صرف علی
محفلین
۔
مقدّس ریپ
امر سندھو تاریخ اشاعت 24 اپريل, 2014
شیئر کریں
ای میل
16 تبصرے
پرنٹ کریں
وہ بدنصیب نہ دلّی کی ابھاگن ‘امانت’ تھی نہ کسی نے اسے ‘دامنی’ کہا، نہ مقامی سول سوسائٹی اور نہ یہاں فلمی دنیا کے کسی امیتابھ بچن نے اس کے لیئے تڑپتے دل سے کوئی ایسی روح چھو دینے والی نظم لکھی؛
وقت گزرنے کے ساتھ،
شمع کی لو ٹھنڈی ہو کر بجھ جائے گی
عقیدت سے نچھاور کیے پھول
بن پانی خشک ھو کر مرجھا جائیں گے
احتجاج میں بولتی اور خاموش آوازیں
اپنی قوت کھو دیں گیں
مگر ھماری آنکھوں کے آنسو
خشک اور مرجھائے پھولوں کو تر کریں گے اور
ھمارے دھکتے گلوں سے
’دامنی ’ ‘امانت’ کی آواز پوری دنیا میں گونجے گی۔۔۔۔
(دلی ریپ کیس پہ امیتابھ بچن کی نظم)
مگر بدین کے دور دراز علاقے‘کڈھن’ کی "مقدّس" کے لیئے ایسی نظم ہمارے امیتابھوں نے تو کیا کسی نے بھی نہیں لکھی۔ نہ کوئی شور مچا، نہ ہی کسی نے اٹھہ کر کہا کہ ‘اب بہت ہو چکا’!!!
"مقدّس کی موت بھی اتنی ہی خاموشی سے گذری تھی جتنی اسکی اذیت۔ ہاں وہ دلّی کی امانت یا دامنی کہاں تھی، کہ جس کے بھیمانہ قتل پہ دارالخلافہ کے ساتھ پورا دیس بمعہ مرد و زن، میڈیا، فلم انڈسڑی، سول سوسائٹی انسانی حقوق اس طرح اٹھ کھڑے ھوئے کہ دلی کی حکومت یوں پریشر میں آئی کہ خصوصی طیارے سے نہ صرف دامنی یا امانت کو علاج کی خاطر سنگاپور بھیجا گیا بلکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی تہیہ کر لیا کہ ‘اب بہت ھوچکا’ اور یوں انہوں نے پہلی مرتبہ ریپ کے قانون میں ترمیم کرنے کے لیئے تجاویز کے لیئے براہِ راست عوام سے رجوع کیا گیا اور نتیجہ میں پاس ھوا Criminal Law (Amendment) Ordinance, 2013 جس میں جنسی تشدد سے متعلق چھہ خصوصی عدالتوں کا قیام ممکن ھوا۔
ہندوستان کی سول سوسائٹی بے شک دامنی کو بچا نہیں پائی مگر اسکے بہیمانہ قتل اور جنسی تشدد نے پورے ہندوستان کو عورتوں پہ جنسی تشدد کے خلاف سڑکوں پہ احتجاج پہ یوں مجبور کیا کہ عورتوں کے تحفظ کے لیئے ہر مکتبہِ فکر سے آواز اٹھی۔
مگر بدین کے دور دراز علاقے کڈھن کی دس سالہ"مقدّس" ایسی خوش قسمت کہاں تھی۔ بڑا شہر تو در کنار، اسکے گاؤں کے کچے رستے کے اور کچی قبر تک پہنچتے ہی لگا تھا کہ یہ آنکھ سے اوجھل کوئی اور ہی دنیا ہے جہاں کے کتے تو بھوکنے میں آزاد ہیں مگر درد سے کراھنا بھی شاید کوئی گناھِ کبیرہ ۔۔۔۔
جس قتل پہ ماں نے بھی درد کے مارے آنسو پی لیئے ہوں اس مقدّس کے مقدر میں ایسی کوئی چیز کہاں کہ اسکے قتل پہ حکومتِ پاکستان اور عدلیہ کے دل میں یوں درد جاگتا کہ وہ علاج کے لیئے بذریعہ خصوصی طیارہ سنگاپور نہ سہی بدین کے سول ھسپتال ہی پہنچ پاتے۔
