مقدّس ریپ کیس

صرف علی

محفلین
۔
مقدّس ریپ
امر سندھو تاریخ اشاعت 24 اپريل, 2014



شیئر کریں
ای میل
16 تبصرے
پرنٹ کریں
5358257d36a8e.jpg

5358257d36a8e.jpg

5358257b50834.jpg

5358257ecde26.jpg

5358258093e1f.jpg

5358257f72281.jpg


وہ بدنصیب نہ دلّی کی ابھاگن ‘امانت’ تھی نہ کسی نے اسے ‘دامنی’ کہا، نہ مقامی سول سوسائٹی اور نہ یہاں فلمی دنیا کے کسی امیتابھ بچن نے اس کے لیئے تڑپتے دل سے کوئی ایسی روح چھو دینے والی نظم لکھی؛


وقت گزرنے کے ساتھ،

شمع کی لو ٹھنڈی ہو کر بجھ جائے گی

عقیدت سے نچھاور کیے پھول

بن پانی خشک ھو کر مرجھا جائیں گے

احتجاج میں بولتی اور خاموش آوازیں

اپنی قوت کھو دیں گیں

مگر ھماری آنکھوں کے آنسو

خشک اور مرجھائے پھولوں کو تر کریں گے اور

ھمارے دھکتے گلوں سے

’دامنی ’ ‘امانت’ کی آواز پوری دنیا میں گونجے گی۔۔۔۔

(دلی ریپ کیس پہ امیتابھ بچن کی نظم)

مگر بدین کے دور دراز علاقے‘کڈھن’ کی "مقدّس" کے لیئے ایسی نظم ہمارے امیتابھوں نے تو کیا کسی نے بھی نہیں لکھی۔ نہ کوئی شور مچا، نہ ہی کسی نے اٹھہ کر کہا کہ ‘اب بہت ہو چکا’!!!

"مقدّس کی موت بھی اتنی ہی خاموشی سے گذری تھی جتنی اسکی اذیت۔ ہاں وہ دلّی کی امانت یا دامنی کہاں تھی، کہ جس کے بھیمانہ قتل پہ دارالخلافہ کے ساتھ پورا دیس بمعہ مرد و زن، میڈیا، فلم انڈسڑی، سول سوسائٹی انسانی حقوق اس طرح اٹھ کھڑے ھوئے کہ دلی کی حکومت یوں پریشر میں آئی کہ خصوصی طیارے سے نہ صرف دامنی یا امانت کو علاج کی خاطر سنگاپور بھیجا گیا بلکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی تہیہ کر لیا کہ ‘اب بہت ھوچکا’ اور یوں انہوں نے پہلی مرتبہ ریپ کے قانون میں ترمیم کرنے کے لیئے تجاویز کے لیئے براہِ راست عوام سے رجوع کیا گیا اور نتیجہ میں پاس ھوا Criminal Law (Amendment) Ordinance, 2013 جس میں جنسی تشدد سے متعلق چھہ خصوصی عدالتوں کا قیام ممکن ھوا۔

ہندوستان کی سول سوسائٹی بے شک دامنی کو بچا نہیں پائی مگر اسکے بہیمانہ قتل اور جنسی تشدد نے پورے ہندوستان کو عورتوں پہ جنسی تشدد کے خلاف سڑکوں پہ احتجاج پہ یوں مجبور کیا کہ عورتوں کے تحفظ کے لیئے ہر مکتبہِ فکر سے آواز اٹھی۔

مگر بدین کے دور دراز علاقے کڈھن کی دس سالہ"مقدّس" ایسی خوش قسمت کہاں تھی۔ بڑا شہر تو در کنار، اسکے گاؤں کے کچے رستے کے اور کچی قبر تک پہنچتے ہی لگا تھا کہ یہ آنکھ سے اوجھل کوئی اور ہی دنیا ہے جہاں کے کتے تو بھوکنے میں آزاد ہیں مگر درد سے کراھنا بھی شاید کوئی گناھِ کبیرہ ۔۔۔۔

جس قتل پہ ماں نے بھی درد کے مارے آنسو پی لیئے ہوں اس مقدّس کے مقدر میں ایسی کوئی چیز کہاں کہ اسکے قتل پہ حکومتِ پاکستان اور عدلیہ کے دل میں یوں درد جاگتا کہ وہ علاج کے لیئے بذریعہ خصوصی طیارہ سنگاپور نہ سہی بدین کے سول ھسپتال ہی پہنچ پاتے۔

