سید شہزاد ناصر
محفلین
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے (1)
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر ،سو خموش ہے
دیکھو مجھے،جو دیدہء عبرت نگاہ ہو
میری سنو،جو گوشِ نصیحت نیوش ہے(2)
میں ترک قوم کا سلجوقی ہوں۔ دادا میرا ماورا النہر سے شاہ عالم کا نوکر ہوا۔ ایک پرگنہ سیر حاصل ذات کی تنخواہ اور رسالے کی تنخواہ میں پایا۔ بعد انتقال اس کے جو طوائف الملوک کا ہنگامہ گرم تھا،وہ علاقہ نہ رہا۔ باپ میرا عبداللہ بیگ خاں بہادر عرف میرزا دولہ لکھنؤ جا کر نواب آصف الدولہ کا نوکر رہا۔ (3) پانچ برس کی میری عمر تھی کہ .... مہاراجا بختاور سنگھ بہادر کی رفاقت میں مارا گیا۔ سرکار سے میرے باپ کی تنخواہ میرے نام پر جاری ہوئی اور ایک گاؤں جس کا تالڑا نام ہے،مجھ کو برائے دوام ملا۔آپ یوں سمجھیے کہ ادھر دودھ پینا چھوڑا اور راج کی روٹی کھائی۔ (4) نصر اللہ بیگ خاں بہادر میرا حقیقی چچا مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کا صوبہ دار تھا،اس نے مجھے پالا.... بمرگ ناگاہ مر گیا،رسالہ بر طرف ہوگیا،ملک کے عوض نقدی مقرر ہو گئی.... 1830ءمیں کلکتے گیا۔ نواب گورنر سے ملنے کی درخواست کی۔ دفتر دیکھا گیا۔ میری ریاست کا حال معلوم کیا گیا۔ ملازمت ہوئی، سات پارچے اور جیفہ، سرپیچ، مالائے مروارید، یہ تین رقم خلعت ملا۔ (5) عمر بھر نوکری کی تو بہادر شاہ سے نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ خطاب پایا۔ کچھ دنوں بادشاہ کا مصاحب رہا، پھر استاد کہلایا۔ دنیا دار نہیں فقیر ہوں بہت سی عزت اور تھوڑی سی دولت چاہتا ہوں۔ (6) مکان گھر کا نہیں، کرائے کی حویلی میں رہتا ہوں۔ (7)
میں ایک شخص گوشہ نشین، فلک زدہ، اندوہ گیں، نہ اہل دنیا، نہ اہل دیں، ( 8 ) ایک سپاہی زادہ، ہیچ مداں اور دل افسردہ و رواں فرسودہ۔ ہاں، ایک طبع موزوں اور فارسی زبان سے لگاؤ رکھتا ہوں۔ (9) ابتدائے فکر سخن میں بیدل و اسیر و شوکت کے طرز پر ریختہ لکھتاتھا.... پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامین خیالی لکھا کیا۔ دس برس میں بڑا دیوان جمع ہو گیا۔ آخر جب تمیز آئی، تو اس دیوان کو دور کیا۔ اوراق یک قلم چاک کیے۔ (10) نہ سفیہ ہوں کہ ہجو میں سخن سرائی کروں، نہ فقیہہ ہوں کہ بحث میں زور آزمائی کروں۔ غریب الوطن سپاہی زادہ ہوں، فلک زدہ، خانماں بہ باد دادہ ہوں۔ تابِ آفتاب حوادث سے ظل اللہ کے سایہء دیوار کی پناہ میں بیٹھا ہوں، گویا ایک تھکا ہوا مسافر ہوں کہ آرام کی جگہ دیکھ کر دم لینے کو راہ میں بیٹھا ہوں۔ (11)
میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے ....جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چنپئی تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستایش کیا کرتے تھے۔ اب جو کبھی مجھ کو اپنا رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا پھر جاتا ہے۔ ہاں! مجھ کورشک آیا اور میں نے خون جگر کھایا تو اس بات پر کہ داڑھی خوب گھٹی ہوئی ہے، وہ مزے یاد آگئے۔ کیاکہوں جی پر کیا گزری؟ بقول شیخ علی حزیں:
تادسترسم بود، زدم چاک گریباں
شرمندگی از خقہء پشیمنہ ندارم
جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آ گئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار مِسّی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی۔ (12) نہ آزاد ہوں، نہ مقید، نہ رنجور ہوں نہ تندرست، نہ خوش ہوں نہ ناخوش، نہ مردہ ہوں نہ زندہ، جیے جاتا ہوں، باتیں کیے جاتا ہوں، روٹی روز کھاتا ہوں، شراب گاہ گاہ پیے جاتا ہوں.... نہ شکر ہے نہ شکایت ہے، جو تقریر ہے بہ سبیل حکایت ہے۔ (13) دنیا دار نہیں، مکار نہیں، خوشامد میرا شعار نہیں، جس میں جو صفات دیکھتا ہوں، وہ بیان کرتا ہوں۔ (14) فقیر میں جہاں اور عیب ہیں، ایک یہ بھی عیب ہے کہ جھوٹ نہیں بولتا۔ (15) حساب سے میر اجی گھبراتا ہے اور مجھ کو جوڑ لگانا نہیں آتا ہے۔ (16) بارہ برس کی عمر سے نظم و نثر میں کاغذ مانند اپنے نامہء اعمال کے سیاہ کر رہا ہوں .... اور کی فیض رسانی اور قدر دانی کو کیا روئیں؟ اپنی تکمیل ہی کی فرصت نہیں۔ (17) اپنا نام بدل کر مغلوب رکھ لیا ہے۔ (81) خاکسار نے ابتدائے سن تمیز میں اُردو زبان میں سخن سرائی کی ہے۔ پھر اوسط عمر میں بادشاہِ دہلی کا نوکر ہو کر چند روز اسی روش پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نظم و نثر فارسی کا عاشق اور مائل ہوں، ہندوستان میں رہتا ہوں مگر تیغ اصفہانی کا گھائل ہوں۔ جہاں تک زور چل سکا، فارسی زبان میں بہت کچھ بکا۔ اب نہ فارسی کا فکر، نہ اُردو کا فکر۔ (19) ا فسوس کہ میرا حال اور یہ لیل و نہار، آپ کی نظر میں نہیں، ورنہ آپ جانیں کہ اس بجھے ہوئے دل اور اس ٹوٹے ہوئے دل اور اس مرے ہوئے دل پر کیا کر رہا ہوں۔ اب نہ دل میں وہ طاقت، نہ قلم میں زور، سخن گستری کا ایک ملکہ باقی ہے، بے تامل اور بے فکر جو خیال میں آجائے، وہ لکھ لوں ورنہ فکر کی صعوبت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ (20)
میرا قصد سیاحت کا ہے پنشن اگر کھل جائے گا تو وہ اپنے صرف میں لایا کروں گا۔ جہاں جی لگا، وہاں رہ گیا، جہاں سے دل اُکھڑا، چل دیا.... عاشقانہ اشعار سے مجھ کو وہ بُعد ہے جو ایمان سے کفر کو۔ گورنمنٹ کا بھاٹ تھا، بھٹئی کرتا تھا، خلعت پاتا تھا۔ خلعت موقوف، بھٹئی متروک، نہ غزل، نہ مدح، ہزل و ہجو میرا آئین نہیں۔ بوڑھے پہلوان کے سے پیچ بتانے کو رہ گیا ہوں، اکثر اطراف و جوانب سے اشعار آجاتے ہیں، اصلاح پاتے ہیں۔ (1 2) خدا کا احسان ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا، جو اطراف و جوانب سے دو چار خط نہیں آرہتے ہوں، بلکہ ایسا بھی دن ہوتا ہے کہ دو دو بار ڈاک کا ہرکارہ خط لاتا ہے، ایک دو صبح کو، ایک دو شام کو، میری دل لگی ہو جاتی ہے۔ دن ان کے پڑھنے اور جواب لکھنے میں گزر جاتا ہے۔ (22) جس طرح امرا واسطے فقراکے وجہ معاش مقرر کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اس سرکار (سرکار رام پور) سے میرے واسطے مقرر ہے۔ ہاں فقیر سے دعائے خیر اور مجھ سے اصلاحِ نظم مطلوب ہے۔ چاہوں دلی رہوں، چاہوں اکبر آباد، چاہوں لاہور، چاہوں لوہارو، ایک گاڑی کپڑوں کے واسطے کروں، کپڑوں کے صندوق میں آدھی درجن شراب دھروں، آٹھ کہار ٹھیکے کے لوں، چار آدمی رکھتا ہوں، دو یہاں چھوڑوں، دو ساتھ لوں، چل دوں.... گاڑی ہو سکتی ہے، شراب مل سکتی ہے، کہار بہم پہنچ سکتے ہیں، طاقت کہاں سے لاؤں؟ (23) میں شاعر سخن سنج اب نہیں رہا، صرف سخن فہم رہ گیا ہوں.... بناوٹ نہ سمجھنا، شعر کہنا مجھ سے بالکل چھوٹ گیا ہے۔ اپنا اگلا کلام دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ میں نے کیونکر کہا تھا۔ (24) پچاس برس اس شیوے کی ورزش میں گزرے، اب جسم و جاں میں تاب و تواں نہیں۔ (25) خدا سے بھی توقع باقی نہیں، مخلوق کا کیا ذکر؟ کچھ بن نہیں آتی، آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں، یعنی میں نے اپنے آپ کو اپنا غیر تصور کیا ہے، جو دکھ مجھے پہنچتا ہے، کہتا ہوں کہ لو غالب کے ایک جوتی اور لگی۔ بہت اِتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور فارسی دان ہوں، آج دور دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب قرض داروں کو جواب دے۔ (26) ناسازئ روزگار و بے ربطئ اطوار، بطریق داغ بالائے داغ، آرزوئے دیدار، وہ دو آتش شرارہ بار اور یہ ایک دریائے نا پیدا کنار، وقِنا ربّنا عذاب النّار۔ (27)
لو اب میری کہانی سُنو! میری سر گزشت میری زبانی سنو! (28) میں پانچ برس کا تھا کہ میرا باپ مرا، نو برس کا تھا کہ چچا مرا۔ اس کی جاگیر کے عوض ....کولبرک صاحب بہادر ریذیڈنٹ دہلی اور استرلنگ صاحب بہادر سکرتر گورنمنٹ کلکتہ متفق ہوئے۔ میرا حق دلانے پر، ریذیڈنٹ معزول ہو گئے، سکرتر گورنمنٹ بمرگ ناگاہ مر گئے۔ بعد اک زمانے کے بادشاہ دہلی نے پچاس روپے مہینا مقرر کیا، ان کے ولی عہد نے چار سو روپے سال، ولی عہد اس تقرر کے دو برس بعد مر گئے۔ (29)
