ناصر علی مرزا
معطل
ربط
محترم محمد وثیق ندوی
سرور کائنات ،خاتم الرسل،سید الاولین و الآخرین، محسن انسانیت محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ،قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ (الانبیاء:107)
ترجمہ:”اے محمد رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم)! ہم نے آپ کو سارے جہاں اور سارے جہان والوں کے لیے محض رحمت بنا کر بھیجاہے۔“
یہ قرآنی اعلان جو محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے متعلق کیا گیا ہے،اپنی وسعت و کثرت،اپنی مقدار و کمیت(Quantity)کے اعتبار سے بھی اور اپنی نوعیت و افادیت، اپنے جوہروکیفیت (Quality) کے اعتبار سے بھی بے نظیر و بے مثال ہے۔
چھٹی صدی مسیحی میں پوری نوع انسانی خود کشی پر آمادہ و کمر بستہ تھی،جیسے خود کشی کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے،ساری دنیا میں خود کشی کی تیاری ہو رہی ہے، اللہ تعالی ٰنے قرآن شریف میں اس منظر اور صورت حال کی جو تصویر کھینچی ہے،اس سے بہتر کوئی بڑے سے بڑا مصور،ادیب و مورخ تصویر نہیں کھینچ سکتا،وہ فرماتا ہے:﴿وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْکُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا...﴾(آل عمران:103)
ترجمہ:”اور خدا کی مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچالیا۔“
حدیث شریف میں آتا ہے:”ان اللّٰہ نظر الی اھل الارض فمقتہم، عربھم وعجمھم، الا بقایا بعض الکتاب۔“(مسند احمد)
ترجمہ:”اللہ تعالیٰ نے زمین والوں پر نظر دوڑائی تو اس کو ان سے نفرت ہوئی، عربوں سے بھی اور غیر عربوں سے بھی، سوا چند بچے کھچے اہل کتا ب کے۔“
دورِجاہلیت، جس میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی،مسئلہ کسی ایک قوم کے بگاڑ کایا چند متعینہ بُرائیوں کا نہیں تھا ،مسئلہ یہ تھا کہ عرب کے کچھ سنگ دل اور قسی القلب لوگ اپنی معصوم بچیوں کو جھوٹی شرم اور خیا لی ننگ و عار سے بچنے کے لیے ایک خود ساختہ تخیل اور ایک ظالمانہ روایت کی بنا پر اپنے ہاتھوں زمین میں زندہ دفن کردینا چاہتے تھے،مسئلہ یہ تھاکہ مادر گیتی اپنی نسل کو زندہ دفن کرنا چاہتی تھی۔
اس وقت کی صورت حال کی تمثیل حضورِاکرم ا نے اس طرح فرمائی ہے:
”میری اس د عوت وہدایت کی مثال جس کے ساتھ مجھے دنیا میں بھیجا گیا ہے،ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی ،جب اس کی روشنی گردو پیش میں پھیلی تو وہ پروانے اور کیڑے جو آگ پر گرا کرتے ہیں ،ہر طرف سے امنڈ کر اس میں کودنے لگے ،اسی طرح سے تم آگ میں گرنا اور کودنا چاہتے ہو اور میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تم کو اس سے بچاتا اور علیحدہ کرتا ہوں۔“ (صحیح بخاری،مشکوٰة:28/1)
جا ہلیت میں تمدن صرف بگڑا ہی نہیں تھا ،متعفن ہو گیا تھا ،اس میں کیڑے پڑگئے تھے،انسان نوع انسانی کا شکاری بن گیا تھا، اس کو کسی انسان کی جان کنی ،کسی زخمی کی تڑپ اور کسی مصیبت زدہ کی کراہ میں وہ مزا آنے لگا تھا جو جام وسُبُو میں اور دنیاکے لذیذ سے لذیذ کھانے اور خوش نما منظر میں نہیں آتا تھا۔یو رپین مورخین لکھتے ہیں:
”اہل روما کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ،فرحت افزا اور مست کردینے والا نظارہ وہ ہوتا تھا جب باہم شمشیر زنی یا خوں خوار جانوروں کی لڑائی میں ہزیمت خوردہ اور مجروح جان کنی کی تکلیف میں مبتلا ہوتا اور موت کے کرب میںآ خری ہچکی لیتا ،اس وقت روما کے خوش باش اور زندہ دل تماشائی اس خوش کن منظر کو دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑتے اور پولیس کو بھی ان کو کنٹرول میں رکھنا ممکن نہ ہوتا۔“(ملاحظہ ہو لیکی کی کتاب”تاریخ اخلاق یورپ“)
اس حالت میں جب کہ پوری انسانیت جاں بلب تھی،خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ،ارشاد ہوا: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ (الانبیاء:107)
ترجمہ:”اے محمد رسول الله(صلی اللہ علیہ وسلم)! ہم نے آپ کو سارے جہاں اور سارے جہان والوں کے لیے محض رحمت بنا کر بھیجاہے۔“
بعثت محمدی نے کیا انقلاب عظیم برپا کیا؟مفکر اسلام حضرت مولانا سیّد ابو الحسن علی حسنی ندوی رقم طراز ہیں:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد دنیا کی رت بدل گئی،انسانوں کے مزاج بدل گئے ،دلوں میں خدا کی محبت کا شعلہ بھڑکا،خدا طلبی کا ذوق عام ہوا،انسانوں کو ایک نئی دھن (خدا کو راضی کرنے اور خدا کی مخلوق کو خدا سے ملانے اور اس کو نفع پہنچانے کی)لگ گئی،جس طرح بہاریا برسات کے موسم میں زمین میں روئیدگی،سوکھی ٹہنیوں اور پتیوں میں شادابی اور ہریالی پیداہو جاتی ہے،نئی نئی کونپلیں نکلنے لگتی ہیں اور درودیوار پر سبزہ اگنے لگتا ہے،اسی طرح بعثت محمدی کے بعد قلوب میں نئی حرارت ،دماغوں میں نیا جذبہ اور سروں میں نیا سودا سما گیا،کروڑوں انسان اپنی حقیقی منزل کی تلاش اور اس پر پہنچنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ،ہر ملک اور قومیں، طبیعتوں میں یہی نشہ اور ہر طبقے میں میدان میں، ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا یہی جذبہ موج زن نظر آتا ہے،عرب و عجم،مصر و شام ،ترکستان اور ایران ،عراق وخراسان،شمالی افریقا اور اسپین اور بالآخر ہمارا ملک ہندوستان اور جزائر شرق الہند سب اسی صہبائے محبت کے متوالے اور اسی مقصد کے دیوانے نظر آتے ہیں ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انسانیت صدیوں کی