چلو عدلیہ کوئی خاص نیا قانون نہ ہی بناتی مگر یہی مقدمہ دہشت گردی کورٹ میں چلانے کی اجازت دے دیتی کہ ھماری مقدّس بھی دو دن اسی جھنم میں تڑپتی رہی تھی۔ جب آخر کو کسی طرح اسکا کھیت مزدور والد کرائے کی گاڑی لیکر شہر کی ڈاکٹرنی تک پہنچا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی ہسپتال پہنچنے سے کوئی آدھا گھنٹا پہلے زندگی کی جنگ ہار چکی تھی، مگر خون ابھی تک جاری تھا۔

پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں تو اس جہنم کی پوری داستان تھی جو چار لوگوں نے مل کر اسے جسم میں اتارا ۔۔۔ مگر یہ ماں تھی جو کہہ رہی تھی کہ واقعے کے کچھ وقت تو بمشکل بچی نے اپنے ساتھ ہونے والی قیامت کا ذکر کیا اور انکے نام بھی بتائے کہ کس طرح انہوں نے مل کر اسے قابو کیا۔ پر اس کے بعد مقدّس کا گلا نہ کسی سے بات کرنے کے قابل رہا اور نہ ہی پھر وہ پانی کا گھونٹ تک حلق سے نیچے اتار سکی۔ اسکی سانس میں بہت تکلیف تھی اور خون بھی جاری تھا۔ جان دیتے وقت جسمانہ تکلیف اپنی جگہ مگر وہ تو بھوکی اور پیاسی بھی رہی ہوگی۔ اس کی موت کی داستان کچھہ یوں تھی؛

گاؤں خوشی محمد میں واقع واحد مسجد میں تین سال سے مقیم قاری نے جس دن بچیوں کو قرآں پاک پڑھانا شروع کیا اس ہی دن سے دس سال کی مقدّس کلی نے اپنے چھہ سالہ بھائی کے ساتھ مدرسہ جانے کی ضد پکڑ لی تھی۔ "مدرسے میں پڑھ کر میں عالمہ بنوں گی"

اسکی بارہ سالہ بڑی بہن پولیو کی مریض اور ذہنی معذور تھی اس لیئے لے دے کر یہی دس سالہ مقدس تھی جو عام طور پہ گھر کے چھوٹے بڑے کاموں میں ہاتھ بٹا لیا کرتی تھی اور ماں کو اک ڈھارس سی بندھی رہتی تھی۔ پھر بھی وہ بیچاری ماں مقدّس کے مدرسے جا کے عالمہ بننے کی خواھش میں یہ سوچ کر زیادہ رکاوٹ نہ بنی کہ اسکے عقیدے حساب سے روزِ محشر یہی سہارا نجات کا سامان بننا تھا۔

وہ سادہ دل ماں کہاں جانتی تھی کہ بچیوں کو قرآن پڑھانے کے بہانے مدرسے کا وہ شیطان صفت ملعون 'قاری' انکی زندگی میں اک اور محشر اتارنے والا ہے۔ اور یوں مدرسے جانے کے پہلے دن مقدّس بھی 'عالمہ' بننے کی خواہش لیئے گھر سے کچھ ہی دور مدرسے گئی۔

مولوی قرآن کا پہلا سبق دیتے ساری بچیوں کو تولتا، پرکھتا اور تاڑتا رہا کہ کون سی بچی میں زیادہ مزاحمت کی قوت نہیں ہوگی اور کون سی بچی یوں آسان شکار بنے گی جس کو ڈرانے دھمکانے میں بھی کوئی زیادہ وقت نہ لگے گا۔

یوں شاید پہلے ہی دن مقدس اپنی چھوٹی عمر اور ڈرے سہمے حلیے سے قاری کو شکار کے لیئے سب سے مناسب نظر آئی ہوگی۔ مولوی کا ارادہ ممکن ہے کہ ان نو بالغ لڑکوں کو خوش کرنا بھی ہو جو اس کے ساتھ پرانے وقت سے گاڑھی سنگت میں تھے۔

دوسرے دن جب مقدس اپنے چھوٹے بھائی اور دوسرے بچوں کے ساتھ درس قرآن کے لیئے مدرسے پہنچی تو مولوی نے مسجد کے اسی حجرے میں جہاں نماز کی صف بندھتی تھی، منبر کے سامنے ہی بچوں کو سبق دینے کے بعد رخصت ہونے کے لیئے کہا اور مقدس کو یہ کہہ کر روکے رکھا کہ 'اس کو ابھی سبق یاد نہیں، میں اس کو سبق یاد کرا کر بعد میں چھٹی دوں گا'۔