میں نے پہلے لڑکے کا اسم تاریخی نظم کر دیا تھا اور وہ لڑکا نہ جیا.... میر ی نحوست طالعی کی تاثیر تھی، میرا ممدوح جیتا نہیں۔ نصیر الدین حیدر اور امجد علی شاہ ایک ایک قصیدے میں چل دیے، واجد علی شاہ تین قصیدوں کے متحمل ہوئے، پھر نہ سنبھل سکے، جس کی مدح میں دس بیس قصیدے کہے گئے، وہ عدم سے بھی پرے پہنچا۔ (30) دلی کی سلطنت کچھ سخت جان تھی، سات برس مجھ کو روٹی دے کر بگڑی۔ ایسے طالع مربی کُش اور محسن سوز کہاں پیدا ہوتے ہیں؟ اب میں جو والئی دکن کی طرف رجوع کروں، یاد رہے کہ متوسط مر جائے گا یا معزول ہو جائے گا اور اگر یہ دونوں امر واقع نہ ہوئے تو کوشش اس کی ضائع ہو جائے گی اور والئی شہر مجھ کو کچھ نہ دے گا اور احیاناً اس نے سلوک کیا تو ریاست خاک میں مل جائے گی اور ملک میں گدھے کے ہل پھر جائیں گے۔ (31)
میری جان! غالب کثیر المطالب کی کہانی سُن(32) عالم دو ہیں: ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے، جو خود فرماتا ہے:لِمَنِ المُلکُ الیَومَ؟ اور پھر آپ جواب دیتا ہے: لِلّٰہِ الوَاحِدِ القَہَّار ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ آب و گِل کے مجرم عالمِ ارواح میں سزا پاتے ہیں، لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہ گار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب 1212ھ میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ تیرہ برس حوالات میں رہا۔ 7 رجب 1225ھ کو میرے واسطے حکمِ دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤںمیں ڈال دی اوردلی شہر کو زنداں مقرر کیا اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ فکر نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد میں جیل خانہ سے بھاگا۔ تین برس بلادِ شرقیہ میں پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے۔ پھر اسی محبس میں بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے، دو ہتکڑیاں اور بڑھا دیں۔ پانو بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتکڑیوں سے زخم دار، مشقت مقرری اور مشکل ہو گئی، طاقت یک قلم زائل ہو گئی، بے حیا ہوں، سالِ گذشتہ بیڑی کو زاویہ
¿ زنداں میں چھوڑ مع دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوا رام پور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑا آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا۔ بھاگوں کا کیا؟بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔ حکم رہائی دیکھیے کب صادر ہو۔ ایک ضعیف سا احتمال ہے کہ اسی ماہ ذی الحجہ 7721 ءمیں چھوٹ جا¶ں۔ (33)
میرا دُکھ سُنو! ہر شخص کو غم موافق اس کی طبیعت کے ہوتا ہے، ایک تنہائی سے نفور، ایک کو تنہائی منظور ہے....خدا نے لاولد رکھاتھا، شکر بجا لاتا تھا۔ خدانے میرا شکر مقبول و منظور نہ کیا، یہ بلا بھی قبیلہ داری کی شکل کا نتیجہ ہے، یعنی جس لوہے کا طوق اسی لوہے کی دو ہتکڑیاں(34) بھی پڑ گئیں۔ خیر اس کا کیا رونا ہے، یہ تو قیدِ جاودانی ہے .... احتمالِ تعیش و تنعم بشرطِ تجرید۔ (35) میرا حقیقی بھائی کُل ایک تھا، وہ تیس برس دیوانہ رہ کر مر گیا.... بھائی، مجھ میں اب کچھ باقی نہیں، برسات کی مصیبت گزر گئی لیکن بڑھاپے کی شدت بڑھ گئی۔ (36) زین العابدین خاں مرحوم میرا فرزند تھا اور اب اس کے دونوں بچے کہ وہ میرے پوتے ہیں، میرے پاس آرہے ہیں(37) اور دم بہ دم مجھ کو ستاتے ہیں اور میں تحمل کرتا ہوں۔ (38) میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا۔ آدمی کثرتِ غم سے سودائی ہو جاتے ہیں، عقل جاتی رہتی ہے، اگر اس ہجوم غم میں میری قوتِ متفکرہ میں فرق آ گیا ہو تو کیا عجب ہے؟ بلکہ اس کا باور نہ کرنا غضب ہے، پوچھو کہ غم کیا ہے؟ غمِ فراق، غمِ رزق، غمِ عزت۔ (39) ہزارہا دوست مر گئے، کس کو یاد کروں اور کس سے فریاد کروں؟ جیوں تو کوئی غم خوار نہیں، مروں تو کوئی عزادار نہیں۔ (40) سات بچے پیدا ہوئے، لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی اور کسی کی عمر پندرہ مہینے سے زیادہ نہ ہوئی۔ (41) آپ جانتے ہیں کہ کمالِ یاس مقتضئی استغنا ہے، پس اب اس سے زیادہ یاس کیا ہو گی کہ بہ اُمید مرگ جیتا ہوں۔ (42) حکام بے پروا، مختار عدیم الفرصت، میں پاشکستہ۔ (43)
اب اپنا خاص دکھ روتا ہوں۔ ایک بیوی دو بچے، تین چار آدمی گھر کے، کلو، کلیان، ایاز، یہ باہر مداری کی جورو بچے بدستور، گویا مداری موجود ہے، میاں گھمن گئے، گئے مہینا بھر سے آگئے کہ بھوکا مرتا ہوں۔ اچھا بھائی تم بھی رہو۔ ایک پیسے کی آمدنہیں، بیس آدمی روٹی کھانے والے موجود۔ مقام معلوم سے کچھ آئے جاتا ہے۔ (44) وہ بقدرِ سدِ رمق ہے۔ محنت وہ ہے کہ دن رات میں فرصت کام سے کم ہوتی ہے۔ ہمیشہ ایک فکر برابر چلی آتی ہے۔ آدمی ہوں، دیو نہیں، بھوت نہیں، ان رنجوں کا تحمل کیوں کر کروں؟ بڑھاپا، ضعفِ قویٰ، اب مجھ کو دیکھو تو جانو میرا کیا رنگ ہے؟ .... وہ عرق، جو بقدر طاقت، بنائے رکھتا تھا، اب میسر نہیں، سب سے بڑھ کر آمد آمد گورنمنٹ کا ہنگامہ ہے۔ دربار میں جاتا تھا، خلعتِ فاخرہ پاتا تھا، وہ صورت اب نظر نہیں آتی۔ نہ مقبول ہوں، نہ مردود ہوں، نہ بے گناہ ہوں، نہ گناہ گار ہوں، نہ مخبر نہ مفسد۔ (45)
جاڑا پڑ رہا ہے، تو انگر غرور سے، مفلس سردی سے اکڑ رہا ہو۔ آب کاری کے بندوبست جدید نے مارا، عرق کے نہ کھینچنے کی قید شدید نے مارا۔ ادھر انسداد ِدروازہءآب کاری ہے، اُدھر ولایتی عرق کی قیمت بھاری ہے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہ راجِعُونَ (46) بیس برس آگے یہ بات تھی کہ ابروباراں میں یا پیش از طعام یا قریب شام تین گلاس پی لیتا تھا اور شراب شبانہ معمولی (مراد ہے معمول کی۔ مرتب) میں مُجرا نہ لیتا تھا۔ اس بیس برس میں بیس برساتیں ہوئیں۔ بڑے بڑے مینہ برسے، پینا ایک طرف، دل میں خیال بھی نہ گزرا۔ (47)
گرمی میں میرا حال بعینہ وہی ہوتا ہے جیسے پانی پینے والے جانوروں کا۔ (48) کیوں کر کہوں کہ میں دیوانہ نہیں ہوں؟ ہاں اتنے ہوش باقی ہیں کہ اپنے کو دیوانہ سمجھتا ہوں۔ واہ کیا ہوش مندی ہے کہ قبلہ ارباب ہوش کو خط لکھتا ہوں، نہ القاب، نہ آداب، نہ بندگی، نہ تسلیم۔ (49) میں نے وہ اندازِ تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے، ہزار کوس سے بہ زبانِ قلم باتیں کیا کرو، ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔ (50) میں تو اقلیم سخن کا گدائے خاک نشیں ہوں۔ (51) نظم و نثر کے قلم رَو کا انتظام ایزدِ دانا و توانا کی عنایت و اعانت سے خوب ہو چکا۔ اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میر انام و نشان باقی و قائم رہے گا۔ (52) میں نثر کی داد اور نظم کا صلہ مانگنے نہیں آیا، بھیک مانگنے آیا، روٹی اپنی گرہ سے نہیں کھاتا، سرکار سے ملتی ہے۔ وقت رخصت، میری قسمت اور منعم کی ہمت (53) تحریر کا تارک نہیں بلکہ متروک ہوں.... رام پور کے سفر میں تاب و طاقت، حسن فکر، لطفِ طبیعت، یہ سب اسباب لُٹ گیا .... جب تک زندہ ہوں، غمزدہ و افسردہ، ناتواں و نیم جان ہوں۔ جب مر جاؤں گا تو میرے مرنے کی خبر سُن لو گے۔ پس جب تک میرے مرنے کی خبر نہ سُنو، جانو کہ غالب جیتا ہے، خستہ و نثر ند، رنجورو درد مند۔ (54)
خدا کی بندہ نوازیاں ہیں کہ مجھ ننگ
آفرینش کو اپنے خاصانِ درگاہ سے بھلا کہواتا ہے۔ ظاہرا میرے مقدر میں یہ سعادتِ عظمیٰ تھی کہ میں اس وبائے عام میں جیتا بچ رہا۔ اللہ اللہ ایسے کشتنی و سوختنی کو یوں بچایا اور پھر اس رتبہ کو پہنچایا۔ کبھی عرش کو اپنا نشیمن قرار دیتاہوں اور کبھی بہشت کو اپنا پائیں باغ تصور کرتا ہوں۔ (55) بھائی تم سچ کہتے ہو....وبا تھی کہاں، جو میں لکھوں کہ اب کم ہے یا زیادہ؟ایک چھیاسٹھ برس کا مرد، ایک چونسٹھ برس کی عورت، ان دونوں میں سے ایک بھی مرتا تو ہم جانتے کہ ہاں وبا آئی تھی۔ تف بریں وبا! (56)
