اقتباسات میرے پسندیدہ اقتباسات

حماد

محفلین
تحلیلِ نفسی کی رو سے نفسِ انسانی کے دو پہلو ہیں۔ 1۔ حظِ فکری 2۔ حقیقتِ فکری۔ مذہب اور تصوف حظِ فکری کی پیداوار ہیں۔ جبکہ سائینس حقیقت فکری کی دست پروردہ ہے۔ حقیقت پسند آدمی خواب و خیال کی دنیا کے بجائے حقائق کی دنیا میں گذر بسر کرتا ہے۔ اور اپنی زندگی میں حقائق کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔ خواہ وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں۔ اس کے برعکس جو شخص ان کا سامنا نہیں کر سکتا۔وہ حقائق سے فرار کر کے تخیلات سے رجوع لاتا ہے اور تخیل ہی میں اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کا مداوا تلاش کرلیتا ہے۔ مذہب بھی اسی اجتماعی تخیل آرائ کا کرشمہ ہے۔بنی نوع انسان نے اپنے ابتدائ دور میں بچوں کی طرح نامساعد قدرتی ماحول سے گریز کر کے تخیل آرائ کے دامن میں پناہ لی تھی۔ اور پرکھوں کی روحوں، دیوتاؤں کا سہارا تلاش کیا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ زمانے کے تقاضوں اور فکری ارتقاء کے ساتھ بلوغتِ نظر و احساس سے بہرہ یاب ہو گیا اور تخیلات میں حظ و مسرت تلاش کرنے کے بجائے اپنے عقدے حقیقت پسندانہ انداز میں سلجھانے لگا۔
(کائنات اور انسان از علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
فرائڈ کے خیال میں جذبہء مذہبیت سراسر منفی ہے اور محبت پر نہیں بلکہ خوف پر مبنی ہے۔ اس سے کسی محبوب ہستی کے ساتھ قلبی ربط و تعلق پیدا کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ کسی مافوق الطبع ہستی کی تالیف ِ قلب مطلوب ہوتی ہے ۔ فرائڈ سے بہت پہلے لکریشس نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ مذہب دہشت کی پیداوار ہے۔ غاروں کا انسان اپنے آپ کو چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہو ا محسوس کرتا تھا ۔ وہ صدیوں تک گوناگوں اندیشوں میں مبتلا رہا اور مظاہر ِ فطرت سے خوف کھاتا رہا۔ اندھیرے کا خوف ، مرے ہوئے دشمنوں کے بھوتوں کا خوف ، بھوک اور قحط کا خوف ، موت کا خوف، امراض کا خوف، درندوں کا خوف، سانپ کا خوف، چوروں اور لٹیروں کا خوف، سیلاب کا خوف، بجلی کی کڑک کا خوف اس کے اعصاب پر مسلط رہااور اس کے دن کے آرام اور رات کی نیند حرام کرتا رہا۔ علم کی ترقی کے باوجودانسان آج بھی نامعلوم کے خوف کی گرفت سے پوری طرح آزاد نہیں ہو سکا۔ لکریشس کی طرح ہابس، ہولباخ، کندورسے وغیرہ نے جذبہء خوف کے حوالے ہی سے مذہب کی توجیہہ کی ہے، دوسری طرف کارل مارکس نے مذہب کو افیون کہا ہے کیونکہ وہ عوام کو اگلے جہان کی نعمتوں کی بشارت دے کر انہیں اپنے جائز حقوق کیلئے کشمکش کرنے سے روکتا رہا ہے۔
(کائنات اور انسان از علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
ہم ان عقائد کو جو ہمیں ورثے میں ملتے ہیں یا جنہیں ہم اپنے تہذیبی ماحول سے اخذ کرتے ہیں بغیر سوچے سمجھے قبول کر لیتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انسان فکری لحاظ سے سہل پسند واقع ہوا ہے اور غوروفکر سے جی چراتا ہے۔ دوسری یہ کہ جامد رسومِ فکر ہمارے مزاجِ عقلی میں اس حد تک نفوذ کر جاتی ہے کہ ان کی جانچ پرکھ کا عمل خاصا اذیت ناک ہوتا ہے۔ عمر کے گذرنے کے ساتھ ہمارا ذہن دُود کش کی طرح دھندلا جاتا ہےجسے ایک مدّت سے صاف نہ کیا گیا ہو۔ ہم اس کے جالوں سے مانوس ہو جاتے ہیں اور اسے سینت سینت کر رکھتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ انہیں صاف کیا جائے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ انہیں جھاڑ پونچھ دیا گیا تو روشنی کی چمک دمک سے ہماری آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی اور وہ شکوک و شبہات جو اہمال و ابہا م کے پر اسرار دھندلکے میں لپٹے ہوئے تھے اجاگر ہو کر ہمیں پریشان کرنے لگیں گے۔ ظاہر ہے کہ ٹھس تعصبات اور معتقدات کی تاریکی خواہ کتنی ہی پر سکون ہو ، فکری صداقت کی روشنی کا نعم البدل نہیں بن سکتی ۔
