پاکستانی معاشرے کے حوالے سے اس فورم کو کھولنے پر میں نبیل بھائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ جہاں ہم اپنی صلاحیتیں ، عقل اور تدبر ، سیاست اور مذہب کے علاوہ دیگر اُمور کے موضوعات پر صرف کرتے ہیں ۔ وہیں ہم یہ بھی سوچیں کہ وہ چھت جسے ہم معاشرہ کہتے ہیں ۔ اس کے سائے تلے ہمارا حال اور مستقبل کیسا ہے ۔ ہم اس معاشرے کو کیسے امن و تحفظ دے سکتے ہیں ۔ جہاں ہم اور ہماری آنے والی نسلیں نہ صرف محفوظ رہیں بلکہ مستقبل کے لیئے ایسا لائحہ عمل بھی اختیار کریں کہ پاکستانی معاشرے میں امن وامان کے علاوہ ترقی و خوشحالی کا بھی راستہ واضع متعین ہو ۔
آج کل وطن ِ عزیز جس صورتحال سے گذر رہا ہے ۔ اس سے ہر حساس آدمی فکر مند ہے ۔ خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو ۔ بحیثیت ِ مجموعی اگر دیکھا جائے تو پوری مسلمِ امہ ہی پریشان ہے ۔ پوری ملتِ اسلامیہ ایک سخت مشکل سے دوچار ہے ۔ میرا احساس یہ ہے کہ جیسے لال مسجد کا سانحہ ہوا بلکل اسی طرح یہ ملت بھی جیسے ایک بڑی سی لال مسجد ہے ۔ اس کی قیادت کو دیکھیں ، لوگوں اور ان کے جذبات کو دیکھیں ، تو بلکل وہی صورتحال سامنے آتی ہے ۔ اس میں اسباب کیا ہیں ۔ وجوہ کیا ہیں ؟ یہ تو ایک لمبی اور تفصیلی بحث ہے اور اس محفل پر ویسے بھی کئی بار اس موضوع پر بحثیں چھڑ بھی چکیں ہیں ۔ ہمیں اس مسئلے کو اس طرح دیکھنا چاہیئے کہ آخر ا سکا حل کیا ہے ۔ ؟ یعنی یہ کشمکش جو مذہبی طبقات میں ہے ، سیکولر طبقات میں ہے ، سیاسی جماعتوں میں ہے ، حکومتوں میں ہے ، ملک کے عام افراد میں ہے ، علماء میں ہے ۔ آخر ا سکو کسی جگہ ختم ہونا چاہیئے ۔ یعنی ہر وہ شخص جو اس قوم اور ملک کیساتھ محبت رکھتا ہے ۔ اُسے دیکھنا چاہیئے کہ یہ کشمکش کیسے ختم ہوسکتی ہے ۔
تحقیق کے نتیجے میں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواہ ترکی ہو ، انڈونیشیا ہو ، سعودی عرب ہو ، مراکش ہو یا اپنا وطنِ عزیز ہو ۔ وہاں چند بینادی نکات ایسے ہیں ۔ جو ہماری ملت میں سرے ہی سے منقود ہیں ۔ ان باتوں کو ملحوظِ خاطر نہ رکھنے کہ وجہ سے یہ کشمکش کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ اور یہ کشمکش مخلتف طبقات میں اب جنگ وجدل کا مظہر بن چکی ہے ۔ ان نکات کو اہمیت کی ترتیب کے لحاظ میں یہاں بیان کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔
1 - پہلی بات یہ ہے کہ ہمارا دین بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور دنیا کی اقوام بھی صدیوں کے مختلف تجربات کے بات اس نتیجے پر پنہچیں ہیں کہ جہموری معاشرے کو قائم ہونا چاہیئے ۔ یہ پہلی بنیادی چیز ہے ۔ ایک حقیقی جہموریت جو " اَمرًھُم شُوریٰ بنًیھُم " کی بنیاد پر وجود میں آئے ۔ لوگوں کی تائید سے قائم رہے ۔ اور ان کی تائید سے محروم ہونے کے بعد اپنا جواز کھو دے ۔ کسی شخص کو یہ اختیار نہ دیا جائے کہ وہ آئین کو توڑ دے ۔ یا وہ کوئی ماورائے آئین اقدام کرے ۔ ایک حقیقی جہموریت ہماری ضرورت ہے ۔ ایک حقیقی جہموریت سے ہی ایک عام آدمی کو تشدد کا راستہ ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ رائے عامہ کی طرف جائے ۔ جو لوگوں کے افکار پر اثر انداز ہو ۔ اور اس طرح کے پُرامن ذرائع سے ملک میںتبدلیاں لانے کے امکانات پیدا کرے ۔ مثبت تبدلیوں سے معاشرے کو درست کرنا انسان کا حق ہے ۔ اس کا طریقہ کیا ہے ۔؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی قوم کو اس کا حق دیں ۔ اور قوم کے اس حق کو تسلیم کریں ۔ پارلیمنٹ کو حقیقی بالادستی حاصل ہو ۔ اور ایسا جہموری نظام وجود میں آئے جہاں مذکرات ہو سکیں ، جس میں اختلاف کو برداشت کیا جائے ۔ تو پھر مذہبی طبقات کو بھی یہ بات سمجھائی جاسکتی ہے کہ اگر وہ کسی چیز کو غلط سمجھتے ہیں تو وہ لوگوں کی طرف رجوع کرکے ان کے دل و دماغ کو بدلیں ۔ تشدد صرف اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے جب آپ یہ راستہ بند کر دیتے ہیں ۔ اور لوگ مجبوراً اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیئے پھر غلط طریقے اختیار کرتے ہیں ۔
2 - دوسری چیز یہ ہے کہ نظام تعلیم کے بارے میں لوگ حساس ہوں ۔ کیونکہ نظامِ تعلیم ہی وہ چیز ہے جس سے آپ کسی قوم کو بناتے ہیں ۔ پڑھا لکھا طبقہ ہی پوری قوم پر موثر ہوتا ہے ۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانی قوم تین نظامِ ہائے تعلیم میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اب اس میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ مذہبی اور غیر مذہبی کی تفریق موجود ہے ۔ اردو اور انگریزی کی تفریق موجود ہے ۔ دانشوروں کے مطابق بارہویں جماعت تک تعلیم ہر حال میں یکساں ہونی چاہیئے ۔ کسی شخصکو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے کہ وہ اس کے مقابلے میںکوئی متوازی نظامِ تعلیم قائم کرنے کی کوشش کرے ۔ پوری قوم کے بچے اور بچیاں بارہویں تک ایک ہی تعلیمی نظام سے گذریں اور پھر اس کے بعد شعور پختہ ہونے کے بعد اگر وہ کسی خاس شعبے میں جانا چاہیں تو بے شک ا سکو اختیار کریں کہ ان کو عالم بننا ہے ، انجینیئر یا پھر ڈاکٹر بننا ہے ۔ مگر اس تفریق نے پوری قوم کو چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بانٹ دیا ہے ۔ اور ہر نظام سے ایک نئی امت پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے ۔ مدرسوں کی اصلاح سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ جب تک ملکی سطح پر ایک یکساں منظم تعلیمی نظام وجود پذیر نہیں ہوگا یہ تفریق قوم کو یونہی بھٹکاتی رہے گی ۔
3 - ہماری مسجدیں ایک بہت بڑا انسٹیٹوشنز ہیں ۔ اور اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ جمعہ کا دن مقرر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ریاست کو مسجد سے متعلق کیا جائے ۔ اسلامی قانون کے مطابق جمعہ کا منبر حکمرانوں کے ساتھ خاص ہے ۔ یہ ان کا کام ہے کہ وہ خطبہ دیں ۔ وہ نماز کا اہتمام کریں ۔ تاکہ معاشرے کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ بھی ان کا تعلق استوار ہو ۔ ہم نے یہ منبر علماء کے سپرد کردیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور اسی کے نتیجے میں مذہبی لوگوں کے درمیان قلعے وجود میں آئے ۔ اس سے مسجدوں کی تفریق کی بنیاد پڑی ہے ۔ اب وہی مسجدیں اور مسجدوں کا منبر ہے جہاں سے ایک دوسرے کے خلاف فتوے داغے جاتے ہیں اور یوں فساد کا ذریعہ پیدا ہوگیا ہے ۔ وہ جگہ جو ہمارے لیئے عبادت کی مقدس جگہ تھی ۔ اب اسی کو ہم سیاست کا اکھاڑہ بنائے ہوئے ہیں ۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ اس بارے میں ریاست کے ذمہ دار لوگوں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی جائے کہ اللہ کے پغیمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منبر تمہارے سپرد کیا تھا ، اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرو ۔ اور جس طرح دوسرے کام کرتے ہو بلکل اسی طرح اس منبر کو بھی سنبھالو ۔ تاکہ یہ قومی وحدت کا ذریعہ بنے اور اس کے ذریعے ریاست اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل ہو ۔
4 - یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں لوگ زیادہ تر حساس سماجی برائیوں کے بارے میں ہوتے ہیں ۔ جرائم کے بارے تو قانون سازی ہوجاتی ہے کہ پولیس اور فوج آگے آجاتیں ہیں ۔ سماجی برائیوں کے بارے میں قرآن مجید نے بھی ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے ۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے " معروف منکر " کے حدود متعین کرکے ہمیںچاہیئے کہ ہم اس مقصد کے لیئے ایک الگ محکمہ قائم کریں ۔ مذہبی لوگ یہی مطالبہ کرتے ہیں ۔ یہ بات قرآن مجید میں بھی بیان ہوگئی ہے ۔ لہذا سماجی برائیوں کے لیئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے علماء کو بڑی حد تک اس سے متعلق کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح وہ بھی ریاست کے نظام کا ایک حصہ بن کر اسے ایک چلینج سمجھ کر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مطالبات کی صورت میں یہ چیزیں پیش ہوتیں رہیں گی اور ایک کشمکش کا میدان وجود میں آجائے گا ۔ سماجی برائیاں جیسے رشوت ، بدیانتی ، خیانت ، کم تولنا ، لوگوں کیساتھ ظلم کیساتھ پیش آنا اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جس کا ہر حکومت قلم قلع کرنا چاہتی ہے ۔ لہذا اس کی قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ اس کے حدود قرآن نے متعین کردیئے ہیں اور پارلیمنٹ بھی متعین کر سکتی ہے ۔ اس سے کسی بھی خفلشار کا اندیشہ پیدا نہیں ہوگا ۔ جرائم کے بارے میں پولیس سختی کرتی ہے ۔ مگر سماجی برائیوں کے لیئے اصلاح کا طریقہ اپنایا جائے ۔ یعنی یہ کوئی لوگوں کو سزا دینے کا محکمہ نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اصلاح کا ، لوگوں سے رابطے کا ، یہ ایک سماجی شعور لوگوں میں بیدار کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیئے ۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ یہ کام مذہبی لوگوں کے سپرد کردیا جائے ۔
5 - ہمارا عدالتی نظام جس حد تک پست ہوچکا ہے ۔ جس طرح لوگ اس نظام سے نالاں ہیں اور جس قدر اس سے لوگوں کی شکایتیں وابست ہوچکیں ہیں کیونکہ اس نظام میں انصاف بلکل منقود ہوچکا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انصاف ، ریاست میں ترجیح نہیں ہے ۔ اگر آپ انصاف کا اہتمام کردیتے ہیں تو لوگوں کو ایک چینل مہیا ہوجاتا ہے جہاں وہ جاکر باآسانی اپنی بات کہہ سکتے ہیں ۔ اور جو مشکلیں اور مصبیتیں ان کو درپیش ہوتیں ہیں ۔ وہ ان کا مداوا بنے کا موحب بن جاتا ہے ۔ انتشار اور خود ساختہ لاقانونیت ختم ہوجاتی ہے ۔
