Rashid Ashraf
محفلین
ایک طویل انتظار کے بعد کراچی کے ادبی مجلے مکالمہ کے دو شمارے ایک ساتھ شائع ہوئے ہیں، کئی مضامین حاصل مطالعہ کہے جاسکتے ہیں جیسے طاہر مسعود کا میرے ابا، کمال احمد رضوی کا احمد پرویز-نامہربان یادیں، شفیع عقیل کا فیض صاحب، سلیم یزدانی کا عزیز حامد مدنی وغیرہ۔ لیکن حضرت ظفر اقبال نے "میر کے تاج محل کا ملبہ‘‘ لکھ کر تو ادبی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے، موصوف نے کئی برس قبل اپنی شاعری کو آگ لگادینے کی بات کی تھی جس کے جواب میں خامہ بگوش نے "ادبی منشیات" کے عنوان سے کالم لکھا تھا، کچھ عرصہ قبل انہوں نے بی بی سی اردو کے انور سن رائے کو ایک انٹرویو میں اپنی اس خواہش کو ایک مرتبہ پھر یہ کہہ کر دوہرایا ہے کہ "میں تو اپنی شاعری کو منسوخ کرسکتا ہوں، ساری کی ساری کو۔" ۔۔۔۔۔ زیر نظر تحریر ایک وقتی فوری تاثر کے سوا کچھ نہیں اور اس کا لکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس سے ظفر اقبال صاحب کی علمیت اور ان کے مقام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا، اس لیے کہ وہ اپنی شاعری کے اعتبار سے جس مقام پر چلے گئے ہیں وہاں سے ان کے کلام کی واپسی تو ایک طرف، خود ان کو واپسی بھی مشکل نظر آرہی ہے
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی کے ادبی مجلے مکالمہ کے شمارہ نمبر 19 (مارچ 2012) میں جناب ظفر اقبال کا مضمون ’’میر کے تاج محل کا ملبہ‘‘ شائع ہوا ہے۔ مکالمہ کا یہ شمارہ اس لحاظ سے یادگار ہے کہ اس میں شائع ہوا الزامات سے بھرپور یہ مضمون سخن فہم حضرات کے لیے بحث و تنقید کے نئے راستے کھولے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بغور مطالعے کے بعد سخن فہم، سخن اور فہم دونوں ہی سے ہاتھ دھوتے نظر آرہے ہیں۔ ظفر اقبال نے زیر تذکرہ مضمون میں یگانہ کے بعد اب میر تقی میر کو نشانہ بنایا ہے ۔ اس سے قبل یگانہ پر ان کا مضمون ’ میرزا یاس یگانہ۔ایک معمولی شاعر‘ شائع ہو کر ہر خاص و عام سے ’ غیر مقبولیت۔‘ کی سند پا چکا ہے۔ میر پر اپنے اس مضمون میں وہ صرف ایک بات کہنا چاہتے تھے اور وہ یہ کہ خدائے سخن کے کلام میں ہر شعر دخور اعتنا نہیں ہے، یہ بات وہ مدیر کے نام اپنے یک سطری مکتوب میں بھی کہہ سکتے تھے، لیکن اتنی سی بات کہنے کے لیے الزامات کے جو تانے بانے انہوں نے بنے، اس کی زد میں خود ان کا آنا بھی بعید از قیاس نہیں ہے۔ بزبان ِخامہ بگوش، اتنی تیزی سے تو کسی کو رسوائی بھی نہیں ملتی جتنی تیزی سے ظفر اقبال کو شہرت ملی ۔ ان کے مجموعہ کلام ’آب رواں ‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ، جس میں آب تو بقدِر اشک ِبلبل تھا ، رہی روانی سو اس مجموعہ کلام کو پڑھنے کے بعد اس کا قاری بحق شاعر رواں تو ہوا لیکن کسی بھی قسم کے کلمہ خیر کے بغیر۔ انتظار حسین تو اس قدر جز بز ہوئے کہ تنگ آکر حال ہی میں ایک سالم کالم لکھ دیا۔انتظار حسین لکھتے ہیں: ’’ آب رواں پر شمس الرحمن فاروقی نے ایک پرمغر دیباچہ باندھا ہے۔ فاروقی صاحب کا قلم اس وقت اور ہی شان سے رواں ہوتا ہے جب ظفر اقبال کی شاعری زیر بحث ہو۔فاروقی صاحب صحیح کہتے ہیں کہ عام حالات میں تو آب رواں کے مصنف کو زندگی بھر ان اشعار کی کمائی کھانا چاہیے تھی۔‘‘