چونکہ وہ بھائی کے ساتھ آئی تھی اس لیئے بھائی اور دوسرے بچے بھی وہیں کھڑے رہے کہ ساتھ ہی گھر چلیں گے۔ جب تک مولوی نے حجرے کے باقی دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے بچوں کو وہاں سے ڈرا دھمکا کر بھگایا کہ کسی سے ذکر کیا تو جان سے مار دوں گا اور اندر سے بند کر لیا۔

جب مقدس کے رونے کی آوازیں آئی تو بچے ڈر کے مارے اپنے اپنے گھر بھاگے مگر بھائی نے گھر جا کے ماں کو بتایا کہ مولوی نے بہن کو بند کر دیا ہے اور اندر سے آپی کے رونے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔

کھیتوں پہ کام سے گیا باپ جب تک واپس آتا تب تک مقدّس کے لیئے بہت دیر ہوچکی تھی۔ دو گھنٹے ہو چکے تھے اور وہ نازک بچّی خون میں لت پت، بے لباس منبر کے سامنے بے ہوش پڑی تھی۔ باپ عموما بہت مظبوط ہوتے ہیں مگر اس دن مسجد کے حجرے سے جس کے منبر کے ساتھ کلمہ پاک اور سورہ رحمٰن کے عکس آویزاں، تاک پہ سپارے و قرآن پاک کےکئی نسخے پڑے ہوں، وہاں سے خون میں لت پت بے لباس و بے ہوش بچی کو بازؤں میں بھر کر لے جانے کی ہمت وہ غریب باپ بڑی مشکل سے جٹا پایا۔

ہوش آنے پہ مقدّس نے ان لوگوں کے نام بتایے جن میں درسِ قرآن دینے والا مولوی اور اسکی سنگت کے نو بالغ لڑکے شامل تھے۔

مسجد کے اسی "مقدّس" حجرے میں "تقدّس" کا لبادہ اوڑھے چار شیطانوں نے دس سالہ معصوم "مقدّس" پر گینگ ریپ کے ساتھ ساتھ بربریت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے انسانیت سوز تشدّد کا نشانہ بنایا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ بتاتی ہے کہ اسکا دایاں پھیپھڑا دب چکا تھا جس سے سانس لینے میں تکلیف تھی، گلا بھی اس بری طرح زخمی کہ واقعے کے بعد وہ جو دو دن زندہ رہی نہ کھانا نہ پانی کچھ بھی حلق سے نیچے نہ اترا اور نہ ہی اس نے کوئی زیادہ بات کی۔

دو دن وہ اسی گاؤں میں ماں کے بازؤں میں تڑپتی رہی۔ گھر میں پیسے ہی کہاں تھے کہ علاج کے لئے بدین تک ہی پہنچ پاتے۔ دو دن بعد بہتے خون کے ساتھ ہسپتال پہنچا بھی تو اسکا مردہ جسم، جس کے لیئے رپورٹ میں یہی درج تھا کہ زیادہ خون بہنے سے اسکا جسم پیلا ہو چکا تھا جسکی وجہ سے پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

مقدّس جس مدرسے و مسجد کے حجرے میں منبر کے سامنے یوں جنسی تشدد کا شکار بنا کر موت کے گھاٹ اتاری گئی۔ وہاں پہ نمازی دیکھ کر میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر تھی کہ اس مسجد کو پھر سے نماز پڑھنے کے لیئے کیسے پاک کیا گیا ھوگا؟ مگر وہاں نماز پڑھتے ایک بوڑھے کا غصہ دیدنی لائق تھا جب وہ "کافر، کافر، مشرک!" کہتے ہم پہ چڑھ دوڑا کہ تصویر بنا کر ہم نے مسجد کو ناپاک کر دیا ہے!