یہ وہ نکات ہیں کہ جو معاشرے میں سرِفہرست موضوع بننے چاہئیں ۔ اس پر جہدوجہد ہونی چاہیئے ۔ اس پر ایک اتفاق رائے قائم ہونا چاہیئے ۔ تاکہ معاشرہ بحیثتِ مجموعی اس کو اپنے نظم کا حصہ بنائے ۔ اور جہاں تک میرے تاثر کی بات ہے کہ اگر ہم ا سکو اپنے معاشرے میں قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کمشکش کا بڑی حد تک خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔
آج کل وطن ِ عزیز جس صورتحال سے گذر رہا ہے ۔ اس سے ہر حساس آدمی فکر مند ہے ۔ خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو ۔ بحیثیت ِ مجموعی اگر دیکھا جائے تو پوری مسلمِ امہ ہی پریشان ہے ۔ پوری ملتِ اسلامیہ ایک سخت مشکل سے دوچار ہے ۔ میرا احساس یہ ہے کہ جیسے لال مسجد کا سانحہ ہوا بلکل اسی طرح یہ ملت بھی جیسے ایک بڑی سی لال مسجد ہے ۔ اس کی قیادت کو دیکھیں ، لوگوں اور ان کے جذبات کو دیکھیں ، تو بلکل وہی صورتحال سامنے آتی ہے ۔ اس میں اسباب کیا ہیں ۔ وجوہ کیا ہیں ؟ یہ تو ایک لمبی اور تفصیلی بحث ہے اور اس محفل پر ویسے بھی کئی بار اس موضوع پر بحثیں چھڑ بھی چکیں ہیں ۔ ہمیں اس مسئلے کو اس طرح دیکھنا چاہیئے کہ آخر ا سکا حل کیا ہے ۔ ؟ یعنی یہ کشمکش جو مذہبی طبقات میں ہے ، سیکولر طبقات میں ہے ، سیاسی جماعتوں میں ہے ، حکومتوں میں ہے ، ملک کے عام افراد میں ہے ، علماء میں ہے ۔ آخر ا سکو کسی جگہ ختم ہونا چاہیئے ۔ یعنی ہر وہ شخص جو اس قوم اور ملک کیساتھ محبت رکھتا ہے ۔ اُسے دیکھنا چاہیئے کہ یہ کشمکش کیسے ختم ہوسکتی ہے ۔
تحقیق کے نتیجے میں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواہ ترکی ہو ، انڈونیشیا ہو ، سعودی عرب ہو ، مراکش ہو یا اپنا وطنِ عزیز ہو ۔ وہاں چند بینادی نکات ایسے ہیں ۔ جو ہماری ملت میں سرے ہی سے منقود ہیں ۔ ان باتوں کو ملحوظِ خاطر نہ رکھنے کہ وجہ سے یہ کشمکش کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ اور یہ کشمکش مخلتف طبقات میں اب جنگ وجدل کا مظہر بن چکی ہے ۔ ان نکات کو اہمیت کی ترتیب کے لحاظ میں یہاں بیان کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔
1 - پہلی بات یہ ہے کہ ہمارا دین بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور دنیا کی اقوام بھی صدیوں کے مختلف تجربات کے بات اس نتیجے پر پنہچیں ہیں کہ جہموری معاشرے کو قائم ہونا چاہیئے ۔ یہ پہلی بنیادی چیز ہے ۔ ایک حقیقی جہموریت جو " اَمرًھُم شُوریٰ بنًیھُم " کی بنیاد پر وجود میں آئے ۔ لوگوں کی تائید سے قائم رہے ۔ اور ان کی تائید سے محروم ہونے کے بعد اپنا جواز کھو دے ۔ کسی شخص کو یہ اختیار نہ دیا جائے کہ وہ آئین کو توڑ دے ۔ یا وہ کوئی ماورائے آئین اقدام کرے ۔ ایک حقیقی جہموریت ہماری ضرورت ہے ۔ ایک حقیقی جہموریت سے ہی ایک عام آدمی کو تشدد کا راستہ ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ رائے عامہ کی طرف جائے ۔ جو لوگوں کے افکار پر اثر انداز ہو ۔ اور اس طرح کے پُرامن ذرائع سے ملک میںتبدلیاں لانے کے امکانات پیدا کرے ۔ مثبت تبدلیوں سے معاشرے کو درست کرنا انسان کا حق ہے ۔ اس کا طریقہ کیا ہے ۔؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی قوم کو اس کا حق دیں ۔ اور قوم کے اس حق کو تسلیم کریں ۔ پارلیمنٹ کو حقیقی بالادستی حاصل ہو ۔ اور ایسا جہموری نظام وجود میں آئے جہاں مذکرات ہو سکیں ، جس میں اختلاف کو برداشت کیا جائے ۔ تو پھر مذہبی طبقات کو بھی یہ بات سمجھائی جاسکتی ہے کہ اگر وہ کسی چیز کو غلط سمجھتے ہیں تو وہ لوگوں کی طرف رجوع کرکے ان کے دل و دماغ کو بدلیں ۔ تشدد صرف اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے جب آپ یہ راستہ بند کر دیتے ہیں ۔ اور لوگ مجبوراً اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیئے پھر غلط طریقے اختیار کرتے ہیں ۔
