زہیر عبّاس
محفلین
پیش لفظ
بحیثیت مجموعی کائنات کے مطالعہ کو کونیات کہتے ہیں جس میں اس کی تخلیق اور انجام بھی شاید شامل ہے ۔کونیات نے اپنے سست رفتار اور تکلیف دہ ارتقا میں کافی بہروپ بدلے ہیں۔ ایک ایسا ارتقا جو اکثر مذہبی طبقے اور توہمات کی وجہ سے گہنا جاتا ہے ۔
کونیات کا پہلا ارتقا سترویں صدی کی شروعات میں دوربین کی ایجاد کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا ۔ دوربین کی مدد سے گلیلیو گلیلی نے اپنے پیش رو عظیم ماہر فلکیات نکولس کوپرنیکس اور جوہانس کیپلر کے کام کو بنیاد بنا کر تاریخ میں پہلی بار سنجیدہ سائنسی تفتیشی عینک لگا کر فلک کے حیرت کدے میں جھانکنے کی قابلیت حاصل کی ۔ اس پہلے مرحلے کی پیش رفت کا اختتام آئزک نیوٹن کے کام پر منتج ہوا جس نے سماوی اجسام کی حرکت کے ابتدائی قوانین کی بنیاد ڈالی ۔ ان قوانین کے بعد فلکی اجسام کی حرکت کو جادو اور اسراریت کے بجائے اس طاقت کے مطیع و فرمانبردار دیکھنا شروع کیا گیا جس کا حساب کتاب لگایا جا سکتا تھا ۔ کونیات کی دنیا میں دوسرا انقلابی دور اس وقت بیسویں صدی میں آیا جب عظیم دوربین کو متعارف کروایا گیا ۔ جیسا کہ ایک ماؤنٹ ولسن کی دیوہیکل سو انچ کی انعکاسی آئینے والی دوربین تھی ۔ ١٩٢٠ء کے عشرے میں ، فلکیات دان ایڈوِن ہبل نے اس دیوہیکل دوربین کا استعمال کرتے ہوئے صدیوں پرانے مسلمہ عقائد کا بھرکس نکال دیا ۔ ان پرانے نظریات کی رو سے کائنات ابدی اور ساکن تھی ۔ اس نے ثابت کیا کہ فلک میں موجود کہکشائیں زمین سے انتہائی تیز سمتی رفتار سے دور بھاگی جا رہی ہیں یعنی کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ یہ نتیجہ آئن سٹائن کے نظریئے اضافیت سے مکمل ہم آہنگ تھا ۔ جس کے مطابق مکان و زمان کی ساخت چپٹے اور خطی ہونے کے برعکس متحرک اور خمیدہ تھی ۔ اس دریافت نے پہلی بار کائنات کے ماخذ کے بارے میں قیاس لگایا ، یعنی کہ کائنات ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی جس کو ہم عظیم دھماکا یا عظیم انفجار کہتے ہیں ۔ اس دھماکے کے نتیجے میں ستارے اور کہکشائیں خلائے بسیط میں دھکیل دیے گئے ۔ جارج گیمو اور ان کے رفقائے کاروں کے بگ بینگ کے نظریئے اور فریڈ ہوئیل کے عناصر کے ماخذ پر امتیازی کام کی بدولت ایک ایسی عمارت کی بنیاد نمودار ہونا شروع ہوئی جس نے کائنات کے ارتقا کے خاکے کو واضح کرنا شروع کر دیا ۔
تیسرا انقلابی دور چل رہا ہے ۔ یہ ابھی صرف پانچ سال کا ہی ہوا ہے ۔ اس دور کے شروع ہونے میں نئے جدید آلات مثلاً خلائی سیارچے ، لیزر، ثقلی موجی سراغ رساں ، ایکس رے دوربینیں، تیز رفتار سپر کمپیوٹرز کا کافی عمل دخل رہا ہے ۔ اب ہمارے پاس کائنات کی نوعیت کے بارے میں سب سے زیادہ مستند مواد موجود ہے جس میں اس کی عمر ، اس کی ترکیب اور شاید اس کا مستقبل اور حتمی انجام بھی شامل ہے ۔
ماہرین فلکیات نے اب اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ کائنات بے قابو ہو کر، بغیر کسی حد کے اسراع پذیر ہو کر پھیل رہی ہے اور وقت کے ساتھ بتدریج ٹھنڈی سے ٹھنڈی تر ہو رہی ہے ۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہتا رہا تو ہم ایک "عظیم انجماد " کا سامنا کریں گے جب کائنات ظلمت کے گہرے اور ٹھنڈے کنویں میں ڈوب جائے گی اور تمام ذی شعورمخلوقات کا خاتمہ ہو جائے گا ۔