(عام فکری مغالطے از علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
مذہبی اخلاق کے بارے میں ایک بات قابل غور ہے۔ اس کے ساتھ ٹھس قسم کی عصبیت وابستہ ہو جاتی ہے۔ یعنی لوگ مذہبی عقیدے کی بناء پر اپنے ہم مذہبوں کو اپنا سمجھتے ہیں اور غیر مذہب والوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں نیک وہ ہے جو میرا مذہب رکھتا ہے، خواہ وہ روزمرہ کی زندگی میں کتنا ہی بدچلن ہو، اور برا وہ ہے جو میرے مذہبی عقیدے پر ایمان نہیں رکھتا خواہ بذات ِ خود وہ کتنا ہی راست باز اور نیک چلن ہو۔ اس طرح عمل کے بجائے عقیدہ حسنِ اخلاق کا معیار بن گیا ہے۔نظری لحاظ سے مختلف مذاہب کے دانشور انسان دوستی کے دعوے کرتے رہے ہیں اور اس کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں لیکن عملاً وہ اپنے سے مختلف مذہبی عقیدہ رکھنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اس طرح اخلاقی قدروں کو مذہبی عقیدہ سے منسلک کر کے ان کے دائرہ عمل کو تنگ تر کر دیا گیا ہے۔ جو شخص میرے مذہب کے دائرے کے اندر ہے وہ اچھا ہے اور جو اس دائرے سے باہر ہے ، وہ برا ہے۔
(کائنات اور انسان از علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
ہمارے علماء کی عادت ہو گئ ہے کہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کا آغاز دوسری اقوام کی تنقیص و تذلیل سے کرتے ہیں مثلاًآج کل ارباب ِ اصلاح یہ ثابت کرنے کی فکر میں ہیں کہ تمام قدیم اقوام نے عورت کو ذلت اور پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا۔ مسلمانوں نے اسے اس گڑھے سے نکال کر عزت و توقیر کے مقام پر فائز کیا۔ حقیقت یہ ہے ،اگرچہ بے حد تلخ اور ناگوار ہے کہ جہاں کہیں ہماری حکومتیں قائم ہوئیں اسی ملک میں بردہ فروشی کا کاروبار چمک اٹھا۔ بغداد، سامرا، دمشق و حلب، قاہرہ، قرطبہ جہاں علوم و فنون اور تہذیب تمدن کے مرکز تھے وہاں بردہ فروشی کیلئے بھی رسوائے زمانہ تھے۔ ان کے بازاروں میں کنیزیں بھیڑ بکریوں کی طرح بکتی تھیں۔ گاہک انہیں ٹٹول ٹٹول کر خریدتے جیسے قصاب بھیڑوں کو خریدتا ہے۔ خلفاء اور سلاطین کے محلات میں سینکڑوں کنیزیں موجود تھیں جو اطراف و جوانب کے ملکوں سے درآمد کی جاتی تھیں۔ یہ کنیزیں اپنے آقاؤں کی ہواؤ ہوس کی تسکین بھی کرتی تھیں اور مجالس ناؤ نوش میں ساقی گری اور ارباب نشاط کے فرائض بھی ادا کرتی تھیں۔ بنو امیہ کے عہد میں مکہ ، مدینہ اور طائف میں موسیقی اور رقص کے سیکھنے کیلئے بڑی بڑی درسگاہیں قائم ہو گئیں۔ جہاں بردہ فروش کنیزوں کو تعلیم دلا کر گراں قیمتوں پر فروخت کرتے تھے۔ ترکستان کے مفتوحہ علاقوں سے ہر سال ہزاروں حسین اور نوخیز لڑکیاں بطور خراج بغداد بھیجی جاتی تھیں۔ الحمرا میں آج بھی دالانِ بکر موجود ہے ، جس میں عیسائ سلاطین کی طرف سے خراج میں بھیجی ہوئ ایک سو کنواری لڑکیاں ہر سال رکھی جاتی تھیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر یہ معلوم کر کے چنداں حیرت نہیں ہوتی کہ 37 خلفائے عباس میں صرف دو خلیفہ ایسے تھے جو کنیزوں کے بطن سے نہیں تھے۔ یعنی سفاح اور امین الرشید۔ باقی سب کنیز زادے تھے۔ عرب بردہ فروش بربر اور حبش کے علاقوں پر حملے کر کے ہر سال ہزاروں عورتیں جبراً اٹھا لاتے تھے۔ انہیں مختلف شہروں میں بیچتے تھے۔ 19 ویں صدی تک تمام اسلامی ممالک میں یہ سلسلہ جاری تھا تا آنکہ اہلِ مغرب نے بردہ فروشی کو خلافِ قانون قرار دیکر اس کا خاتمہ کیا ۔ ان حقائق کی موجودگی میں یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے عورتوں سے بہتر سلوک کیا ہے ۔ عورت کے خلاف اس تعصبِ دیرینہ کی حد یہ ہے کہ سرسید احمد خان اور علامہ اقبال جیسے زعمائے ملت نے بھی عورت کی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کی ہے اور پردے کے حق میں دلائل دئیے ہیں۔
( اقبال کا علم کلام از علی عباس جلالپوری )
 