نیند سوتے سوتے بیدار ہوگئی،آپ تاریخ اور تذکرہ کی کتابیں پڑھیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ خدا طلبی اور خدا شناسی کے سوا کوئی کام ہی نہ تھا،شہر شہر ،قصبہ قصبہ ،گاوٴں گاوٴں،بڑی تعداد میں ایسے خدامست ،عالی ہمت ،عارف کامل، داعئی حق اور خادم خلق،انسان دوست،ایثار پیشہ انسان نظرآتے ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کریں،انہوں نے دلوں کی سرد انگیٹھیاں سلگائیں عشق الٰہی کا شعلہ بھڑ کا دیا،علوم وفنون کے دریا بہا دیے ،علم ومعرفت اور محبت کی جوت لگادی اور جہا لت و وحشت،ظلم و عداوت سے نفرت پیدا کردی ،مساوات کا سبق پڑھایا ،دکھوں کے مارے اور سماج کے ستائے ہو ئے انسانوں کو گلے لگایا،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بارش کے قطروں کی طرح ہر چپہ زمین پر ان کا نزول ہوا اور اس کا شمار ناممکن ہے۔
آپ ان کی کثرت (کمیت)کے علاوہ ان کی کیفیت کو دیکھیے ،ان کی ذہنی پرواز، ان کی روح کی لطافت اور ذکاوت اور ان کے ذوق سلیم کے واقعات پڑھیے،انسانوں کے لیے کس طرح ان کادل روتا اور ان کے غم میں گھلتااور کس طرح ان کی روح سلگتی تھی،انسانوں کو خطرہ میں ڈالتے اور اپنی اولاد اور متعلقین کو آزمائش میں مبتلا کرتے تھے،ان کے حاکموں کو اپنی ذمہ داری کا کس قدر احساس اور محکوموں میں اطاعت و تعاون کا کس قدر جذبہ تھا،ان کے ذوق عبادت ،ان کی قوت دعا،ان کے زہدو فقر،جذبہٴ خدمت اور مکارم اخلاق کے واقعات پڑھیے،نفس کے ساتھ ان کا انصاف ،اپنا احتساب ،کمزوروں پر شفقت،دوست پروری،دشمن نوازی اور ہمدردیٴ خلائق کے نمونے دیکھیے،بعض اوقات شاعروں اور ادیبوں کی قوت متخیلہ بھی ان بلندیوں تک نہیں پہنچی،جہاں وہ اپنے جسم وعمل کے ساتھ پہنچے ،اگر تاریخ کی مستند اور متواتر شہادت نہ ہوتی تو یہ واقعات، قصے کہانیاں اور افسانے معلوم ہوتے۔یہ انقلاب عظیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم معجزہ اور آپ کی ”رحمتہ للعالمینی“کا کرشمہ ہے۔“ (تہذیب وتمدن پر اسلام کے احسانات واثرات ،ص:138تا140)
ابتدائے اسلام اور فوجی کاروائیاں اور مخالفین کے ساتھ برتاو
جس نبی عظیم، محسن انسانیت (صلی اللہ علیہ وسلم )نے ایسا عظیم انسانی انقلاب برپا کیا ہو، وہ بدامنی اور دہشت گردی کا معلم کیسے ہو سکتا ہے؟موجودہ دور میں جو علم و تحقیق کا دور ہے،رحمةللعالمین پر تشدد ، دہشت گردی،قتل و غارت گری اور بدامنی عام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے،حالاں کہ رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ نمائی میں دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی 82 کوششوں میں(جن میں28میں آپ نے خود قیادت کی)صرف 459 مسلمان اور 459مخالفین کام آئے، ان تمام مقابلوں میں صرف ۱۱ مسلمان قید ہوئے،البتہ مخالفین کے 6546 افراد قیدی بنائے گئے،جو فدیہ سے یا فدیہ کے بغیر آزاد کر دیے گئے اور ان میں سے جو بلا کسی شرط کے چھوڑے گئے،ان کی تعداد 6347ہے اور ان کے ساتھ کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی،زخمیوں کی تعداد بھی فریقین کو ملا کر 300 کے قریب ہوئی۔(رہبر انسانیت،مولانا سیّد محمدرابع حسنی ندوی،دارالرشید لکھنو)
تمام جنگوں میں جو انسانی رواداری اور حسن اخلاق کا معاملہ رہااس کا دوسرے مذہبوں اور تمدنوں کے درمیان ہونے والی جنگوں سے موازنہ کیا جائے تو حیرت ناک نمونہ سامنے آتا ہے،اسلام کے علاوہ کوئی بھی مذہب، کوئی بھی قوم،کوئی بھی معاشرہ،سوسائٹی اور امن کے لیے کوشاں کوئی ادارہ آج تک اس طرح کاامن پسندی اور حق طلبی کا انقلاب برپا نہیں کرسکا اور یہ انقلاب بھی ایسا انسانی انقلاب تھا کہ اس کے نتیجہ میں رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نظام کی بنیاد رکھی تھی ،جس کی برکات صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انسانی سینوں میں محسوس کی جاسکتی ہیں۔
جنگ بدر کے 72 قیدیوں میں سے70 کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جرمانہ لے کر آزاد کردیا،ان قیدیوں کو مہمانوں کی طرح رکھا گیا،بہت سے قیدیوں کا اعتراف موجود ہے کہ مسلمان اپنے بچوں سے بڑھ کر ان کے آرام اور راحت کا اہتمام کرتے تھے۔
جنگ بدر کے بعد غزوئہ بنی المصطلق میں سو سے زائد مرد و عورت قید ہوئے،وہ سب بلا کسی شرط و بلا کسی جرمانہ کے آزاد کردیے گئے۔
جنگ حنین میں چھ ہزارزن و مرد بلاکسی شرط و بلا کسی معاوضہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد فرمادیے، بعض اسیروں کی آزادی کا معاوضہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اسیر کنند گان کو ادا کیا تھا اور پھر اکثر قیدیوں کو خلعت و انعام دے کر رخصت کیا۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کا قاعدہ تھا عورت،بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے سے منع فرماتے تھے، جب سریہ بھیجتے تو ان لوگوں کو تاکید کر دیتے کہ منکرین خدا کو قتل کرنا ہو تو مثلہ نہ کرو،یعنی ان کے جسم کے اعضا کونہ بگاڑو،کفار سے جب کچھ معاہدہ کروتو بد عہدی نہ کرو، عورت،بچے اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو۔
جس بستی یا قبیلہ سے اذان کی آواز سنی جائے یا اسلامی کوئی علامت معلوم ہو، وہاں حملہ کرنے کی اجازت نہ تھی اور جو شخص کلمہ پڑھ لیتا گو اس نے تلوار کے خوف ہی سے پڑھا ہو،اس کو قتل کرنے سے منع فرماتے تھے،صحابہ کرام کہتے تھے کہ یا رسول الله! اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا،آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا؟
