مہدی نقوی حجاز
محفلین
حضور بات یہ ہے کہ ہماری امی جان کو ہماری بہت فکر رہا کرتی ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف، سیع و سرنوشت ساز ابواب پر اہلِ خانہ کے قہوہ خواری کے اوقات میں، بحث و مباحثہ جاری کرواتی ہیں اور صدارت کی کرسی اپنے ہی ہاتھ میں رکھتی ہیں!
اب جو ان پر ہماری جوانی کے بارے مختلف اوہام و خیالات کے الہام (شاید خواب میں) کا سلسلہ جاری ہوا تو ہماری راتوں کے ساتھ دن بھی کالے ہونے لگے۔ روز کسی پاک دامن دوشیزہ سے بحث کا موسلادھار آغاز ہوتا اور انہیں کے اوباش بھائی اور کبھی کبھی تو باپ دادا وغیرہ کی کوتاہیوں پر ہمارے پرشور اعتراض کے ساتھ تھمتا۔
آخر ایک دن ہماری جو شامت آئی تو ہاتھ پکڑ کر ہمیں کسی خوبرو (بقول ان کے) کے گھر گھسیٹ لے چلیں۔
پہنچے تو ہمیں منہ سے ایک لفظ نکالنے کیا بلکہ چائے پینے کی خاطر بھی (بہ لحاظ ادب) منہ کھولنے کی اجازت نہ ملی۔ جب ان کی باتیں (روایتی) ہمارے (جس میں راقم الحروف اور وہ "خوبرو" شامل ہیں) روشن مستقبل کی فلاح و بہبود کے لیے جرح کے عنوان میں شمار کی جانے لگیں تو ہم نے اپنی بے شرمی کا اظہار مناسب جانا اور کچھ بڑبڑانے لگے۔ افراد کی توجہ جو ہماری جانب جلب ہوئی تو کچھ آواز کو بلند کر کے ہم نے کہا:
-اجی سنیے! یہ مناسب نہیں کہ آپ میری رائے لیے بغیر ہی خورد و برد کا سلسلہ جاری رکھیں۔ دیکھیے میں جب تک ابھی آپ کی نورِ چشم سے تنہائی میں مذاکرات نہیں کروں گا، اس وقت تک کوئی مثبت جواب میری طرف سے آپ نہیں سنیں گے۔
یہ بات کہنے پر ہمیں دائیں جانب سے بازو پر ایک ضرب محسوس ہوئی (یاد ہے کہ امی جان دائیں جانب ہی تشریف فرما تھیں میرے، انکا کہنا ہے کہ بائیں جانب شیطان ہوتا ہے!)۔ ہم نے "لگی ان لگی" کر دی۔ دوشیزہ محترمہ کے اہلِ خانہ میں بھنبھنانے کا سلسہ ہماری توقع کے مطابق شروع ہو گیا۔ لیکن انہوں نے غیر متوقع طور پر ہمیں "ان" کے پاس اکیلے میں چھوڑ آنے کی اجازت دے دی۔
جو موصوفہ کے حجرے میں داخل ہوئے تو ماحول ہی معطر پایا۔ ہمیں تو یونہی چکر آرہے تھے اب مدہوشی بھی طاری ہونے لگی۔ جب اس بات کا احساس اچھے سے ہو گیا کہ اب ہم بات کرنے کی کیفیت پر پورے اتر رہے ہیں تو لب کشائی کی:
-سنیے گا!
وہ ہماری طرف ہوئیں۔ (اس سے پہلے ان کی نظریں ہماری مخالف سمت کی دیوار پر میخ کوب تھیں۔)
- آپ جانتی ہیں کہ اس کمرے سے باہر ہمارے ازدواج کی باتیں ہو رہی ہیں۔ میں کچھ ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں۔
+ جی کہیے ناں!