سانحے کے بعد حکمران جماعت کے ذالفقار مرزا اور سکندر مندھرو اسی کچی سڑک سے ہوتے ہوئے اسکے ورثا تک ضرور پہنچے مگر انصاف کے حصول کا وعدہ اس بلاول بھٹو نے بھی نہیں کیا جس نے واقعے کا نوٹس لیا۔

البتہ اسی دن کڈھن تھانے کے لاک اپ میں مولوی اینڈ کمپنی کو جس سکون میں پایا گیا اس سے پولیس کی تفتیش کے بارے میں ورثا کی تشویش غیر حقیقی بالکل نہیں لگی۔
http://urdu.dawn.com/news/1004313/23apr14-muqaddas-rape-kadhan-village-mosque-amar-sindhu-aq
 

صرف علی

محفلین
صرف یہ پڑھنا کافی نہیں یہ اس کی وجوہات کو دیکھنا چاہیے کیوں ایسا ہو رہا ہے افسوس کا مقام یہ ہے پاکستان میں ایسے کیس میں یہ مولوی لوگ بچ جاتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔
لیکن کس کس کا افسوس کریں؟ دیہاتوں میں ایسے واقعات بہت ہوتے ہیں۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہی کر سکتے ہیں۔
 

مقدس

لائبریرین
یہ پاکستان ہے جو ایک اسلامک کنٹری ہونی چاہیے۔۔۔ یہ کیسا اسلامی ملک ہے۔۔ میرے اللہ۔۔ اتنا ظلم۔۔۔۔ کچھ نہیں لکھا جا رہا۔۔۔ بس بد دعائیں ہی ہیں میرے پاس۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
ہم ایسے درندہ صفت حرامزادے مولوی اور اس کے کنجر لونڈوں کو کیسے کچھ لکھ سکتے ہیں۔۔۔ اسلام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔۔۔
اس لیے اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ایسے واقعات تو بہت عام ہیں۔۔۔ کوئی بات نہیں، ہوتا رہتا ہے۔ دعا کریں۔
جب تک ہماری اپنی سگی بیٹی ہماری اپنی سگی بہن اس درندگی کا نشانہ نہیں بنتی تب تک ہم لوگوں کو چار قل اور آیت الکرسی جیسی دعائیں یاد کروا کے پڑھنے کی تلقین ہی کریں گے
 
۔
مقدّس ریپ
امر سندھو تاریخ اشاعت 24 اپريل, 2014



شیئر کریں
ای میل
16 تبصرے
پرنٹ کریں
5358257d36a8e.jpg

5358257d36a8e.jpg

5358257b50834.jpg

5358257ecde26.jpg

5358258093e1f.jpg

5358257f72281.jpg

وہ بدنصیب نہ دلّی کی ابھاگن ‘امانت’ تھی نہ کسی نے اسے ‘دامنی’ کہا، نہ مقامی سول سوسائٹی اور نہ یہاں فلمی دنیا کے کسی امیتابھ بچن نے اس کے لیئے تڑپتے دل سے کوئی ایسی روح چھو دینے والی نظم لکھی؛

وقت گزرنے کے ساتھ،

شمع کی لو ٹھنڈی ہو کر بجھ جائے گی

عقیدت سے نچھاور کیے پھول

بن پانی خشک ھو کر مرجھا جائیں گے

احتجاج میں بولتی اور خاموش آوازیں

اپنی قوت کھو دیں گیں

مگر ھماری آنکھوں کے آنسو

خشک اور مرجھائے پھولوں کو تر کریں گے اور

ھمارے دھکتے گلوں سے

’دامنی ’ ‘امانت’ کی آواز پوری دنیا میں گونجے گی۔۔۔ ۔

(دلی ریپ کیس پہ امیتابھ بچن کی نظم)

مگر بدین کے دور دراز علاقے‘کڈھن’ کی "مقدّس" کے لیئے ایسی نظم ہمارے امیتابھوں نے تو کیا کسی نے بھی نہیں لکھی۔ نہ کوئی شور مچا، نہ ہی کسی نے اٹھہ کر کہا کہ ‘اب بہت ہو چکا’!!!

"مقدّس کی موت بھی اتنی ہی خاموشی سے گذری تھی جتنی اسکی اذیت۔ ہاں وہ دلّی کی امانت یا دامنی کہاں تھی، کہ جس کے بھیمانہ قتل پہ دارالخلافہ کے ساتھ پورا دیس بمعہ مرد و زن، میڈیا، فلم انڈسڑی، سول سوسائٹی انسانی حقوق اس طرح اٹھ کھڑے ھوئے کہ دلی کی حکومت یوں پریشر میں آئی کہ خصوصی طیارے سے نہ صرف دامنی یا امانت کو علاج کی خاطر سنگاپور بھیجا گیا بلکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی تہیہ کر لیا کہ ‘اب بہت ھوچکا’ اور یوں انہوں نے پہلی مرتبہ ریپ کے قانون میں ترمیم کرنے کے لیئے تجاویز کے لیئے براہِ راست عوام سے رجوع کیا گیا اور نتیجہ میں پاس ھوا Criminal Law (Amendment) Ordinance, 2013 جس میں جنسی تشدد سے متعلق چھہ خصوصی عدالتوں کا قیام ممکن ھوا۔