حضرت اسامہ بن زید اور محلم بن جثامہ پر حضور صلی الله علیہ وسلم اسی بنا پر ناراض ہوئے اور آ پ صلی الله علیہ وسلم نے اسامہ بن زید سے وعدہ لیا کہ میرے سامنے یا میرے بعد کبھی کسی ایسے دشمن شخص کو قتل نہ کرنا جو کلمہ پڑھ لے،حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ سے اس بارے میں بد احتیاطی ہو گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان سے سخت ناراض ہوئے۔(اصح السیر ،ص:345)
سیرت ابن کثیر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوئہ حنین میں اپنے اصحاب و رفقاء کو حکم دیا کہ کسی بچہ ،عورت ،مرد یا غلام، جو کام کاج کے لیے ہو، ہاتھ نہ اٹھایا جائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت پر جو حنین میں ماری گئی،افسوس کا اظہار کیا۔ (سیرت ابن کثیر)
محسن انسانیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اس اعلیٰ ترین تعلیم و تربیت ہی کا اثر تھا کہ خلفائے راشدین کے عہد میں اگرچہ عراق وشام ،مصرو عرب اور ایران وخراسان کے سینکڑوں شہر فتح کیے گئے مگر کسی جگہ بھی حملہ آوروں،جنگ آزماؤں یا رعایا کے ساتھ اس طرح کی سختی اور زیادتی کا برتاوٴنہیں ملتا،جواس زمانہ کی جنگوں میں رائج تھا،مغلوب دشمن سے تاوان جنگ لینے کا بھی کہیں اندراج نہیں ملتا۔
اسلام کی جنگوں کے حالات سامنے رکھتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والی اقوام کی تاریخ ملاحظہ کریں توزمین و آسمان کا فرق معلوم ہوگا۔
مہذب دنیا کا روشن چہرہ
گوستاوٴلیبان نے اپنی کتاب”حضارة العرب“میں لکھا ہے کہ: ”جب صلیبی فوجی قدس میں داخل ہوئے تو آٹھ دنوں تک خون کی ہولی کھیلی او ر تقریباًساٹھ ہزار انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا،حتی کہ عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشاگیا،سر تن سے جدا کردیے گئے،پیٹ چاک کردیے گئے،بعضوں کو زندہ آگ میں جلا دیا گیا۔“ (حضارةالعرب،ص327-326)
انگریز بادشاہ ہنری چہارم اور ہنری پنجم کے عہد (1422-1399) میں کیتھولک کلیسا کی احتسابی عدالتوں نے لاکھوں کی تعداد میں مخالفین کو تختہ دار پر چڑھا دیا ۔اسپین میں اکتیس ہزار لوگوں کو جلا دیا گیااور دو لاکھ نوّے ہزار کو سخت ترین وحشیانہ سزائیں دی گئیں ۔ ہالینڈمیں چارلس پنجم کے عہد (1380-1337ء)میں ایک لاکھ افراد موت کی نیند سلادیے گئے،پھر اس کے بیٹے اور ولی عہد کے عہد میں پچاس ہزار مردوں عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا گیا۔
فرانس میں چارلس نہم کے عہد (1574-1550ء)میں کیتھولک عیسائیوں نے بیس ہزار پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو قتل کیا،پھر لوئی چودھویں (1715-1638ء)کے عہدمیں بڑی تعدادمیں پروٹسٹنٹوں کو قتل کیا گیااور نصف ملین پروٹسٹنٹ ہالینڈ، انگلینڈ،بروسیا اور امریکا ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں:قصةالاضطھاد الدینی فی المسیحیة والاسلام،ڈاکٹر توفیق الطّویل،ص:99,81)
امریکا میں اصل باشندے ریڈانڈین کی آبادی تقریباًایک سو پچاس ملین تھی،لیکن گوروں نے سوائے ایک ملین کے سب کو ختم کردیا۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں :الامبر اطوریةالامریکیةالبداویة والنھاھة، منصور عبدالحکیم ،ص:99,81)
فرانس میں جمہوری انقلاب برپا ہوا اور جب فرداًفرداً انسانوں کوقتل کرنا،وہاں ممکن نہ رہا تو گلوٹیں ایجاد کرنا پڑیں، جو بیک وقت بیسیوں انسانوں کے سروں کو ناریلوں کی طرح اڑادیتی تھیں ،اس جمہوری انقلاب نے مورخین کے اندازے کے مطابق چھبیس لاکھ انسانوں کو گلوٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔
اسی طرح روس میں اشتراکی انقلاب نے ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو قتل وغارت گری اور برفانی قید خانوں کے حوالے کردیا۔
پہلی جنگ عظیم(1918-1914ء)میں یورپی ممالک نے جرمنی سے اپنے علاقوں کی آزادی کے لیے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا،اس ہول ناک جنگ عظیم میں دس ملین سے زائد انسان مارے گئے اور زخمیوں کی تعداد بیس ملین بتائی جاتی ہے،اس میں روس کے 17لاکھ،فرانس کے 13لاکھ70ہزار،اٹلی کے 4لاکھ 20ہزار،آسڑیلیاکے 8لاکھ،برطانیہ کے 7لاکھ 20ہزار، بلغاریہ کے ایک لاکھ،رومانیہ کے ایک لاکھ،آسٹریاکے ایک لاکھ،ترکی کے2لاکھ پانچ ہزار،بیلجیئم کے ایک لاکھ دو ہزار،سروماہ نٹی نیگرو کے ایک لاکھ اور امریکا کے 50ہزار انسان قتل ہوئے۔( معجم المعارک الحربیہ /ماجد اللحام ، ص:93,63)
جاپانی اورچینی جنگ (1943-1937ء) میں چینی مقتولین،زخمیوں اور متاثرین کی تعداد پانچ ملین اور 620ہزار ہے،اسی جنگ میں چین کے مشہور شہر ”نانکین“میں بھیانک قتل عام ہوا جس میں بیس ہزار چینی مارے گئے اور بیس ہزار عورتوں کا جنسی استحصال ہوا۔(تاریخ الیابان الحدیث والمعاصر،ڈاکٹر ہشام عبدالروٴف حسن:242,241)
دوسری جنگ عظیم (1945-1939ء)میں طاقت کے نشہ میں مست عالمی سام راجی طاقتوں نے علاقہ پر قبضہ جمانے کے لیے اربوں اور کھربوں پاوٴنڈ اور ڈالر کا مالی نقصان کیا اور اس میں مختلف ملکوں کے جو انسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے،ان سب کی مجموعی تعداد ایک کروڑ چھ لاکھ بنتی ہے۔امریکا کے دو لاکھ بانوے ہزار فوجی مارے گئے،سویت یونین کا دو لاکھ بیس ہزار جانی نقصان ہوا۔زخمیوں کی تعداد اسّی ملین تھی،مالی طور پر صرف امریکا کا تین سو پچاس ارب ڈار خرچ ہوا،جب کہ ایک کروڑ سے زائد شہری گھروں سے بے گھر ہوگئے،لاکھوں انسان معذور ہوگئے اور لاکھوں بچے ایٹمی جراثیم کے اثرات کی وجہ سے آج بھی معذور ہی پیدا ہورہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں:موسوعة الحروب/ہیشم ہلال،ص:445 اورذاکر القرن العشرین/ڈاکٹر احمد کنعان،ص:99)