یہ کتاب اس تیسرے عظیم انقلابی دور کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ طبیعیات پر لکھی ہوئی میری پہلی کتابوں "آئن سٹائن سے دور " اور "اضافی خلاء" سے مختلف ہے جنہوں نے عوام الناس میں اضافی جہتوں اور سپر اسٹرنگ نظریئے کو متعارف کروایا تھا ۔ متوازی دنیائیں بجائے مکان و زمان پر روشنی ڈالنے کے، فلکیات کی دنیا میں ہونے والی اس عظیم پیش رفت کو بیان کرتی ہے جو پچھلے کئی برسوں میں وقوع پذیر ہوئی ہیں ۔ ان کی بنیاد ان نئے شواہد پر مشتمل ہے جو ہمیں دنیا کی تجربہ گاہوں ، خلائے بسیط کی اتھاہ گہرائیوں اور نت نئی دریافتوں کے ذریعہ مل رہے ہیں۔ میری پوری کوشش اور نیت یہ رہی ہے کہ یہ کتاب ایسے پڑھی اور سمجھی جا سکے جس کے لئے پہلے سے طبیعیات یا فلکیات کے تعارف سے روشنائی کی ضرورت نہ ہو ۔
کتاب کے پہلےحصّہ میں ، میں کائنات کے مطالعہ پر زور رکھوں گا ، اس میں مختصراً اس بات کو بھی بیان کروں گا کہ کونیات کے ابتدائی مراحل کو ہم نے کیسے پار کرکے اس دور میں قدم رکھا اور کس طرح سے ہم "افراط " پذیرکائنات کے نظریئے تک پہنچے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جس نے بگ بینگ سے متعلق ہمیں ابھی تک کی سب سے جدید ضابطہ بندی عطا فرمائی ہے ۔ کتاب کے دوسرے حصّے میں ، خصوصی طور پر میں کثیر کائناتوں کے تازہ ترین نظریئے پر زیادہ توجہ دوں گا ۔ کثیر کائناتیں ایسی دنیائیں ہیں جو مختلف کائناتوں سے مل کر بنی ہے اور ہماری کائنات ان کائناتوں میں سے ایک ہے ۔ اس حصّے میں ، ثقب کرم کے امکان ، مکان و زمان کی خمیدگی ، اور کس طرح سے اضافی جہتیں ممکنہ طور پر ان کو ملاتی ہیں ان تمام چیزوں کے بارے میں بھی بات چیت ہوگی ۔ سپر اسٹرنگ نظریئے اور ایم نظریئے نے ہمیں آئن سٹائن کے اصل نظریئے کے بعد ہمیں پہلی دفعہ کوئی اہم قدم اٹھانے میں مدد دی ہے ۔ یہ مزید اس بات کے شواہد فراہم کر رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری کائنات دوسری کائناتوں میں سے بجز ایک کائنات ہی ہو ۔ آخر ی حصّہ سوم میں ، میں عظیم انجماد کے بارے میں بحث کاروں گا اور یہ بتاؤں گا کہ سائنس دان کائنات کا انجام کس طرح سے دیکھ رہے ہیں ۔ میں ایک نظری لیکن سنجیدہ تصوّر بھی زیر بحث کروں گا کہ کس طرح سے آج سے دسیوں کھربوں سال مستقبل بعید میں کوئی جدید تہذیب طبیعیات کے قوانین کا سہارا لیتے ہوئے ہماری کائنات کو خدا حافظ کہہ کر ایک دوسری زیادہ بہتر اور دوستانہ کائنات میں داخل ہو سکتی ہے تاکہ تخلیق نو کا عمل دوبارہ دہرایا جائے یا ہو سکتا ہے کہ وہ وقت میں سفر کرتے ہوئے ماضی کے اس وقت میں چلی جائے گی جب کائنات گرم تھی ۔
آج حاصل ہونے والے اس اطلاعی سیلاب اور فلک کو چھاننے والے خلائی سیارچوں ، موجی سراغ رساں سیارچوں اور تکمیل کے آخری مراحل میں موجود شہر کے حجم جتنے نئے جوہری تصادم گر جیسے نئے آلات کے ساتھ طبیعیات دان سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوئے چاہتے ہیں جس کو فلکیات کا سنہرا دور کہا جا سکتا ہے ۔مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کا دور طبیعیات دانوں اور اس مہم کے مسافروں کے لئے بہت ہی اچھا ہے جو کائنات کا ماخذ اور اس کے مقدر کو جاننے کے سفر پر نکلے ہیں ۔