1856ءسے بموجب تحریر وزیر، عطیہ شاہی کا امید وار ہوں۔ تقاضا کرتے ہوئے شرماؤں اگر گنہ گار ہوں، گنہ گار ٹھہرتا، گولی یا پھانسی سے مرتا۔ اس بات پر کہ میں بے گناہ ہوں، مقید اور مقتول نہ ہونے سے آپ اپنا گواہ ہوں۔ (57) غدر میں میرا گھر نہیں لُٹا مگر میرا کلام میرے پاس کب تھا کہ نہ لُٹتا؟ہاں! بھائی ضیاءالدین خاں صاحب، ہندی اور فارسی نظم و نثر کے مسودات مجھ سے لے کر اپنے پاس جمع کر لیا کرتے تھے، سو ان دونوں گھروں پر جھاڑو پھر گئی۔ نہ کتاب رہی، نہ اسباب رہا، پھر اب میں اپنا کلام کہاں سے لاؤں؟ (58) منہ پیٹتا ہوں اور سر پٹکتا ہوں کہ جو لکھنا چاہتا ہوں، نہیں لکھ سکتا۔ (59) میں غریب شاعر دس برس سے تاریخ لکھنے اور شعر کی اصلاح دینے پر متعلق ہوا ہوں۔ خواہ اس کو نوکری سمجھو، خواہی مزدوری جانو، اس فتنہ و آشوب میں کسی مصلحت میں میں نے دخل نہیں دیا۔ صرف اشعار کی خدمت بجالاتا رہا اور نظر اپنی بے گناہی پر، شہر سے نکل نہیں گیا۔ میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے۔ مگر چونکہ میری طرف بادشاہی دفتر میں سے یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات نہیں پائی گئی، لہٰذا طلبی نہیں ہوئی، ورنہ جہاں بڑے بڑے جاگیر دار بلائے ہوئے یا پکڑے ہوئے آئے ہیں، میری کیا حقیقت تھی؟ غرض کہ اپنے مکان میں بیٹھا ہوں دروازہ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بہت بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے، شہر میں ہے کون جو آوے؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پاتے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست یازدہم مئی سے آج تک یعنی شنبہ پنجم دسمبر 1857ءتک بدستور ہے۔ (60) میں مع زن و فرزند ہر وقت اسی شہر میں قلزم خوں کا شناور رہا ہوں۔ دروازے سے باہر قدم نہیں رکھا۔ (61)
غدر کے دنوں میں، میں نہ شہر سے نکلا، نہ پکڑ اگیا، نہ میری روبکاری ہوئی۔ جس مکان میں رہتا تھا وہیں بدستور بیٹھا رہا۔ بَلّی ماروں کے محلے میں میراگھر تھا۔ ناگا ہ ایک دن آٹھ سات گورے دیوار پر چڑھ کے اس خاص کوچے میں اُتر آئے، جہاں میں رہتا تھا۔ اس کوچے میں بہ ہمہ جہت پچاس یا ساٹھ آدمی کی بستی ہو گی۔ سب کو گھیر لیا اور ساتھ لے چلے۔ راہ میں سارجن (سارجنٹ) بھی آملا۔ اس نے مجھ سے صاحب سلامت کے بعد پوچھا کہ تم مسلمان ہو؟
میں نے کہا:”آدھامسلمان“
اس نے کہا:”ویل صاحب! آدھا مسلمان کیسا؟“
میں نے کہا:”شراب پیتا ہوں، ہیم (خوک)نہیں کھاتا۔ “ (62)
اہل اسلام میںصرف تین آدمی باقی ہیں: میرٹھ میں مصطفی خان، سلطان جی میں مولوی صدر الدین خاں، بَلّی ماروں میں سگِ دنیا موسوم بہ اسد، تینوں مردود و مطرود، محروم و مغموم:
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسمان سے بادہء گلفام گو برسا کرے(63)
میں دنیا داری کے لباس میں فقیری کر رہاہوں، لیکن فقیر آزاد ہوں، نہ شیّاد، نہ کیّاد۔ ستر برس کی عمر ہے، بے مبالغہ کہتا ہوں، ستر ہزار آدمی نظر سے گزرے ہوں گے زمرہء خاص میں سے، عوام کا شمار نہیں .... میں آدمی نہیں آدم شناس ہوں:
نگہم نقب ہمے زد بہ نہاں خانہء دل
مژدہء باد اہلِ ریا را کہ زمیداں رفتم(64)
میں عربی کا عالم نہیں مگر نرا جاہل بھی نہیں، بس اتنی بات ہے کہ اس زبان کے لغات کا محقق نہیں ہوں، علما سے پوچھنے کا محتاج اور سند کا طلب گار رہتا ہوں۔ فارسی میں مبداء فیاض سے مجھے وہ دست گاہ ملی ہے اور اس زبان کے قواعد و ضوابط میرے ضمیر میں اس طرح جاگزیں ہیں، جیسے فولاد میں جوہر۔ اہل پارس میں اور مجھ میں دو طرح کے تفاوت ہیں: ایک تو یہ کہ ان کا مولد ایران اور میرا مولد ہندوستان، دوسرے یہ کہ وہ لوگ آگے پیچھے، سو دو سو، چار سو، آٹھ سو برس پہلے پیدا ہوئے۔ (65) وہ روش ہندوستانی فارسی لکھنے والوں کی مجھ کو نہیں آتی کہ بالکل بھاٹوں کی طرح بکنا شروع کریں۔ میرے قصیدے دیکھو، تشبیب کے شعر بہت پاؤ گے اور مدح کے شعر کم تر۔ نواب مصطفی خاں کے تذکرے کی تقریظ کو ملاحظہ کرو کہ ان کی مدح کتنی ہے، مرزا رحیم الدین بہادر حیا تخلص کے دیوان کے دیباچہ کو دیکھو۔ وہ جو تقریظ دیوانِ حافظ، موجب فرمایش جان جا کوب بہادر کے لکھی ہے، اس کو دیکھو کہ فقط ایک بیت میں ان کا نام اور ان کی مدح آئی ہے .... اس سے زیادہ بھٹئی میری روش نہیں۔ (66)
پچاس برس سے دلّی میں رہتا ہوں۔ ہزارہا خط اطراف و جوانب سے آتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ محلہ ء سابق کا نام لکھ دیتے ہیں۔ حکام کے خطوط فارسی و انگریزی، یہاں تک کہ ولایت کے آئے ہوئے، صرف شہر کا نام اور میرا نام.... اگر میں تمہارے نزدیک امیر نہیں، نہ سہی، اہل حرفہ میں سے بھی نہیں ہوں کہ جب تک محلہ اور تھانہ نہ لکھا جائے، ہر کارہ میرا پتہ نہ پائے۔ آپ صرف دہلی لکھ کر میرا نام لکھ دیا کیجیے، خط پہنچنے کا میں ضامن۔ (67)
ایک لطیفہ نشاط انگیز سُنیے! ڈاک کا ہرکارہ جو بَلّی ماروں کے خطوط پہنچاتا ہے، ان دنوں میں ایک بنیا پڑھا لکھا، حرف شناس، کوئی فلاں ناتھ، ڈھمک داس ہے۔ میں بالا خانہ میں رہتا ہوں، حویلی میں آکر اس نے داروغہ کو خط دے کر مجھ سے کہا کہ ڈاک کا ہرکارہ بندگی عرض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مبارک ہو، آپ کو جیسا کہ دلی کے بادشاہ نے ”نوابی“ کا خطاب دیا تھا، اب کالپی سے خطاب کپتانی کا ملا، حیران کہ یہ کیا کہتا ہے؟ سرنامہ غور سے دیکھا، کہیں قبل ازاسم” مخدوم نیاز کیشاں“لکھا تھا۔ اس قرمساق نے اور الفاظ سے قطع نظر کر کے ”کیشاں“ کو ”کپتان “پڑھا۔ (68)
سچ تو یہ ہے کہ .... مولانا غالب علیہ الرحمہ ان دنوں میں بہت خوش ہیں۔ پچاس ساتھ جزو کی کتاب امیر حمزہ کی داستان کی اور اسی قدر حجم کی ایک جلد بوستان خیال کی آ گئی۔ سترہ بوتلیں بادء ناب کی توشک خانہ میں موجوود ہیں، دن بھر کتاب دیکھا کرتے ہیں، رات بھر شراب پیا کرتے ہیں:
کسے کیں مرادش میسر بود
اگر جم نہ باشد سکندر بود(69)
سنو صاحب! شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں، یہ تین آدمی تین فن میں سرِ دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے، فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسنبصری سے ٹکر کھائے، عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو.... بھئی”مغل بچے“ بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں، اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی ”مغل بچہ“ ہوں۔ عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے.... پچاس برس عالم رنگ و بو کی سیر کی۔ ابتدائے شباب میں ایک مرشد کامل نے ہم کو یہ نصیحت کی کہ ہم کو زہد و ورع منظور نہیں، ہم مانع فسق و فجور نہیں، پیو، کھاؤ، مزے اُڑاؤ، مگر یاد رہے کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو، میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔ کسی کے مرنے کے وہ غم کرے جو آپ نہ مرے، کیسی اشک افشانی؟ کہاں کی مرثیہ خوانی؟.... میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اورسوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہو گئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی۔ اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہے۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حور اجیرن ہو جائے گی، طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی؟ وہی زمردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ! چشم بددور، وہی ایک حور۔ (70)
یہ تمہارا دعا گو اگرچہ اوراُمور میں پایہ عالی نہیں رکھتا مگر احتیاج میں اس کا پایہ بہت عالی ہے یعنی بہت محتاج ہوں۔ (71) اگر میری اوقاتِ شبانہ روزی اور میرے حالات آپ دیکھیںتو تعجب کریں گے کہ یہ شخص جیتا کیوں کر ہے ؟ (72) بے تکلف عرض کرتا ہوں، اتنے آم کھاتا تھا کہ پیٹ بھر جاتا تھا اور دم پیٹ میں نہ سماتا تھا۔ (73) بائیس مہینے سے وہ رزق کہ جو مقوم جسم اور مفرح روح تھا، مسدود ہے۔ (74) بائیس مہینے کے بعد پرسوں کوتوال کا حکم آیا ہے کہ اسد اللہ خاں پنسن دار کی کیفیت لکھو کہ وہ بے مقدور اور محتاج ہے یا نہیں۔ کوتوال نے موافق ضابطے کے مجھ سے چار گواہ مانگے.... سو .... خزانے سے روپیہ آگیا ہے۔ میں نے آنکھ سے دیکھا تو آنکھیں پھوٹیں۔ بات رہ گئی، پت رہ گئی۔ حاسدوں کو موت آ گئی، دوست شاد ہو گئے۔ میں جیسا ننگا بھوکا ہوں، جب تک جیوں گا، ایسا ہی رہوں گا، میرا دارو گیر سے بچنا کرامت اسد اللہی ہے، ان پیسوں کا ہاتھ آنا عطیہ ید اللہی ہے۔ (75)