ہندوستان کی سول سوسائٹی بے شک دامنی کو بچا نہیں پائی مگر اسکے بہیمانہ قتل اور جنسی تشدد نے پورے ہندوستان کو عورتوں پہ جنسی تشدد کے خلاف سڑکوں پہ احتجاج پہ یوں مجبور کیا کہ عورتوں کے تحفظ کے لیئے ہر مکتبہِ فکر سے آواز اٹھی۔

مگر بدین کے دور دراز علاقے کڈھن کی دس سالہ"مقدّس" ایسی خوش قسمت کہاں تھی۔ بڑا شہر تو در کنار، اسکے گاؤں کے کچے رستے کے اور کچی قبر تک پہنچتے ہی لگا تھا کہ یہ آنکھ سے اوجھل کوئی اور ہی دنیا ہے جہاں کے کتے تو بھوکنے میں آزاد ہیں مگر درد سے کراھنا بھی شاید کوئی گناھِ کبیرہ ۔۔۔ ۔

جس قتل پہ ماں نے بھی درد کے مارے آنسو پی لیئے ہوں اس مقدّس کے مقدر میں ایسی کوئی چیز کہاں کہ اسکے قتل پہ حکومتِ پاکستان اور عدلیہ کے دل میں یوں درد جاگتا کہ وہ علاج کے لیئے بذریعہ خصوصی طیارہ سنگاپور نہ سہی بدین کے سول ھسپتال ہی پہنچ پاتے۔

چلو عدلیہ کوئی خاص نیا قانون نہ ہی بناتی مگر یہی مقدمہ دہشت گردی کورٹ میں چلانے کی اجازت دے دیتی کہ ھماری مقدّس بھی دو دن اسی جھنم میں تڑپتی رہی تھی۔ جب آخر کو کسی طرح اسکا کھیت مزدور والد کرائے کی گاڑی لیکر شہر کی ڈاکٹرنی تک پہنچا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی ہسپتال پہنچنے سے کوئی آدھا گھنٹا پہلے زندگی کی جنگ ہار چکی تھی، مگر خون ابھی تک جاری تھا۔

پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں تو اس جہنم کی پوری داستان تھی جو چار لوگوں نے مل کر اسے جسم میں اتارا ۔۔۔ مگر یہ ماں تھی جو کہہ رہی تھی کہ واقعے کے کچھ وقت تو بمشکل بچی نے اپنے ساتھ ہونے والی قیامت کا ذکر کیا اور انکے نام بھی بتائے کہ کس طرح انہوں نے مل کر اسے قابو کیا۔ پر اس کے بعد مقدّس کا گلا نہ کسی سے بات کرنے کے قابل رہا اور نہ ہی پھر وہ پانی کا گھونٹ تک حلق سے نیچے اتار سکی۔ اسکی سانس میں بہت تکلیف تھی اور خون بھی جاری تھا۔ جان دیتے وقت جسمانہ تکلیف اپنی جگہ مگر وہ تو بھوکی اور پیاسی بھی رہی ہوگی۔ اس کی موت کی داستان کچھہ یوں تھی؛

گاؤں خوشی محمد میں واقع واحد مسجد میں تین سال سے مقیم قاری نے جس دن بچیوں کو قرآں پاک پڑھانا شروع کیا اس ہی دن سے دس سال کی مقدّس کلی نے اپنے چھہ سالہ بھائی کے ساتھ مدرسہ جانے کی ضد پکڑ لی تھی۔ "مدرسے میں پڑھ کر میں عالمہ بنوں گی"

اسکی بارہ سالہ بڑی بہن پولیو کی مریض اور ذہنی معذور تھی اس لیئے لے دے کر یہی دس سالہ مقدس تھی جو عام طور پہ گھر کے چھوٹے بڑے کاموں میں ہاتھ بٹا لیا کرتی تھی اور ماں کو اک ڈھارس سی بندھی رہتی تھی۔ پھر بھی وہ بیچاری ماں مقدّس کے مدرسے جا کے عالمہ بننے کی خواھش میں یہ سوچ کر زیادہ رکاوٹ نہ بنی کہ اسکے عقیدے حساب سے روزِ محشر یہی سہارا نجات کا سامان بننا تھا۔