جنگ عظیم دوم کے دوران اگست1940ء میں جرمنی نے برطانیہ پر سخت فضائی حملے کیے جو پانچ مہینے تک جاری رہے اور ان میں تیئیس ہزار شہری مارے گئے۔(تاریخ اور باالحدیث/ھ-أ-ل-فشر،ص:674)
جنگ عظیم دوم میں امریکا نے جنوری 1943 ء میں جرمنی پر حملہ کر کے تقریباً ایک ملین شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اورتین ملین مکانات منہدم کر د یے ، یہ حملے پوری شدت کے ساتھ جاری رہے،یہاں تک برلین کا سقوط ہوگیا اور جرمنی کے اکثر شہر ویران ہوگئے۔ (تاریخ اوربا الحدیث ھ-أ-ل-فشر،ص:701,702)
پھر مزیدیہ کہ آمنے سامنے کی جنگ تو بہادری کی جنگ سمجھی جاتی ہے،مگر امریکانے اس جنگ عظیم دوم میں بغیر مقابلہ کے ہیروشیمااور ناگا ساکی کی پرُامن آبادی پر6اگست1945ء کوایٹم بم گراکے دو لاکھ تیس ہزار انسانوں کو لمحہ بھر میں ہوا میں تحلیل کردیا اور ایک لاکھ ستاون ہزار جاپانی زخمی ہوئے۔(تاریخ الیابان الحدیث والمعاصر/ ڈاکٹر عبدالروٴف حسن،ص:240,23
بارہ ہزار ٹن وزنی بم شہری آبادیوں پر برسائے گئے، جن کی وجہ سے درجہ حرارت پانچ لاکھ ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو گیا،ایسے میں انسانیت کا کیا حال ہوا ہوگا،تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہ سب کسی انسانی خیر خواہی یا کسی اعلیٰ انسانی مقصد سے نہیں،بلکہ صرف علاقہ پر غیر کا قبضہ ہٹانے اور اپنا قبضہ جمانے کے لیے کیا گیا،دوسری جنگ کی ان سب ہول ناکیوں کے بعد جو علاقائی قبضہ کے لئے جنگیں ہوئیں،ان میں کورین وار(1952-1950ء)میں، جو امریکا کے کوریا پر قبضہ کرنے کے سلسلہ میں ہوئی، تقریباً تین ملین انسان قتل ہوئے،1951ء میں چینی لیڈر ماوتسی تنگ کرنے اپنے مخالفین کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں کیں، جن میں خود اس کے اعتراف کے مطابق آٹھ لاکھ مخالفین کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا،یہ چینی لیڈر فخریہ کہا کرتا تھا کہ اس نے چھیالیس ہزار لوگوں کو زندہ دفن کردیا۔(الصین /کونرادزایتس،ص:199,197)
1953-1949ء میں مشرقی ترکستان میں چین نے ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا،دین اسلام پر پابندی عائد کردی اور مشرقی ترکستان کا نام بدل کر صوبہ سنکیانگ کردیا۔ (الصین /کونرادزایتس،ص:254)
ویتنام جنگ (1975-1964ء)میں امریکا نے ویتنام کے تین ملین شہریوں کو قتل کردیا،تیس ہزار ویتنامی اپاہج ہوگئے اور چالیس ہزار ملک بدر ہوگئے۔(ذاکرةالقرن العشرین،ص:110)
1982ء میں اسرائیلی وزیر اعظم اپریل شیرون نے جنوب لبنان کے خیموں میں پناہ گزین تین ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کردیا۔(المجار الصہیونة ضد الشعب الفلسطینی/ جواد احمد،ص:42 اور فلسطین التاریخ المصور/ڈاکٹر طارق ا لسو ید ا ن ، ص : 335-333)
1990ء کی گلف وار میں جو سپر پاور کی سرپرستی میں لڑی گئی ،ایک لاکھ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔
1994-1990ء میں روانڈا میں نسل کشی جنگ میں آٹھ لاکھ انسان قتل کردیے گئے،دو ملین ملک سے باہرپناہ گزین ہوئے اور نصف ملین ملک کے اندر ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے اور انہیں ٹھکانہ نصیب نہیں ہوسکا۔(تقریر حالةالالجئین فی العالم،ص:247,245)
1995-1992ء میں یورپین ممالک کی سرپرستی میں سربوں نے بوسنیا اور ہرسک میں دسیوں ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بیس ہزار سے پچاس ہزار تک مسلم عورتوں کی عزت و آبرو کا پردہ چاک کیا گیا اور تین سو قبروں میں مسلمانوں کو مسخ کرکے دفن کردیا گیا۔ (تفصیل کے ملاحظہ کریں لیے جمھوریة البوسنة والھر سک قلب اوربا الاسلامی/ڈاکٹر احمد بن علی تمراز، حسین عمر سباہسیتش، ص:72,69،تقریر اشکال العنف:60،وموسعة الحروب/ہیشم ہلال،ص:494)
1997-1994ء چیچنیا روس نے ایک لاکھ چالیس ہزار چیچنیائی مسلمانوں کو قتل کردیااور مسلمانوں کے ساتھ ایسی ایسی گھناوٴنی کارروائیاں کی گئیں کہ صرف اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور روس نے بین الاقوامی سطح پر ممنوع ایٹمی ہتھیار وں کو خوب دھڑلے سے استعمال کیا۔(تاریخ القوقاز/محمود عبدالرحمٰن،ص:193،نیز مندرجہ بالا معلومات کے لیے دیکھیں:الرحمة فی حیاةالرسول صلی اللہ علیہ وسلم/الدکتور راغب الحنفی السرجانی،2009ء رابطہ عالم اسلامی ،مکہ مکرمہ)
عالمی سپر پاور روس کی مسلط کردہ افغان وار میں، جو25دسمبر 1979ء سے 1999ء تک ہوئی، دس لاکھ سے زائد انسان مارے گئے اور کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا، جب کہ لاکھوں لوگوں کو ابھی تک اپنے گھر کی چھت نصیب نہیں ہوئی۔(رہبر انسانیت/مولانا سیّد رابع حسنی ندوی، ص:332)
دوسری طرف اسلام کی جنگوں کا نقشہ دیکھیے تو نظر آئے گا کہ ان میں صرف ایک ہزار سے کچھ زیادہ افراد اس میں کام آئے،جن میں مسلمان اور ان کے دشمن کے افراد شامل ہیں،پھر بھی نبی اسلام اور اسلام پر ظلم کا الزام وہ لوگ لگاتے ہیں،جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو محض غیر علاقہ پر قبضہ کرنے یا اپنے علاقہ سے دشمن کو ہٹانے کے لیے موت کی بھینٹ چڑھا دیا۔