- میں شاعر ہوں۔ سگرٹ پیتا ہوں لیکن حرام چیز نہیں پیتا۔ رات کو خراٹے نہیں لے تا مگر سوتا نہیں ہوں۔ دن میں کسی کی اذیت کا ساماں نہیں بنتا کہ مغرب سے کچھ پہلے جاگنے کا عادی ہوں۔ رات کے وقت ہمسائے اذیت میں رہتے ہیں۔ جوشؔ اور حافظؔ کو با آوازِ بلند تلاوت کرتا ہوں۔ غالبؔ کو قرآن کے ساتھ صرف اس لیے رکھتا ہوں کہ دونوں کو سمجھنے کے لیے تفسیر کی حاجت ہوتی ہے۔ طبیعت میں سریلا پن ہے لیکن اپنے نجی کمرے اور اپنی غزل کے علاوہ کہیں نہیں گاتا اور کچھ نہیں گاتا۔ احباب جب چاہیں قدم رنجہ کر لیتے ہیں، مجھ سے اجازت لینے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ احباب آجائیں تو آدھ گھنٹے بعد چائے کے ساتھ ایش ٹرے تبدیل کرواتا ہوں۔ امی جان کا چلانا پسند نہیں ہے کہ ہماری طبع میں سے روانی کی کیفیت جاتی رہتی ہے۔۔۔۔
+ دیکھیے ۔۔ میں اس سے زیادہ نہیں سننا چاہتی آپ کی باتیں! آپ جلد تشریف لے جائیے اور رفع زحمت کیجے۔ ابھی میری عمر شادی کی نہیں ہے۔
ہم خوش ہو گئے۔ اٹھلاتے ہوئے حجرے سے باہر آئے اور دھڑلے سے امی جان سے کہا:
- لڑکی ہمیں پسند نہیں کرتی۔ ہم اب ایک لحظہ بھی یہاں نہ ٹھہریں گے۔ چلیے!
+ ارے بیٹے! رکو تو۔ ۔۔ آخر ہوا کیا۔ گھوڑے پر کیوں سوار ہو؟! رکو ارے۔۔۔
- امی جان ہمیں ایسی گل رخی کا کیا کرنا جس میں ہماری انا تڑپ جائے۔ نہیں کرنا میں نے یہاں رشتہ۔ چلیے۔
بس وہ دن اور آج کا دن۔ ہماری والدہ نے اب تک دوبارہ کسی حسین دوشیزہ کی بات مطرح نہ کی۔!
اب جو ان پر ہماری جوانی کے بارے مختلف اوہام و خیالات کے الہام (شاید خواب میں) کا سلسلہ جاری ہوا تو ہماری راتوں کے ساتھ دن بھی کالے ہونے لگے۔ روز کسی پاک دامن دوشیزہ سے بحث کا موسلادھار آغاز ہوتا اور انہیں کے اوباش بھائی اور کبھی کبھی تو باپ دادا وغیرہ کی کوتاہیوں پر ہمارے پرشور اعتراض کے ساتھ تھمتا۔
آخر ایک دن ہماری جو شامت آئی تو ہاتھ پکڑ کر ہمیں کسی خوبرو (بقول ان کے) کے گھر گھسیٹ لے چلیں۔
پہنچے تو ہمیں منہ سے ایک لفظ نکالنے کیا بلکہ چائے پینے کی خاطر بھی (بہ لحاظ ادب) منہ کھولنے کی اجازت نہ ملی۔ جب ان کی باتیں (روایتی) ہمارے (جس میں راقم الحروف اور وہ "خوبرو" شامل ہیں) روشن مستقبل کی فلاح و بہبود کے لیے جرح کے عنوان میں شمار کی جانے لگیں تو ہم نے اپنی بے شرمی کا اظہار مناسب جانا اور کچھ بڑبڑانے لگے۔ افراد کی توجہ جو ہماری جانب جلب ہوئی تو کچھ آواز کو بلند کر کے ہم نے کہا:
-اجی سنیے! یہ مناسب نہیں کہ آپ میری رائے لیے بغیر ہی خورد و برد کا سلسلہ جاری رکھیں۔ دیکھیے میں جب تک ابھی آپ کی نورِ چشم سے تنہائی میں مذاکرات نہیں کروں گا، اس وقت تک کوئی مثبت جواب میری طرف سے آپ نہیں سنیں گے۔
یہ بات کہنے پر ہمیں دائیں جانب سے بازو پر ایک ضرب محسوس ہوئی (یاد ہے کہ امی جان دائیں جانب ہی تشریف فرما تھیں میرے، انکا کہنا ہے کہ بائیں جانب شیطان ہوتا ہے!)۔ ہم نے "لگی ان لگی" کر دی۔ دوشیزہ محترمہ کے اہلِ خانہ میں بھنبھنانے کا سلسہ ہماری توقع کے مطابق شروع ہو گیا۔ لیکن انہوں نے غیر متوقع طور پر ہمیں "ان" کے پاس اکیلے میں چھوڑ آنے کی اجازت دے دی۔
جو موصوفہ کے حجرے میں داخل ہوئے تو ماحول ہی معطر پایا۔ ہمیں تو یونہی چکر آرہے تھے اب مدہوشی بھی طاری ہونے لگی۔ جب اس بات کا احساس اچھے سے ہو گیا کہ اب ہم بات کرنے کی کیفیت پر پورے اتر رہے ہیں تو لب کشائی کی:
-سنیے گا!