وہ سادہ دل ماں کہاں جانتی تھی کہ بچیوں کو قرآن پڑھانے کے بہانے مدرسے کا وہ شیطان صفت ملعون 'قاری' انکی زندگی میں اک اور محشر اتارنے والا ہے۔ اور یوں مدرسے جانے کے پہلے دن مقدّس بھی 'عالمہ' بننے کی خواہش لیئے گھر سے کچھ ہی دور مدرسے گئی۔

مولوی قرآن کا پہلا سبق دیتے ساری بچیوں کو تولتا، پرکھتا اور تاڑتا رہا کہ کون سی بچی میں زیادہ مزاحمت کی قوت نہیں ہوگی اور کون سی بچی یوں آسان شکار بنے گی جس کو ڈرانے دھمکانے میں بھی کوئی زیادہ وقت نہ لگے گا۔

یوں شاید پہلے ہی دن مقدس اپنی چھوٹی عمر اور ڈرے سہمے حلیے سے قاری کو شکار کے لیئے سب سے مناسب نظر آئی ہوگی۔ مولوی کا ارادہ ممکن ہے کہ ان نو بالغ لڑکوں کو خوش کرنا بھی ہو جو اس کے ساتھ پرانے وقت سے گاڑھی سنگت میں تھے۔

دوسرے دن جب مقدس اپنے چھوٹے بھائی اور دوسرے بچوں کے ساتھ درس قرآن کے لیئے مدرسے پہنچی تو مولوی نے مسجد کے اسی حجرے میں جہاں نماز کی صف بندھتی تھی، منبر کے سامنے ہی بچوں کو سبق دینے کے بعد رخصت ہونے کے لیئے کہا اور مقدس کو یہ کہہ کر روکے رکھا کہ 'اس کو ابھی سبق یاد نہیں، میں اس کو سبق یاد کرا کر بعد میں چھٹی دوں گا'۔

چونکہ وہ بھائی کے ساتھ آئی تھی اس لیئے بھائی اور دوسرے بچے بھی وہیں کھڑے رہے کہ ساتھ ہی گھر چلیں گے۔ جب تک مولوی نے حجرے کے باقی دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے بچوں کو وہاں سے ڈرا دھمکا کر بھگایا کہ کسی سے ذکر کیا تو جان سے مار دوں گا اور اندر سے بند کر لیا۔

جب مقدس کے رونے کی آوازیں آئی تو بچے ڈر کے مارے اپنے اپنے گھر بھاگے مگر بھائی نے گھر جا کے ماں کو بتایا کہ مولوی نے بہن کو بند کر دیا ہے اور اندر سے آپی کے رونے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔

کھیتوں پہ کام سے گیا باپ جب تک واپس آتا تب تک مقدّس کے لیئے بہت دیر ہوچکی تھی۔ دو گھنٹے ہو چکے تھے اور وہ نازک بچّی خون میں لت پت، بے لباس منبر کے سامنے بے ہوش پڑی تھی۔ باپ عموما بہت مظبوط ہوتے ہیں مگر اس دن مسجد کے حجرے سے جس کے منبر کے ساتھ کلمہ پاک اور سورہ رحمٰن کے عکس آویزاں، تاک پہ سپارے و قرآن پاک کےکئی نسخے پڑے ہوں، وہاں سے خون میں لت پت بے لباس و بے ہوش بچی کو بازؤں میں بھر کر لے جانے کی ہمت وہ غریب باپ بڑی مشکل سے جٹا پایا۔

ہوش آنے پہ مقدّس نے ان لوگوں کے نام بتایے جن میں درسِ قرآن دینے والا مولوی اور اسکی سنگت کے نو بالغ لڑکے شامل تھے۔

مسجد کے اسی "مقدّس" حجرے میں "تقدّس" کا لبادہ اوڑھے چار شیطانوں نے دس سالہ معصوم "مقدّس" پر گینگ ریپ کے ساتھ ساتھ بربریت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے انسانیت سوز تشدّد کا نشانہ بنایا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ بتاتی ہے کہ اسکا دایاں پھیپھڑا دب چکا تھا جس سے سانس لینے میں تکلیف تھی، گلا بھی اس بری طرح زخمی کہ واقعے کے بعد وہ جو دو دن زندہ رہی نہ کھانا نہ پانی کچھ بھی حلق سے نیچے نہ اترا اور نہ ہی اس نے کوئی زیادہ بات کی۔

