میں اپنے آئینہ ء دل کے روبرو بیٹھا

میں اپنے آئینہ ء دل کے روبرو بیٹھا
خود اپنی شکل کو تکتا ہوں ہوبہو بیٹھا

مئے نظارہ کی خاطر اس انجمن میں تری
لئے ہوئے میں رہا آنکھ کا سبو بیٹھا

اب آنسوؤں کی رواں نہر پر دل ِ خستہ
شب ِ فراق میں اٹھ کر کرے وضو بیٹھا

کوئی نہیں ہے سزا وار ِ خلوت ِ غم ِ جاں
میں اپنے آپ سے کرتا ہوں گفتگو بیٹھا

افق میں ڈوب کے سورج جگر سے ابھرا ہے
چراغ ِزخم کے درپن میں آ لہو بیٹھا

نگارخانہ ء عالم پہ کیوں نظر رکھوں
شہاب خانہ ء دل میں جو میرے ہُو بیٹھا
بہزاد حسن شہاب
معزز حضرات میں نے گذشتہ دو برس محمد وارث ، سرور عالم راز، عبداللہ ناظر مرحوم جیسے ماہرین کے بلاگز ، فاروق درویش اور سارا غزل جیسے فیملی فرینڈزسخنوروں سے شاعری اور اصول َ شاعری کے بارے جتنا پڑھا جو کچھ سیکھا اس کے بعد چند نظمیں اور اب یہ ایک غزل لکھ سکا ہوں اور یہ میری پہلی غزل ہے ۔ میں زندگی کی ہر فیلڈ میں بلندی کو چھو نے کی جستجو پر یقین رکھتا ہوں اور غزل میں اپنی شناخت بنانا میرا خواب ہے اس کے لئے اللہ کی مدد کے بعد آپ حضرات کی سچی اور کھری رائے میرے لئے بہت اہم اور مدد گار ہو گی ۔ شکریہ
 
بہزاد بھیا یہ خوبصورت غزل لکھنے پر بہت مبارک ہو، ماشاللہ یقین نہیں ہو رہا کہ شاعری کے آسمان پر یہ تمہاری پہلی اڑان ہے۔ اور ہاں، سر ناظر مرحوم ، راز صاحب یا درویش صاحب تو سخن کے عالم فاضل بزرگ ہیں ان کو پڑھ کر تو کچھ سیکھ سکتے تھے سارا جیسی چٹی کوری بے علم اللہ کی بندی سے کیا سیکھ سکتے تھے جو خود الف بے سے ابھی پے تک نہیں پہنچی ۔ ہاہاہا ۔ خیرایک بار پھر بہت بہت مبارک اور ڈھیروں داد۔
 
یہ پہلی غزل ہے؟ تیور سے تو ایسا نہیں معلوم ہوتا۔
اچھی غزل ہے بہزاد۔
سر الف عین ۔ ایک مہینہ سر کھپانے کے بعد اگر یہ معمولی سی غزل لکھی گئی تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ ویسے اس غزل کی تکمیل کا کریڈٹ سر درویش کو جاتا ہے جن کی اصلاح کے بعد یہاں دوستوں سے شیئر کرنے کے قابل ہوئی ۔ میں زندگی میں ہر بات کا مثبت پہلو سوچتا ہوں ۔ اس لئے پہلی غزل کے حوالہ سے آپ کے کومنٹس کو بھی مثبت معنی میں لیا ہے ۔ آپ جیسے بزرگ دانشور اور ہر دلعزیز استاد کے ان الفاظ کا مطلب میری کامیابی ہے اور آپ کی تعریف میرے لئے تمغہ ہے۔ آپ کے لئے دل سے بہت ساری دعائیں ہیں۔ شکریہ
 
Top