حماد
محفلین
تحلیلِ نفسی کی رو سے نفسِ انسانی کے دو پہلو ہیں۔ 1۔ حظِ فکری 2۔ حقیقتِ فکری۔ مذہب اور تصوف حظِ فکری کی پیداوار ہیں۔ جبکہ سائینس حقیقت فکری کی دست پروردہ ہے۔ حقیقت پسند آدمی خواب و خیال کی دنیا کے بجائے حقائق کی دنیا میں گذر بسر کرتا ہے۔ اور اپنی زندگی میں حقائق کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔ خواہ وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں۔ اس کے برعکس جو شخص ان کا سامنا نہیں کر سکتا۔وہ حقائق سے فرار کر کے تخیلات سے رجوع لاتا ہے اور تخیل ہی میں اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کا مداوا تلاش کرلیتا ہے۔ مذہب بھی اسی اجتماعی تخیل آرائ کا کرشمہ ہے۔بنی نوع انسان نے اپنے ابتدائ دور میں بچوں کی طرح نامساعد قدرتی ماحول سے گریز کر کے تخیل آرائ کے دامن میں پناہ لی تھی۔ اور پرکھوں کی روحوں، دیوتاؤں کا سہارا تلاش کیا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ زمانے کے تقاضوں اور فکری ارتقاء کے ساتھ بلوغتِ نظر و احساس سے بہرہ یاب ہو گیا اور تخیلات میں حظ و مسرت تلاش کرنے کے بجائے اپنے عقدے حقیقت پسندانہ انداز میں سلجھانے لگا۔
(کائنات اور انسان از علی عباس جلالپوری)
(کائنات اور انسان از علی عباس جلالپوری)