دو دن وہ اسی گاؤں میں ماں کے بازؤں میں تڑپتی رہی۔ گھر میں پیسے ہی کہاں تھے کہ علاج کے لئے بدین تک ہی پہنچ پاتے۔ دو دن بعد بہتے خون کے ساتھ ہسپتال پہنچا بھی تو اسکا مردہ جسم، جس کے لیئے رپورٹ میں یہی درج تھا کہ زیادہ خون بہنے سے اسکا جسم پیلا ہو چکا تھا جسکی وجہ سے پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

مقدّس جس مدرسے و مسجد کے حجرے میں منبر کے سامنے یوں جنسی تشدد کا شکار بنا کر موت کے گھاٹ اتاری گئی۔ وہاں پہ نمازی دیکھ کر میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر تھی کہ اس مسجد کو پھر سے نماز پڑھنے کے لیئے کیسے پاک کیا گیا ھوگا؟ مگر وہاں نماز پڑھتے ایک بوڑھے کا غصہ دیدنی لائق تھا جب وہ "کافر، کافر، مشرک!" کہتے ہم پہ چڑھ دوڑا کہ تصویر بنا کر ہم نے مسجد کو ناپاک کر دیا ہے!

سانحے کے بعد حکمران جماعت کے ذالفقار مرزا اور سکندر مندھرو اسی کچی سڑک سے ہوتے ہوئے اسکے ورثا تک ضرور پہنچے مگر انصاف کے حصول کا وعدہ اس بلاول بھٹو نے بھی نہیں کیا جس نے واقعے کا نوٹس لیا۔

البتہ اسی دن کڈھن تھانے کے لاک اپ میں مولوی اینڈ کمپنی کو جس سکون میں پایا گیا اس سے پولیس کی تفتیش کے بارے میں ورثا کی تشویش غیر حقیقی بالکل نہیں لگی۔
http://urdu.dawn.com/news/1004313/23apr14-muqaddas-rape-kadhan-village-mosque-amar-sindhu-aq
ذمہ دار کون ؟
ایسے غافل نااہل حکمران ،-------- جو فحاشی کی روانی کو نہیں روک سکےایک بڑا سبب فحش مواد جو جذبات کو بھڑکا دیتا ہے
بچوں کی تربیت سے غفلت والدین ، ---- بچہ ہے کوئی بات نہیں ، آج کی کوئی بات نہیں کتنے المیے دیتی ہے اس معاشرے کو
فرقہ واریت پھیلانے والے مذہبی راہنما ،---------- کیا منبر و مسند اس لیے کہ فرقہ واریت پھیلاو ،عوام الناس کواخلاقیات کا درس کون دے گا، اللہ کے رسول ﷺ تو کہیں کہ میں اعلی اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں اور آپ لوگوں کو کوئی اور ہی کام زیادہ ضروری
قانون کے رکھوالے، ----رشوت، حرام خوری قانون پر مکمل عملدرآمد – اس طرح کے آٹھ دس کو سرعام لٹکا دو
ہم سب ذمہ دار ، ایک عجیب غفلت بے حسی ہے
سوئے رہتے ہیں اس وقت تک کہ اپنا گھر نہیں جلنے لگتا، تو جب دوسرے کا گھر جلتا دیکھ کر سو جاتے ہو تو دوسرا بھی سوئے گا
اس سے پہلے ایک پوسٹ بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے 9 واقعات- ایک دن کی رپوٹ ، اپ یہ پوسٹ ملاحظہ کریں اور سر دھنئے کہ کس قدر بے حسی ہے ہم سب میں
اس فورم بہت ہی عمدہ شاعر حضرات اور کمال کے ادیب ہیں ۔ سے میری مؤدبانہ درخواست ہے آپ ایک ادھی نظم ، نثر ان المیوں اور ان کی وجوہات پر بھی لکھ دیں
اللہ آپ کو بہترین اجر دے گا (عمل کی جزا کا دارومدار نیت پر ہے)، اور وہ سب سے بہتر اجر دینے والا ہے ، کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معذرت کہ بڑے اور اعلی ظرف معاف کردیا کرتے ہیں
 