محترم محمد وثیق ندوی
سرور کائنات ،خاتم الرسل،سید الاولین و الآخرین، محسن انسانیت محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ،قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ (الانبیاء:107)
ترجمہ:”اے محمد رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم)! ہم نے آپ کو سارے جہاں اور سارے جہان والوں کے لیے محض رحمت بنا کر بھیجاہے۔“
یہ قرآنی اعلان جو محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے متعلق کیا گیا ہے،اپنی وسعت و کثرت،اپنی مقدار و کمیت(Quantity)کے اعتبار سے بھی اور اپنی نوعیت و افادیت، اپنے جوہروکیفیت (Quality) کے اعتبار سے بھی بے نظیر و بے مثال ہے۔
چھٹی صدی مسیحی میں پوری نوع انسانی خود کشی پر آمادہ و کمر بستہ تھی،جیسے خود کشی کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے،ساری دنیا میں خود کشی کی تیاری ہو رہی ہے، اللہ تعالی ٰنے قرآن شریف میں اس منظر اور صورت حال کی جو تصویر کھینچی ہے،اس سے بہتر کوئی بڑے سے بڑا مصور،ادیب و مورخ تصویر نہیں کھینچ سکتا،وہ فرماتا ہے:﴿وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْکُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا...﴾(آل عمران:103)
ترجمہ:”اور خدا کی مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچالیا۔“
حدیث شریف میں آتا ہے:”ان اللّٰہ نظر الی اھل الارض فمقتہم، عربھم وعجمھم، الا بقایا بعض الکتاب۔“(مسند احمد)
ترجمہ:”اللہ تعالیٰ نے زمین والوں پر نظر دوڑائی تو اس کو ان سے نفرت ہوئی، عربوں سے بھی اور غیر عربوں سے بھی، سوا چند بچے کھچے اہل کتا ب کے۔“
دورِجاہلیت، جس میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی،مسئلہ کسی ایک قوم کے بگاڑ کایا چند متعینہ بُرائیوں کا نہیں تھا ،مسئلہ یہ تھا کہ عرب کے کچھ سنگ دل اور قسی القلب لوگ اپنی معصوم بچیوں کو جھوٹی شرم اور خیا لی ننگ و عار سے بچنے کے لیے ایک خود ساختہ تخیل اور ایک ظالمانہ روایت کی بنا پر اپنے ہاتھوں زمین میں زندہ دفن کردینا چاہتے تھے،مسئلہ یہ تھاکہ مادر گیتی اپنی نسل کو زندہ دفن کرنا چاہتی تھی۔
اس وقت کی صورت حال کی تمثیل حضورِاکرم ا نے اس طرح فرمائی ہے:
”میری اس د عوت وہدایت کی مثال جس کے ساتھ مجھے دنیا میں بھیجا گیا ہے،ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی ،جب اس کی روشنی گردو پیش میں پھیلی تو وہ پروانے اور کیڑے جو آگ پر گرا کرتے ہیں ،ہر طرف سے امنڈ کر اس میں کودنے لگے ،اسی طرح سے تم آگ میں گرنا اور کودنا چاہتے ہو اور میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تم کو اس سے بچاتا اور علیحدہ کرتا ہوں۔“ (صحیح بخاری،مشکوٰة:28/1)
جا ہلیت میں تمدن صرف بگڑا ہی نہیں تھا ،متعفن ہو گیا تھا ،اس میں کیڑے پڑگئے تھے،انسان نوع انسانی کا شکاری بن گیا تھا، اس کو کسی انسان کی جان کنی ،کسی زخمی کی تڑپ اور کسی مصیبت زدہ کی کراہ میں وہ مزا آنے لگا تھا جو جام وسُبُو میں اور دنیاکے لذیذ سے لذیذ کھانے اور خوش نما منظر میں نہیں آتا تھا۔یو رپین مورخین لکھتے ہیں:
”اہل روما کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ،فرحت افزا اور مست کردینے والا نظارہ وہ ہوتا تھا جب باہم شمشیر زنی یا خوں خوار جانوروں کی لڑائی میں ہزیمت خوردہ اور مجروح جان کنی کی تکلیف میں مبتلا ہوتا اور موت کے کرب میںآ خری ہچکی لیتا ،اس وقت روما کے خوش باش اور زندہ دل تماشائی اس خوش کن منظر کو دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑتے اور پولیس کو بھی ان کو کنٹرول میں رکھنا ممکن نہ ہوتا۔“(ملاحظہ ہو لیکی کی کتاب”تاریخ اخلاق یورپ“)
اس حالت میں جب کہ پوری انسانیت جاں بلب تھی،خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ،ارشاد ہوا: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ (الانبیاء:107)
ترجمہ:”اے محمد رسول الله(صلی اللہ علیہ وسلم)! ہم نے آپ کو سارے جہاں اور سارے جہان والوں کے لیے محض رحمت بنا کر بھیجاہے۔“
بعثت محمدی نے کیا انقلاب عظیم برپا کیا؟مفکر اسلام حضرت مولانا سیّد ابو الحسن علی حسنی ندوی رقم طراز ہیں:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد دنیا کی رت بدل گئی،انسانوں کے مزاج بدل گئے ،دلوں میں خدا کی محبت کا شعلہ بھڑکا،خدا طلبی کا ذوق عام ہوا،انسانوں کو ایک نئی دھن (خدا کو راضی کرنے اور خدا کی مخلوق کو خدا سے ملانے اور اس کو نفع پہنچانے کی)لگ گئی،جس طرح بہاریا برسات کے موسم میں زمین میں روئیدگی،سوکھی ٹہنیوں اور پتیوں میں شادابی اور ہریالی پیداہو جاتی ہے،نئی نئی کونپلیں نکلنے لگتی ہیں اور درودیوار پر سبزہ اگنے لگتا ہے،اسی طرح بعثت محمدی کے بعد قلوب میں نئی حرارت ،دماغوں میں نیا جذبہ اور سروں میں نیا سودا سما گیا،کروڑوں انسان اپنی حقیقی منزل کی تلاش اور اس پر پہنچنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ،ہر ملک اور قومیں، طبیعتوں میں یہی نشہ اور ہر طبقے میں میدان میں، ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا یہی جذبہ موج زن نظر آتا ہے،عرب و عجم،مصر و شام ،ترکستان اور ایران ،عراق وخراسان،شمالی افریقا اور اسپین اور بالآخر ہمارا ملک ہندوستان اور جزائر شرق الہند سب اسی صہبائے محبت کے متوالے اور اسی مقصد کے دیوانے نظر آتے ہیں ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انسانیت صدیوں کی نیند سوتے