پروفیسر فاروقی کے بیان سے یہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ظفر اقبال کی اپنے اشعار کے ذریعے حاصل کی گئی کمائی اب ختم ہوگئی ہے۔ اس بات کی تصدیق انتظار حسین نے بھی کی ہے، مزید لکھتے ہیں: ’’ تو پھر کیا ہوا، ظفر اقبال نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور گلافتاب کی اوبڑ کھابڑ کھاڑی میں جااترے اور
ایسے شعر لکھنے لگے:
لہو لہلوٹ سیاہی پھیلویں پھب
کڈھب کاغذ طلب تحریر نے کی
کوؤں کے شور مچانے سے کوئی مر تو نہیں جاتا۔تو کرتے رہیں یار اغیار ظفر اقبال کی کڈھب غزل پر تھو
تھو، اس نے ایک معتبر نقاد سے سند لی اور اجتہاد کا شرف حاصل کرلیا۔ ارے ہم (انتظار حسین)تو اردو کی سخت جانی کی دلیل یہیں سے لاتے ہیں کہ یہ زبان ظفر اقبال کے تشدد کو مسلسل سہہ رہی ہے اور زندہ اور پائندہ چلی آرہی ہے۔ (انتظار حسین)‘‘
ظفر اقبال ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جن کے بارے میں نقاد اب لکھتے لکھتے تھک چکے ہیں بلکہ کئی ایک تو یہ دنیا ہی چھوڑ چکے ہیں مثال کے طور پر خامہ بگوش جنہوں نے ایک سے زائد کالمز میں ہمارے ممدوح پر قلم اٹھایا تھا۔ اپنے ایک کالم میں خامہ بگوش لکھتے ہیں:
’’
انیس ناگی ایک نہایت عمدہ ادبی رسالے دانش ور سے بھی وابستہ ہیں۔ اس رسالے کی پیشانی پر ایک لیبل چسپاں ہوتا ہے جس پر یہ الفاظ درج ہیں: ’ نئے ادب کا ترجمان‘ ۔ لیکن جو ادب اس میں چھپتا ہے وہ نئے پن سے آگے کی چیز ہے۔ مثلا اس کے تازہ شمارے میں ظفر اقبال کی نئی غزلیں شامل ہیں، ایک غزل کے یہ دو شعر ہم نے بطور نمونہ استاد لاغرمراد آبادی کو سنائے
:
جو آن کے ہمسائے ہمارے میں ر ہیں گا
تحقیق کہ خود ہی خسارے میں رہیں گا
اس گھر کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ شوخ
ایک بار رہیں گا تو دوبارے میں رہیں گا
استاد گرامی نے یہ شعر سن کر فی البدیہہ فرمایا:
ناگی نے جو چھاپیں ظفر اقبا ل کی غزلاں
جو ان کو پڑھیں گا وہ خسارے میں رہیں گا
’میر کے تاج محل کا ملبہ‘ میں ظفر اقبال نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’ میر کے ہاں کڈھب اور ناملائم الفاظ کا استعمال زیادہ ہے جس سے سلاست اور روانی بھی مجروح ہوتی ہے تاہم جہاں میر سلیس زبان استعمال کرتے ہیں، وہاں سب سے آگے نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔
‘
میر کے بہتر نشتر ہیں اور ان تمام نشتروں کا جواب ظفر اقبال نے مذکورہ بالا فرمان کے ذریعے دینے کی کوشش کی ہے، حیرت کی بات یہ ہے یہ فرمان جاری کرتے وقت وہ اپنے کلام کو شاید سرے سے فراموش کربیٹھے جو ’کڈھب اور سلیس ‘ دونوں کی ایک نرالی مثال ہے، یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
رنگت ہی بدل گئی بدن کی
جب سانپ نے پہلی بار ڈسا
ڈھیلے ہیں پڑے ہوئے میاں تو
بیگم کا ابھی وہی ہے ٹھسا
پانی اتنا ملا کے اس نے
لسی کا کردیا ہے لسا
