شکریہ جنابمزید تبصرہ جات بعد میں انشاءاللہ۔
میرے خیال سے مضمون کی سب سے پہلی سطر میں تصحیح کی ضرورت ہے۔ لفظ "قسمیں" آگے پیچھے ہوا لگ رہا ہے۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ تصییحح کو بھی تصحیح کی ضرورت ہے۔شکریہ جناب تصییحح کا
اسلامی تاریخ کو شاعرانہ انداز میں بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا۔۔۔۔ایک اچھی تحریر ہےاللہ تعالیٰ نے قسمیں کیوں کھائیںسورہ التین میرے سامنے کھلی پڑی ہے ۔میں نے اس کی پہلی آیت پڑھی ۔ کچھ توقف کے بعد سوچ نے مجبور کیا ہے کہ اللہ قسم پھل کی کھارہے ہیں ۔
جب پہلے نائب لائے تشریف
مالک کائنات کی تھے حدیث
ُاس کی سلطنت کا نشان
قبلہ اول مسجد الاقصی
جس سے نکلے ہر انسان
ہوجائے کنزالایمان
اللہ کا گھر بنایا حجاز کی سرزمین پر
آدمؑ کو خانہ کعبہ کی تعمیر پر
ملا خطاب صفی اللہ کا
لاالہ الا اللہ صفی اللہ
کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا
اور آدمؑ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہیں ۔
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
ہوئے برگزیدہ اللہ کے پیغمبر
تمام نفوس کے باپ ہوئے آدمؑ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
وہ لوگ جو مقامِ رضا کے اعلی درجے پر فائز
ان کی اتباع میں قربانی کے سبھی فرائض
مناتے ہیں مسلمان تہوار کی صورت
ان کی اعمال میں چھپی ان کی سیرت
جب کہا مالک نے قربانی کا ابراہیمؑ سے
کردیا ذبیح رضا سے اسماعیلؑ کو
بھاگئی مالک کو ادائے خلیل اللہ
رکھ دیا نام اسماعیل کا ذبیح اللہ
لا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ
ہوئے دوست ابراہیم اللہ کے
لاالہ الا اللہ ابراہیم خلیل اللہ
کیا تعمیر اللہ کے گھروں کو
ایک قبلہ اول :مسجد الاقصیٰ
دوسرا قبلہ دوم: خانہ کعبہ
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
مقرر ہوئے جدِ امجد سبھی نبیوں کے
ہوئے اسحقؑ جدِ امجد بنی اسرائیل کے
ہوئے اسماعیلؑ جدِ امجد بنو عدنان کے
اللہ اپنے مقرب بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
خاک ہوئی نمردو کی خدائی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
خلیفتہ الارض لائے تشریف
جن وانس ہوئے ان کے تابع
حدی خوانِ جنت کو علم ملا نافع
اتری الہامی کتاب بصورت زبور ان پر
لا الہ الا اللہ داؤد خلیفہ الارض
مٹی ہوئی فرعون کی بادشاہی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
موسیّ گھر کے لیے آگ لینے ہوئے روانہ
تجلی حق اور صدائے حق سے نوازے گئے
پھر خواہش ہوئی کہ مولا میں تجھے دیکھنا چاہتاہوں
فرمایا : لن ترانی ، تو مجھے نہیں دیکھا سکتا
اللہ سے کلام کرتے رہے تھے موسیّ
لا الہ الا اللہ موسی ّ کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت توریت
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
کلمہ: قم با اذن اللہ کی عطا سے
کرتے رہے مردوں کی زندہ
مسیحائی بندوں کی کرنے والے
مریمّ کے بیٹے ، یحییّ کے بھائی
لا الہ الا اللہ عیسی کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت انجیل
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
وہ مکہ و مدینہ کی سرزمین
جس پر رہے ہیں نبی ﷺ مکیں
سردار الانبیاء ، خاتم الانبیاء
نور کی سرزمین پر نور کی جبین
شمع رسالت کے ہوا جو قرین
تابندہ ہوئی سب کی زندگیاں
عملِ بندگی سے مٹی تاریکیاں
معراج کی رات قاب و قوسین کی رفعتوں پر مکیں
نبی آخرالزماں ،شافعی دو جہاں، رحمت اللعالمین
فقر و عفو سے کی سربراہی
دولت ایمان ہم نے پائی
اتری الہامی کتاب ، حکمتوں کا گنجینہ
مرے نبی ہوئے نبیوں کا نگینہ
احمد کو محمدﷺ کے رتبے پر کیا فائز
درود بھیجنا ہم پر ہے کیا عائد
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
ان کی صفت میں گم ہے خدائی
ملتی رہے گی ان سے رہنمائی
مسخر ہوئی ان پر سبھی خلائق
تسبیح ان کی کرتے ہیں ملائک
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے؟
اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم کیوں کھائی ؟
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ
|وَطُوْرِسِيْنِيْنَ|وَهٰذَاالْبَلَدالْاَمِيْنِ |
انجیر اور زیتون کی قسم ہے۔اور طور سینا کی۔اور اس شہر (مکہ) کی جو امن والا ہے۔