میں موحدِ خالص اور مومنِ کامل ہوں۔ زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ، لا موثر فی الوجود الا اللہ سمجھے ہوا ہوں.... ہاں اتنی بات اور ہے کہ اباحت اور زندقہ کو مردود اور شراب کو حرام اور اپنے آپ کو عاصی سمجھتا ہوں۔ اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالیں گے تو میرا جلانا مقصود نہ ہو گا، بلکہ دوزخ کا ایندھن ہوں گا اور دوزخ کی آنچ کو تیز کروں گا تاکہ مشرکین و منکرین نبوتِ مصطفوی و امامت مرتضوی اس میں جلیں۔ (76) بادشاہ سے کیا عجب ہے کہ دو برس کی تنخواہ دے کر مجھ کو خانہ ء خدا کے طواف کی رخصت دیں کہ یہ گنہ گار وہاں جاوے اور اگر زیست ہے تو وہاں جا کر اور اپنے ستاون برس کے گناہ کہ جس میں سوائے شرک کے سب کچھ ہے، بخشوا کر پھر آوے۔ (77)
میں اگلے زمانے کا آدمی ہوں، جہاں ایک امر کی ابتدا دیکھی، یہ جان لیا کہ اب یہ امر مطابق اس بدایت کے نہایت پذیر ہو گا۔ (78) نہ ہٹ دھرم ہوں، نہ مجھے اپنی بات کی پچ ہے .... علم و ہنر سے عاری ہوں، لیکن پچپن برس سے محوِ سخن گزاری ہوں، مبداءفیاض کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے، ماخذ میرا صحیح اور طبع میری سلیم ہے۔ فارسی کے ساتھ ایک مناسبتِ ازلی و سرمدی لایا ہوں، مطابق اہل پارس کے منطق کا۔ بھی مزا ابدی لایا ہوں۔ مناسبتِ خداداد، تربیت استاد سے حسن و قبح ترکیب پہچاننے لگا، فارسی کے غوامض جاننے لگا۔
بعد اپنی تکمیل کے تلامذہ کی تہذیب کا خیال آیا۔ ”قاطع برہان“ کا لکھنا کیا تھا گویا باسی کڑھی میں اُبال آیا۔ لکھنا کیا تھا کہ سہام ملامت کا ہدف ہوا۔ ہے ہے یہ تنک مایہ معارضِ اکابر سلف ہوا۔ (79)
فقیر شکوے سے برا نہیں مانتا، مگر شکوے کے فن کو سوائے میرے کوئی نہیں جانتا۔ شکوے کی خوبی یہ ہے کہ راہِ راست سے منہ نہ موڑے اور معہذا دوسرے کے واسطے جواب کی گنجایش نہ چھوڑے۔ (80) ایک شخص نے یہ مطلع میرے سامنے پڑھا اور کہا کہ قبلہ آپ نے کیا خوب مطلع کہا ہے:
اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر! شاباش، رحمت خدا کی
میں نے یہی ان سے کہا تھا کہ اگر یہ مطلع میرا ہو تو مجھ پر لعنت۔ بات یہ ہے کہ ایک شخص میر امانی اسد ہو گزرے ہیں۔ یہ غزل ان کے کلام معجز نظام میں سے ہے اور تذکروں میں مرقوم ہے۔ میں نے تو کوئی دوچار برس ابتدامیں اسد تخلص رکھا ہے، ورنہ غالب ہی لکھتا رہا ہوں۔ تم طرزِ تحریر اور روشِ فکر پر بھی نظر نہیں کرتے۔ میرا کلام اور ایسا مزخرف! (81) میرا ہم قوم تو سراسر قلمرو ہند میں نہیں۔ سمرقند میں دو چاریادشتِ خفچاق (82) میں سو دو سو ہوں گے، مگر ہاں اقرباے سببی ہیں۔ سو پانچ برس کی عمر سے ان کے دام میں اسیر ہوں، اکسٹھ برس ستم اُٹھائے ہیں .... دریا سارا تیر چکا ہوں، ساحل نزدیک ہے، دو ہاتھ لگائے، بیڑا پار ہے۔ (83)
وبا کو کیا پوچھتے ہو؟ قدر اندازِ قضا کے ترکش میں یہ بھی ایک تیر باقی تھا۔ قتل ایسا عام، لوٹ ایسی سخت، کال ایسا بڑا، وبا کیوں نہ ہو؟ ”لسان الغیب“ نے دس برس پہلے فرمایا تھا:
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
میاں1277ھ کی بات غلط نہ تھی۔ میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا، اقعی اس میں میری کسرِ شان تھی۔ بعد رفعِ فساد ہوا سمجھ لیا جائے گا۔ (84) دو تین مہینے میں لوٹ پوٹ کر اچھا ہو گیا۔ نئے سرے سے روح قالب میں آئی۔ اجل نے میری سخت جانی کی قسم کھائی۔ اب اگرچہ تندرست ہوں لیکن ناتواں و سُست ہوں۔ حواس کھو بیٹھا، حافظے کو رو بیٹھا۔ اگر اُٹھتا ہوں تو اتنی دیر میں اُٹھتا ہوں کہ جتنی دیر میں قدِ آدم دیوار اُٹھے۔ (85)
فقیر میں تین عیب ہیں: ستر برس کی عمر، کانوں سے بہرا، ہمیشہ بیمار ہے، آمدورفتِ دوام میں قاصر۔ (86) ہجومِ غم سے فراغ نہیں، اگرچہ گوشہ نشین و خانماں خراب ہوں، لیکن حسبِ رابطہ ء ازلی کثیر الاحباب ہوں....اگر جوان ہوتا تو احباب سے دعائے صحت کا طلب گار ہوتا، اب جو بوڑھا ہوں تو دعائے مغفرت کا خواہاں ہوں۔ (87) اعصاب کے ضعف کا یہ حال کہ اُٹھ نہیں سکتا اور اگر دونوں ہاتھ ٹیک کر، چار پایہ بن کر اُٹھتا ہوں تو پنڈلیاں لرزتی ہیں۔ (88) ناتوانی زور پر ہے، بڑھاپے نے نکما کر دیا ہے، ضعف، سستی، کاہلی، گرانجانی، گرانی۔ رکاب میں پاؤں ہے، باگ پر ہاتھ ہے، بڑا سفر دور و دراز در پیش ہے، زادِ راہ موجود نہیں، خالی ہاتھ جاتا ہوں۔ اگر ناپرسیدہ بخش دیا تو خیر، اگر باز پر س ہوئی تو سقر مقر ہے اور ہاویہ زاویہ ہے، دوزخِ جاوید ہے اور ہم ہیں۔ ہائے کسی کا کیا اچھا شعرہے:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے(89)
”سترا بہترا“ اُردو میں ترجمہ پیر”خرف“ ہے۔ میری تہتر برس کی عمر ہے، پس میں ”اخرف“ ہوا، گویا حافظہ کبھی تھا ہی نہیں۔ سامعہ باطل بہت دن سے تھا، رفتہ رفتہ وہ بھی حافظے کی طرح معدوم ہو گیا۔ (90) پھوڑوں سے بدن لالہ زار، پوست سے ہڈیاں نمودار، پھوڑے ایسے جیسے انگارے سلگتے ہیں۔ اعضا پر دس جگہ پھائے لگتے ہیں۔ ضعف و ناتوانی علاوہ، سوزِ غم ہائے نہانی علاوہ.... سوائے شہرت خشک کے فن کا کچھ پھل نہ پایا۔ ”احسنت“و ”مرحبا“ کا شور سامعہ فرسا ہوا، خیر، ستایش کا حق ستایش سے ادا ہوا۔ (91) مبالغہ نہ سمجھو، میں ایک قالبِ بے روح ہوں:
یکے مردہ شخصم بمردی رواں
اضمحلال روح کا روز افزوں ہے۔ صبح کو تبرید، قریب دوپہر کے روٹی، شام کو شراب، اگر اس میں سے جس دن ایک چیز اپنے وقت پر نہ ملی، میں مر گیا۔ واللہ .... میں لم یلد ولم یولد ہوں۔ (92) ہزار آدمی کا ماتم دار ہوں۔ آپ غم زدہ اور آپ غم گسار ہوں۔ اس سے قطع نظر کہ کہ تباہ اور خراب ہوں، مرنا سر پر کھڑا ہے، پابہ رکاب ہوں۔ (93) کھچڑی کھائی دن بہلائے، کپڑے پھاٹے گھر کو آئے۔ (94) آج میں نے لیٹے لیٹے ختاب کیا کہ یہ سترھواں برس مجھے جاتا ہے، ہائے:
سنین عمر کے ستر ہوئے شمار برس
بہت جیوں تو جیوں اور تین چار برس(95)
میں زندہ ہوں لیکن نیم مردہ۔ آٹھ پہر پڑا رہتا ہوں۔ اصل صاحب فراش میں ہوں۔ بیس دن سے پانو پر ورم ہو گیا ہے۔ کفِ پاوپشت پاسے نوبت گزر کر پنڈلی تک آماس ہے، جوتے میں پاؤں سماتا نہیں۔ بول و بزار کے واسطے اُٹھنا دشوار۔ یہ سب باتیں ایک طرف، درد محللِ روح ہے۔ 1277ءمیں میرا نہ مرنا، صرف میری تکذیب کے واسطے تھا، مگر اس تین برس میں ہر روز مرگِ نو کامزا چکھتا رہا ہوں۔ حیران ہوں کہ کوئی صورت زیست کی نہیں، پھر میں کیوں جیتا ہوں؟ روح میری اب جسم میں اس طرح گھبراتی ہے، جس طرح طائر قفس میں۔ کوئی شغل، کوئی اختلاط، کوئی جلسہ، کوئی مجمع پسند نہیں۔ کتاب سے نفرت، شعر سے نفرت، جسم سے نفرت، روح سے نفرت۔ (96) پاؤں سے اپاہج، کانوں سے بہرہ، ضعفِ بصارت، ضعفِ دماغ، ضعفِ دل، ضعفِ معدہ، ان سب ضعفوں پر ضعفِ طالع۔ (97)
میں اموات میں ہوں، مردہ شعر کیا کہے گا؟ غزل کا ڈھنگ بھول گیا، معشوق کس کو قرار دوں، جو غزل کی روش ضمیر میں آوے؟ رہا قصیدہ، ممدوح کون ہے؟ ہائے انوری گویا میری زبان سے کہتا ہے:
اے دریغا نیست ممدوحے سزاوار مدیح
اے دریغا نیست معشوقے سزاوارِ غزل(98)
مشہور ہے یہ بات کہ جو کوئی اپنے عزیز کی فاتحہ دلاتا ہے، موتیٰ کی روح کو اس کی بو پہنچتی ہے۔ ایسے ہی میں سونگھ لیتا ہوں غذا کو۔ پہلے مقدار غذا کی تولوں پر منحصر تھی، اب ماشوں پر ہے، زندگی کی توقع آگے مہینوں پر تھی اب دنوں پرہے۔ (99) ایک شعر میں نے بہت دن سے کہہ رکھا ہے۔ اس خیال سے کہ میرے بعد کوئی میرا دوست مرثیہ لکھے تو اس شعر کو بند قرار دے کر ترکیب بند رقم کرے۔ وہ شعر یہ ہے:
رشکِ عرفی و فخر ِ طالب مُرد
اسد اللہ خاں غالب مُرد(100)
بہتر برس کا آدمی، پھر رنجورِ دائمی، غذا یک قلم مفقود.... نہ روٹی، نہ بوٹی، نہ پلاؤ، نہ خشکا، آنکھ کی بینائی میں فرق، ہاتھ کی گیرائی میں فرق، رعشہ مستولی، حافظہ معدوم۔ (101) خدا کا مقہور، خلق کا مردود، بوڑھا، ناتواں، بیمار، فقیر، نکبت میں گرفتار۔ (102) قریب مرگ ہوں۔ غذا بالکل مفقود اور امراض مستولی، بہتر برس کی عمر، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ (103)
سچ تو یوں ہے کہ غالب کیا مرا، بڑا کافر مرا۔ ہم نے ازراہِ تعظیم، جیسا بادشاہوں کو مرنے کے بعد جنت آرام گاہ، عرش نشیمن خطاب دیتے ہیں، چونکہ یہ اپنے آپ کو شہنشاہِ قلمروِ سخن جانتا تھا، ”سقر مقر“ اور ”زاویہ ہاویہ“ خطاب تجویز کر رکھا ہے۔ ”آئیے نجم الدولہ بہادر“ ایک قرض دار کا گریبان میں ہاتھ، ایک قرض دار بھوگ سنا رہا ہے۔ میں ان سے پوچھ رہا ہوں:
”اجی حضرت نواب صاحب!
نواب صاحب کیسے اوغلان صاحب!