2 - دوسری چیز یہ ہے کہ نظام تعلیم کے بارے میں لوگ حساس ہوں ۔ کیونکہ نظامِ تعلیم ہی وہ چیز ہے جس سے آپ کسی قوم کو بناتے ہیں ۔ پڑھا لکھا طبقہ ہی پوری قوم پر موثر ہوتا ہے ۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانی قوم تین نظامِ ہائے تعلیم میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اب اس میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ مذہبی اور غیر مذہبی کی تفریق موجود ہے ۔ اردو اور انگریزی کی تفریق موجود ہے ۔ دانشوروں کے مطابق بارہویں جماعت تک تعلیم ہر حال میں یکساں ہونی چاہیئے ۔ کسی شخصکو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے کہ وہ اس کے مقابلے میںکوئی متوازی نظامِ تعلیم قائم کرنے کی کوشش کرے ۔ پوری قوم کے بچے اور بچیاں بارہویں تک ایک ہی تعلیمی نظام سے گذریں اور پھر اس کے بعد شعور پختہ ہونے کے بعد اگر وہ کسی خاس شعبے میں جانا چاہیں تو بے شک ا سکو اختیار کریں کہ ان کو عالم بننا ہے ، انجینیئر یا پھر ڈاکٹر بننا ہے ۔ مگر اس تفریق نے پوری قوم کو چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بانٹ دیا ہے ۔ اور ہر نظام سے ایک نئی امت پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے ۔ مدرسوں کی اصلاح سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ جب تک ملکی سطح پر ایک یکساں منظم تعلیمی نظام وجود پذیر نہیں ہوگا یہ تفریق قوم کو یونہی بھٹکاتی رہے گی ۔
3 - ہماری مسجدیں ایک بہت بڑا انسٹیٹوشنز ہیں ۔ اور اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ جمعہ کا دن مقرر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ریاست کو مسجد سے متعلق کیا جائے ۔ اسلامی قانون کے مطابق جمعہ کا منبر حکمرانوں کے ساتھ خاص ہے ۔ یہ ان کا کام ہے کہ وہ خطبہ دیں ۔ وہ نماز کا اہتمام کریں ۔ تاکہ معاشرے کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ بھی ان کا تعلق استوار ہو ۔ ہم نے یہ منبر علماء کے سپرد کردیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور اسی کے نتیجے میں مذہبی لوگوں کے درمیان قلعے وجود میں آئے ۔ اس سے مسجدوں کی تفریق کی بنیاد پڑی ہے ۔ اب وہی مسجدیں اور مسجدوں کا منبر ہے جہاں سے ایک دوسرے کے خلاف فتوے داغے جاتے ہیں اور یوں فساد کا ذریعہ پیدا ہوگیا ہے ۔ وہ جگہ جو ہمارے لیئے عبادت کی مقدس جگہ تھی ۔ اب اسی کو ہم سیاست کا اکھاڑہ بنائے ہوئے ہیں ۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ اس بارے میں ریاست کے ذمہ دار لوگوں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی جائے کہ اللہ کے پغیمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منبر تمہارے سپرد کیا تھا ، اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرو ۔ اور جس طرح دوسرے کام کرتے ہو بلکل اسی طرح اس منبر کو بھی سنبھالو ۔ تاکہ یہ قومی وحدت کا ذریعہ بنے اور اس کے ذریعے ریاست اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل ہو ۔