اللہ نے دو پھلوں کی قسم کھائی ہے اور میں سوچ پر مجبور کہ ان دو پھلوں کی قسم کیوں کھائی گئی ہے ۔ بے شمار پھلوں میں دو پھل اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں تو گویا یہ جنت کے پھل ہیں ۔ اگر جنت کے پھل ہیں تو زمین پر سب سے پہلے کس مقام پر ان کو اُگایا گیا ۔ تلاش و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ سرزمین فلسطین و شام میں ان کو اگایا گیا ہے ۔ وہ زمین جہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے اس قبلے کو دو مقرب ہستیاں تعمیر کرچکیں تھیں جو کہ حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت ابراہیم علیہ سلام ہیں ۔ بنی نوع انسان کے باپ اور نبیوں کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ کے صحائف بھی اترے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی نسل سے تمام نبی و رسول مبعوث ہوئے ہیں جن میں کچھ زیادہ مقرب و برگزیدہ ہوئے ہیں اور انہی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی صحائف اتارے ہیں ۔ وہ دو پھل جن سے نبیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا کہ یہ پھل سدا بہار ہیں جن پر ہمیشہ سبزہ رہتا ہے ۔ ان سدابہار پھلوں میں مقرب کون ہیں جن پر الہامی کتابیں اتریں ۔ حضرت داؤد علیہ سلام اور حضرت سلیمان علیہ سلام نے قبلہ اول کو از سر نو تعمیر کیا گویا کہ نئے سرے سے دین کی بنیاد رکھی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر جب جب از سر نو تعمیر کیے گئے گویا دین میں کچھ ترامیم اور تبدیلیاں ہوئیں ۔حضرت عیسی علیہ سلام کی مشابہت حضرت آدم علیہ سلام سے ہے کہ دونوں بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ وہ پھل جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ سلام نے بنیاد رکھی اور وہ پھل جس کی بنیاد جناب سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے رکھی وہ سدا بہار پھل ہیں ۔ اس مقام کی قسم جو کہ اللہ کی نشانی ہے ، ان کتابوں کی جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں اور تمام انبیاء کے سرداروں کی قسم جو اللہ پر شاہد ہیں اور اللہ ان پر شاہد ہے ۔ اللہ نے ان کی قسم کھائی ہے ۔
حضرت موسی علیہ سلام لاڈلے نبی تھے ۔ اللہ تعالیٰ سے کلام کیا کرتے تھے ۔ ان کو معجزات عطا ہوئے کہ ان کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہوجاتا تھا اور ان کا عصا سانپ کی شکل اختیار کرلیا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو کتاب سے کوہِ طور پر نوازا گیا ۔ یہی طور کا پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ، اپنے نبی اور اس مقام کی قسم کھائی ہے ۔ تیسری آیت مبارکہ میں امن والے شہر کی قسم کھائی ہے وہ شہر حجاز جس کی تعمیر سیدنا آدم علیہ سلام اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کی ۔۔ یعنی جس دین کی ابتدا و ارتقاء ان مبارک و برگزیدہ ہستیوں نے کی تھی ، اس کی منتہیٰ سیدنا جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہوئی جن کے کمال کی کوئی حد نہیں ہے ۔ حضرت موسی علیہ سلام تو پہاڑ پر اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے گئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو خود اپنے پاس بلا لیا ۔اس شہر امان کی از سر نو تعمیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی تھی ۔
دین کی ابتدا ہوئی آدم علیہ سلام سے
دین کی منتہی ہوئی محمد صلی علیہ والہ وسلم سے
نبیوں کے جد امجد ہوئے ابراہیم علیہ سلام
نبیوں میں مقرب ہوئے موسی علیہ سلام
نبیوں میں خلیفہ ہوئے داؤد علیہ سلام
نبیوں میں کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
فلسطین کی سرزمین ہو یا طور کا مقام
سرزمین ِ حجاز کا ہو یا مقام
جنت کے یہ سبھی ہیں مقام
جن پر ہوا رسولوں کا قیام
زبور کی بات ہو یا توریت کی
انجیل کی بات ہو یا قران کی
یہ سبھی الہامی ہیں پیغام
جن میں اللہ نے بندوں سے کیا کلام
پڑھیں گے جو اس کو ملے گا انعام
آیات کا مفہوم اترے گا بصورت الہام
اللہ کے پیغام کو کیا رسولوں نے عام
ان سب پر واجب ہے مرا تو سلام
جب بات محمدﷺ کی کسی بھی زبان سے ہوگی
درود ہوگا جاری اور الہام کی بارش ہوگی
ان کی قسمیں کھائی ہیں مالک نے
بندوں کی اقسام بتائیں خالق نے
احسن التقویم پر پیدا ہوئے سب
نور کے چراغ کے حامل ہوئے سب
اس نور کو نسبت ہے محمدﷺ سے
جو بڑھے گا اس نور کی جانب بھی
سینہ روشن ہوگا نور کی جانب سے
دور جو ہوئے تھے نور کے چراغ سے
شداد ، فرعون ، قارون ، ابو جہل ہو یا ابو لہب
مقام اسفل کے ہوئے سبھی تھے حامل
قفل ان کے روحوں پر لگ گیا کامل