چلو عدلیہ کوئی خاص نیا قانون نہ ہی بناتی مگر یہی مقدمہ دہشت گردی کورٹ میں چلانے کی اجازت دے دیتی کہ ھماری مقدّس بھی دو دن اسی جھنم میں تڑپتی رہی تھی۔ جب آخر کو کسی طرح اسکا کھیت مزدور والد کرائے کی گاڑی لیکر شہر کی ڈاکٹرنی تک پہنچا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی ہسپتال پہنچنے سے کوئی آدھا گھنٹا پہلے زندگی کی جنگ ہار چکی تھی، مگر خون ابھی تک جاری تھا۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں تو اس جہنم کی پوری داستان تھی جو چار لوگوں نے مل کر اسے جسم میں اتارا ۔۔۔ مگر یہ ماں تھی جو کہہ رہی تھی کہ واقعے کے کچھ وقت تو بمشکل بچی نے اپنے ساتھ ہونے والی قیامت کا ذکر کیا اور انکے نام بھی بتائے کہ کس طرح انہوں نے مل کر اسے قابو کیا۔ پر اس کے بعد مقدّس کا گلا نہ کسی سے بات کرنے کے قابل رہا اور نہ ہی پھر وہ پانی کا گھونٹ تک حلق سے نیچے اتار سکی۔ اسکی سانس میں بہت تکلیف تھی اور خون بھی جاری تھا۔ جان دیتے وقت جسمانہ تکلیف اپنی جگہ مگر وہ تو بھوکی اور پیاسی بھی رہی ہوگی۔ اس کی موت کی داستان کچھہ یوں تھی؛
گاؤں خوشی محمد میں واقع واحد مسجد میں تین سال سے مقیم قاری نے جس دن بچیوں کو قرآں پاک پڑھانا شروع کیا اس ہی دن سے دس سال کی مقدّس کلی نے اپنے چھہ سالہ بھائی کے ساتھ مدرسہ جانے کی ضد پکڑ لی تھی۔ "مدرسے میں پڑھ کر میں عالمہ بنوں گی"
اسکی بارہ سالہ بڑی بہن پولیو کی مریض اور ذہنی معذور تھی اس لیئے لے دے کر یہی دس سالہ مقدس تھی جو عام طور پہ گھر کے چھوٹے بڑے کاموں میں ہاتھ بٹا لیا کرتی تھی اور ماں کو اک ڈھارس سی بندھی رہتی تھی۔ پھر بھی وہ بیچاری ماں مقدّس کے مدرسے جا کے عالمہ بننے کی خواھش میں یہ سوچ کر زیادہ رکاوٹ نہ بنی کہ اسکے عقیدے حساب سے روزِ محشر یہی سہارا نجات کا سامان بننا تھا۔
وہ سادہ دل ماں کہاں جانتی تھی کہ بچیوں کو قرآن پڑھانے کے بہانے مدرسے کا وہ شیطان صفت ملعون 'قاری' انکی زندگی میں اک اور محشر اتارنے والا ہے۔ اور یوں مدرسے جانے کے پہلے دن مقدّس بھی 'عالمہ' بننے کی خواہش لیئے گھر سے کچھ ہی دور مدرسے گئی۔
مولوی قرآن کا پہلا سبق دیتے ساری بچیوں کو تولتا، پرکھتا اور تاڑتا رہا کہ کون سی بچی میں زیادہ مزاحمت کی قوت نہیں ہوگی اور کون سی بچی یوں آسان شکار بنے گی جس کو ڈرانے دھمکانے میں بھی کوئی زیادہ وقت نہ لگے گا۔
یوں شاید پہلے ہی دن مقدس اپنی چھوٹی عمر اور ڈرے سہمے حلیے سے قاری کو شکار کے لیئے سب سے مناسب نظر آئی ہوگی۔ مولوی کا ارادہ ممکن ہے کہ ان نو بالغ لڑکوں کو خوش کرنا بھی ہو جو اس کے ساتھ پرانے وقت سے گاڑھی سنگت میں تھے۔
دوسرے دن جب مقدس اپنے چھوٹے بھائی اور دوسرے بچوں کے ساتھ درس قرآن کے لیئے مدرسے پہنچی تو مولوی نے مسجد کے اسی حجرے میں جہاں نماز کی صف بندھتی تھی، منبر کے سامنے ہی بچوں کو سبق دینے کے بعد رخصت ہونے کے لیئے کہا اور مقدس کو یہ کہہ کر روکے رکھا کہ 'اس کو ابھی سبق یاد نہیں، میں اس کو سبق یاد کرا کر بعد میں چھٹی دوں گا'۔