حماد

محفلین
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں سائنس کی نمایاں خدمات انجام دیں تھیں۔ انھوں نے علم الکیمیا ، الجبراو المقابلہ اور علم المناظر میں قابل قدر انکشافات و تجربات کئے اور صناعی کے مختلف شعبوں میں بڑے بڑے حسین اور نادر نمونے تخلیق کئے لیکن یاد رہے کہ خود عربوں نے یونانیوں ، ایرانیوں، چینیوں اور شامیوں کے علوم و معارف کی خوشہ چینی کی تھی۔ دنیائے علم و فن میں آغازِ تمدن ہی سے چراغ سے چراغ جلتا آیا ہے اور نوعِ انسان کی تہذیبی اور تمدنی میراث کی تعمیر میں ہر قوم نے بقدر ہمت و توفیق حصہ لیا ہے۔ سائنس فرنگی زاد نہیں ہے ، لیکن اسے عربی زاد بھی نہیں کہا جا سکتا۔ مسلمانوں کی علمی خدمات کے تذکرے کا اثر تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ جس طرح ہمارے بزرگوں نے معاصر اقوام سے کسب فیض کیا تھا، ہم بھی معاصرین سے استفادہ کریں اور اس تجسس، انکسار، انہماک اور ایثار نفس کو بروئے کار لائیں جو ہمارے بزرگوں کی ممتاز خصوصیت تھی۔ محض اسلاف کے کارنامے گنوانے سے ہماری فضیلت بحال نہیں ہو سکتی۔ اس فخر بے جا اور ادّعا ناروا کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے علماء نے تاریخی واقعات کے موڑ توڑ سے بھی گریز نہیں کیا۔
(اقبال کا علم کلام از علی عباس جلالپوری)
 

سید زبیر

محفلین
حماد یہ میری کم علمی ہے کہ محترم علی عباس جیسے عظیم مفکر و دانشور سے نا آشنا رہا۔ اگر ان کا تعارف کرادیں تو بہت شکر گزار ہوں گا
 

حماد

محفلین
صائبیت کے تہذیبی ، تمدنی ، مذہبی اور دیومالائ اثرات کا مطالعہ دوسری سامی النسل اقوام ما قبل اسلام کے عربوں ، بنی اسرائیل اور کنعانیوں کی دیومالا اور مذہب میں کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یونان کے فلاسفہ افلاطون اور ارسطو بھی بابلیوں کی طرح سات سیاروں کو ذی شعور ہستیاں مانتے تھے۔ ہومر نے اپنی نظموں میں ہیلیوس(سورج) کو سمیع و بصیر کہا ہے۔ عرب شروع ہی سے سامی نسل کا گہوارہ رہا ہے۔ بابلی، اشوری، کنعانی اور بنی اسرائیل عرب ہی کی سر زمین سے اٹھےتھےاور خوراک کی تلاش میں ہجرت کر کے عراق ، شام ، فلسطین اور کنعان تک جا پہنچے۔ ان اقوام کے تمدن ، مذہب اور فکر پر صائبیت کی گہری چھاپ موجود ہے۔ سامیوں کا سب سے بڑا معبود "ایل" یا "اِل" تھا۔ جو کلدانی اور عبرانی زبانوں میں خدا کیلئے آیا ہے۔ کنعان اور اسرائیل میں اِسے کائنات کا خالق اور پروردگار مانا جاتا تھا۔ اغاریت میں اِیل آسمان کا دیوتا تھا اور ان کی دھرتی دیوی عشیرت اس کی زوجہ تھی۔ آرامی زبان میں "اِیل " کا معنیٰ ہے "قوی"۔ آرامی خداوند خدا کو ایل الیون کہتے تھے۔ اس کے دوسرے نام تھے ، ایلوئ۔ الی، ایلی کی جمع عہد نامہء قدیم میں ایلوہیم آئ ہے۔ جناب مسیح نے صلیب پر دم توڑتے ہوئے چلاّ کر اسے پکارا تھا۔ " ایلی ایلی لما سبقتنی" (اے میرے خدا تو نے کیوں میرا ساتھ چھوڑ دیا)۔ اِیل کنعان کا سب سے بڑا معبود تھااسکا عرف علیان (بلند تر) تھا ۔ صور کے ساحلی شہر میں اِیل شہر کا محافظ تھا۔ اس کی زوجہ عاشرہ دیوی تھی۔ غرض کہ تمام سامی زبانوں میں اِل یا اِیل کا لفظ خدا کیلئے رائج رہا ہے۔ عہد نامہء قدیم میں معبد کو "بیت ِ ایل"(خد ا کا گھر )کہتے تھے۔ بابل کا نام بھی اِیل سے یادگار ہے۔ یعنی بابِ ایل (دروازہء خدا) ۔ ماقبل اسلام کے عرب اسے "اِلہ" کہتے تھے۔ اس دور کے قصائد میں اللہ کا ذکر تواتر سے ملتا ہے جو فی الاصل اَل اِلہ (معبود) ہے۔ عرب اپنی تین دیویوں لات ، منات اور عزّٰی کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے اور ان کے نام اپنے بچوں کے نام پر رکھتے تھے مثلاً عبد مناۃ، زید لات، عبدالعزّٰی وغیرہ
( کائنات اور انسان ازعلی عباس جلالپوری )
 