اس سورہ اور ان آیات کا موضوع ہے جزا و سزا کا اثبات۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیاء کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں فرمایا کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ۔ کہیں فرمایا کہ انسان اُس امانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے اٹھانے کی طاقت زمین و آسمان اور پہاڑوںمیں بھی نہ تھی ۔ کہیں فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ۔ لیکن یہاں خاص طور پر انبیاء کے مقاماتِ ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ نوع انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہوا۔
اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔
اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسان میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اُس انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نوع انسانی میں اِن دو قسموں کے لوگوں کا پایا جانا ایک ایسا امر واقعی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔
نوٹ: اس تحریر میں خالصتا میری اپنی سوچ ہے ۔ کسی کو اعتراض ہو یا کچھ بتانا مقصود ہو وہ اس لڑی سے متتصل سے تبصرہ جات کی لڑی میں تبصرہ کرتے مجھے آگاہ کردے
تبصرہ جات کی لڑی
اسلامی تاریخ کو شاعرانہ انداز میں بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا۔۔۔۔ایک اچھی تحریر ہے
ما شا اللہاللہ تعالیٰ نے قسمیں کیوں کھائیںسورہ التین میرے سامنے کھلی پڑی ہے ۔میں نے اس کی پہلی آیت پڑھی ۔ کچھ توقف کے بعد سوچ نے مجبور کیا ہے کہ اللہ قسم پھل کی کھارہے ہیں ۔
جب پہلے نائب لائے تشریف
مالک کائنات کی تھے حدیث
ُاس کی سلطنت کا نشان
قبلہ اول مسجد الاقصی
جس سے نکلے ہر انسان
ہوجائے کنزالایمان
اللہ کا گھر بنایا حجاز کی سرزمین پر
آدمؑ کو خانہ کعبہ کی تعمیر پر
ملا خطاب صفی اللہ کا
لاالہ الا اللہ صفی اللہ
کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا
اور آدمؑ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہیں ۔
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
ہوئے برگزیدہ اللہ کے پیغمبر
تمام نفوس کے باپ ہوئے آدمؑ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
وہ لوگ جو مقامِ رضا کے اعلی درجے پر فائز
ان کی اتباع میں قربانی کے سبھی فرائض
مناتے ہیں مسلمان تہوار کی صورت
ان کی اعمال میں چھپی ان کی سیرت
جب کہا مالک نے قربانی کا ابراہیمؑ سے
کردیا ذبیح رضا سے اسماعیلؑ کو
بھاگئی مالک کو ادائے خلیل اللہ
رکھ دیا نام اسماعیل کا ذبیح اللہ
لا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ
ہوئے دوست ابراہیم اللہ کے
لاالہ الا اللہ ابراہیم خلیل اللہ
کیا تعمیر اللہ کے گھروں کو
ایک قبلہ اول :مسجد الاقصیٰ
دوسرا قبلہ دوم: خانہ کعبہ
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
مقرر ہوئے جدِ امجد سبھی نبیوں کے
ہوئے اسحقؑ جدِ امجد بنی اسرائیل کے
ہوئے اسماعیلؑ جدِ امجد بنو عدنان کے
اللہ اپنے مقرب بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
خاک ہوئی نمردو کی خدائی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
خلیفتہ الارض لائے تشریف
جن وانس ہوئے ان کے تابع
حدی خوانِ جنت کو علم ملا نافع
اتری الہامی کتاب بصورت زبور ان پر
لا الہ الا اللہ داؤد خلیفہ الارض
مٹی ہوئی فرعون کی بادشاہی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
موسیّ گھر کے لیے آگ لینے ہوئے روانہ
تجلی حق اور صدائے حق سے نوازے گئے
پھر خواہش ہوئی کہ مولا میں تجھے دیکھنا چاہتاہوں
فرمایا : لن ترانی ، تو مجھے نہیں دیکھا سکتا
اللہ سے کلام کرتے رہے تھے موسیّ
لا الہ الا اللہ موسی ّ کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت توریت
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
کلمہ: قم با اذن اللہ کی عطا سے
کرتے رہے مردوں کی زندہ
مسیحائی بندوں کی کرنے والے
مریمّ کے بیٹے ، یحییّ کے بھائی
لا الہ الا اللہ عیسی کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت انجیل
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
وہ مکہ و مدینہ کی سرزمین
جس پر رہے ہیں نبی ﷺ مکیں
سردار الانبیاء ، خاتم الانبیاء
نور کی سرزمین پر نور کی جبین
شمع رسالت کے ہوا جو قرین
تابندہ ہوئی سب کی زندگیاں
عملِ بندگی سے مٹی تاریکیاں
معراج کی رات قاب و قوسین کی رفعتوں پر مکیں
نبی آخرالزماں ،شافعی دو جہاں، رحمت اللعالمین
فقر و عفو سے کی سربراہی
دولت ایمان ہم نے پائی
اتری الہامی کتاب ، حکمتوں کا گنجینہ
مرے نبی ہوئے نبیوں کا نگینہ
احمد کو محمدﷺ کے رتبے پر کیا فائز
درود بھیجنا ہم پر ہے کیا عائد
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
ان کی صفت میں گم ہے خدائی
ملتی رہے گی ان سے رہنمائی