وہ ہماری طرف ہوئیں۔ (اس سے پہلے ان کی نظریں ہماری مخالف سمت کی دیوار پر میخ کوب تھیں۔)
- آپ جانتی ہیں کہ اس کمرے سے باہر ہمارے ازدواج کی باتیں ہو رہی ہیں۔ میں کچھ ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں۔
+ جی کہیے ناں!
- میں شاعر ہوں۔ سگرٹ پیتا ہوں لیکن حرام چیز نہیں پیتا۔ رات کو خراٹے نہیں لے تا مگر سوتا نہیں ہوں۔ دن میں کسی کی اذیت کا ساماں نہیں بنتا کہ مغرب سے کچھ پہلے جاگنے کا عادی ہوں۔ رات کے وقت ہمسائے اذیت میں رہتے ہیں۔ جوشؔ اور حافظؔ کو با آوازِ بلند تلاوت کرتا ہوں۔ غالبؔ کو قرآن کے ساتھ صرف اس لیے رکھتا ہوں کہ دونوں کو سمجھنے کے لیے تفسیر کی حاجت ہوتی ہے۔ طبیعت میں سریلا پن ہے لیکن اپنے نجی کمرے اور اپنی غزل کے علاوہ کہیں نہیں گاتا اور کچھ نہیں گاتا۔ احباب جب چاہیں قدم رنجہ کر لیتے ہیں، مجھ سے اجازت لینے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ احباب آجائیں تو آدھ گھنٹے بعد چائے کے ساتھ ایش ٹرے تبدیل کرواتا ہوں۔ امی جان کا چلانا پسند نہیں ہے کہ ہماری طبع میں سے روانی کی کیفیت جاتی رہتی ہے۔۔۔۔
+ دیکھیے ۔۔ میں اس سے زیادہ نہیں سننا چاہتی آپ کی باتیں! آپ جلد تشریف لے جائیے اور رفع زحمت کیجے۔ ابھی میری عمر شادی کی نہیں ہے۔
ہم خوش ہو گئے۔ اٹھلاتے ہوئے حجرے سے باہر آئے اور دھڑلے سے امی جان سے کہا:
- لڑکی ہمیں پسند نہیں کرتی۔ ہم اب ایک لحظہ بھی یہاں نہ ٹھہریں گے۔ چلیے!
+ ارے بیٹے! رکو تو۔ ۔۔ آخر ہوا کیا۔ گھوڑے پر کیوں سوار ہو؟! رکو ارے۔۔۔
- امی جان ہمیں ایسی گل رخی کا کیا کرنا جس میں ہماری انا تڑپ جائے۔ نہیں کرنا میں نے یہاں رشتہ۔ چلیے۔
بس وہ دن اور آج کا دن۔ ہماری والدہ نے اب تک دوبارہ کسی حسین دوشیزہ کی بات مطرح نہ کی۔!