چونکہ وہ بھائی کے ساتھ آئی تھی اس لیئے بھائی اور دوسرے بچے بھی وہیں کھڑے رہے کہ ساتھ ہی گھر چلیں گے۔ جب تک مولوی نے حجرے کے باقی دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے بچوں کو وہاں سے ڈرا دھمکا کر بھگایا کہ کسی سے ذکر کیا تو جان سے مار دوں گا اور اندر سے بند کر لیا۔
جب مقدس کے رونے کی آوازیں آئی تو بچے ڈر کے مارے اپنے اپنے گھر بھاگے مگر بھائی نے گھر جا کے ماں کو بتایا کہ مولوی نے بہن کو بند کر دیا ہے اور اندر سے آپی کے رونے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔
کھیتوں پہ کام سے گیا باپ جب تک واپس آتا تب تک مقدّس کے لیئے بہت دیر ہوچکی تھی۔ دو گھنٹے ہو چکے تھے اور وہ نازک بچّی خون میں لت پت، بے لباس منبر کے سامنے بے ہوش پڑی تھی۔ باپ عموما بہت مظبوط ہوتے ہیں مگر اس دن مسجد کے حجرے سے جس کے منبر کے ساتھ کلمہ پاک اور سورہ رحمٰن کے عکس آویزاں، تاک پہ سپارے و قرآن پاک کےکئی نسخے پڑے ہوں، وہاں سے خون میں لت پت بے لباس و بے ہوش بچی کو بازؤں میں بھر کر لے جانے کی ہمت وہ غریب باپ بڑی مشکل سے جٹا پایا۔
ہوش آنے پہ مقدّس نے ان لوگوں کے نام بتایے جن میں درسِ قرآن دینے والا مولوی اور اسکی سنگت کے نو بالغ لڑکے شامل تھے۔
مسجد کے اسی "مقدّس" حجرے میں "تقدّس" کا لبادہ اوڑھے چار شیطانوں نے دس سالہ معصوم "مقدّس" پر گینگ ریپ کے ساتھ ساتھ بربریت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے انسانیت سوز تشدّد کا نشانہ بنایا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ بتاتی ہے کہ اسکا دایاں پھیپھڑا دب چکا تھا جس سے سانس لینے میں تکلیف تھی، گلا بھی اس بری طرح زخمی کہ واقعے کے بعد وہ جو دو دن زندہ رہی نہ کھانا نہ پانی کچھ بھی حلق سے نیچے نہ اترا اور نہ ہی اس نے کوئی زیادہ بات کی۔
دو دن وہ اسی گاؤں میں ماں کے بازؤں میں تڑپتی رہی۔ گھر میں پیسے ہی کہاں تھے کہ علاج کے لئے بدین تک ہی پہنچ پاتے۔ دو دن بعد بہتے خون کے ساتھ ہسپتال پہنچا بھی تو اسکا مردہ جسم، جس کے لیئے رپورٹ میں یہی درج تھا کہ زیادہ خون بہنے سے اسکا جسم پیلا ہو چکا تھا جسکی وجہ سے پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
مقدّس جس مدرسے و مسجد کے حجرے میں منبر کے سامنے یوں جنسی تشدد کا شکار بنا کر موت کے گھاٹ اتاری گئی۔ وہاں پہ نمازی دیکھ کر میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر تھی کہ اس مسجد کو پھر سے نماز پڑھنے کے لیئے کیسے پاک کیا گیا ھوگا؟ مگر وہاں نماز پڑھتے ایک بوڑھے کا غصہ دیدنی لائق تھا جب وہ "کافر، کافر، مشرک!" کہتے ہم پہ چڑھ دوڑا کہ تصویر بنا کر ہم نے مسجد کو ناپاک کر دیا ہے!