مسخر ہوئی ان پر سبھی خلائق
تسبیح ان کی کرتے ہیں ملائک
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے؟
اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم کیوں کھائی ؟
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ
|وَطُوْرِسِيْنِيْنَ|وَهٰذَاالْبَلَدالْاَمِيْنِ |
انجیر اور زیتون کی قسم ہے۔اور طور سینا کی۔اور اس شہر (مکہ) کی جو امن والا ہے۔
اللہ نے دو پھلوں کی قسم کھائی ہے اور میں سوچ پر مجبور کہ ان دو پھلوں کی قسم کیوں کھائی گئی ہے ۔ بے شمار پھلوں میں دو پھل اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں تو گویا یہ جنت کے پھل ہیں ۔ اگر جنت کے پھل ہیں تو زمین پر سب سے پہلے کس مقام پر ان کو اُگایا گیا ۔ تلاش و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ سرزمین فلسطین و شام میں ان کو اگایا گیا ہے ۔ وہ زمین جہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے اس قبلے کو دو مقرب ہستیاں تعمیر کرچکیں تھیں جو کہ حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت ابراہیم علیہ سلام ہیں ۔ بنی نوع انسان کے باپ اور نبیوں کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ کے صحائف بھی اترے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی نسل سے تمام نبی و رسول مبعوث ہوئے ہیں جن میں کچھ زیادہ مقرب و برگزیدہ ہوئے ہیں اور انہی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی صحائف اتارے ہیں ۔ وہ دو پھل جن سے نبیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا کہ یہ پھل سدا بہار ہیں جن پر ہمیشہ سبزہ رہتا ہے ۔ ان سدابہار پھلوں میں مقرب کون ہیں جن پر الہامی کتابیں اتریں ۔ حضرت داؤد علیہ سلام اور حضرت سلیمان علیہ سلام نے قبلہ اول کو از سر نو تعمیر کیا گویا کہ نئے سرے سے دین کی بنیاد رکھی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر جب جب از سر نو تعمیر کیے گئے گویا دین میں کچھ ترامیم اور تبدیلیاں ہوئیں ۔حضرت عیسی علیہ سلام کی مشابہت حضرت آدم علیہ سلام سے ہے کہ دونوں بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ وہ پھل جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ سلام نے بنیاد رکھی اور وہ پھل جس کی بنیاد جناب سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے رکھی وہ سدا بہار پھل ہیں ۔ اس مقام کی قسم جو کہ اللہ کی نشانی ہے ، ان کتابوں کی جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں اور تمام انبیاء کے سرداروں کی قسم جو اللہ پر شاہد ہیں اور اللہ ان پر شاہد ہے ۔ اللہ نے ان کی قسم کھائی ہے ۔
حضرت موسی علیہ سلام لاڈلے نبی تھے ۔ اللہ تعالیٰ سے کلام کیا کرتے تھے ۔ ان کو معجزات عطا ہوئے کہ ان کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہوجاتا تھا اور ان کا عصا سانپ کی شکل اختیار کرلیا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو کتاب سے کوہِ طور پر نوازا گیا ۔ یہی طور کا پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ، اپنے نبی اور اس مقام کی قسم کھائی ہے ۔ تیسری آیت مبارکہ میں امن والے شہر کی قسم کھائی ہے وہ شہر حجاز جس کی تعمیر سیدنا آدم علیہ سلام اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کی ۔۔ یعنی جس دین کی ابتدا و ارتقاء ان مبارک و برگزیدہ ہستیوں نے کی تھی ، اس کی منتہیٰ سیدنا جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہوئی جن کے کمال کی کوئی حد نہیں ہے ۔ حضرت موسی علیہ سلام تو پہاڑ پر اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے گئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو خود اپنے پاس بلا لیا ۔اس شہر امان کی از سر نو تعمیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی تھی ۔
دین کی ابتدا ہوئی آدم علیہ سلام سے
دین کی منتہی ہوئی محمد صلی علیہ والہ وسلم سے
نبیوں کے جد امجد ہوئے ابراہیم علیہ سلام
نبیوں میں مقرب ہوئے موسی علیہ سلام
نبیوں میں خلیفہ ہوئے داؤد علیہ سلام
نبیوں میں کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
فلسطین کی سرزمین ہو یا طور کا مقام
سرزمین ِ حجاز کا ہو یا مقام
جنت کے یہ سبھی ہیں مقام
جن پر ہوا رسولوں کا قیام
زبور کی بات ہو یا توریت کی
انجیل کی بات ہو یا قران کی
یہ سبھی الہامی ہیں پیغام
جن میں اللہ نے بندوں سے کیا کلام
پڑھیں گے جو اس کو ملے گا انعام
آیات کا مفہوم اترے گا بصورت الہام
اللہ کے پیغام کو کیا رسولوں نے عام
ان سب پر واجب ہے مرا تو سلام
جب بات محمدﷺ کی کسی بھی زبان سے ہوگی