سوتے بیدار ہوگئی،آپ تاریخ اور تذکرہ کی کتابیں پڑھیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ خدا طلبی اور خدا شناسی کے سوا کوئی کام ہی نہ تھا،شہر شہر ،قصبہ قصبہ ،گاوٴں گاوٴں،بڑی تعداد میں ایسے خدامست ،عالی ہمت ،عارف کامل، داعئی حق اور خادم خلق،انسان دوست،ایثار پیشہ انسان نظرآتے ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کریں،انہوں نے دلوں کی سرد انگیٹھیاں سلگائیں عشق الٰہی کا شعلہ بھڑ کا دیا،علوم وفنون کے دریا بہا دیے ،علم ومعرفت اور محبت کی جوت لگادی اور جہا لت و وحشت،ظلم و عداوت سے نفرت پیدا کردی ،مساوات کا سبق پڑھایا ،دکھوں کے مارے اور سماج کے ستائے ہو ئے انسانوں کو گلے لگایا،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بارش کے قطروں کی طرح ہر چپہ زمین پر ان کا نزول ہوا اور اس کا شمار ناممکن ہے۔
آپ ان کی کثرت (کمیت)کے علاوہ ان کی کیفیت کو دیکھیے ،ان کی ذہنی پرواز، ان کی روح کی لطافت اور ذکاوت اور ان کے ذوق سلیم کے واقعات پڑھیے،انسانوں کے لیے کس طرح ان کادل روتا اور ان کے غم میں گھلتااور کس طرح ان کی روح سلگتی تھی،انسانوں کو خطرہ میں ڈالتے اور اپنی اولاد اور متعلقین کو آزمائش میں مبتلا کرتے تھے،ان کے حاکموں کو اپنی ذمہ داری کا کس قدر احساس اور محکوموں میں اطاعت و تعاون کا کس قدر جذبہ تھا،ان کے ذوق عبادت ،ان کی قوت دعا،ان کے زہدو فقر،جذبہٴ خدمت اور مکارم اخلاق کے واقعات پڑھیے،نفس کے ساتھ ان کا انصاف ،اپنا احتساب ،کمزوروں پر شفقت،دوست پروری،دشمن نوازی اور ہمدردیٴ خلائق کے نمونے دیکھیے،بعض اوقات شاعروں اور ادیبوں کی قوت متخیلہ بھی ان بلندیوں تک نہیں پہنچی،جہاں وہ اپنے جسم وعمل کے ساتھ پہنچے ،اگر تاریخ کی مستند اور متواتر شہادت نہ ہوتی تو یہ واقعات، قصے کہانیاں اور افسانے معلوم ہوتے۔یہ انقلاب عظیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم معجزہ اور آپ کی ”رحمتہ للعالمینی“کا کرشمہ ہے۔“ (تہذیب وتمدن پر اسلام کے احسانات واثرات ،ص:138تا140)
ابتدائے اسلام اور فوجی کاروائیاں اور مخالفین کے ساتھ برتاو
جس نبی عظیم، محسن انسانیت (صلی اللہ علیہ وسلم )نے ایسا عظیم انسانی انقلاب برپا کیا ہو، وہ بدامنی اور دہشت گردی کا معلم کیسے ہو سکتا ہے؟موجودہ دور میں جو علم و تحقیق کا دور ہے،رحمةللعالمین پر تشدد ، دہشت گردی،قتل و غارت گری اور بدامنی عام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے،حالاں کہ رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ نمائی میں دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی 82 کوششوں میں(جن میں28میں آپ نے خود قیادت کی)صرف 459 مسلمان اور 459مخالفین کام آئے، ان تمام مقابلوں میں صرف ۱۱ مسلمان قید ہوئے،البتہ مخالفین کے 6546 افراد قیدی بنائے گئے،جو فدیہ سے یا فدیہ کے بغیر آزاد کر دیے گئے اور ان میں سے جو بلا کسی شرط کے چھوڑے گئے،ان کی تعداد 6347ہے اور ان کے ساتھ کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی،زخمیوں کی تعداد بھی فریقین کو ملا کر 300 کے قریب ہوئی۔(رہبر انسانیت،مولانا سیّد محمدرابع حسنی ندوی،دارالرشید لکھنو)
تمام جنگوں میں جو انسانی رواداری اور حسن اخلاق کا معاملہ رہااس کا دوسرے مذہبوں اور تمدنوں کے درمیان ہونے والی جنگوں سے موازنہ کیا جائے تو حیرت ناک نمونہ سامنے آتا ہے،اسلام کے علاوہ کوئی بھی مذہب، کوئی بھی قوم،کوئی بھی معاشرہ،سوسائٹی اور امن کے لیے کوشاں کوئی ادارہ آج تک اس طرح کاامن پسندی اور حق طلبی کا انقلاب برپا نہیں کرسکا اور یہ انقلاب بھی ایسا انسانی انقلاب تھا کہ اس کے نتیجہ میں رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نظام کی بنیاد رکھی تھی ،جس کی برکات صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انسانی سینوں میں محسوس کی جاسکتی ہیں۔
جنگ بدر کے 72 قیدیوں میں سے70 کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جرمانہ لے کر آزاد کردیا،ان قیدیوں کو مہمانوں کی طرح رکھا گیا،بہت سے قیدیوں کا اعتراف موجود ہے کہ مسلمان اپنے بچوں سے بڑھ کر ان کے آرام اور راحت کا اہتمام کرتے تھے۔
جنگ بدر کے بعد غزوئہ بنی المصطلق میں سو سے زائد مرد و عورت قید ہوئے،وہ سب بلا کسی شرط و بلا کسی جرمانہ کے آزاد کردیے گئے۔
جنگ حنین میں چھ ہزارزن و مرد بلاکسی شرط و بلا کسی معاوضہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد فرمادیے، بعض اسیروں کی آزادی کا معاوضہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اسیر کنند گان کو ادا کیا تھا اور پھر اکثر قیدیوں کو خلعت و انعام دے کر رخصت کیا۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کا قاعدہ تھا عورت،بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے سے منع فرماتے تھے، جب سریہ بھیجتے تو ان لوگوں کو تاکید کر دیتے کہ منکرین خدا کو قتل کرنا ہو تو مثلہ نہ کرو،یعنی ان کے جسم کے اعضا کونہ بگاڑو،کفار سے جب کچھ معاہدہ کروتو بد عہدی نہ کرو، عورت،بچے اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو۔
جس بستی یا قبیلہ سے اذان کی آواز سنی جائے یا اسلامی کوئی علامت معلوم ہو، وہاں حملہ کرنے کی اجازت نہ تھی اور جو شخص کلمہ پڑھ لیتا گو اس نے تلوار کے خوف ہی سے پڑھا ہو،اس کو قتل کرنے سے منع فرماتے تھے،صحابہ کرام کہتے تھے کہ یا رسول الله! اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا،آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا؟
