محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
محمد یعقوب آسی کے چند خوبصورت اشعار پیشِ خدمت ہیں
محمد یعقوب آسی
ہم سخن ساز کہاں ، ہم کو یہ دعویٰ کب ہے؟
ہم تو احساس کو اندازِ بیاں دیتے ہیں
نام کوئی بھی مجھے دینے سے پہلے سوچ لیں
آپ کی پہچان بھی اس نام سے مشروط ہے
کیجیے اظہارِ بیزاری بھی مجھ سے اِس قدر
آپ کا مجھ سے تعلق جس قدر مضبوط ہے
خود کو آئینے میں دیکھا میں نے
راز تکوین کا پایا میں نے
اس شہر کا کیا جانئیے کیا ہوکے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہوکے رہے گا
بھری محفل میں تنہا بولتا ہے
وہ اپنے قد سے اونچا بولتا ہے
غموں پر پھر جوانی آگئی ہے
طبیعت میں روانی آگئی ہے
دوستوں نے تیر جب دل میں ترازو کردیئے
ہم نے سب شکوے سپردِ شاخِ آہو کردئیے
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
مجھے جتنے ملےغم دوستوں سے
وہ میں نے اپنے شعروں میں سجائے
لب و عارض ، وصال و ہجر کی شیرینیاں عنقا
زمانے بھر کی تلخی بھر گئی ہے میرے لفظوں میں