ظفر اقبال نے اپنے مضمون میں خدائے سخن میر تقی میر کے تاج محل کے ملبے کی جانب قارئین کی توجہ دلانے کی کوشش تو کی ہے لیکن خود ان کی شاعری کے ملبے کا تاج محل کھڑا کرنے والے اپنے محسن پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کو بھی نہیں بخشا۔ فرماتے ہیں۔ ’’ شمس الرحمان فاروقی قابل مواخذہ اس لیے ہیں کہ انہوں نے جدیدیت کا جھنڈا سب سے اونچا اٹھا رکھا ہے اور خود غزل لکھتے بھی ہیں لیکن وہ انصاف اور ایمانداری سے بتائیں کہ کہ جدید غزل میں ان کا کنٹری بیوشن اور مقام کیا ہے ؟ ‘‘
یہ معاملہ دو بڑے لوگوں کے درمیان ہے لہذا اس میں دخل دینا ہمارے لیے مناسب نہیں لیکن جب ہم نے یہ استاد لاغر مراد آبادی کے گوش گزار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’ یہ عزیز یہ بات کیوں بھول جاتا ہے کہ شمس الرحمان فاروقی کے بلند کیے ہوئے جدیدیت کے جھنڈے پر تو یہ خود کئی برس سے براجمان ہے۔ ‘
اپنے مضمون میں ظفر اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ ’ ایک مرتبہ میں نے شمس الرحمان فاروقی کے جریدے شب خون میں لکھا تھا کہ جو شخص جدید غزل کی تنقید لکھتا ہے ، اگر اس کی اپنی غزل جدید نہیں ہے تو اسے جدید غزل پر تنقید لکھنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا، جس پر اسی شمارے میں انہوں (فاروقی) نے ترنت جواب دیا کہ ظفر اقبال جتنے اچھے شاعر ہیں ،اتنے ہی برے نقاد بھی ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تینوں (انتظار حسین،حسن عسکری، شمس الرحمن فاروقی) اور ایسے سب حضرات باہر کے لوگ ہیں، انہیں غزل جیسی اندر کی چیز پر ہاتھ صاف کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔‘‘
یہاں پھرہمیں مجبورا استاد لاغر مراد آبادی کو زحمت دینی پڑی ، خامہ بگوش کی رحلت کے بعد وہ عملی طور پر گوشہ نشین ہی ہو گئے ہیں لیکن گاہے گاہے ان سے ایسے معاملات میں ہم تبصرے کی درخواست کرتے رہتے ہیں ۔استاد نے یہ بیان سن کر تبسم فرمایا اور کہا کہ ’غزل جیسی اندر کی چیز پر تو تمہارے شاعر نے ایسا ہاتھ صاف کیا ہے کہ خود اسی کے الفاظ میں، لسی کا لسا کردیا ہے، بھئی وہ میرا یار خامہ بگوش ،ظفر اقبال کو پیار سے ’علامہ ظفر اقبال ‘ (علامہ اقبال اور ظفر اقبال کا مرکب) یونہی تو نہیں کہتا تھا۔‘ ‘
یہاں ہم نے خامہ بگوش کا ایک اور تبصرہ استاد کے گوش گزار کیا کہ ’’ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ شمس الرحمن فاروقی جس شاعر کی تعریف کردیں اس کی دنیا تو کیا عاقبت بھی سنور جاتی ہے یعنی وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ فاروقی نے شعرشور انگیز کے نام سے کلام میر کی جو شرح لکھی ہے ، اس میں جگہ جگہ ظفر اقبال کے شعر ، میر کے شعروں کے بالمقابل پیش
کیے گئے ہیں ، اگر یہ شرح میر کی زندگی میں لکھی جاتی تو یہ ان کی زندگی کا دوسرا صدمہ ہوتا ۔ پہلا صدمہ دلی کا اجڑنا تھا جسے وہ برداشت کرگئے مگر دوسرا صدمہ آخری صدمہ بن جاتا۔ ‘‘
ظفر اقبال نے اپنے مضمون ’میر کے تاج محل کا ملبہ ‘ میں چومکھی لڑی ہے۔ بات میر تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن انہوں نے ساتھ ہی ساتھ پروفیسر شمس الرحمان فاروقی، پروفیسر محمد حسن عسکری، انتظار حسین ، حتی کہ خواجہ میر درد کو بھی لپیٹے میں لے لیا۔