حضرت اسامہ بن زید اور محلم بن جثامہ پر حضور صلی الله علیہ وسلم اسی بنا پر ناراض ہوئے اور آ پ صلی الله علیہ وسلم نے اسامہ بن زید سے وعدہ لیا کہ میرے سامنے یا میرے بعد کبھی کسی ایسے دشمن شخص کو قتل نہ کرنا جو کلمہ پڑھ لے،حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ سے اس بارے میں بد احتیاطی ہو گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان سے سخت ناراض ہوئے۔(اصح السیر ،ص:345)
سیرت ابن کثیر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوئہ حنین میں اپنے اصحاب و رفقاء کو حکم دیا کہ کسی بچہ ،عورت ،مرد یا غلام، جو کام کاج کے لیے ہو، ہاتھ نہ اٹھایا جائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت پر جو حنین میں ماری گئی،افسوس کا اظہار کیا۔ (سیرت ابن کثیر)
محسن انسانیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اس اعلیٰ ترین تعلیم و تربیت ہی کا اثر تھا کہ خلفائے راشدین کے عہد میں اگرچہ عراق وشام ،مصرو عرب اور ایران وخراسان کے سینکڑوں شہر فتح کیے گئے مگر کسی جگہ بھی حملہ آوروں،جنگ آزماؤں یا رعایا کے ساتھ اس طرح کی سختی اور زیادتی کا برتاوٴنہیں ملتا،جواس زمانہ کی جنگوں میں رائج تھا،مغلوب دشمن سے تاوان جنگ لینے کا بھی کہیں اندراج نہیں ملتا۔
اسلام کی جنگوں کے حالات سامنے رکھتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والی اقوام کی تاریخ ملاحظہ کریں توزمین و آسمان کا فرق معلوم ہوگا۔
مہذب دنیا کا روشن چہرہ
گوستاوٴلیبان نے اپنی کتاب”حضارة العرب“میں لکھا ہے کہ: ”جب صلیبی فوجی قدس میں داخل ہوئے تو آٹھ دنوں تک خون کی ہولی کھیلی او ر تقریباًساٹھ ہزار انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا،حتی کہ عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشاگیا،سر تن سے جدا کردیے گئے،پیٹ چاک کردیے گئے،بعضوں کو زندہ آگ میں جلا دیا گیا۔“ (حضارةالعرب،ص327-326)
انگریز بادشاہ ہنری چہارم اور ہنری پنجم کے عہد (1422-1399) میں کیتھولک کلیسا کی احتسابی عدالتوں نے لاکھوں کی تعداد میں مخالفین کو تختہ دار پر چڑھا دیا ۔اسپین میں اکتیس ہزار لوگوں کو جلا دیا گیااور دو لاکھ نوّے ہزار کو سخت ترین وحشیانہ سزائیں دی گئیں ۔ ہالینڈمیں چارلس پنجم کے عہد (1380-1337ء)میں ایک لاکھ افراد موت کی نیند سلادیے گئے،پھر اس کے بیٹے اور ولی عہد کے عہد میں پچاس ہزار مردوں عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا گیا۔
فرانس میں چارلس نہم کے عہد (1574-1550ء)میں کیتھولک عیسائیوں نے بیس ہزار پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو قتل کیا،پھر لوئی چودھویں (1715-1638ء)کے عہدمیں بڑی تعدادمیں پروٹسٹنٹوں کو قتل کیا گیااور نصف ملین پروٹسٹنٹ ہالینڈ، انگلینڈ،بروسیا اور امریکا ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں:قصةالاضطھاد الدینی فی المسیحیة والاسلام،ڈاکٹر توفیق الطّویل،ص:99,81)
امریکا میں اصل باشندے ریڈانڈین کی آبادی تقریباًایک سو پچاس ملین تھی،لیکن گوروں نے سوائے ایک ملین کے سب کو ختم کردیا۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں :الامبر اطوریةالامریکیةالبداویة والنھاھة، منصور عبدالحکیم ،ص:99,81)
فرانس میں جمہوری انقلاب برپا ہوا اور جب فرداًفرداً انسانوں کوقتل کرنا،وہاں ممکن نہ رہا تو گلوٹیں ایجاد کرنا پڑیں، جو بیک وقت بیسیوں انسانوں کے سروں کو ناریلوں کی طرح اڑادیتی تھیں ،اس جمہوری انقلاب نے مورخین کے اندازے کے مطابق چھبیس لاکھ انسانوں کو گلوٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔
اسی طرح روس میں اشتراکی انقلاب نے ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو قتل وغارت گری اور برفانی قید خانوں کے حوالے کردیا۔
پہلی جنگ عظیم(1918-1914ء)میں یورپی ممالک نے جرمنی سے اپنے علاقوں کی آزادی کے لیے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا،اس ہول ناک جنگ عظیم میں دس ملین سے زائد انسان مارے گئے اور زخمیوں کی تعداد بیس ملین بتائی جاتی ہے،اس میں روس کے 17لاکھ،فرانس کے 13لاکھ70ہزار،اٹلی کے 4لاکھ 20ہزار،آسڑیلیاکے 8لاکھ،برطانیہ کے 7لاکھ 20ہزار، بلغاریہ کے ایک لاکھ،رومانیہ کے ایک لاکھ،آسٹریاکے ایک لاکھ،ترکی کے2لاکھ پانچ ہزار،بیلجیئم کے ایک لاکھ دو ہزار،سروماہ نٹی نیگرو کے ایک لاکھ اور امریکا کے 50ہزار انسان قتل ہوئے۔( معجم المعارک الحربیہ /ماجد اللحام ، ص:93,63)
جاپانی اورچینی جنگ (1943-1937ء) میں چینی مقتولین،زخمیوں اور متاثرین کی تعداد پانچ ملین اور 620ہزار ہے،اسی جنگ میں چین کے مشہور شہر ”نانکین“میں بھیانک قتل عام ہوا جس میں بیس ہزار چینی مارے گئے اور بیس ہزار عورتوں کا جنسی استحصال ہوا۔(تاریخ الیابان الحدیث والمعاصر،ڈاکٹر ہشام عبدالروٴف حسن:242,241)
دوسری جنگ عظیم (1945-1939ء)میں طاقت کے نشہ میں مست عالمی سام راجی طاقتوں نے علاقہ پر قبضہ جمانے کے لیے اربوں اور کھربوں پاوٴنڈ اور ڈالر کا مالی نقصان کیا اور اس میں مختلف ملکوں کے جو انسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے،ان سب کی مجموعی تعداد ایک کروڑ چھ لاکھ بنتی ہے۔امریکا کے دو لاکھ بانوے ہزار فوجی مارے گئے،سویت یونین کا دو لاکھ بیس ہزار جانی نقصان ہوا۔زخمیوں کی تعداد اسّی ملین تھی،مالی طور پر صرف امریکا کا تین سو پچاس ارب ڈار خرچ ہوا،جب کہ ایک کروڑ سے زائد شہری گھروں سے بے گھر ہوگئے،لاکھوں انسان معذور ہوگئے اور لاکھوں بچے ایٹمی جراثیم کے اثرات کی وجہ سے آج بھی معذور ہی پیدا ہورہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں:موسوعة الحروب/ہیشم ہلال،ص:445 اورذاکر القرن العشرین/ڈاکٹر احمد کنعان،ص:99)