حماد

محفلین
صائبیت یا ستارہ پرستی کی روایت ظاہراً بابلیوں ہی سے ماقبل اسلام کے عربوں کو ملی تھی۔ عرب زمانہء حج میں کعبے کا طواف کرتے تھے جو حجرِ اسود کیلئے تعمیر کیا گیا تھا۔ ان کے یہاں کعبہ کا تقدّس حجرِ اسود کی ہی وجہ سے تھا۔ قدیم زمانے میں طواف کو پوجا کی ایک اہم رسم سمجھا جاتا تھا۔ یہ پجاری مادر زاد برہنہ ہو کر بتوں یا معبدوں کے گرد چکر لگایا کرتے تھے۔ سکندر اعظم کے سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ٹرائے مین ایکسلیس کی قبر کا طواف کپڑے اتار کر ہی کیا تھا۔ ماقبل اسلام کی عورتیں مرد بھی طواف کے وقت برہنہ ہو جاتے تھے اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر سیٹیاں بجابجا کر کعبے کا چکر لگاتے تھے۔ طواف کی یہ رسم سورج کے گرد سیاّروں کی گردش سے لی گئ تھی۔ صائبین سورج کے گرد چکر لگانے والے سیاّروں کی تعداد سات مانتے تھے لہذٰا عرب کعبے کے گرد سات ہی چکر لگایا کرتے تھے۔ کعبے کو دور دور مقدس مانا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایران کے ساسانی بادشاہ بھی اس پر قیمتی نذرانے اور چڑھاوے بھینٹ کیا کرتے تھے۔ مجوسی کہتے تھے کہ لفظ مکہ "مہ گاہ" (چاند کا معبد) کی بدلی ہوئ صورت ہے۔ شہرستانی کے خیال میں کعبہ کیوان یا زحل کا مندر تھا۔ ملاّ محسن فانی نے حجر اسود کو کیوان یا زحل کی مورتی کہا ہے۔ عرب اپنا طواف حجرِاسود سے شروع کر کے اِسی پر ختم کیا کرتے تھے ۔ کعبہ کی طرح شام کا ایک شہر حمص بھی اپنے معبد کیلئے مشہور تھا۔ جہاں سورج کی پوجا ایک سیاہ پتھر کی صورت میں کی جاتی تھی اسکے گرد طواف کیا جاتا تھا اور نذرانے بھینٹ کئے جاتے تھے۔ قیصرِ روم ہیلیو بالس اس پتھر کو اٹھا کر رومہ لے گیا اور وہاں اس کی پوجا کو رواج دیا۔
( کائنات اور انسان ازعلی عباس جلالپوری )​
 