سانحے کے بعد حکمران جماعت کے ذالفقار مرزا اور سکندر مندھرو اسی کچی سڑک سے ہوتے ہوئے اسکے ورثا تک ضرور پہنچے مگر انصاف کے حصول کا وعدہ اس بلاول بھٹو نے بھی نہیں کیا جس نے واقعے کا نوٹس لیا۔
البتہ اسی دن کڈھن تھانے کے لاک اپ میں مولوی اینڈ کمپنی کو جس سکون میں پایا گیا اس سے پولیس کی تفتیش کے بارے میں ورثا کی تشویش غیر حقیقی بالکل نہیں لگی۔
http://urdu.dawn.com/news/1004313/23apr14-muqaddas-rape-kadhan-village-mosque-amar-sindhu-aq
مقدّس ریپ
امر سندھو تاریخ اشاعت 24 اپريل, 2014
شیئر کریں
ای میل
16 تبصرے
پرنٹ کریں
وہ بدنصیب نہ دلّی کی ابھاگن ‘امانت’ تھی نہ کسی نے اسے ‘دامنی’ کہا، نہ مقامی سول سوسائٹی اور نہ یہاں فلمی دنیا کے کسی امیتابھ بچن نے اس کے لیئے تڑپتے دل سے کوئی ایسی روح چھو دینے والی نظم لکھی؛
وقت گزرنے کے ساتھ،
شمع کی لو ٹھنڈی ہو کر بجھ جائے گی
عقیدت سے نچھاور کیے پھول
بن پانی خشک ھو کر مرجھا جائیں گے
احتجاج میں بولتی اور خاموش آوازیں
اپنی قوت کھو دیں گیں
مگر ھماری آنکھوں کے آنسو
خشک اور مرجھائے پھولوں کو تر کریں گے اور
ھمارے دھکتے گلوں سے
’دامنی ’ ‘امانت’ کی آواز پوری دنیا میں گونجے گی۔۔۔۔
(دلی ریپ کیس پہ امیتابھ بچن کی نظم)
مگر بدین کے دور دراز علاقے‘کڈھن’ کی "مقدّس" کے لیئے ایسی نظم ہمارے امیتابھوں نے تو کیا کسی نے بھی نہیں لکھی۔ نہ کوئی شور مچا، نہ ہی کسی نے اٹھہ کر کہا کہ ‘اب بہت ہو چکا’!!!
"مقدّس کی موت بھی اتنی ہی خاموشی سے گذری تھی جتنی اسکی اذیت۔ ہاں وہ دلّی کی امانت یا دامنی کہاں تھی، کہ جس کے بھیمانہ قتل پہ دارالخلافہ کے ساتھ پورا دیس بمعہ مرد و زن، میڈیا، فلم انڈسڑی، سول سوسائٹی انسانی حقوق اس طرح اٹھ کھڑے ھوئے کہ دلی کی حکومت یوں پریشر میں آئی کہ خصوصی طیارے سے نہ صرف دامنی یا امانت کو علاج کی خاطر سنگاپور بھیجا گیا بلکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی تہیہ کر لیا کہ ‘اب بہت ھوچکا’ اور یوں انہوں نے پہلی مرتبہ ریپ کے قانون میں ترمیم کرنے کے لیئے تجاویز کے لیئے براہِ راست عوام سے رجوع کیا گیا اور نتیجہ میں پاس ھوا Criminal Law (Amendment) Ordinance, 2013 جس میں جنسی تشدد سے متعلق چھہ خصوصی عدالتوں کا قیام ممکن ھوا۔
ہندوستان کی سول سوسائٹی بے شک دامنی کو بچا نہیں پائی مگر اسکے بہیمانہ قتل اور جنسی تشدد نے پورے ہندوستان کو عورتوں پہ جنسی تشدد کے خلاف سڑکوں پہ احتجاج پہ یوں مجبور کیا کہ عورتوں کے تحفظ کے لیئے ہر مکتبہِ فکر سے آواز اٹھی۔
مگر بدین کے دور دراز علاقے کڈھن کی دس سالہ"مقدّس" ایسی خوش قسمت کہاں تھی۔ بڑا شہر تو در کنار، اسکے گاؤں کے کچے رستے کے اور کچی قبر تک پہنچتے ہی لگا تھا کہ یہ آنکھ سے اوجھل کوئی اور ہی دنیا ہے جہاں کے کتے تو بھوکنے میں آزاد ہیں مگر درد سے کراھنا بھی شاید کوئی گناھِ کبیرہ ۔۔۔۔
جس قتل پہ ماں نے بھی درد کے مارے آنسو پی لیئے ہوں اس مقدّس کے مقدر میں ایسی کوئی چیز کہاں کہ اسکے قتل پہ حکومتِ پاکستان اور عدلیہ کے دل میں یوں درد جاگتا کہ وہ علاج کے لیئے بذریعہ خصوصی طیارہ سنگاپور نہ سہی بدین کے سول ھسپتال ہی پہنچ پاتے۔