درود ہوگا جاری اور الہام کی بارش ہوگی
ان کی قسمیں کھائی ہیں مالک نے
بندوں کی اقسام بتائیں خالق نے
احسن التقویم پر پیدا ہوئے سب
نور کے چراغ کے حامل ہوئے سب
اس نور کو نسبت ہے محمدﷺ سے
جو بڑھے گا اس نور کی جانب بھی
سینہ روشن ہوگا نور کی جانب سے
دور جو ہوئے تھے نور کے چراغ سے
شداد ، فرعون ، قارون ، ابو جہل ہو یا ابو لہب
مقام اسفل کے ہوئے سبھی تھے حامل
قفل ان کے روحوں پر لگ گیا کامل
اس سورہ اور ان آیات کا موضوع ہے جزا و سزا کا اثبات۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیاء کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں فرمایا کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ۔ کہیں فرمایا کہ انسان اُس امانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے اٹھانے کی طاقت زمین و آسمان اور پہاڑوںمیں بھی نہ تھی ۔ کہیں فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ۔ لیکن یہاں خاص طور پر انبیاء کے مقاماتِ ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ نوع انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہوا۔
اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔
اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسان میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اُس انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نوع انسانی میں اِن دو قسموں کے لوگوں کا پایا جانا ایک ایسا امر واقعی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔
نوٹ: اس تحریر میں خالصتا میری اپنی سوچ ہے ۔ کسی کو اعتراض ہو یا کچھ بتانا مقصود ہو وہ اس لڑی سے متتصل سے تبصرہ جات کی لڑی میں تبصرہ کرتے مجھے آگاہ کردے
تبصرہ جات کی لڑی
اس پر دوبارہ غور فرما لیجیےملا خطاب صفی اللہ کا
لاالہ الا اللہ صفی اللہ
آپ کے لیے ایک مشورہ ۔۔۔ حفیظ جالندھری کی شہرہ آفاق تخلیق "شاہنامہ اسلام کا مطالعہ کیجیے"اللہ تعالیٰ نے قسمیں کیوں کھائیںسورہ التین میرے سامنے کھلی پڑی ہے ۔میں نے اس کی پہلی آیت پڑھی ۔ کچھ توقف کے بعد سوچ نے مجبور کیا ہے کہ اللہ قسم پھل کی کھارہے ہیں ۔
جب پہلے نائب لائے تشریف
مالک کائنات کی تھے حدیث
ُاس کی سلطنت کا نشان
قبلہ اول مسجد الاقصی
جس سے نکلے ہر انسان
ہوجائے کنزالایمان
اللہ کا گھر بنایا حجاز کی سرزمین پر
آدمؑ کو خانہ کعبہ کی تعمیر پر
ملا خطاب صفی اللہ کا
لاالہ الا اللہ صفی اللہ
کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا
اور آدمؑ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہیں ۔
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
ہوئے برگزیدہ اللہ کے پیغمبر
تمام نفوس کے باپ ہوئے آدمؑ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
وہ لوگ جو مقامِ رضا کے اعلی درجے پر فائز
ان کی اتباع میں قربانی کے سبھی فرائض
مناتے ہیں مسلمان تہوار کی صورت
ان کی اعمال میں چھپی ان کی سیرت
جب کہا مالک نے قربانی کا ابراہیمؑ سے
کردیا ذبیح رضا سے اسماعیلؑ کو
بھاگئی مالک کو ادائے خلیل اللہ
رکھ دیا نام اسماعیل کا ذبیح اللہ
لا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ
ہوئے دوست ابراہیم اللہ کے
لاالہ الا اللہ ابراہیم خلیل اللہ
کیا تعمیر اللہ کے گھروں کو
ایک قبلہ اول :مسجد الاقصیٰ
دوسرا قبلہ دوم: خانہ کعبہ
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
مقرر ہوئے جدِ امجد سبھی نبیوں کے
ہوئے اسحقؑ جدِ امجد بنی اسرائیل کے
ہوئے اسماعیلؑ جدِ امجد بنو عدنان کے
اللہ اپنے مقرب بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
خاک ہوئی نمردو کی خدائی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
خلیفتہ الارض لائے تشریف
جن وانس ہوئے ان کے تابع
حدی خوانِ جنت کو علم ملا نافع
اتری الہامی کتاب بصورت زبور ان پر
لا الہ الا اللہ داؤد خلیفہ الارض
مٹی ہوئی فرعون کی بادشاہی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
موسیّ گھر کے لیے آگ لینے ہوئے روانہ
تجلی حق اور صدائے حق سے نوازے گئے
پھر خواہش ہوئی کہ مولا میں تجھے دیکھنا چاہتاہوں
فرمایا : لن ترانی ، تو مجھے نہیں دیکھا سکتا
اللہ سے کلام کرتے رہے تھے موسیّ
لا الہ الا اللہ موسی ّ کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت توریت
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
کلمہ: قم با اذن اللہ کی عطا سے
کرتے رہے مردوں کی زندہ
مسیحائی بندوں کی کرنے والے
مریمّ کے بیٹے ، یحییّ کے بھائی