حماد

محفلین
صلوٰۃ ، ملک (فرشتہ)، مصحف (الہامی کتاب)، شیطان، صدقہ، زکوٰۃ ، عشر وغیرہ کے الفاظ عبرانی زبان ہی سے عربی میں آئے ہیں۔ یہودیوں کا "شولوم علیخم(تم پر سلامتی ہو) مسلمانوں میں سلام علیکم بن گیاہے۔ متعہ بھی یہودیوں کے ہاں رائج تھا۔ مسلمانوں میں امام مالک اور امام جعفر صادق متعہ کے قائل ہیں کیونکہ عہد رسالت اور خلیفہء اول کے زمانے میں متعہ کا عام رواج تھا۔ یہودیوں نے صدقہ ، زکوٰۃ اور عشر کنعانیوں کے وسیلے سے صائبیین سے اخذ کئے تھے جن میں یہ محصولات پروہتوں کی مدد معاش کیلئے لگائے جاتے تھے۔ اسی طرح شیطان اور فرشتوں کے تصورات بھی مجوسیوں سے یہودیوں نے لئے تھے اور پھر عیسائیت اور اسلام میں رائج ہو گئے۔ اسلامی شریعت اور فقہ بھی شریعت موسوی کے مانند قصاص پر مبنی ہے اور اس کا اصول یہی ہے "آنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت"۔ ختنہ بنی اسرائیل مصر سے لائے تھے ۔ مصر میں دھرتی دیوی کے پجاری اپنے آلات تناسل کاٹ کر دیوی کو بھینٹ کیا کرتے تھے۔ بعد میں صرف حشفہ کا غلاف کاٹ کر اس کا نذرانہ دینے لگے ۔ جس سے ختنہ کی رسم کا آغا ز ہوا۔ صائبییت اور مجوسیت کے اثرات اسرائیلی مذاہب کے رسوم و شعائر تک ہی محدود ہی نہیں رہے بلکہ انکے افکار کو بھی روح کی گہرائیوں تک متاثر کیا۔ تکوین کائنات، تخلیق آدم، عالمگیر سیلاب، شیطان ، فرشتوں ، جنت دوزخ، مسیحا، شفیع اور مہدی کے تصورات کا ماخذ بھی صائبییت اور یہودیت ہی کو سمجھا جا سکتا ہے۔
(کائنات اور انسان از علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
فی زمانہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دنیائے اسلام میں تحقیقی علوم کا مستقل مقام تسلیم کیا جائے اور انھیں علمِ کلام کے تصرفِ بے جا سے نجات دلائ جائے کیونکہ مذہب اور سائنس کے میدان عمل جدا جدا ہیں۔ مسلمانوں کی موجودہ معاشرتی زبوں حالی اور علمی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے علوم ِ جدیدہ کی تحصیل از بس لازمی ہے۔ دورِ عباسیہ کے مسلمانوں نے معاصر علوم و فنون کی تحصیل نہایت ذوق و شوق سے کی تھی اور سنسکرت ، یونانی، سریانی اور پہلوی سے استفادہ کرتے وقت یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کفار و اغیار کے علوم ہیں اور مذہب اسلام کے منافی۔ ان علوم کے اخذ و اکتساب کے بعد مسلمانوں نے قابل قدر انکشافات کئے تھے اور دوسری اقوام سے اپنی فکری اجتہاد کا لوہا منوایا تھا ۔ ہمیں جدید سائنس اور فلسفہ سے خائف ہونے کی کوئ معقول وجہ دکھائ نہیں دیتی ۔ ہمارا سوچا سمجھا ہوا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کی کم سوادی اور بے حسی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ان کا اعتماد عقل و خرد پر سے اٹھ گیا ہے۔ اس اعتماد کو بحال کرنے کیلئے اسلامی ممالک میں تحریک ِ خرد افروزی کی ترویج و اشاعت کی ضرورت ہے۔
(اقبال کا علم کلام از علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
جناب مسیح نے صلیب پر دم توڑتے ہوئے !!!؟؟؟ چلاّ کر اسے پکارا تھا۔ " ایلی ایلی لما سبقتنی"

ثمینہ راجہ کی ایک نظم

دل مرا خون ہوا
اور مرا تن خاک ہوا
پیرہن ذات کا بوسیدہ ہوا
چاک ہوا

شہر ِجاں
مثل ِکراچی سوزاں
لرزاں و ترساں و گریاں
ویراں

شام اترتی ہے تو اندھیارے سے
خوف آتا ہے
اک دعا چاروں طرف گونجتی ہے
لوٹ کر خیر سے گھر کو آئیں''
وہ گل اندام، وہ مہ رُو میرے
آنکھ کے موتی، جگر کے ٹکڑے

رات آتی ہے تو دل ڈوبتا ہے
میرے اطراف میں اک وہم کا خونی سایا
کوئی ہتھیار لیے، گھومتا ہے
نیند میں جائے پنہ ملتی نہیں
کسی منزل کے لیے رخت ِسفر باندھنا کیسا
کوئی رَہ ملتی نہیں

شہر یاران جدال ِ کمی و بیش میں گم)
اور نادیدہ عدو ۔۔۔ سازش ِ پیہم میں مگن

نہیں معلوم مرا کون سا دوست
مرغ کی بانگ سے پہلے مرا انکار کرے
کس اندھیرے میں، کہاں، کوئی غنیم
گھیر کر وار کرے
نہیں معلوم
کہاں تک مجھے خود اپنی صلیب
اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے اب چلنا ہے
نہیں معلوم مگر پاؤں مرے کانپتے ہیں
دل مرا جب ڈوبتا ہے
اک صدا ہونٹوں پہ سسکی کی طرح آتی ہے