4 - یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں لوگ زیادہ تر حساس سماجی برائیوں کے بارے میں ہوتے ہیں ۔ جرائم کے بارے تو قانون سازی ہوجاتی ہے کہ پولیس اور فوج آگے آجاتیں ہیں ۔ سماجی برائیوں کے بارے میں قرآن مجید نے بھی ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے ۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے " معروف منکر " کے حدود متعین کرکے ہمیںچاہیئے کہ ہم اس مقصد کے لیئے ایک الگ محکمہ قائم کریں ۔ مذہبی لوگ یہی مطالبہ کرتے ہیں ۔ یہ بات قرآن مجید میں بھی بیان ہوگئی ہے ۔ لہذا سماجی برائیوں کے لیئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے علماء کو بڑی حد تک اس سے متعلق کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح وہ بھی ریاست کے نظام کا ایک حصہ بن کر اسے ایک چلینج سمجھ کر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مطالبات کی صورت میں یہ چیزیں پیش ہوتیں رہیں گی اور ایک کشمکش کا میدان وجود میں آجائے گا ۔ سماجی برائیاں جیسے رشوت ، بدیانتی ، خیانت ، کم تولنا ، لوگوں کیساتھ ظلم کیساتھ پیش آنا اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جس کا ہر حکومت قلم قلع کرنا چاہتی ہے ۔ لہذا اس کی قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ اس کے حدود قرآن نے متعین کردیئے ہیں اور پارلیمنٹ بھی متعین کر سکتی ہے ۔ اس سے کسی بھی خفلشار کا اندیشہ پیدا نہیں ہوگا ۔ جرائم کے بارے میں پولیس سختی کرتی ہے ۔ مگر سماجی برائیوں کے لیئے اصلاح کا طریقہ اپنایا جائے ۔ یعنی یہ کوئی لوگوں کو سزا دینے کا محکمہ نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اصلاح کا ، لوگوں سے رابطے کا ، یہ ایک سماجی شعور لوگوں میں بیدار کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیئے ۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ یہ کام مذہبی لوگوں کے سپرد کردیا جائے ۔
5 - ہمارا عدالتی نظام جس حد تک پست ہوچکا ہے ۔ جس طرح لوگ اس نظام سے نالاں ہیں اور جس قدر اس سے لوگوں کی شکایتیں وابست ہوچکیں ہیں کیونکہ اس نظام میں انصاف بلکل منقود ہوچکا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انصاف ، ریاست میں ترجیح نہیں ہے ۔ اگر آپ انصاف کا اہتمام کردیتے ہیں تو لوگوں کو ایک چینل مہیا ہوجاتا ہے جہاں وہ جاکر باآسانی اپنی بات کہہ سکتے ہیں ۔ اور جو مشکلیں اور مصبیتیں ان کو درپیش ہوتیں ہیں ۔ وہ ان کا مداوا بنے کا موحب بن جاتا ہے ۔ انتشار اور خود ساختہ لاقانونیت ختم ہوجاتی ہے ۔
یہ وہ نکات ہیں کہ جو معاشرے میں سرِفہرست موضوع بننے چاہئیں ۔ اس پر جہدوجہد ہونی چاہیئے ۔ اس پر ایک اتفاق رائے قائم ہونا چاہیئے ۔ تاکہ معاشرہ بحیثتِ مجموعی اس کو اپنے نظم کا حصہ بنائے ۔ اور جہاں تک میرے تاثر کی بات ہے کہ اگر ہم ا سکو اپنے معاشرے میں قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کمشکش کا بڑی حد تک خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