نبیل
تکنیکی معاون
مجھے یہ فارسی غزل بہت پسند ہے جسے کے ایل سہگل نے گایا ہوا ہے۔ میں نے کسی زمانے میں یہی غزل ناشناس کی آواز میں بھی سنی تھی لیکن نیٹ پر اس کا ربط نہیں مل پایا ہے۔ محفل فورم پر اس کے بارے میں کئی مرتبہ پہلے بھی بات ہو چکی ہے۔ (ربط)
میں ذیل میں اسی غزل کے اشعار کو دوبارہ محمد وارث کے کیے گئے ترجمے کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
ما را بہ غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوئے ما نہ دید و حیا را بہانہ ساخت
ہماری طرف دیکھا نہیں اور حیا کا بہانہ بنا دیا (کہ حیا آتی ہے) اور جب اس ناز و ادا و غمزے سے ہم مر گئے تو کہہ دیا کہ اس کی تو موت آئی ہوئی تھی سو مر گیا
رفتم بہ مسجدی کہ ببینم جمال دوست
دستش بہ رخ کشید و دعا را بہانہ ساخت
میں مسجد میں گیا کہ دوست کا جمال دیکھوں، اور اس نے اپنے ہاتھ اٹھا کر (اپنا چہرہ چھپا لیا) اور بہانہ یہ بنایا کہ دعا مانگ رہا ہوں
دستش بہ دوشِ غیر نہاد از رہِ کرم
مارا چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت
اُس نے اپنا ہاتھ غیر کے کندھے پر از راہِ کرم (محبت کے ساتھ) رکھا ہوا تھا اور جونہی ہمیں دیکھا، لڑکھڑاھٹ کا بہانہ بنا لیا (کہ ہاتھ تو اسکے کندھے پر اس وجہ سے رکھا کہ لڑکھڑا گیا تھا)۔
زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجِ گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت
زاھد کو پری رخوں کے دیکھنے کی تاب نہیں ہے (اور اس وجہ سے وہ) گوشہ تنہائی میں ہے اور یادِ خدا کا بہانہ بنایا ہوا ہے!
یو ٹیوب کی مذکورہ بالا ویڈیو کے صفحے پر کسی صاحب نے مرزا قتیل کا ایک شعر پیش کیا ہے۔
خون قتیل را بسر و پا را پائے خویش
مالید آن نگار و حنا را بہانہ ساخت
یہ محمد وارث ہی بہتر بتا سکیں گے کہ آیا یہ واقعی اس غزل کا شعر ہے یا نہیں اور یہ کہ اس شعر کا مطلب کیا ہے۔
میں ذیل میں اسی غزل کے اشعار کو دوبارہ محمد وارث کے کیے گئے ترجمے کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
ما را بہ غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوئے ما نہ دید و حیا را بہانہ ساخت
ہماری طرف دیکھا نہیں اور حیا کا بہانہ بنا دیا (کہ حیا آتی ہے) اور جب اس ناز و ادا و غمزے سے ہم مر گئے تو کہہ دیا کہ اس کی تو موت آئی ہوئی تھی سو مر گیا
رفتم بہ مسجدی کہ ببینم جمال دوست
دستش بہ رخ کشید و دعا را بہانہ ساخت
میں مسجد میں گیا کہ دوست کا جمال دیکھوں، اور اس نے اپنے ہاتھ اٹھا کر (اپنا چہرہ چھپا لیا) اور بہانہ یہ بنایا کہ دعا مانگ رہا ہوں
دستش بہ دوشِ غیر نہاد از رہِ کرم
مارا چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت
اُس نے اپنا ہاتھ غیر کے کندھے پر از راہِ کرم (محبت کے ساتھ) رکھا ہوا تھا اور جونہی ہمیں دیکھا، لڑکھڑاھٹ کا بہانہ بنا لیا (کہ ہاتھ تو اسکے کندھے پر اس وجہ سے رکھا کہ لڑکھڑا گیا تھا)۔
زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجِ گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت
زاھد کو پری رخوں کے دیکھنے کی تاب نہیں ہے (اور اس وجہ سے وہ) گوشہ تنہائی میں ہے اور یادِ خدا کا بہانہ بنایا ہوا ہے!
یو ٹیوب کی مذکورہ بالا ویڈیو کے صفحے پر کسی صاحب نے مرزا قتیل کا ایک شعر پیش کیا ہے۔
خون قتیل را بسر و پا را پائے خویش
مالید آن نگار و حنا را بہانہ ساخت
یہ محمد وارث ہی بہتر بتا سکیں گے کہ آیا یہ واقعی اس غزل کا شعر ہے یا نہیں اور یہ کہ اس شعر کا مطلب کیا ہے۔