اے خدا ! میرے خدا''
تو نے بھلا
کیوں مجھے تنہا چھوڑا؟

--------------------------------
ایلی ایلی لما سبقتنی ۔۔۔۔
عیسٰی علیہ السلام کے آخری الفاظ

(ثمینہ راجہ اردو پوئٹری)
 

حماد

محفلین
ہمارے مورخین تاریخ تمدن پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس کا آغاز صدر اسلام سے کرتے ہیں اور ماقبل اسلام کے سارے زمانے کو دورِ جاہلیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ظہور ِ اسلام کے وقت اکثر متمدن اقوام تنزل کا شکار ہو چکی تھیں۔ چھٹی اور ساتویں (ق،م) صدیاں اس ہمہ گیر زوال کی آئینہ دار ہیں لیکن ولادت جناب مسیح سے کم و بیش چار ہزار برس قبل سے لیکر تیسری صدی بعد از مسیح تک اور مصر ، بابل، اشوریا، فنیقیہ، کریطس، یونان، روم ، چین اور ہند میں مختلف تمدن اپنی اپنی بہار دکھا چکے تھے اور ان اقوام کے علمی و فنی کارناموں نے نوع انسان کی تمدنی میراث کو مالا مال کر دیا تھا۔ سمیریوں نے سب سے پہلے دن رات کو چوبیس گھنٹوں میں تقسیم کیا ۔ ہفتے کے سات دن اور مہینے کے تیس دن قرار دئیے۔ تحریر کا فن ایجاد کیا۔ بابل اور اشوریا میں علم ہیئت کی بنیاد رکھی گئ۔ مصریوں نے ریاضی ، ہندسہ ،جرثقیل، موسیقی، تعمیر اور مجسمہ تراشی کے علوم و فنون کو ترقی دی۔ فنیقیوں نے حروف ابجد کو ترتیب دیکر دنیائے علم میں انقلاب برپا کیا نیز جہاز رانی اور بین الاقوامی تجارت کو فروغ دیا۔ یونانیوں نے کائنات کے مظاہر میں محققانہ غورو فکر کا آغاز کیا۔ نظری سائنس اور فلسفے کی تاسیس کی ۔ ڈرامہ اور مجسمہ تراشی کی تکمیل کی ۔ رومیوں اور ایرانیوں نے ملک داری اور جہانبانی کے اصول وضع کئے اور مختلف اقوام پر حکومت کر کے ان میں لچک اور وسعت پیدا کی۔ چینیوں نے کاغذ، بارود، چھاپہ خانہ اور قطب نما کی ایجادات پیش کیں۔ مقابلے کے امتحان شروع کئے ، کاغذ کا سکہ چلایا اور ریشم بنانے کا فن سکھایا۔ ہندیوں نے کسر اعشاریہ اور ہندسوں سے عربوں کو روشناس کرایا۔ القصہ سمیریوں سے لیکر ظہور اسلام تک کم و بیش پانچ ہزار برس تک یہ مختلف تمدن فروغ پاتے رہے اور مٹ مٹ کر ابھرتے رہے۔ جب عربوں نے ایران ، شام، مصر ، شمالی افریقہ اور ہسپانیہ کے ملک فتح کئے تو ان قدیم تمدنوں کی علمی ، فنی ، صنعتی ، سیاسی اور اقتصادی روایات ان کو روثے میں ملیں۔ ان تمدنوں کو انسان کے زمانہء جاہلیت سے تعبیر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمارے مورخین تاریخ تمدن سے ناآشنا ہیں یا شاید انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان تمدنی روایات کا ذکر کیا گیا تو مسلمانوں کے کارنامے ماند پڑ جائیں گے۔
(علی عباس جلالپوری)​
 

حماد

محفلین
اخلاق کی تدوین جدید کے ضمن میں یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ جس طرح بہترین حکومت وہ ہوتی ہے جو کم سے کم حکومت کرے ۔ اسی طرح بہترین اخلاق وہ ہے جو کم سے کم قدغن سے کام لے " یہ نہ کرو ، وہ نہ کرو" کی تکرار سے کسی قسم کا خوشگوار اثر نہیں ہوتا۔ محاسنِ اخلاق کے پیدا کرنے کیلئے ایسے ماحول کی ضرورت ہے جس میں انسان بغیر کسی خارجی دباؤ کے خود بخود اچھے کام کرنے پر آمادہ ہو جائے ۔ اس ماحول میں آزادی رائے ، انسانی جبلتوں کے مناسب اظہار ، خواہشات کے توافق ، اعلیٰ نصب العین کا تعین اور مسرت سے بہرہ ور ہونے کے بیش از بیش مواقع بہم پہنچانا ضروری ہے۔ جس معاشرے میں اکثریت مسرت کی دولت سے محروم ہو گی اس میں اخلاقی قدریں کبھی نہیں پنپ سکیں گی۔
(عام فکری مغالطے)
 