میچیو کاکو
بحیثیت مجموعی کائنات کے مطالعہ کو کونیات کہتے ہیں جس میں اس کی تخلیق اور انجام بھی شاید شامل ہے ۔کونیات نے اپنے سست رفتار اور تکلیف دہ ارتقا میں کافی بہروپ بدلے ہیں۔ ایک ایسا ارتقا جو اکثر مذہبی طبقے اور توہمات کی وجہ سے گہنا جاتا ہے ۔
کونیات کا پہلا ارتقا سترویں صدی کی شروعات میں دوربین کی ایجاد کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا ۔ دوربین کی مدد سے گلیلیو گلیلی نے اپنے پیش رو عظیم ماہر فلکیات نکولس کوپرنیکس اور جوہانس کیپلر کے کام کو بنیاد بنا کر تاریخ میں پہلی بار سنجیدہ سائنسی تفتیشی عینک لگا کر فلک کے حیرت کدے میں جھانکنے کی قابلیت حاصل کی ۔ اس پہلے مرحلے کی پیش رفت کا اختتام آئزک نیوٹن کے کام پر منتج ہوا جس نے سماوی اجسام کی حرکت کے ابتدائی قوانین کی بنیاد ڈالی ۔ ان قوانین کے بعد فلکی اجسام کی حرکت کو جادو اور اسراریت کے بجائے اس طاقت کے مطیع و فرمانبردار دیکھنا شروع کیا گیا جس کا حساب کتاب لگایا جا سکتا تھا ۔ کونیات کی دنیا میں دوسرا انقلابی دور اس وقت بیسویں صدی میں آیا جب عظیم دوربین کو متعارف کروایا گیا ۔ جیسا کہ ایک ماؤنٹ ولسن کی دیوہیکل سو انچ کی انعکاسی آئینے والی دوربین تھی ۔ ١٩٢٠ء کے عشرے میں ، فلکیات دان ایڈوِن ہبل نے اس دیوہیکل دوربین کا استعمال کرتے ہوئے صدیوں پرانے مسلمہ عقائد کا بھرکس نکال دیا ۔ ان پرانے نظریات کی رو سے کائنات ابدی اور ساکن تھی ۔ اس نے ثابت کیا کہ فلک میں موجود کہکشائیں زمین سے انتہائی تیز سمتی رفتار سے دور بھاگی جا رہی ہیں یعنی کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ یہ نتیجہ آئن سٹائن کے نظریئے اضافیت سے مکمل ہم آہنگ تھا ۔ جس کے مطابق مکان و زمان کی ساخت چپٹے اور خطی ہونے کے برعکس متحرک اور خمیدہ تھی ۔ اس دریافت نے پہلی بار کائنات کے ماخذ کے بارے میں قیاس لگایا ، یعنی کہ کائنات ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی جس کو ہم عظیم دھماکا یا عظیم انفجار کہتے ہیں ۔ اس دھماکے کے نتیجے میں ستارے اور کہکشائیں خلائے بسیط میں دھکیل دیے گئے ۔ جارج گیمو اور ان کے رفقائے کاروں کے بگ بینگ کے نظریئے اور فریڈ ہوئیل کے عناصر کے ماخذ پر امتیازی کام کی بدولت ایک ایسی عمارت کی بنیاد نمودار ہونا شروع ہوئی جس نے کائنات کے ارتقا کے خاکے کو واضح کرنا شروع کر دیا ۔
تیسرا انقلابی دور چل رہا ہے ۔ یہ ابھی صرف پانچ سال کا ہی ہوا ہے ۔ اس دور کے شروع ہونے میں نئے جدید آلات مثلاً خلائی سیارچے ، لیزر، ثقلی موجی سراغ رساں ، ایکس رے دوربینیں، تیز رفتار سپر کمپیوٹرز کا کافی عمل دخل رہا ہے ۔ اب ہمارے پاس کائنات کی نوعیت کے بارے میں سب سے زیادہ مستند مواد موجود ہے جس میں اس کی عمر ، اس کی ترکیب اور شاید اس کا مستقبل اور حتمی انجام بھی شامل ہے ۔
ماہرین فلکیات نے اب اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ کائنات بے قابو ہو کر، بغیر کسی حد کے اسراع پذیر ہو کر پھیل رہی ہے اور وقت کے ساتھ بتدریج ٹھنڈی سے ٹھنڈی تر ہو رہی ہے ۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہتا رہا تو ہم ایک "عظیم انجماد " کا سامنا کریں گے جب کائنات ظلمت کے گہرے اور ٹھنڈے کنویں میں ڈوب جائے گی اور تمام ذی شعورمخلوقات کا خاتمہ ہو جائے گا ۔