لا الہ الا اللہ عیسی کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت انجیل
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
وہ مکہ و مدینہ کی سرزمین
جس پر رہے ہیں نبی ﷺ مکیں
سردار الانبیاء ، خاتم الانبیاء
نور کی سرزمین پر نور کی جبین
شمع رسالت کے ہوا جو قرین
تابندہ ہوئی سب کی زندگیاں
عملِ بندگی سے مٹی تاریکیاں
معراج کی رات قاب و قوسین کی رفعتوں پر مکیں
نبی آخرالزماں ،شافعی دو جہاں، رحمت اللعالمین
فقر و عفو سے کی سربراہی
دولت ایمان ہم نے پائی
اتری الہامی کتاب ، حکمتوں کا گنجینہ
مرے نبی ہوئے نبیوں کا نگینہ
احمد کو محمدﷺ کے رتبے پر کیا فائز
درود بھیجنا ہم پر ہے کیا عائد
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
ان کی صفت میں گم ہے خدائی
ملتی رہے گی ان سے رہنمائی
مسخر ہوئی ان پر سبھی خلائق
تسبیح ان کی کرتے ہیں ملائک
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے؟
اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم کیوں کھائی ؟
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ
|وَطُوْرِسِيْنِيْنَ|وَهٰذَاالْبَلَدالْاَمِيْنِ |
انجیر اور زیتون کی قسم ہے۔اور طور سینا کی۔اور اس شہر (مکہ) کی جو امن والا ہے۔
اللہ نے دو پھلوں کی قسم کھائی ہے اور میں سوچ پر مجبور کہ ان دو پھلوں کی قسم کیوں کھائی گئی ہے ۔ بے شمار پھلوں میں دو پھل اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں تو گویا یہ جنت کے پھل ہیں ۔ اگر جنت کے پھل ہیں تو زمین پر سب سے پہلے کس مقام پر ان کو اُگایا گیا ۔ تلاش و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ سرزمین فلسطین و شام میں ان کو اگایا گیا ہے ۔ وہ زمین جہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے اس قبلے کو دو مقرب ہستیاں تعمیر کرچکیں تھیں جو کہ حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت ابراہیم علیہ سلام ہیں ۔ بنی نوع انسان کے باپ اور نبیوں کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ کے صحائف بھی اترے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی نسل سے تمام نبی و رسول مبعوث ہوئے ہیں جن میں کچھ زیادہ مقرب و برگزیدہ ہوئے ہیں اور انہی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی صحائف اتارے ہیں ۔ وہ دو پھل جن سے نبیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا کہ یہ پھل سدا بہار ہیں جن پر ہمیشہ سبزہ رہتا ہے ۔ ان سدابہار پھلوں میں مقرب کون ہیں جن پر الہامی کتابیں اتریں ۔ حضرت داؤد علیہ سلام اور حضرت سلیمان علیہ سلام نے قبلہ اول کو از سر نو تعمیر کیا گویا کہ نئے سرے سے دین کی بنیاد رکھی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر جب جب از سر نو تعمیر کیے گئے گویا دین میں کچھ ترامیم اور تبدیلیاں ہوئیں ۔حضرت عیسی علیہ سلام کی مشابہت حضرت آدم علیہ سلام سے ہے کہ دونوں بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ وہ پھل جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ سلام نے بنیاد رکھی اور وہ پھل جس کی بنیاد جناب سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے رکھی وہ سدا بہار پھل ہیں ۔ اس مقام کی قسم جو کہ اللہ کی نشانی ہے ، ان کتابوں کی جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں اور تمام انبیاء کے سرداروں کی قسم جو اللہ پر شاہد ہیں اور اللہ ان پر شاہد ہے ۔ اللہ نے ان کی قسم کھائی ہے ۔
حضرت موسی علیہ سلام لاڈلے نبی تھے ۔ اللہ تعالیٰ سے کلام کیا کرتے تھے ۔ ان کو معجزات عطا ہوئے کہ ان کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہوجاتا تھا اور ان کا عصا سانپ کی شکل اختیار کرلیا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو کتاب سے کوہِ طور پر نوازا گیا ۔ یہی طور کا پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ، اپنے نبی اور اس مقام کی قسم کھائی ہے ۔ تیسری آیت مبارکہ میں امن والے شہر کی قسم کھائی ہے وہ شہر حجاز جس کی تعمیر سیدنا آدم علیہ سلام اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کی ۔۔ یعنی جس دین کی ابتدا و ارتقاء ان مبارک و برگزیدہ ہستیوں نے کی تھی ، اس کی منتہیٰ سیدنا جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہوئی جن کے کمال کی کوئی حد نہیں ہے ۔ حضرت موسی علیہ سلام تو پہاڑ پر اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے گئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو خود اپنے پاس بلا لیا ۔اس شہر امان کی از سر نو تعمیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی تھی ۔