حماد

محفلین
اقبال نے جا بجا مختلف پیرایوں میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں کو جدید فلسفے اور نظری سائنس کی تحصیل نہیں کر نی چاہئے۔ فلسفے اور سائنس کی مخالفت کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ ان کی بنیاد تجسس و تشکک یا ظن و تخمین پر ہے۔ اور اقبال کے خیال میں یہ چیزیں خودی کو کمزور کرتی ہیں اور جوش ِ عمل اور یقین ِ محکم کے ضعف کا باعث ہوتی ہیں۔ اقبال سائنس کی ایجادات سے بھی بیزار ہیں چنانچہ جاوید نامے میں جو مثالی معاشرہ پیش کیا ہے اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اس میں دیو مشین نہیں ہے۔ فی زمانہ مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کرنا کہ وہ فلسفے اور سائنس سے اجتناب کریں اور جذبہ تشکک و تجسس کی بیخ کنی کر دیں، حد درجہ اندیشہ ناک ہے۔ شک اور تجسس کے بغیر علمی تحقیق کے کام کو جاری رکھنا ناممکن ہے۔ اقبال سائنس کے اس لئے بھی مخالف ہیں کہ اس کی بعض ایجادات ہلاکت اور تباہی کا باعث بھی ہوتی ہیں۔
حکمتے کو عقدہ اشیاء کشاد
باتو غیر از فکر چنگیزی نداد
ابن رشد کا قول ہے کہ دنیا میں کوئ چیز فی نفسہ بری نہیں۔ وہ ہمارے برے استعمال سے بری ہو جاتی ہے۔ قصور سائنس کا نہیں ہے۔ ان سیاست دانوں کا ہے جو اس کی ایجادات کو ناجائز مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں اور جن کے جذبات تصرف وتغلب نے ان کے عقل و شعور کو ماؤف کر دیا ہے۔اگر آج ان قابوچی ملوکیت پسند وں اور مقدر آزماؤں کے جذبات سلب و نہب پر عقل و دانش محکم ہو جائے تو سائنس کی برکات سے کرہء ارض کو رشک فردوس بنایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ کہنا کہ سائنس نے ہمیں سوائے فکر چنگیزی کے کچھ نہیں دیا قرین انصاف نہیں ہے۔ سائنس کی ایجادات نے بنی نوع انسان کو صدیوں کے اوہام و خرافات سے نجات دلا کر ان کے اعتماد نفس کو بحال کیا ہے۔ فکر و نظر کو وسعت بخشی ہے۔ قدرت کی بے پناہ قوتوں کی تسخیر کے قابل بنایا ہے۔ انسانی برادری کے تصور کی عملی ترجمانی کے مواقع بہم پہنچائے ہیں۔
(اقبال کا علم کلام از علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
ابیقورس کے مشہور پیرو لکریشس کی نظم "اشیاء کی ماہیت کے متعلق" کو عقلیت کا ایک اہم صحیفہ سمجھا جاتا ہے۔ لکریشس نے ابیقورس کی طرح مروجہ مذہب کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظم میں کہا ہے:- " مذہب کے باعث انسان پر مصائب نازل ہوئے ہیں۔ بنی نوع انسان نے مذہب کے ہاتھوں گھناؤنے زخم کھائے ہیں۔ مذہب نے ہزاروں انسانوں کا خون بہایا ہے اور لاکھوں بچوں کو خون کے آنسو رلائے ہیں۔ نیکی پتھروں کے سامنے سجدہ کرنے ، قربان گاہوں کی طرف رجوع کرنے اور ان پر ذبیحوں کا خون چھڑکنے یا مندروں میں جا کر عبادت کرنے میں نہیں ہے بلکہ ذہنی آسودگی اور فراغِ خاطر کے حصول میں ہے۔" اس نظم میں وہ کہتا ہے کہ زندگی ایک فرصتِ مستعار ہے۔ اسے ہر ممکن طریقے سے ہنسی خوشی بسر کرنا قرینِ دانش ہے۔ کوئ ذی فہم شخص موت سے نہیں ڈرتا۔ موت اسلئے خوفناک دکھائ دیتی ہے کہ مذہب نے حیات بعد موت کا خوفناک تصور پیش کیا ہے۔ حیات بعد موت کا کوئ وجود نہیں ہے۔ جہالت ، حرص و ہوا، جذباتی ہیجان کے باعث لوگ ذہنی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہی دوزخ ہے۔ دانش و حکمت انسان کو ذہنی فراغ اور دل کی آسودگی بخشتی ہے۔ یہی بہشت ہے۔ آخر میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ " انسان کو کبھی اطمینان قلب میسر نہیں آسکے گا جب تک وہ مذہب سے کنارہ کش نہ ہو جائے گا۔"
(علی عباس جلالپوری کی کتاب روحِ عصر سے انتخاب)
 