آپ سلجوقی وافراسیابی ہیں، یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے؟ کچھ تو بولو، کچھ تو اُکسو۔ “
بولے کیا ؟ بے حیا، بے غیرت، کوٹھی سے شراب، گندھی سے گلاب، بزاز سے کپڑا، میوہ فروش سے آم، صراف سے دام قرض لیا جاتا تھا۔ یہ بھی تو سونچا ہوتا کہ کہاں سے دوں گا؟“(104) درویشِ دل ریش و فروماندہء کشاکش معاصی کے خاتمہ بخیر ہونے کی دعا مانگیں، اللہ بس ماسویٰ ہوس۔ (105) زیادہ کیا لکھوں؟(106)
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے(107)
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر ،سو خموش ہے
دیکھو مجھے،جو دیدہء عبرت نگاہ ہو
میری سنو،جو گوشِ نصیحت نیوش ہے(2)
میں ترک قوم کا سلجوقی ہوں۔ دادا میرا ماورا النہر سے شاہ عالم کا نوکر ہوا۔ ایک پرگنہ سیر حاصل ذات کی تنخواہ اور رسالے کی تنخواہ میں پایا۔ بعد انتقال اس کے جو طوائف الملوک کا ہنگامہ گرم تھا،وہ علاقہ نہ رہا۔ باپ میرا عبداللہ بیگ خاں بہادر عرف میرزا دولہ لکھنؤ جا کر نواب آصف الدولہ کا نوکر رہا۔ (3) پانچ برس کی میری عمر تھی کہ .... مہاراجا بختاور سنگھ بہادر کی رفاقت میں مارا گیا۔ سرکار سے میرے باپ کی تنخواہ میرے نام پر جاری ہوئی اور ایک گاؤں جس کا تالڑا نام ہے،مجھ کو برائے دوام ملا۔آپ یوں سمجھیے کہ ادھر دودھ پینا چھوڑا اور راج کی روٹی کھائی۔ (4) نصر اللہ بیگ خاں بہادر میرا حقیقی چچا مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کا صوبہ دار تھا،اس نے مجھے پالا.... بمرگ ناگاہ مر گیا،رسالہ بر طرف ہوگیا،ملک کے عوض نقدی مقرر ہو گئی.... 1830ءمیں کلکتے گیا۔ نواب گورنر سے ملنے کی درخواست کی۔ دفتر دیکھا گیا۔ میری ریاست کا حال معلوم کیا گیا۔ ملازمت ہوئی، سات پارچے اور جیفہ، سرپیچ، مالائے مروارید، یہ تین رقم خلعت ملا۔ (5) عمر بھر نوکری کی تو بہادر شاہ سے نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ خطاب پایا۔ کچھ دنوں بادشاہ کا مصاحب رہا، پھر استاد کہلایا۔ دنیا دار نہیں فقیر ہوں بہت سی عزت اور تھوڑی سی دولت چاہتا ہوں۔ (6) مکان گھر کا نہیں، کرائے کی حویلی میں رہتا ہوں۔ (7)
میں ایک شخص گوشہ نشین، فلک زدہ، اندوہ گیں، نہ اہل دنیا، نہ اہل دیں، ( 8 ) ایک سپاہی زادہ، ہیچ مداں اور دل افسردہ و رواں فرسودہ۔ ہاں، ایک طبع موزوں اور فارسی زبان سے لگاؤ رکھتا ہوں۔ (9) ابتدائے فکر سخن میں بیدل و اسیر و شوکت کے طرز پر ریختہ لکھتاتھا.... پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامین خیالی لکھا کیا۔ دس برس میں بڑا دیوان جمع ہو گیا۔ آخر جب تمیز آئی، تو اس دیوان کو دور کیا۔ اوراق یک قلم چاک کیے۔ (10) نہ سفیہ ہوں کہ ہجو میں سخن سرائی کروں، نہ فقیہہ ہوں کہ بحث میں زور آزمائی کروں۔ غریب الوطن سپاہی زادہ ہوں، فلک زدہ، خانماں بہ باد دادہ ہوں۔ تابِ آفتاب حوادث سے ظل اللہ کے سایہء دیوار کی پناہ میں بیٹھا ہوں، گویا ایک تھکا ہوا مسافر ہوں کہ آرام کی جگہ دیکھ کر دم لینے کو راہ میں بیٹھا ہوں۔ (11)
میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے ....جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چنپئی تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستایش کیا کرتے تھے۔ اب جو کبھی مجھ کو اپنا رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا پھر جاتا ہے۔ ہاں! مجھ کورشک آیا اور میں نے خون جگر کھایا تو اس بات پر کہ داڑھی خوب گھٹی ہوئی ہے، وہ مزے یاد آگئے۔ کیاکہوں جی پر کیا گزری؟ بقول شیخ علی حزیں:
تادسترسم بود، زدم چاک گریباں
شرمندگی از خقہء پشیمنہ ندارم
جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آ گئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار مِسّی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی۔ (12) نہ آزاد ہوں، نہ مقید، نہ رنجور ہوں نہ تندرست، نہ خوش ہوں نہ ناخوش، نہ مردہ ہوں نہ زندہ، جیے جاتا ہوں، باتیں کیے جاتا ہوں، روٹی روز کھاتا ہوں، شراب گاہ گاہ پیے جاتا ہوں.... نہ شکر ہے نہ شکایت ہے، جو تقریر ہے بہ سبیل حکایت ہے۔ (13) دنیا دار نہیں، مکار نہیں، خوشامد میرا شعار نہیں، جس میں جو صفات دیکھتا ہوں، وہ بیان کرتا ہوں۔ (14) فقیر میں جہاں اور عیب ہیں، ایک یہ بھی عیب ہے کہ جھوٹ نہیں بولتا۔ (15) حساب سے میر اجی گھبراتا ہے اور مجھ کو جوڑ لگانا نہیں آتا ہے۔ (16) بارہ برس کی عمر سے نظم و نثر میں کاغذ مانند اپنے نامہء اعمال کے سیاہ کر رہا ہوں .... اور کی فیض رسانی اور قدر دانی کو کیا روئیں؟ اپنی تکمیل ہی کی فرصت نہیں۔ (17) اپنا نام بدل کر مغلوب رکھ لیا ہے۔ (81) خاکسار نے ابتدائے سن تمیز میں اُردو زبان میں سخن سرائی کی ہے۔ پھر اوسط عمر میں بادشاہِ دہلی کا نوکر ہو کر چند روز اسی روش پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نظم و نثر فارسی کا عاشق اور مائل ہوں، ہندوستان میں رہتا ہوں مگر تیغ اصفہانی کا گھائل ہوں۔ جہاں تک زور چل سکا، فارسی زبان میں بہت کچھ بکا۔ اب نہ فارسی کا فکر، نہ اُردو کا فکر۔ (19) ا فسوس کہ میرا حال اور یہ لیل و نہار، آپ کی نظر میں نہیں، ورنہ آپ جانیں کہ اس بجھے ہوئے دل اور اس ٹوٹے ہوئے دل اور اس مرے ہوئے دل پر کیا کر رہا ہوں۔ اب نہ دل میں وہ طاقت، نہ قلم میں زور، سخن گستری کا ایک ملکہ باقی ہے، بے تامل اور بے فکر جو خیال میں آجائے، وہ لکھ لوں ورنہ فکر کی صعوبت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ (20)
میرا قصد سیاحت کا ہے پنشن اگر کھل جائے گا تو وہ اپنے صرف میں لایا کروں گا۔ جہاں جی لگا، وہاں رہ گیا، جہاں سے دل اُکھڑا، چل دیا.... عاشقانہ اشعار سے مجھ کو وہ بُعد ہے جو ایمان سے کفر کو۔ گورنمنٹ کا بھاٹ تھا، بھٹئی کرتا تھا، خلعت پاتا تھا۔ خلعت موقوف، بھٹئی متروک، نہ غزل، نہ مدح، ہزل و ہجو میرا آئین نہیں۔ بوڑھے پہلوان کے سے پیچ بتانے کو رہ گیا ہوں، اکثر اطراف و جوانب سے اشعار آجاتے ہیں، اصلاح پاتے ہیں۔ (1 2) خدا کا احسان ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا، جو اطراف و جوانب سے دو چار خط نہیں آرہتے ہوں، بلکہ ایسا بھی دن ہوتا ہے کہ دو دو بار ڈاک کا ہرکارہ خط لاتا ہے، ایک دو صبح کو، ایک دو شام کو، میری دل لگی ہو جاتی ہے۔ دن ان کے پڑھنے اور جواب لکھنے میں گزر جاتا ہے۔ (22) جس طرح امرا واسطے فقراکے وجہ معاش مقرر کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اس سرکار (سرکار رام پور) سے میرے واسطے مقرر ہے۔ ہاں فقیر سے دعائے خیر اور مجھ سے اصلاحِ نظم مطلوب ہے۔ چاہوں دلی رہوں، چاہوں اکبر آباد، چاہوں لاہور، چاہوں لوہارو، ایک گاڑی کپڑوں کے واسطے کروں، کپڑوں کے صندوق میں آدھی درجن شراب دھروں، آٹھ کہار ٹھیکے کے لوں، چار آدمی رکھتا ہوں، دو یہاں چھوڑوں، دو ساتھ لوں، چل دوں.... گاڑی ہو سکتی ہے، شراب مل سکتی ہے، کہار بہم پہنچ سکتے ہیں، طاقت کہاں سے لاؤں؟ (23) میں شاعر سخن سنج اب نہیں رہا، صرف سخن فہم رہ گیا ہوں.... بناوٹ نہ سمجھنا، شعر کہنا مجھ سے بالکل چھوٹ گیا ہے۔ اپنا اگلا کلام دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ میں نے کیونکر کہا تھا۔ (24) پچاس برس اس شیوے کی ورزش میں گزرے، اب جسم و جاں میں تاب و تواں نہیں۔ (25) خدا سے بھی توقع باقی نہیں، مخلوق کا کیا ذکر؟ کچھ بن نہیں آتی، آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں، یعنی میں نے اپنے آپ کو اپنا غیر تصور کیا ہے، جو دکھ مجھے پہنچتا ہے، کہتا ہوں کہ لو غالب کے ایک جوتی اور لگی۔ بہت اِتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور فارسی دان ہوں، آج دور دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب قرض داروں کو جواب دے۔ (26) ناسازئ روزگار و بے ربطئ اطوار، بطریق داغ بالائے داغ، آرزوئے دیدار، وہ دو آتش شرارہ بار اور یہ ایک دریائے نا پیدا کنار، وقِنا ربّنا عذاب النّار۔ (27)
لو اب میری کہانی سُنو! میری سر گزشت میری زبانی سنو! (28) میں پانچ برس کا تھا کہ میرا باپ مرا، نو برس کا تھا کہ چچا مرا۔ اس کی جاگیر کے عوض ....کولبرک صاحب بہادر ریذیڈنٹ دہلی اور استرلنگ صاحب بہادر سکرتر گورنمنٹ کلکتہ متفق ہوئے۔ میرا حق دلانے پر، ریذیڈنٹ معزول ہو گئے، سکرتر گورنمنٹ بمرگ ناگاہ مر گئے۔ بعد اک زمانے کے بادشاہ دہلی نے پچاس روپے مہینا مقرر کیا، ان کے ولی عہد نے چار سو روپے سال، ولی عہد اس تقرر کے دو برس بعد مر گئے۔ (29)