دین کی ابتدا ہوئی آدم علیہ سلام سے
دین کی منتہی ہوئی محمد صلی علیہ والہ وسلم سے
نبیوں کے جد امجد ہوئے ابراہیم علیہ سلام
نبیوں میں مقرب ہوئے موسی علیہ سلام
نبیوں میں خلیفہ ہوئے داؤد علیہ سلام
نبیوں میں کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
فلسطین کی سرزمین ہو یا طور کا مقام
سرزمین ِ حجاز کا ہو یا مقام
جنت کے یہ سبھی ہیں مقام
جن پر ہوا رسولوں کا قیام
زبور کی بات ہو یا توریت کی
انجیل کی بات ہو یا قران کی
یہ سبھی الہامی ہیں پیغام
جن میں اللہ نے بندوں سے کیا کلام
پڑھیں گے جو اس کو ملے گا انعام
آیات کا مفہوم اترے گا بصورت الہام
اللہ کے پیغام کو کیا رسولوں نے عام
ان سب پر واجب ہے مرا تو سلام
جب بات محمدﷺ کی کسی بھی زبان سے ہوگی
درود ہوگا جاری اور الہام کی بارش ہوگی
ان کی قسمیں کھائی ہیں مالک نے
بندوں کی اقسام بتائیں خالق نے
احسن التقویم پر پیدا ہوئے سب
نور کے چراغ کے حامل ہوئے سب
اس نور کو نسبت ہے محمدﷺ سے
جو بڑھے گا اس نور کی جانب بھی
سینہ روشن ہوگا نور کی جانب سے
دور جو ہوئے تھے نور کے چراغ سے
شداد ، فرعون ، قارون ، ابو جہل ہو یا ابو لہب
مقام اسفل کے ہوئے سبھی تھے حامل
قفل ان کے روحوں پر لگ گیا کامل
اس سورہ اور ان آیات کا موضوع ہے جزا و سزا کا اثبات۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیاء کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں فرمایا کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ۔ کہیں فرمایا کہ انسان اُس امانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے اٹھانے کی طاقت زمین و آسمان اور پہاڑوںمیں بھی نہ تھی ۔ کہیں فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ۔ لیکن یہاں خاص طور پر انبیاء کے مقاماتِ ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ نوع انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہوا۔
اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔
اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسان میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اُس انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نوع انسانی میں اِن دو قسموں کے لوگوں کا پایا جانا ایک ایسا امر واقعی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔
نوٹ: اس تحریر میں خالصتا میری اپنی سوچ ہے ۔ کسی کو اعتراض ہو یا کچھ بتانا مقصود ہو وہ اس لڑی سے متتصل سے تبصرہ جات کی لڑی میں تبصرہ کرتے مجھے آگاہ کردے
تبصرہ جات کی لڑی
اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔
متلاشی روح کا سفر
زندگی میں سچائی کی جستجو میں متلاشی روح کا سفر ازل سے ابد تک محیط ہوتا ہے . لامکاں کی بُلندی سے مکاں کی پستی کے درمیان ارواح اپنے سفر میں آزمائشوں سے کامیابیوں کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں جیسے پرندوں کی ٹولیاں غول در غول خود میں مگن رفعتوں کی جانب پرواز کیے ہوتی ہیں تو کہیں کچھ پرندے پہلی پرواز میں انجانے اندیشے میں مبتلا ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ خُوشی کا خُمار سُرور کی منزلیں طے کرائے دیتا ہے . آسمان کی بُلندیوں سے پرے رنگ و نور کا جہاں ہے . اس میں کھُو جانا سالک کا کام نہیں ہے بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا ہی عین زندگی ہے . محؒل کے پار ایک وادی ہے جس میں دہکتے ہوئے انگارے ہیں جو اپنی ہیئت میں سرخ نارنجی رنگت لیے ہوئے ہیں ان سے نکلنی والی چنگاریاں خوف کی کیفیت طاری کردیتی ہیں اور محل کی خوبصورتی اس وادی کو دیکھ کے اور بڑھ جاتی ہے . محل کی ابتدا میں یاقوت کی سیڑھیاں ہیں . ان سیڑھیوں پر قدم زائر احتیاط سے رکھ کہ پرواز بلندی تک ہونی چاہیے .راستے کبھی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے نظر نہیں آتے بلکہ یقین کے راستے پر سفر کرنے سے حاصل ہوتے ہے ...
''اے خاک نشین !
''تیرا یقین تیری سواری بن چکا ہے'' .''اب منزل تک پہنچ تاکہ عین الیقین سے ہوتے تجھے وہ نظارے دیکھنے کو ملیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیاں جاتی ہیں .'اب اُس کا انتظار ختم ہوا جس کے لیے برسوں تو نے انتظار کیا ہے . اب رخت سفر باندھ ''!
اٹھ خاک نشین !
قدموں کی لڑکھڑاہٹ کی پروا نہ کر ! اپنے اندر جھانک اور نور کے نظارے میں گُم رہ اور اعتماد کے ساتھ میری طرف آ ! میرا پیار تجھے بُلاتا ہے ! میری رحمت کی آغوش میں آجا ! محبت لے جا اور عشق بانٹ دے .
محبت کی میراث لے جا مگر یاد رکھیں !