حماد

محفلین
اسلامی ممالک میں مطلق العنان سلاطین کی حکومت تھی۔ علماء اور فقہا ان کی کاسہ لیسی پر قانع تھے۔ علمی لحاظ سے ان کا محبوب مشغلہ یہ قرار پایا تھا کہ قدماء کی کتابوں کی شرحیں لکھتے رہیں اور بال کی کھال اتارتے رہیں۔ پہلے ان کتابوں کے خلاصے لکھے جاتے پھر ان کی شرحیں لکھی جاتیں پھر ان شرحوں کے خلاصے لکھے جاتے اور طلباء کو رٹا دیے جاتے۔ ان حالات میں فکرونظر یا اجتہاد رائے کے بروئے کار آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عربی کا مشہور شاعر ابو العلا معری کہتا ہے:
"اسلاف کی بکواس کا کتنا بڑا سرمایہ کتابوں میں ایسا موجود ہے جس کی تمام روشنائ ضائع گئ"
مدعیانِ علم و فضل تدبر وتفکر سے بیگانے ہو چکے تھے اسی شاعر نے کہا ہے:
"لوگ امام حق کے منتظر ہیں جو ان کے لشکر کی قیادت کرے۔ یہ ان کا خیالِ خام ہے۔ عقل کے سوا کوئ امام نہیں ہے"
لیکن یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز تھی۔ ہبوط بغداد (1256ء) سے 19 ویں صدی کے اوائل یعنی کم و بیش پانچ سو برس تک مسلمان علماء عقلی استدلال اور حریت فکر کو بدعتِ سیئہ سمجھتے رہے مزید برآں ہمہ گیر قنوطیت اور جبریت نے جو سیاسی اور اخلاقی تنزل کی واضح علامات ہیں، دلوں میں تحقیق و تجسس کے ولوے سرد کر دئے تھے۔

(اقبال کا علم کلام از علی عباس جلالپوری)
 

ساجد

محفلین
اراکینِ محترمین سے گزارش ہے کہ دھاگے کے عنوان کی رعایت کرتے ہوئے مباحثہ میں نہ پڑیں۔ آپ اپنے اپنے پسندیدہ اقتباسات یہاں پیش کر سکتے ہیں لیکن بحث کے لئے یہ دھاگہ مناسب نہیں اسی لئے غیر اقتباسی مراسلات حذف کر دئیے گئے ہیں۔
 

شیہک طاہر

محفلین
جب میں سید علی عباس کے اقتباسات پڑھ رہا تھا تو یہی سوچ رہاتھا کہ اس کے متعلق بہت ہی سخت قسم مراسلات موجود ہونگے۔ لیکن جب آخر تک پڑھ کے کچھ بھی دیکھنے کو نا ملا تو حیرت ہوئی، مگر جب آپ کا مراسلہ پڑھا تو بات سمجھ میں آ گئی۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ نے مراسلے حذف کر دئیے ہیں۔ عمومی نفسیات اور رجحانات کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہاں لوگوں کی نقطہ نظر سے مختلف بات کرنے کا ردِعمل کیا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں لوگ وہی سننا چاہتے ہیں جو انہیں صحیح لگتا ہے یا جس رائے کو سننے کی وہ خواہش رکھتے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے یہ خواہش تھی کہ میں کچھ اقتباسات پوسٹ کر دوں مگر پھر خوف آیا کہ پتا نہیں کتنے لوگ سمجھ کر استفادہ حاصل کریں گے، اور کتنے لوگ ذات پر حملہ کریں گے، اور نظریاتی اختلافات کے بجائے ذات کو نشانہ بنائیں گے۔
ہونا یہ چاہیئے تھا کہ لوگ ایک دوسرے کی بات تحمل سے سنتے اور اپنی بات یا یقین کو حرفِ آخر نہ سمجھتے۔ فہم و فراست اللہ کی نعمت ہے، اسے بھی استعمال میں لانا چاہئیے۔
اراکینِ محترمین سے گزارش ہے کہ دھاگے کے عنوان کی رعایت کرتے ہوئے مباحثہ میں نہ پڑیں۔ آپ اپنے اپنے پسندیدہ اقتباسات یہاں پیش کر سکتے ہیں لیکن بحث کے لئے یہ دھاگہ مناسب نہیں اسی لئے غیر اقتباسی مراسلات حذف کر دئیے گئے ہیں۔
 
Top