میں نے پہلے لڑکے کا اسم تاریخی نظم کر دیا تھا اور وہ لڑکا نہ جیا.... میر ی نحوست طالعی کی تاثیر تھی، میرا ممدوح جیتا نہیں۔ نصیر الدین حیدر اور امجد علی شاہ ایک ایک قصیدے میں چل دیے، واجد علی شاہ تین قصیدوں کے متحمل ہوئے، پھر نہ سنبھل سکے، جس کی مدح میں دس بیس قصیدے کہے گئے، وہ عدم سے بھی پرے پہنچا۔ (30) دلی کی سلطنت کچھ سخت جان تھی، سات برس مجھ کو روٹی دے کر بگڑی۔ ایسے طالع مربی کُش اور محسن سوز کہاں پیدا ہوتے ہیں؟ اب میں جو والئی دکن کی طرف رجوع کروں، یاد رہے کہ متوسط مر جائے گا یا معزول ہو جائے گا اور اگر یہ دونوں امر واقع نہ ہوئے تو کوشش اس کی ضائع ہو جائے گی اور والئی شہر مجھ کو کچھ نہ دے گا اور احیاناً اس نے سلوک کیا تو ریاست خاک میں مل جائے گی اور ملک میں گدھے کے ہل پھر جائیں گے۔ (31)
میری جان! غالب کثیر المطالب کی کہانی سُن(32) عالم دو ہیں: ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے، جو خود فرماتا ہے:لِمَنِ المُلکُ الیَومَ؟ اور پھر آپ جواب دیتا ہے: لِلّٰہِ الوَاحِدِ القَہَّار ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ آب و گِل کے مجرم عالمِ ارواح میں سزا پاتے ہیں، لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہ گار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب 1212ھ میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ تیرہ برس حوالات میں رہا۔ 7 رجب 1225ھ کو میرے واسطے حکمِ دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤںمیں ڈال دی اوردلی شہر کو زنداں مقرر کیا اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ فکر نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد میں جیل خانہ سے بھاگا۔ تین برس بلادِ شرقیہ میں پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے۔ پھر اسی محبس میں بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے، دو ہتکڑیاں اور بڑھا دیں۔ پانو بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتکڑیوں سے زخم دار، مشقت مقرری اور مشکل ہو گئی، طاقت یک قلم زائل ہو گئی، بے حیا ہوں، سالِ گذشتہ بیڑی کو زاویہ
¿ زنداں میں چھوڑ مع دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوا رام پور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑا آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا۔ بھاگوں کا کیا؟بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔ حکم رہائی دیکھیے کب صادر ہو۔ ایک ضعیف سا احتمال ہے کہ اسی ماہ ذی الحجہ 7721 ءمیں چھوٹ جا¶ں۔ (33)
میرا دُکھ سُنو! ہر شخص کو غم موافق اس کی طبیعت کے ہوتا ہے، ایک تنہائی سے نفور، ایک کو تنہائی منظور ہے....خدا نے لاولد رکھاتھا، شکر بجا لاتا تھا۔ خدانے میرا شکر مقبول و منظور نہ کیا، یہ بلا بھی قبیلہ داری کی شکل کا نتیجہ ہے، یعنی جس لوہے کا طوق اسی لوہے کی دو ہتکڑیاں(34) بھی پڑ گئیں۔ خیر اس کا کیا رونا ہے، یہ تو قیدِ جاودانی ہے .... احتمالِ تعیش و تنعم بشرطِ تجرید۔ (35) میرا حقیقی بھائی کُل ایک تھا، وہ تیس برس دیوانہ رہ کر مر گیا.... بھائی، مجھ میں اب کچھ باقی نہیں، برسات کی مصیبت گزر گئی لیکن بڑھاپے کی شدت بڑھ گئی۔ (36) زین العابدین خاں مرحوم میرا فرزند تھا اور اب اس کے دونوں بچے کہ وہ میرے پوتے ہیں، میرے پاس آرہے ہیں(37) اور دم بہ دم مجھ کو ستاتے ہیں اور میں تحمل کرتا ہوں۔ (38) میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا۔ آدمی کثرتِ غم سے سودائی ہو جاتے ہیں، عقل جاتی رہتی ہے، اگر اس ہجوم غم میں میری قوتِ متفکرہ میں فرق آ گیا ہو تو کیا عجب ہے؟ بلکہ اس کا باور نہ کرنا غضب ہے، پوچھو کہ غم کیا ہے؟ غمِ فراق، غمِ رزق، غمِ عزت۔ (39) ہزارہا دوست مر گئے، کس کو یاد کروں اور کس سے فریاد کروں؟ جیوں تو کوئی غم خوار نہیں، مروں تو کوئی عزادار نہیں۔ (40) سات بچے پیدا ہوئے، لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی اور کسی کی عمر پندرہ مہینے سے زیادہ نہ ہوئی۔ (41) آپ جانتے ہیں کہ کمالِ یاس مقتضئی استغنا ہے، پس اب اس سے زیادہ یاس کیا ہو گی کہ بہ اُمید مرگ جیتا ہوں۔ (42) حکام بے پروا، مختار عدیم الفرصت، میں پاشکستہ۔ (43)
اب اپنا خاص دکھ روتا ہوں۔ ایک بیوی دو بچے، تین چار آدمی گھر کے، کلو، کلیان، ایاز، یہ باہر مداری کی جورو بچے بدستور، گویا مداری موجود ہے، میاں گھمن گئے، گئے مہینا بھر سے آگئے کہ بھوکا مرتا ہوں۔ اچھا بھائی تم بھی رہو۔ ایک پیسے کی آمدنہیں، بیس آدمی روٹی کھانے والے موجود۔ مقام معلوم سے کچھ آئے جاتا ہے۔ (44) وہ بقدرِ سدِ رمق ہے۔ محنت وہ ہے کہ دن رات میں فرصت کام سے کم ہوتی ہے۔ ہمیشہ ایک فکر برابر چلی آتی ہے۔ آدمی ہوں، دیو نہیں، بھوت نہیں، ان رنجوں کا تحمل کیوں کر کروں؟ بڑھاپا، ضعفِ قویٰ، اب مجھ کو دیکھو تو جانو میرا کیا رنگ ہے؟ .... وہ عرق، جو بقدر طاقت، بنائے رکھتا تھا، اب میسر نہیں، سب سے بڑھ کر آمد آمد گورنمنٹ کا ہنگامہ ہے۔ دربار میں جاتا تھا، خلعتِ فاخرہ پاتا تھا، وہ صورت اب نظر نہیں آتی۔ نہ مقبول ہوں، نہ مردود ہوں، نہ بے گناہ ہوں، نہ گناہ گار ہوں، نہ مخبر نہ مفسد۔ (45)
جاڑا پڑ رہا ہے، تو انگر غرور سے، مفلس سردی سے اکڑ رہا ہو۔ آب کاری کے بندوبست جدید نے مارا، عرق کے نہ کھینچنے کی قید شدید نے مارا۔ ادھر انسداد ِدروازہءآب کاری ہے، اُدھر ولایتی عرق کی قیمت بھاری ہے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہ راجِعُونَ (46) بیس برس آگے یہ بات تھی کہ ابروباراں میں یا پیش از طعام یا قریب شام تین گلاس پی لیتا تھا اور شراب شبانہ معمولی (مراد ہے معمول کی۔ مرتب) میں مُجرا نہ لیتا تھا۔ اس بیس برس میں بیس برساتیں ہوئیں۔ بڑے بڑے مینہ برسے، پینا ایک طرف، دل میں خیال بھی نہ گزرا۔ (47)
گرمی میں میرا حال بعینہ وہی ہوتا ہے جیسے پانی پینے والے جانوروں کا۔ (48) کیوں کر کہوں کہ میں دیوانہ نہیں ہوں؟ ہاں اتنے ہوش باقی ہیں کہ اپنے کو دیوانہ سمجھتا ہوں۔ واہ کیا ہوش مندی ہے کہ قبلہ ارباب ہوش کو خط لکھتا ہوں، نہ القاب، نہ آداب، نہ بندگی، نہ تسلیم۔ (49) میں نے وہ اندازِ تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے، ہزار کوس سے بہ زبانِ قلم باتیں کیا کرو، ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔ (50) میں تو اقلیم سخن کا گدائے خاک نشیں ہوں۔ (51) نظم و نثر کے قلم رَو کا انتظام ایزدِ دانا و توانا کی عنایت و اعانت سے خوب ہو چکا۔ اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میر انام و نشان باقی و قائم رہے گا۔ (52) میں نثر کی داد اور نظم کا صلہ مانگنے نہیں آیا، بھیک مانگنے آیا، روٹی اپنی گرہ سے نہیں کھاتا، سرکار سے ملتی ہے۔ وقت رخصت، میری قسمت اور منعم کی ہمت (53) تحریر کا تارک نہیں بلکہ متروک ہوں.... رام پور کے سفر میں تاب و طاقت، حسن فکر، لطفِ طبیعت، یہ سب اسباب لُٹ گیا .... جب تک زندہ ہوں، غمزدہ و افسردہ، ناتواں و نیم جان ہوں۔ جب مر جاؤں گا تو میرے مرنے کی خبر سُن لو گے۔ پس جب تک میرے مرنے کی خبر نہ سُنو، جانو کہ غالب جیتا ہے، خستہ و نثر ند، رنجورو درد مند۔ (54)
خدا کی بندہ نوازیاں ہیں کہ مجھ ننگ
آفرینش کو اپنے خاصانِ درگاہ سے بھلا کہواتا ہے۔ ظاہرا میرے مقدر میں یہ سعادتِ عظمیٰ تھی کہ میں اس وبائے عام میں جیتا بچ رہا۔ اللہ اللہ ایسے کشتنی و سوختنی کو یوں بچایا اور پھر اس رتبہ کو پہنچایا۔ کبھی عرش کو اپنا نشیمن قرار دیتاہوں اور کبھی بہشت کو اپنا پائیں باغ تصور کرتا ہوں۔ (55) بھائی تم سچ کہتے ہو....وبا تھی کہاں، جو میں لکھوں کہ اب کم ہے یا زیادہ؟ایک چھیاسٹھ برس کا مرد، ایک چونسٹھ برس کی عورت، ان دونوں میں سے ایک بھی مرتا تو ہم جانتے کہ ہاں وبا آئی تھی۔ تف بریں وبا! (56)