چلو عدلیہ کوئی خاص نیا قانون نہ ہی بناتی مگر یہی مقدمہ دہشت گردی کورٹ میں چلانے کی اجازت دے دیتی کہ ھماری مقدّس بھی دو دن اسی جھنم میں تڑپتی رہی تھی۔ جب آخر کو کسی طرح اسکا کھیت مزدور والد کرائے کی گاڑی لیکر شہر کی ڈاکٹرنی تک پہنچا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی ہسپتال پہنچنے سے کوئی آدھا گھنٹا پہلے زندگی کی جنگ ہار چکی تھی، مگر خون ابھی تک جاری تھا۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں تو اس جہنم کی پوری داستان تھی جو چار لوگوں نے مل کر اسے جسم میں اتارا ۔۔۔ مگر یہ ماں تھی جو کہہ رہی تھی کہ واقعے کے کچھ وقت تو بمشکل بچی نے اپنے ساتھ ہونے والی قیامت کا ذکر کیا اور انکے نام بھی بتائے کہ کس طرح انہوں نے مل کر اسے قابو کیا۔ پر اس کے بعد مقدّس کا گلا نہ کسی سے بات کرنے کے قابل رہا اور نہ ہی پھر وہ پانی کا گھونٹ تک حلق سے نیچے اتار سکی۔ اسکی سانس میں بہت تکلیف تھی اور خون بھی جاری تھا۔ جان دیتے وقت جسمانہ تکلیف اپنی جگہ مگر وہ تو بھوکی اور پیاسی بھی رہی ہوگی۔ اس کی موت کی داستان کچھہ یوں تھی؛
گاؤں خوشی محمد میں واقع واحد مسجد میں تین سال سے مقیم قاری نے جس دن بچیوں کو قرآں پاک پڑھانا شروع کیا اس ہی دن سے دس سال کی مقدّس کلی نے اپنے چھہ سالہ بھائی کے ساتھ مدرسہ جانے کی ضد پکڑ لی تھی۔ "مدرسے میں پڑھ کر میں عالمہ بنوں گی"
اسکی بارہ سالہ بڑی بہن پولیو کی مریض اور ذہنی معذور تھی اس لیئے لے دے کر یہی دس سالہ مقدس تھی جو عام طور پہ گھر کے چھوٹے بڑے کاموں میں ہاتھ بٹا لیا کرتی تھی اور ماں کو اک ڈھارس سی بندھی رہتی تھی۔ پھر بھی وہ بیچاری ماں مقدّس کے مدرسے جا کے عالمہ بننے کی خواھش میں یہ سوچ کر زیادہ رکاوٹ نہ بنی کہ اسکے عقیدے حساب سے روزِ محشر یہی سہارا نجات کا سامان بننا تھا۔
وہ سادہ دل ماں کہاں جانتی تھی کہ بچیوں کو قرآن پڑھانے کے بہانے مدرسے کا وہ شیطان صفت ملعون 'قاری' انکی زندگی میں اک اور محشر اتارنے والا ہے۔ اور یوں مدرسے جانے کے پہلے دن مقدّس بھی 'عالمہ' بننے کی خواہش لیئے گھر سے کچھ ہی دور مدرسے گئی۔
مولوی قرآن کا پہلا سبق دیتے ساری بچیوں کو تولتا، پرکھتا اور تاڑتا رہا کہ کون سی بچی میں زیادہ مزاحمت کی قوت نہیں ہوگی اور کون سی بچی یوں آسان شکار بنے گی جس کو ڈرانے دھمکانے میں بھی کوئی زیادہ وقت نہ لگے گا۔
یوں شاید پہلے ہی دن مقدس اپنی چھوٹی عمر اور ڈرے سہمے حلیے سے قاری کو شکار کے لیئے سب سے مناسب نظر آئی ہوگی۔ مولوی کا ارادہ ممکن ہے کہ ان نو بالغ لڑکوں کو خوش کرنا بھی ہو جو اس کے ساتھ پرانے وقت سے گاڑھی سنگت میں تھے۔
دوسرے دن جب مقدس اپنے چھوٹے بھائی اور دوسرے بچوں کے ساتھ درس قرآن کے لیئے مدرسے پہنچی تو مولوی نے مسجد کے اسی حجرے میں جہاں نماز کی صف بندھتی تھی، منبر کے سامنے ہی بچوں کو سبق دینے کے بعد رخصت ہونے کے لیئے کہا اور مقدس کو یہ کہہ کر روکے رکھا کہ 'اس کو ابھی سبق یاد نہیں، میں اس کو سبق یاد کرا کر بعد میں چھٹی دوں گا'۔
