** ( ٢ ) زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ، اور کب فرض ہوتی ہے ، اور کب تک ادا کی جانی چاہیئے
زکوۃ الفِطرہر مُسلمان پر فرض ہے ،عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ( فرض رسول اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلمزکاۃَ الفِطرِ صاعاً مِن تمرٍ او صاعاً مِن شعیرٍ علیٰ العَبدِ و الحُرِ و الذَکرِ و الاُنثیٰ و الصغیرِ و الکبیرِ مِن المسلینِ و اَمرَ بھا ان تؤدَّیَ قبل خروج الناس اِلیٰ الصَّلاۃِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُسلمانوں کے ہر غُلام اور آزاد ، مرد اور عورت ، بڑے اور چھوٹے ، پر کھجوروں کا ایک صاع یا جَو (Barley) کا ایک صاع زکوۃ الفِطر فرض کی اور حُکم فرمایا کہ لوگوں کے نماز عید کی طرف جانے سے پہلے یہ زکوۃ ادا کی جائے ) صحیح البخاری/کتاب الزکاۃ/باب٣١ ، صحیح مسلم/کتاب الزکاۃ/باب٤ و ٥ ۔
** زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا وقت شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے لے کر عید کی نماز تک ہے اور افضل وقت پہلی شوال میں فجر کے وقت سے عید کی نماز شروع ہونے تک ہے ، عید کی نماز کے بعد زکوۃ الفِطرادا نہیں ہو گی بلکہ یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ، جیسا کہ اُوپر نقل کی گئی حدیث میں ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ُ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''' اگر کوئی کِسی عُذر کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر سکا تو یہ زکوۃ اُس پر قرض رہے گی ، پہلی ہی فُرصت میں اُسے ادا کرے ، اور اگر کِسی نے زکوۃ الفِطر کی ادائیگی میں بغیر کِسی عُذر کے دیر کی تو وہ ادائیگی کے باوجود دیر کرنے کا گُناہ گار ہو گا ''' ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل میں یہ بھی ہے کہ وہ عید کے دِن سے ایک یا دو دِن پہلے بھی زکوہ الفِطر ادا کیا کرتے تھے ۔
** ( ٣ ) زکوۃ الفطر کب فرض ہوتی ہے **
فقہا کے مختلف اقوال کے مُطابق زکوۃ الفِطر رمضان کے آخری اِفطار یعنی شوال کی پہلی اذانِ مغرب سے فرض ہو جاتی ہے ۔
** ( ٤ ) زکوۃ الفطر ادا کرنا کِس پر فرض ہوتا ہے ؟ **
زکوۃ الفِطر ہر اُس آزاد مسلمان پر فرض ہے جِسکے پاس اپنے اور جو کوئی بھی اُسکی کفالت میں ہے ، اُنکے ایک دِن اور ایک رات کے کھانے پینے سے زائد سامان یا مال موجود ہو ایسا شخص اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں ، والدین ، بھائی بہنوں نوکروں غُلاموں باندیوں میں سے جو بھی اُسکی کفالت میں اور زیرِ پرورش ہے اور مسلمان ہے اُنکی طرف سے بھی ادا کرے گا ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
( اَمرَ رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم بِصدقۃِ الفِطرِ عن الصغیرو الکبیرِ والحُرِ و العبدِ ممن تمونون ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس بڑے اور چھوٹے ، غُلام اور آزاد کی طرف سے صدقہِ فِطر ادا کرنے کا حُکم دِیا ہے جو تُم لوگوں کی ذمہ داری میں ہیں ) سُنن الدارقُطنی/ حدیث ٢٠٠ ، اِرواءُ الغلیل / حدیث ٨٣٥
** ( ٥ ) زکوۃ الفطر کِن چیزوں کی میں صورت میں ادا کی جائے گی ؟ **
ابی سعید الخُد ری رضی اللہ عنہُ کا فرمان ہے ( کُنا نعطیھا یعنی صدقۃ الفِطر فی زمان النبي صلی اللہ علیہ وسلم، صاعاً مِن الطعام او صاعاً مِن التمرِاو صاعاً مِن الشعیرِ او صاعاً مِن الزبیبِ او صاعاً مِن الاقِطِ) ( ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںایک صاع کھانے ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع جَو ( Barley ) ، یا ایک صاع میوے ( خُشک انگور ) ، یا ایک صاع اقِط ( یعنی بالائی نکالے بغیر خُشک دودھ ) میں سے صدقہءِ فِطر ادا کیا کرتے تھے ) صحیح البُخاری/ کتاب الزکاۃ / باب ٤ ، صحیح مُسلم/ کتاب الزکاۃ/باب ٤
اُوپر بیان کی گئی حدیث میں جِن پانچ چیزوں کا ذِکر ہے ، اگر وہ چیزیں مُیسر ہوں اور اُن چیزوں کو معمول کے روزمرہ کھانے میں اِستعمال کیا جاتا ہو تو افضل یہ ہے کہ اِنہی پانچ چیزوں میں سے کِسی ایک کو زکوۃ الفِطرکے طور پر خرچ کیا جائے ، اور اگر کوئی مُسلمان ایسی جگہ رہتا ہے جہاں یہ چیزیں پائی نہیں جاتیں یا عام معمول میں کھائی نہیں جاتیں تو وہاں ، عام معمول میں کھائی جانے والی چیزوں میں سے کوئی چیز مقررہ مِقدار میں زکوۃ الفِطر کے طور پر خرچ کی جائے گی ، کیونکہ حدیث میں پہلی چیز جو بیان ہوئی ہے وہ ''' الطعام ''' ''' کھانا ''' ہے لہذا باقی چار چیزیں موقع محل کے مُطابق اختیار کی جانے کی گُنجائش ہے ،