1856ءسے بموجب تحریر وزیر، عطیہ شاہی کا امید وار ہوں۔ تقاضا کرتے ہوئے شرماؤں اگر گنہ گار ہوں، گنہ گار ٹھہرتا، گولی یا پھانسی سے مرتا۔ اس بات پر کہ میں بے گناہ ہوں، مقید اور مقتول نہ ہونے سے آپ اپنا گواہ ہوں۔ (57) غدر میں میرا گھر نہیں لُٹا مگر میرا کلام میرے پاس کب تھا کہ نہ لُٹتا؟ہاں! بھائی ضیاءالدین خاں صاحب، ہندی اور فارسی نظم و نثر کے مسودات مجھ سے لے کر اپنے پاس جمع کر لیا کرتے تھے، سو ان دونوں گھروں پر جھاڑو پھر گئی۔ نہ کتاب رہی، نہ اسباب رہا، پھر اب میں اپنا کلام کہاں سے لاؤں؟ (58) منہ پیٹتا ہوں اور سر پٹکتا ہوں کہ جو لکھنا چاہتا ہوں، نہیں لکھ سکتا۔ (59) میں غریب شاعر دس برس سے تاریخ لکھنے اور شعر کی اصلاح دینے پر متعلق ہوا ہوں۔ خواہ اس کو نوکری سمجھو، خواہی مزدوری جانو، اس فتنہ و آشوب میں کسی مصلحت میں میں نے دخل نہیں دیا۔ صرف اشعار کی خدمت بجالاتا رہا اور نظر اپنی بے گناہی پر، شہر سے نکل نہیں گیا۔ میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے۔ مگر چونکہ میری طرف بادشاہی دفتر میں سے یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات نہیں پائی گئی، لہٰذا طلبی نہیں ہوئی، ورنہ جہاں بڑے بڑے جاگیر دار بلائے ہوئے یا پکڑے ہوئے آئے ہیں، میری کیا حقیقت تھی؟ غرض کہ اپنے مکان میں بیٹھا ہوں دروازہ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بہت بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے، شہر میں ہے کون جو آوے؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پاتے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست یازدہم مئی سے آج تک یعنی شنبہ پنجم دسمبر 1857ءتک بدستور ہے۔ (60) میں مع زن و فرزند ہر وقت اسی شہر میں قلزم خوں کا شناور رہا ہوں۔ دروازے سے باہر قدم نہیں رکھا۔ (61)
غدر کے دنوں میں، میں نہ شہر سے نکلا، نہ پکڑ اگیا، نہ میری روبکاری ہوئی۔ جس مکان میں رہتا تھا وہیں بدستور بیٹھا رہا۔ بَلّی ماروں کے محلے میں میراگھر تھا۔ ناگا ہ ایک دن آٹھ سات گورے دیوار پر چڑھ کے اس خاص کوچے میں اُتر آئے، جہاں میں رہتا تھا۔ اس کوچے میں بہ ہمہ جہت پچاس یا ساٹھ آدمی کی بستی ہو گی۔ سب کو گھیر لیا اور ساتھ لے چلے۔ راہ میں سارجن (سارجنٹ) بھی آملا۔ اس نے مجھ سے صاحب سلامت کے بعد پوچھا کہ تم مسلمان ہو؟
میں نے کہا:”آدھامسلمان“
اس نے کہا:”ویل صاحب! آدھا مسلمان کیسا؟“
میں نے کہا:”شراب پیتا ہوں، ہیم (خوک)نہیں کھاتا۔ “ (62)
اہل اسلام میںصرف تین آدمی باقی ہیں: میرٹھ میں مصطفی خان، سلطان جی میں مولوی صدر الدین خاں، بَلّی ماروں میں سگِ دنیا موسوم بہ اسد، تینوں مردود و مطرود، محروم و مغموم:
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسمان سے بادہء گلفام گو برسا کرے(63)
میں دنیا داری کے لباس میں فقیری کر رہاہوں، لیکن فقیر آزاد ہوں، نہ شیّاد، نہ کیّاد۔ ستر برس کی عمر ہے، بے مبالغہ کہتا ہوں، ستر ہزار آدمی نظر سے گزرے ہوں گے زمرہء خاص میں سے، عوام کا شمار نہیں .... میں آدمی نہیں آدم شناس ہوں:
نگہم نقب ہمے زد بہ نہاں خانہء دل
مژدہء باد اہلِ ریا را کہ زمیداں رفتم(64)
میں عربی کا عالم نہیں مگر نرا جاہل بھی نہیں، بس اتنی بات ہے کہ اس زبان کے لغات کا محقق نہیں ہوں، علما سے پوچھنے کا محتاج اور سند کا طلب گار رہتا ہوں۔ فارسی میں مبداء فیاض سے مجھے وہ دست گاہ ملی ہے اور اس زبان کے قواعد و ضوابط میرے ضمیر میں اس طرح جاگزیں ہیں، جیسے فولاد میں جوہر۔ اہل پارس میں اور مجھ میں دو طرح کے تفاوت ہیں: ایک تو یہ کہ ان کا مولد ایران اور میرا مولد ہندوستان، دوسرے یہ کہ وہ لوگ آگے پیچھے، سو دو سو، چار سو، آٹھ سو برس پہلے پیدا ہوئے۔ (65) وہ روش ہندوستانی فارسی لکھنے والوں کی مجھ کو نہیں آتی کہ بالکل بھاٹوں کی طرح بکنا شروع کریں۔ میرے قصیدے دیکھو، تشبیب کے شعر بہت پاؤ گے اور مدح کے شعر کم تر۔ نواب مصطفی خاں کے تذکرے کی تقریظ کو ملاحظہ کرو کہ ان کی مدح کتنی ہے، مرزا رحیم الدین بہادر حیا تخلص کے دیوان کے دیباچہ کو دیکھو۔ وہ جو تقریظ دیوانِ حافظ، موجب فرمایش جان جا کوب بہادر کے لکھی ہے، اس کو دیکھو کہ فقط ایک بیت میں ان کا نام اور ان کی مدح آئی ہے .... اس سے زیادہ بھٹئی میری روش نہیں۔ (66)
پچاس برس سے دلّی میں رہتا ہوں۔ ہزارہا خط اطراف و جوانب سے آتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ محلہ ء سابق کا نام لکھ دیتے ہیں۔ حکام کے خطوط فارسی و انگریزی، یہاں تک کہ ولایت کے آئے ہوئے، صرف شہر کا نام اور میرا نام.... اگر میں تمہارے نزدیک امیر نہیں، نہ سہی، اہل حرفہ میں سے بھی نہیں ہوں کہ جب تک محلہ اور تھانہ نہ لکھا جائے، ہر کارہ میرا پتہ نہ پائے۔ آپ صرف دہلی لکھ کر میرا نام لکھ دیا کیجیے، خط پہنچنے کا میں ضامن۔ (67)
ایک لطیفہ نشاط انگیز سُنیے! ڈاک کا ہرکارہ جو بَلّی ماروں کے خطوط پہنچاتا ہے، ان دنوں میں ایک بنیا پڑھا لکھا، حرف شناس، کوئی فلاں ناتھ، ڈھمک داس ہے۔ میں بالا خانہ میں رہتا ہوں، حویلی میں آکر اس نے داروغہ کو خط دے کر مجھ سے کہا کہ ڈاک کا ہرکارہ بندگی عرض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مبارک ہو، آپ کو جیسا کہ دلی کے بادشاہ نے ”نوابی“ کا خطاب دیا تھا، اب کالپی سے خطاب کپتانی کا ملا، حیران کہ یہ کیا کہتا ہے؟ سرنامہ غور سے دیکھا، کہیں قبل ازاسم” مخدوم نیاز کیشاں“لکھا تھا۔ اس قرمساق نے اور الفاظ سے قطع نظر کر کے ”کیشاں“ کو ”کپتان “پڑھا۔ (68)
سچ تو یہ ہے کہ .... مولانا غالب علیہ الرحمہ ان دنوں میں بہت خوش ہیں۔ پچاس ساتھ جزو کی کتاب امیر حمزہ کی داستان کی اور اسی قدر حجم کی ایک جلد بوستان خیال کی آ گئی۔ سترہ بوتلیں بادء ناب کی توشک خانہ میں موجوود ہیں، دن بھر کتاب دیکھا کرتے ہیں، رات بھر شراب پیا کرتے ہیں:
کسے کیں مرادش میسر بود
اگر جم نہ باشد سکندر بود(69)
سنو صاحب! شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں، یہ تین آدمی تین فن میں سرِ دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے، فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسنبصری سے ٹکر کھائے، عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو.... بھئی”مغل بچے“ بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں، اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی ”مغل بچہ“ ہوں۔ عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے.... پچاس برس عالم رنگ و بو کی سیر کی۔ ابتدائے شباب میں ایک مرشد کامل نے ہم کو یہ نصیحت کی کہ ہم کو زہد و ورع منظور نہیں، ہم مانع فسق و فجور نہیں، پیو، کھاؤ، مزے اُڑاؤ، مگر یاد رہے کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو، میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔ کسی کے مرنے کے وہ غم کرے جو آپ نہ مرے، کیسی اشک افشانی؟ کہاں کی مرثیہ خوانی؟.... میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اورسوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہو گئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی۔ اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہے۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حور اجیرن ہو جائے گی، طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی؟ وہی زمردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ! چشم بددور، وہی ایک حور۔ (70)
یہ تمہارا دعا گو اگرچہ اوراُمور میں پایہ عالی نہیں رکھتا مگر احتیاج میں اس کا پایہ بہت عالی ہے یعنی بہت محتاج ہوں۔ (71) اگر میری اوقاتِ شبانہ روزی اور میرے حالات آپ دیکھیںتو تعجب کریں گے کہ یہ شخص جیتا کیوں کر ہے ؟ (72) بے تکلف عرض کرتا ہوں، اتنے آم کھاتا تھا کہ پیٹ بھر جاتا تھا اور دم پیٹ میں نہ سماتا تھا۔ (73) بائیس مہینے سے وہ رزق کہ جو مقوم جسم اور مفرح روح تھا، مسدود ہے۔ (74) بائیس مہینے کے بعد پرسوں کوتوال کا حکم آیا ہے کہ اسد اللہ خاں پنسن دار کی کیفیت لکھو کہ وہ بے مقدور اور محتاج ہے یا نہیں۔ کوتوال نے موافق ضابطے کے مجھ سے چار گواہ مانگے.... سو .... خزانے سے روپیہ آگیا ہے۔ میں نے آنکھ سے دیکھا تو آنکھیں پھوٹیں۔ بات رہ گئی، پت رہ گئی۔ حاسدوں کو موت آ گئی، دوست شاد ہو گئے۔ میں جیسا ننگا بھوکا ہوں، جب تک جیوں گا، ایسا ہی رہوں گا، میرا دارو گیر سے بچنا کرامت اسد اللہی ہے، ان پیسوں کا ہاتھ آنا عطیہ ید اللہی ہے۔ (75)
میں موحدِ خالص اور مومنِ کامل ہوں۔ زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ، لا موثر فی الوجود الا اللہ سمجھے ہوا ہوں.... ہاں اتنی بات اور ہے کہ اباحت اور زندقہ کو مردود اور شراب کو حرام اور اپنے آپ کو عاصی سمجھتا ہوں۔ اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالیں گے تو میرا جلانا مقصود نہ ہو گا، بلکہ دوزخ کا ایندھن ہوں گا اور دوزخ کی آنچ کو تیز کروں گا تاکہ مشرکین و منکرین نبوتِ مصطفوی و امامت مرتضوی اس میں جلیں۔ (76) بادشاہ سے کیا عجب ہے کہ دو برس کی تنخواہ دے کر مجھ کو خانہ ء خدا کے طواف کی رخصت دیں کہ یہ گنہ گار وہاں جاوے اور اگر زیست ہے تو وہاں جا کر اور اپنے ستاون برس کے گناہ کہ جس میں سوائے شرک کے سب کچھ ہے، بخشوا کر پھر آوے۔ (77)