انا للہ و انا الیہ راجعون انتہائی دکھ اور تکلیف اور بے بسی کا احساس ہوا اللہ ہمیں معاف کرے، اللہ کی رحمت سے پر امید ہیں لیکن کیا ایسے ظلم کے بعد بھی ہم کسی معافی کے قابل ہیں۔
 

arifkarim

معطل
صرف یہ پڑھنا کافی نہیں یہ اس کی وجوہات کو دیکھنا چاہیے کیوں ایسا ہو رہا ہے افسوس کا مقام یہ ہے پاکستان میں ایسے کیس میں یہ مولوی لوگ بچ جاتے ہیں
وجوہات؟ وجوہات وہی ہیں جو ہر پسماندہ ملک، علاقے میں ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں ایک وجہ مذہب کی بھی ہے اسلئے اس سے پہلے کہ مجھ پر لگے فتٰوی میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے مجھے اپنے ہاتھ کیبورڈ سے اٹھا لینے چاہیئے!

یہ پاکستان ہے جو ایک اسلامک کنٹری ہونی چاہیے۔۔۔ یہ کیسا اسلامی ملک ہے۔۔ میرے اللہ۔۔ اتنا ظلم۔۔۔ ۔ کچھ نہیں لکھا جا رہا۔۔۔ بس بد دعائیں ہی ہیں میرے پاس۔۔۔
مقدس، یہ سب کچھ اسلامک کنٹری یا ماحول ہی کی پیداوار ہے۔ انگریز یا مہذب معاشروں میں رہنے والے اس قسم کے گھناؤنے کام نہیں کرتے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اپنے ملک برطانیہ میں گوری لڑکیوں کا گینگ ریپ کرنے والے پاکستانی کنجروں کے یہ خوفناک چہرے دیکھ لیں:
oxford-guilty_2562697b.jpg

http://www.telegraph.co.uk/news/uknews/crime/10146369/Oxford-sex-grooming-gang-jailed-for-life.html

ہم ایسے درندہ صفت حرامزادے مولوی اور اس کے کنجر لونڈوں کو کیسے کچھ لکھ سکتے ہیں۔۔۔ اسلام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔۔۔
اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک گندے گھناؤنے اور پسماندہ معاشرے کی پیداوار ہیں۔ یہی لوگ پاکستان میں ہوں یا برطانیہ جیسے جدید ملک میں۔ حرکات اور عملیات وہی رہیں گے کیونکہ نقل مکانی کر لینے سے تہذیب بدل نہیں جاتی!
 

نایاب

لائبریرین
اس کیس میں بھی چار عینی گواہ نہ مل پائیں گے ۔ اور " مولانا " صاف بری ہوجائیں گے ۔۔
اور پھر کسی "مقدس " کسی " محترم " کو " علم " کے نام پر اپنی حیوانیت کا نشانہ بنائیں گے ۔۔
حق تعالی غارت فرمائے ایسے " ملعونوں " کو ۔۔۔۔۔۔۔۔آمین
 

دلاور خان

لائبریرین
ایسے لوگوں کو عبرت کا نشان بنانا چاہیے۔ ایسا کہ ان کو دیکھ کر آئندہ کوئی ایسے گھناؤنے کام کا سوچے تک نہیں۔
بھوکے کتوں سے نچوانا چاہیے انہیں ایسے کہ مرنے بھی نہ پائیں اور اذیب میں رہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایسے لوگوں کو عبرت کا نشان بنانا چاہیے۔ ایسا کہ ان کو دیکھ کر آئندہ کوئی ایسے گھناؤنے کام کا سوچے تک نہیں۔
بھوکے کتوں سے نچوانا چاہیے انہیں ایسے کہ مرنے بھی نہ پائیں اور اذیب میں رہیں۔
انتہائی متفق۔
 
اس کیس میں بھی چار عینی گواہ نہ مل پائیں گے ۔ اور " مولانا " صاف بری ہوجائیں گے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
یہی تو المیہ ہے کہ اس جدید دور میں بھی اس اندھے قانون کو چار گواہ ہی چاہیئے۔ :(
اگر آپ حدود اور تعزیر کی اسلامی سزاوں سے واقف ہوتے توآپ کچھ اور بات کرتے - آپ کسی مستند اسلامی سکالر سے اس بارے میں دریافت کر لیں تو بات واضح ہو جائے گی
 

صائمہ شاہ

محفلین
یہ سب پڑھنے کا بھی حوصلہ نہیں پاتی ہوں خود میں دس سال کی معصوم بچی اس سے آگے کچھ پڑھا ہی نہیں جاتا کیسے درندے ہیں کیسا انصاف ہے کیسی غُربت ہے یا اللہ ۔۔۔۔
 
Top