چونکہ وہ بھائی کے ساتھ آئی تھی اس لیئے بھائی اور دوسرے بچے بھی وہیں کھڑے رہے کہ ساتھ ہی گھر چلیں گے۔ جب تک مولوی نے حجرے کے باقی دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے بچوں کو وہاں سے ڈرا دھمکا کر بھگایا کہ کسی سے ذکر کیا تو جان سے مار دوں گا اور اندر سے بند کر لیا۔
جب مقدس کے رونے کی آوازیں آئی تو بچے ڈر کے مارے اپنے اپنے گھر بھاگے مگر بھائی نے گھر جا کے ماں کو بتایا کہ مولوی نے بہن کو بند کر دیا ہے اور اندر سے آپی کے رونے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔
کھیتوں پہ کام سے گیا باپ جب تک واپس آتا تب تک مقدّس کے لیئے بہت دیر ہوچکی تھی۔ دو گھنٹے ہو چکے تھے اور وہ نازک بچّی خون میں لت پت، بے لباس منبر کے سامنے بے ہوش پڑی تھی۔ باپ عموما بہت مظبوط ہوتے ہیں مگر اس دن مسجد کے حجرے سے جس کے منبر کے ساتھ کلمہ پاک اور سورہ رحمٰن کے عکس آویزاں، تاک پہ سپارے و قرآن پاک کےکئی نسخے پڑے ہوں، وہاں سے خون میں لت پت بے لباس و بے ہوش بچی کو بازؤں میں بھر کر لے جانے کی ہمت وہ غریب باپ بڑی مشکل سے جٹا پایا۔
ہوش آنے پہ مقدّس نے ان لوگوں کے نام بتایے جن میں درسِ قرآن دینے والا مولوی اور اسکی سنگت کے نو بالغ لڑکے شامل تھے۔
مسجد کے اسی "مقدّس" حجرے میں "تقدّس" کا لبادہ اوڑھے چار شیطانوں نے دس سالہ معصوم "مقدّس" پر گینگ ریپ کے ساتھ ساتھ بربریت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے انسانیت سوز تشدّد کا نشانہ بنایا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ بتاتی ہے کہ اسکا دایاں پھیپھڑا دب چکا تھا جس سے سانس لینے میں تکلیف تھی، گلا بھی اس بری طرح زخمی کہ واقعے کے بعد وہ جو دو دن زندہ رہی نہ کھانا نہ پانی کچھ بھی حلق سے نیچے نہ اترا اور نہ ہی اس نے کوئی زیادہ بات کی۔
دو دن وہ اسی گاؤں میں ماں کے بازؤں میں تڑپتی رہی۔ گھر میں پیسے ہی کہاں تھے کہ علاج کے لئے بدین تک ہی پہنچ پاتے۔ دو دن بعد بہتے خون کے ساتھ ہسپتال پہنچا بھی تو اسکا مردہ جسم، جس کے لیئے رپورٹ میں یہی درج تھا کہ زیادہ خون بہنے سے اسکا جسم پیلا ہو چکا تھا جسکی وجہ سے پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
مقدّس جس مدرسے و مسجد کے حجرے میں منبر کے سامنے یوں جنسی تشدد کا شکار بنا کر موت کے گھاٹ اتاری گئی۔ وہاں پہ نمازی دیکھ کر میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر تھی کہ اس مسجد کو پھر سے نماز پڑھنے کے لیئے کیسے پاک کیا گیا ھوگا؟ مگر وہاں نماز پڑھتے ایک بوڑھے کا غصہ دیدنی لائق تھا جب وہ "کافر، کافر، مشرک!" کہتے ہم پہ چڑھ دوڑا کہ تصویر بنا کر ہم نے مسجد کو ناپاک کر دیا ہے!
سانحے کے بعد حکمران جماعت کے ذالفقار مرزا اور سکندر مندھرو اسی کچی سڑک سے ہوتے ہوئے اسکے ورثا تک ضرور پہنچے مگر انصاف کے حصول کا وعدہ اس بلاول بھٹو نے بھی نہیں کیا جس نے واقعے کا نوٹس لیا۔
البتہ اسی دن کڈھن تھانے کے لاک اپ میں مولوی اینڈ کمپنی کو جس سکون میں پایا گیا اس سے پولیس کی تفتیش کے بارے میں ورثا کی تشویش غیر حقیقی بالکل نہیں لگی۔
http://urdu.dawn.com/news/1004313/23apr14-muqaddas-rape-kadhan-village-mosque-amar-sindhu-aq