جنگ عظیم دوم کے دوران اگست1940ء میں جرمنی نے برطانیہ پر سخت فضائی حملے کیے جو پانچ مہینے تک جاری رہے اور ان میں تیئیس ہزار شہری مارے گئے۔(تاریخ اور باالحدیث/ھ-أ-ل-فشر،ص:674)
جنگ عظیم دوم میں امریکا نے جنوری 1943 ء میں جرمنی پر حملہ کر کے تقریباً ایک ملین شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اورتین ملین مکانات منہدم کر د یے ، یہ حملے پوری شدت کے ساتھ جاری رہے،یہاں تک برلین کا سقوط ہوگیا اور جرمنی کے اکثر شہر ویران ہوگئے۔ (تاریخ اوربا الحدیث ھ-أ-ل-فشر،ص:701,702)
پھر مزیدیہ کہ آمنے سامنے کی جنگ تو بہادری کی جنگ سمجھی جاتی ہے،مگر امریکانے اس جنگ عظیم دوم میں بغیر مقابلہ کے ہیروشیمااور ناگا ساکی کی پرُامن آبادی پر6اگست1945ء کوایٹم بم گراکے دو لاکھ تیس ہزار انسانوں کو لمحہ بھر میں ہوا میں تحلیل کردیا اور ایک لاکھ ستاون ہزار جاپانی زخمی ہوئے۔(تاریخ الیابان الحدیث والمعاصر/ ڈاکٹر عبدالروٴف حسن،ص:240,23
بارہ ہزار ٹن وزنی بم شہری آبادیوں پر برسائے گئے، جن کی وجہ سے درجہ حرارت پانچ لاکھ ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو گیا،ایسے میں انسانیت کا کیا حال ہوا ہوگا،تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہ سب کسی انسانی خیر خواہی یا کسی اعلیٰ انسانی مقصد سے نہیں،بلکہ صرف علاقہ پر غیر کا قبضہ ہٹانے اور اپنا قبضہ جمانے کے لیے کیا گیا،دوسری جنگ کی ان سب ہول ناکیوں کے بعد جو علاقائی قبضہ کے لئے جنگیں ہوئیں،ان میں کورین وار(1952-1950ء)میں، جو امریکا کے کوریا پر قبضہ کرنے کے سلسلہ میں ہوئی، تقریباً تین ملین انسان قتل ہوئے،1951ء میں چینی لیڈر ماوتسی تنگ کرنے اپنے مخالفین کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں کیں، جن میں خود اس کے اعتراف کے مطابق آٹھ لاکھ مخالفین کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا،یہ چینی لیڈر فخریہ کہا کرتا تھا کہ اس نے چھیالیس ہزار لوگوں کو زندہ دفن کردیا۔(الصین /کونرادزایتس،ص:199,197)
1953-1949ء میں مشرقی ترکستان میں چین نے ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا،دین اسلام پر پابندی عائد کردی اور مشرقی ترکستان کا نام بدل کر صوبہ سنکیانگ کردیا۔ (الصین /کونرادزایتس،ص:254)
ویتنام جنگ (1975-1964ء)میں امریکا نے ویتنام کے تین ملین شہریوں کو قتل کردیا،تیس ہزار ویتنامی اپاہج ہوگئے اور چالیس ہزار ملک بدر ہوگئے۔(ذاکرةالقرن العشرین،ص:110)
1982ء میں اسرائیلی وزیر اعظم اپریل شیرون نے جنوب لبنان کے خیموں میں پناہ گزین تین ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کردیا۔(المجار الصہیونة ضد الشعب الفلسطینی/ جواد احمد،ص:42 اور فلسطین التاریخ المصور/ڈاکٹر طارق ا لسو ید ا ن ، ص : 335-333)
1990ء کی گلف وار میں جو سپر پاور کی سرپرستی میں لڑی گئی ،ایک لاکھ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔
1994-1990ء میں روانڈا میں نسل کشی جنگ میں آٹھ لاکھ انسان قتل کردیے گئے،دو ملین ملک سے باہرپناہ گزین ہوئے اور نصف ملین ملک کے اندر ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے اور انہیں ٹھکانہ نصیب نہیں ہوسکا۔(تقریر حالةالالجئین فی العالم،ص:247,245)
1995-1992ء میں یورپین ممالک کی سرپرستی میں سربوں نے بوسنیا اور ہرسک میں دسیوں ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بیس ہزار سے پچاس ہزار تک مسلم عورتوں کی عزت و آبرو کا پردہ چاک کیا گیا اور تین سو قبروں میں مسلمانوں کو مسخ کرکے دفن کردیا گیا۔ (تفصیل کے ملاحظہ کریں لیے جمھوریة البوسنة والھر سک قلب اوربا الاسلامی/ڈاکٹر احمد بن علی تمراز، حسین عمر سباہسیتش، ص:72,69،تقریر اشکال العنف:60،وموسعة الحروب/ہیشم ہلال،ص:494)
1997-1994ء چیچنیا روس نے ایک لاکھ چالیس ہزار چیچنیائی مسلمانوں کو قتل کردیااور مسلمانوں کے ساتھ ایسی ایسی گھناوٴنی کارروائیاں کی گئیں کہ صرف اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور روس نے بین الاقوامی سطح پر ممنوع ایٹمی ہتھیار وں کو خوب دھڑلے سے استعمال کیا۔(تاریخ القوقاز/محمود عبدالرحمٰن،ص:193،نیز مندرجہ بالا معلومات کے لیے دیکھیں:الرحمة فی حیاةالرسول صلی اللہ علیہ وسلم/الدکتور راغب الحنفی السرجانی،2009ء رابطہ عالم اسلامی ،مکہ مکرمہ)
عالمی سپر پاور روس کی مسلط کردہ افغان وار میں، جو25دسمبر 1979ء سے 1999ء تک ہوئی، دس لاکھ سے زائد انسان مارے گئے اور کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا، جب کہ لاکھوں لوگوں کو ابھی تک اپنے گھر کی چھت نصیب نہیں ہوئی۔(رہبر انسانیت/مولانا سیّد رابع حسنی ندوی، ص:332)
دوسری طرف اسلام کی جنگوں کا نقشہ دیکھیے تو نظر آئے گا کہ ان میں صرف ایک ہزار سے کچھ زیادہ افراد اس میں کام آئے،جن میں مسلمان اور ان کے دشمن کے افراد شامل ہیں،پھر بھی نبی اسلام اور اسلام پر ظلم کا الزام وہ لوگ لگاتے ہیں،جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو محض غیر علاقہ پر قبضہ کرنے یا اپنے علاقہ سے دشمن کو ہٹانے کے لیے موت کی بھینٹ چڑھا دیا۔