** ( ٦ ) زکوۃ الفطر کی مِقدار **
:::''' زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟ '''::: میں بیان کی گئی حدیث میں ذِکر کئے گئے اشخاص میں سے ہر ایک کی طرف سے ، صرف اُن چیزوں میں سے جو ابھی اُوپر بیان کی گئی ہیں ، ایک صاع جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں رائج تھا کے برابر زکوۃ الفِطر ادا کرنی ہوتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں ایک صاع چار مُد کے برابر تھا ، اور ایک عام درمیانہ سائز کے ہاتھوں والے مرد کے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر جانے والی چیز کی مقدار ہوتی ہے ، جو تقریباً اڑھائی یعنی دو اور آدھا کیلو ہوتی ہے ، لہذا ہر ایک شخص کی طرف سے تقریباً اِس مِقدار میں اُوپر بیان کی گئی تفصیل کے مُطابق کوئی چیز بھی زکوۃ الفِطر کے طور پر دی جا سکتی ہے ۔
**** یہاں ایک بات بہت غور سے سمجھنے کی ہے ، اور وہ یہ کہ ،،، زکوہ الفِطر صِرف اور صِرف اُنہی چیزوں کی صورت میں ادا کی جائے گی جِن کا ذِکر اُوپر حدیث آیا ہے ، زکوۃ الفِطر کے طور پر اِن چیزوں کے بدلے پیسے دینا جائز نہیں جی ہاں ، جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نام لے کر چیزوں کا ذِکر کیا گیا ہے ، جبکہ اُسوقت بھی اُن چیزوں کی قیمت بطور فِطرانہ ادا کی جاسکتی تھی ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت کا ذِکر نہیں فرمایا ، بلکہ ایسا کرنے کی طرف کوئی اِشارہ تک بھی نہیں فرمایا ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اِسکو بیان فرماتے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و عمل سے بھی ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ اُنہوں نے اِن چیزوں کی بجائے اِنکی قیمت بطورِ فِطرانہ نقداً ادا کی ہو ، جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد میں آنے والے ہر کِسی سے بڑھ کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور سنتوں کو جاننے اور سمجھنے ، اور اُن پر عمل کرنے والے تھے ، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان اور عمل مُبارک کے خِلاف اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل کے خِلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ، خواہ اُس کو دُرُست بنانے کے لیے کوئی بھی عقلی یا فلسفیانہ دلیل بنائی جائے وہ کام نا جائز ہی رہے گا ۔
** ( ٧ ) زکوۃ الفطر کِن کو دی جائے گی ؟ **
صدقہ فِطر صِرف ''' مسکینوں ''' یعنی ایسے غریبوں کو دِیا جائے گا جو اچھا کھانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے جیسا کہ عنوان ( ١ ) میں ذِکر کی گئی حدیث میں آیا ہے ، کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جِن لوگوں کو زکوۃ دی جا سکتی اُنہیں ہی فِطرانہ دِیا جائے گا لیکن یہ رائے دُرُست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فِطرانہ کے لیے ''' مساکین ''' کا بطورءِ خاص ذِکر فرمایا ہے ۔
** ( ٨ ) زکوۃ الفطر کہاں ادا کی جائے گی ؟ **
زکوۃ الفِطر کی ادائیگی کا اصل بُنیادی حُکم یہ ہے کہ ، جِس شخص پر جہاں جِس شہر ، بستی ، وغیرہ میں زکوۃ فرض ہوئی ، اور وہ وہاں موجود ہے ، تو اُسی جگہ کے غریب مسلمانوں کے یہ زکوۃ دی جائے گی ، زکوۃ الفِطر کو کِسی دوسری جگہ ادا کرنا ، نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کِسی کے عمل سے ثابت ہے ، جبکہ غریب مُسلمان اُسوقت بھی ہر شہر اور بستی میں موجود تھے ، بلکہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں اور بستیوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ تھی ، لیکن کبھی کِسی نے زکوۃ الفِطر کِسی دوسری جگہ نہیں بھیجی ، یہ کام بھی ایسے کاموں میں سے ہے جو دِین میں شامل کیئے جا رہے ہیں ، لہذا اِن سے پرہیز کرنا ہر مُسلمان کے لیے واجب ہے ، رہا معاملہ مال و زراعت کی زکوۃ کا ، اور دیگر صدقات کا تو اگر کوئی شخص خود کِسی دوسرے شہر میں ہو اور اپنے شہر میں اپنے گھر والوں یا کِسی کے ذریعے اپنی زکوۃ وہاں یا کِسی بھی اور جگہ ادا کروائے تو یہ معاملہ زکوۃ الفِطر سے مُختلف ہے ۔ اِس پر قیاس کر کے فطرانہ کی ادائیگی کا طریقہ بدلنا درست نہیں۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ، عادل سہیل ظفر۔