''آزمائشوں کا سمندر پار کرنا پڑے گا مجھ سے دوبارہ ملنے کے لیے مخلوق سے عشق کرنا پڑے گا . تیرے اشک جو میری یاد میں بہتے ہیں مجھے محبوب ہیں مگر اس زیادہ محبوب تر کام یہی ہے کہ مخلوق کا ہو کے عین الرضا کے مقام کو پہنچ تاکہ عدم کی مٹی تجھے نصیب ہو تبھی تیری خواہش کو قرار آئے گا اور تجھے وصل کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوگی .
محبت والے عشق کا سمندر پار کر گئے
عقل والے بے عقلوں سے بڑھ گئے
آجا ! عشق کی بازی کھیل لے
اپنا دامن ابدی مسرت سے بکھیر لے
مقصد ء حیات پورا کرلے
محل نور کا کس کو ملتا ہے ؟ وہ جو محبوب پر شاہد ہوتے ہیں . اپنے خون سے لوح و قلم پر لکھا عمل میں لاتے گواہی دیتے ہیں کہ رب یکتا و واحد ہے . اس کا کوئی شریک نہیں ہے . وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا. جب کچھ نہ تھا تب بھی وہ تھا اور جب کچھ نہ ہوگا تب بھی وہی ہوگا . اسی ذات کو قرار ہے جو یہ کائنات رواں دواں کیے ہوئے ہے . وہ چاہے تو آسمان کی رفعتیں نواز دے اور وہ چاہے تو پستیوں میں گرادے . وہ چاہے تو شیطان کو ولی بنا دے وہ چاہے تو ولی کو شیطان بنا دے. وہ چاہے تو نفس پرست کو عامل کامل بنا دے اور وہ چاہے تو عامل کامل کو نفس پرست بنادے وہ چاہے تو دنیا میں کوئی صدیق ہی نہ رہے اور وہ چاہے تو دنیا صدیقین سے بھر جائے . وہ چاہے تو دنیا سے سرداری اٹھ جائے اور وہ چاہے تو دنیا میں نائب کا عمل دخل ہو جائے . وہ چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا ہے. و چاہے تو نائب کو سردار بنادے اور سردار سے محبوب بنادے . وہ چاہے تو پستی میں گرادے جس کی انتہا کوئی نہیں ہو مگر وہ اپنے محبوب کو گرنے نہیں دیتا . محبت شے ہی ایسی ہے کہ اس کا امر اپنے بندوں کو کشش کیے رکھتا ہے اور وہ اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں .
لم یاتی نظیر .... کون ثانی نہیں تمھارا؟
اس مشورے پر ضرور عمل کیا جاسکتا ہے مگر کھل کے وضاحت کیجئے کہ کیا شاعری کی بنا کہا جارہا ہے جو کہ اس میں موجود ہے یا کسی کوتاہی کی نشاندہی مطلوب ہےآپ کے لیے ایک
آپ کے لیے ایک مشورہ ۔۔۔ حفیظ جالندھری کی شہرہ آفاق تخلیق "شاہنامہ اسلام کا مطالعہ کیجیے"
ملا خطاب صفی اللہ کااس پر دوبارہ غور فرما لیجیے
لاالہ الا اللہ صفی اللہ
غالبا آپ "کون ثانی ہے تمہارا؟؟؟ " یا پھر
" کون ثانی ہو سکتا ہے تمہارا؟" لکھنا چاہ رہی ہیں۔
آپ نے جو لکھا اس کا مطلب ہے کہ وہ کون ہے جو آپ کا ثانی نہیں؟ یہ تو کفریہ کلمہ ہوگیا۔ برائے کرم اصلاح کر لیجیے۔ شکریہ۔
نور سعدیہ شیخ نے کہا: ↑
اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔بے شک خدا نا انصاف نہیں ہے لیکن وہ جسے چاہے بخش دے، جیسے چاہے بخش دے۔
چند دن پہلے ہم چند دوستوں کی اس مو ضوع پر کافی بحث ہوئی تھی۔ ایک دوست ہیں وہ ملحد ہیں۔ وہ بخش دینے کو نا انصافی کے زمرے میں رکھ رہے تھے۔ اب یہ تو بالکل غلط ہے کہ ہم خدا کی طاقت اور قدرت کو للکاریں، وہ جسے چاہے بخش دے۔ رحمن و رحیم ہے۔
آپ کی بات و مشورے کو نوٹ کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ اس تحریر میں کمی کی طرف اشارے کرتے کچھ واضح کرتے تو میری رہنمائی ہوجاتی ۔ شکریہایک مشورہ۔ پہلے تحریر کو ڈائری وغیرہ میں لکھ لیجیے۔ پھر اس پر غور کرنے کے بعد اسے یہاں پر شئیر کیجیے۔ جزبات کے طلاطم میں بعض خیالات کے ابلاغ میں روانی نہیں رہتی یا بالفاظِ دیگر مشکل پیش آتی ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور بھی زیادہ
اس مشورے پر ضرور عمل کیا جاسکتا ہے مگر کھل کے وضاحت کیجئے کہ کیا شاعری کی بنا کہا جارہا ہے جو کہ اس میں موجود ہے یا کسی کوتاہی کی نشاندہی مطلوب ہے