یہ کتاب اس تیسرے عظیم انقلابی دور کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ طبیعیات پر لکھی ہوئی میری پہلی کتابوں "آئن سٹائن سے دور " اور "اضافی خلاء" سے مختلف ہے جنہوں نے عوام الناس میں اضافی جہتوں اور سپر اسٹرنگ نظریئے کو متعارف کروایا تھا ۔ متوازی دنیائیں بجائے مکان و زمان پر روشنی ڈالنے کے، فلکیات کی دنیا میں ہونے والی اس عظیم پیش رفت کو بیان کرتی ہے جو پچھلے کئی برسوں میں وقوع پذیر ہوئی ہیں ۔ ان کی بنیاد ان نئے شواہد پر مشتمل ہے جو ہمیں دنیا کی تجربہ گاہوں ، خلائے بسیط کی اتھاہ گہرائیوں اور نت نئی دریافتوں کے ذریعہ مل رہے ہیں۔ میری پوری کوشش اور نیت یہ رہی ہے کہ یہ کتاب ایسے پڑھی اور سمجھی جا سکے جس کے لئے پہلے سے طبیعیات یا فلکیات کے تعارف سے روشنائی کی ضرورت نہ ہو ۔
کتاب کے پہلےحصّہ میں ، میں کائنات کے مطالعہ پر زور رکھوں گا ، اس میں مختصراً اس بات کو بھی بیان کروں گا کہ کونیات کے ابتدائی مراحل کو ہم نے کیسے پار کرکے اس دور میں قدم رکھا اور کس طرح سے ہم "افراط " پذیرکائنات کے نظریئے تک پہنچے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جس نے بگ بینگ سے متعلق ہمیں ابھی تک کی سب سے جدید ضابطہ بندی عطا فرمائی ہے ۔ کتاب کے دوسرے حصّے میں ، خصوصی طور پر میں کثیر کائناتوں کے تازہ ترین نظریئے پر زیادہ توجہ دوں گا ۔ کثیر کائناتیں ایسی دنیائیں ہیں جو مختلف کائناتوں سے مل کر بنی ہے اور ہماری کائنات ان کائناتوں میں سے ایک ہے ۔ اس حصّے میں ، ثقب کرم کے امکان ، مکان و زمان کی خمیدگی ، اور کس طرح سے اضافی جہتیں ممکنہ طور پر ان کو ملاتی ہیں ان تمام چیزوں کے بارے میں بھی بات چیت ہوگی ۔ سپر اسٹرنگ نظریئے اور ایم نظریئے نے ہمیں آئن سٹائن کے اصل نظریئے کے بعد ہمیں پہلی دفعہ کوئی اہم قدم اٹھانے میں مدد دی ہے ۔ یہ مزید اس بات کے شواہد فراہم کر رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری کائنات دوسری کائناتوں میں سے بجز ایک کائنات ہی ہو ۔ آخر ی حصّہ سوم میں ، میں عظیم انجماد کے بارے میں بحث کاروں گا اور یہ بتاؤں گا کہ سائنس دان کائنات کا انجام کس طرح سے دیکھ رہے ہیں ۔ میں ایک نظری لیکن سنجیدہ تصوّر بھی زیر بحث کروں گا کہ کس طرح سے آج سے دسیوں کھربوں سال مستقبل بعید میں کوئی جدید تہذیب طبیعیات کے قوانین کا سہارا لیتے ہوئے ہماری کائنات کو خدا حافظ کہہ کر ایک دوسری زیادہ بہتر اور دوستانہ کائنات میں داخل ہو سکتی ہے تاکہ تخلیق نو کا عمل دوبارہ دہرایا جائے یا ہو سکتا ہے کہ وہ وقت میں سفر کرتے ہوئے ماضی کے اس وقت میں چلی جائے گی جب کائنات گرم تھی ۔
آج حاصل ہونے والے اس اطلاعی سیلاب اور فلک کو چھاننے والے خلائی سیارچوں ، موجی سراغ رساں سیارچوں اور تکمیل کے آخری مراحل میں موجود شہر کے حجم جتنے نئے جوہری تصادم گر جیسے نئے آلات کے ساتھ طبیعیات دان سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوئے چاہتے ہیں جس کو فلکیات کا سنہرا دور کہا جا سکتا ہے ۔مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کا دور طبیعیات دانوں اور اس مہم کے مسافروں کے لئے بہت ہی اچھا ہے جو کائنات کا ماخذ اور اس کے مقدر کو جاننے کے سفر پر نکلے ہیں ۔
میچیو کاکو