میں اگلے زمانے کا آدمی ہوں، جہاں ایک امر کی ابتدا دیکھی، یہ جان لیا کہ اب یہ امر مطابق اس بدایت کے نہایت پذیر ہو گا۔ (78) نہ ہٹ دھرم ہوں، نہ مجھے اپنی بات کی پچ ہے .... علم و ہنر سے عاری ہوں، لیکن پچپن برس سے محوِ سخن گزاری ہوں، مبداءفیاض کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے، ماخذ میرا صحیح اور طبع میری سلیم ہے۔ فارسی کے ساتھ ایک مناسبتِ ازلی و سرمدی لایا ہوں، مطابق اہل پارس کے منطق کا۔ بھی مزا ابدی لایا ہوں۔ مناسبتِ خداداد، تربیت استاد سے حسن و قبح ترکیب پہچاننے لگا، فارسی کے غوامض جاننے لگا۔
بعد اپنی تکمیل کے تلامذہ کی تہذیب کا خیال آیا۔ ”قاطع برہان“ کا لکھنا کیا تھا گویا باسی کڑھی میں اُبال آیا۔ لکھنا کیا تھا کہ سہام ملامت کا ہدف ہوا۔ ہے ہے یہ تنک مایہ معارضِ اکابر سلف ہوا۔ (79)
فقیر شکوے سے برا نہیں مانتا، مگر شکوے کے فن کو سوائے میرے کوئی نہیں جانتا۔ شکوے کی خوبی یہ ہے کہ راہِ راست سے منہ نہ موڑے اور معہذا دوسرے کے واسطے جواب کی گنجایش نہ چھوڑے۔ (80) ایک شخص نے یہ مطلع میرے سامنے پڑھا اور کہا کہ قبلہ آپ نے کیا خوب مطلع کہا ہے:
اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر! شاباش، رحمت خدا کی
میں نے یہی ان سے کہا تھا کہ اگر یہ مطلع میرا ہو تو مجھ پر لعنت۔ بات یہ ہے کہ ایک شخص میر امانی اسد ہو گزرے ہیں۔ یہ غزل ان کے کلام معجز نظام میں سے ہے اور تذکروں میں مرقوم ہے۔ میں نے تو کوئی دوچار برس ابتدامیں اسد تخلص رکھا ہے، ورنہ غالب ہی لکھتا رہا ہوں۔ تم طرزِ تحریر اور روشِ فکر پر بھی نظر نہیں کرتے۔ میرا کلام اور ایسا مزخرف! (81) میرا ہم قوم تو سراسر قلمرو ہند میں نہیں۔ سمرقند میں دو چاریادشتِ خفچاق (82) میں سو دو سو ہوں گے، مگر ہاں اقرباے سببی ہیں۔ سو پانچ برس کی عمر سے ان کے دام میں اسیر ہوں، اکسٹھ برس ستم اُٹھائے ہیں .... دریا سارا تیر چکا ہوں، ساحل نزدیک ہے، دو ہاتھ لگائے، بیڑا پار ہے۔ (83)
وبا کو کیا پوچھتے ہو؟ قدر اندازِ قضا کے ترکش میں یہ بھی ایک تیر باقی تھا۔ قتل ایسا عام، لوٹ ایسی سخت، کال ایسا بڑا، وبا کیوں نہ ہو؟ ”لسان الغیب“ نے دس برس پہلے فرمایا تھا:
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
میاں1277ھ کی بات غلط نہ تھی۔ میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا، اقعی اس میں میری کسرِ شان تھی۔ بعد رفعِ فساد ہوا سمجھ لیا جائے گا۔ (84) دو تین مہینے میں لوٹ پوٹ کر اچھا ہو گیا۔ نئے سرے سے روح قالب میں آئی۔ اجل نے میری سخت جانی کی قسم کھائی۔ اب اگرچہ تندرست ہوں لیکن ناتواں و سُست ہوں۔ حواس کھو بیٹھا، حافظے کو رو بیٹھا۔ اگر اُٹھتا ہوں تو اتنی دیر میں اُٹھتا ہوں کہ جتنی دیر میں قدِ آدم دیوار اُٹھے۔ (85)
فقیر میں تین عیب ہیں: ستر برس کی عمر، کانوں سے بہرا، ہمیشہ بیمار ہے، آمدورفتِ دوام میں قاصر۔ (86) ہجومِ غم سے فراغ نہیں، اگرچہ گوشہ نشین و خانماں خراب ہوں، لیکن حسبِ رابطہ ء ازلی کثیر الاحباب ہوں....اگر جوان ہوتا تو احباب سے دعائے صحت کا طلب گار ہوتا، اب جو بوڑھا ہوں تو دعائے مغفرت کا خواہاں ہوں۔ (87) اعصاب کے ضعف کا یہ حال کہ اُٹھ نہیں سکتا اور اگر دونوں ہاتھ ٹیک کر، چار پایہ بن کر اُٹھتا ہوں تو پنڈلیاں لرزتی ہیں۔ (88) ناتوانی زور پر ہے، بڑھاپے نے نکما کر دیا ہے، ضعف، سستی، کاہلی، گرانجانی، گرانی۔ رکاب میں پاؤں ہے، باگ پر ہاتھ ہے، بڑا سفر دور و دراز در پیش ہے، زادِ راہ موجود نہیں، خالی ہاتھ جاتا ہوں۔ اگر ناپرسیدہ بخش دیا تو خیر، اگر باز پر س ہوئی تو سقر مقر ہے اور ہاویہ زاویہ ہے، دوزخِ جاوید ہے اور ہم ہیں۔ ہائے کسی کا کیا اچھا شعرہے:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے(89)
”سترا بہترا“ اُردو میں ترجمہ پیر”خرف“ ہے۔ میری تہتر برس کی عمر ہے، پس میں ”اخرف“ ہوا، گویا حافظہ کبھی تھا ہی نہیں۔ سامعہ باطل بہت دن سے تھا، رفتہ رفتہ وہ بھی حافظے کی طرح معدوم ہو گیا۔ (90) پھوڑوں سے بدن لالہ زار، پوست سے ہڈیاں نمودار، پھوڑے ایسے جیسے انگارے سلگتے ہیں۔ اعضا پر دس جگہ پھائے لگتے ہیں۔ ضعف و ناتوانی علاوہ، سوزِ غم ہائے نہانی علاوہ.... سوائے شہرت خشک کے فن کا کچھ پھل نہ پایا۔ ”احسنت“و ”مرحبا“ کا شور سامعہ فرسا ہوا، خیر، ستایش کا حق ستایش سے ادا ہوا۔ (91) مبالغہ نہ سمجھو، میں ایک قالبِ بے روح ہوں:
یکے مردہ شخصم بمردی رواں
اضمحلال روح کا روز افزوں ہے۔ صبح کو تبرید، قریب دوپہر کے روٹی، شام کو شراب، اگر اس میں سے جس دن ایک چیز اپنے وقت پر نہ ملی، میں مر گیا۔ واللہ .... میں لم یلد ولم یولد ہوں۔ (92) ہزار آدمی کا ماتم دار ہوں۔ آپ غم زدہ اور آپ غم گسار ہوں۔ اس سے قطع نظر کہ کہ تباہ اور خراب ہوں، مرنا سر پر کھڑا ہے، پابہ رکاب ہوں۔ (93) کھچڑی کھائی دن بہلائے، کپڑے پھاٹے گھر کو آئے۔ (94) آج میں نے لیٹے لیٹے ختاب کیا کہ یہ سترھواں برس مجھے جاتا ہے، ہائے:
سنین عمر کے ستر ہوئے شمار برس
بہت جیوں تو جیوں اور تین چار برس(95)
میں زندہ ہوں لیکن نیم مردہ۔ آٹھ پہر پڑا رہتا ہوں۔ اصل صاحب فراش میں ہوں۔ بیس دن سے پانو پر ورم ہو گیا ہے۔ کفِ پاوپشت پاسے نوبت گزر کر پنڈلی تک آماس ہے، جوتے میں پاؤں سماتا نہیں۔ بول و بزار کے واسطے اُٹھنا دشوار۔ یہ سب باتیں ایک طرف، درد محللِ روح ہے۔ 1277ءمیں میرا نہ مرنا، صرف میری تکذیب کے واسطے تھا، مگر اس تین برس میں ہر روز مرگِ نو کامزا چکھتا رہا ہوں۔ حیران ہوں کہ کوئی صورت زیست کی نہیں، پھر میں کیوں جیتا ہوں؟ روح میری اب جسم میں اس طرح گھبراتی ہے، جس طرح طائر قفس میں۔ کوئی شغل، کوئی اختلاط، کوئی جلسہ، کوئی مجمع پسند نہیں۔ کتاب سے نفرت، شعر سے نفرت، جسم سے نفرت، روح سے نفرت۔ (96) پاؤں سے اپاہج، کانوں سے بہرہ، ضعفِ بصارت، ضعفِ دماغ، ضعفِ دل، ضعفِ معدہ، ان سب ضعفوں پر ضعفِ طالع۔ (97)
میں اموات میں ہوں، مردہ شعر کیا کہے گا؟ غزل کا ڈھنگ بھول گیا، معشوق کس کو قرار دوں، جو غزل کی روش ضمیر میں آوے؟ رہا قصیدہ، ممدوح کون ہے؟ ہائے انوری گویا میری زبان سے کہتا ہے:
اے دریغا نیست ممدوحے سزاوار مدیح
اے دریغا نیست معشوقے سزاوارِ غزل(98)
مشہور ہے یہ بات کہ جو کوئی اپنے عزیز کی فاتحہ دلاتا ہے، موتیٰ کی روح کو اس کی بو پہنچتی ہے۔ ایسے ہی میں سونگھ لیتا ہوں غذا کو۔ پہلے مقدار غذا کی تولوں پر منحصر تھی، اب ماشوں پر ہے، زندگی کی توقع آگے مہینوں پر تھی اب دنوں پرہے۔ (99) ایک شعر میں نے بہت دن سے کہہ رکھا ہے۔ اس خیال سے کہ میرے بعد کوئی میرا دوست مرثیہ لکھے تو اس شعر کو بند قرار دے کر ترکیب بند رقم کرے۔ وہ شعر یہ ہے:
رشکِ عرفی و فخر ِ طالب مُرد
اسد اللہ خاں غالب مُرد(100)
بہتر برس کا آدمی، پھر رنجورِ دائمی، غذا یک قلم مفقود.... نہ روٹی، نہ بوٹی، نہ پلاؤ، نہ خشکا، آنکھ کی بینائی میں فرق، ہاتھ کی گیرائی میں فرق، رعشہ مستولی، حافظہ معدوم۔ (101) خدا کا مقہور، خلق کا مردود، بوڑھا، ناتواں، بیمار، فقیر، نکبت میں گرفتار۔ (102) قریب مرگ ہوں۔ غذا بالکل مفقود اور امراض مستولی، بہتر برس کی عمر، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ (103)
سچ تو یوں ہے کہ غالب کیا مرا، بڑا کافر مرا۔ ہم نے ازراہِ تعظیم، جیسا بادشاہوں کو مرنے کے بعد جنت آرام گاہ، عرش نشیمن خطاب دیتے ہیں، چونکہ یہ اپنے آپ کو شہنشاہِ قلمروِ سخن جانتا تھا، ”سقر مقر“ اور ”زاویہ ہاویہ“ خطاب تجویز کر رکھا ہے۔ ”آئیے نجم الدولہ بہادر“ ایک قرض دار کا گریبان میں ہاتھ، ایک قرض دار بھوگ سنا رہا ہے۔ میں ان سے پوچھ رہا ہوں:
”اجی حضرت نواب صاحب!
نواب صاحب کیسے اوغلان صاحب!
آپ سلجوقی وافراسیابی ہیں، یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے؟ کچھ تو بولو، کچھ تو اُکسو۔ “
بولے کیا ؟ بے حیا، بے غیرت، کوٹھی سے شراب، گندھی سے گلاب، بزاز سے کپڑا، میوہ فروش سے آم، صراف سے دام قرض لیا جاتا تھا۔ یہ بھی تو سونچا ہوتا کہ کہاں سے دوں گا؟“(104) درویشِ دل ریش و فروماندہء کشاکش معاصی کے خاتمہ بخیر ہونے کی دعا مانگیں، اللہ بس ماسویٰ ہوس۔ (105) زیادہ کیا لکھوں؟(106)
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے(107)