Posted On Sunday, January 08, 2012
سید شہزاد عالم
ملک کے ایوانوں میں ایک بار پھر نئے صوبوں کے قیام کا شور سنائی دے رہا ہے کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ نے نئے صوبوں کے قیام کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کردی ہے لیکن نئے صوبوں کے قیام کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کیونکہ جن لوگوں کو اسمبلیوں میں یہ کام کرنا ہے ان میں اختلافات ، عدم اعتماد اور عدم برداشت اس قدر پایا جاتا ہے کہ اب عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ نئے صوبوں کے قیام کا بھاری پتھر اس ناتواں اسمبلی سے نہیں اٹھایا جا سکے گا اور مختلف سیاسی جماعتیں اس معاملے پر اس قدر سخت مئوقف اختیار کرلیں گی کہ نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ معاملہ ہو جائے گا اور اس پر سیاست تو چمکائی جا سکے گی لیکن کبھی صوبوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکے گا۔ قومی اسمبلی میں مختلف سیاسی جماعتوں کی باتیں سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت صرف اپنے لئے الگ صوبہ چاہتی ہے اور دوسرے کو اس سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ ایوان میں بیٹھے معزز ممبران کی گفتگو کے معیار سے کبھی یہ نہیں لگتا کہ یہ قانون ساز اسمبلی کے ممبران ہیں اورنئے صوبوں کے قیام کا کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں۔اپوزیشن تو ایک طرف خود حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں میں اس معاملے پر عدم اتفاق نظر آرہا ہے۔ایم کیو ایم اگر ہزارہ صوبے کی بات کرتی ہے تو اے این پی کو اس پر سخت اعتراض ہوتا ہے اور وہ فورا سندہ کی تقسیم کی بات چھیڑ دیتے ہیں تو اس پر پیپلز پارٹی چراغ پا ہو جاتی ہے کیونکہ ہزارہ صوبے کے قیام سے جہاں اے این پی کی سیاست کو زک پہنچتی ہے تو وہیں سندھ کی تقسیم کی بات پیپلز پارٹی کی سیاست کودھچکا پہنچاتی ہے۔اگرچہ مسلم لیگ (ن) نئے صوبوں کے قیام کی مخالفت تو نہیں کرتی صرف طریقہ کار پر اعتراض کرتی ہے لیکن سرائیکی صوبے کے مطالبے پر مسلم لیگ (ن) بھی سندھ کی تقسیم کی بات کرنے لگتی ہے اور پوٹھوہار صوبے کا ذکر چھیڑ دیتی ہے۔ فاٹا کے اراکین صوبہ خیبر پختون خواہ میں شمولیت کے مخالف نظر آتے ہیں اور اپنے لئے الگ فاٹا صوبے کا قیام چاہتے ہیں جس کی ایم کیو ایم اصولی حمایت کرتی ہے لیکن اے این پی سخت رد عمل کا اظہار کرتی ہے۔یوں ہزارہ اور فاٹا صوبے کی بات دو حکومتی اتحادیوں ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان کشیدگی کی وجہ بن گئی ہے۔ اے این پی اور مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ کا بڑا مقصد کراچی کو صوبہ بنانا ہے لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں سندھ کی تقسیم کے خلاف ہیں۔
دوسری طرف وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سرائیکی صوبے کے قیام کے حوالے سے اتفاق رائے ہوچکا ہے، اس حوالے سے دو تہائی اکثریت بھی بنا لی ہے اور اب جمہوری حکومت سرائیکی صوبے کے قیام کو ہر صورت یقینی بنائے گی انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہزارہ اور سرائیکی سمیت نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے ایشو کو آئینی طریقے سے آگے بڑھایا جائے۔ وزیراعظم نے ایم کیو ایم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو نجانے نئے صوبوں( شاید ان کا اشارہ ہزارہ صوبے کی طرف ہو) کے حوالے سے اتفاق رائے حاصل ہوتا ہے حمایت ملتی ہے یا نہیں لیکن ہمارے پاس تو (سرائیکی صوبے) کے لئے اتفاق رائے اور حمایت واضح طور پر موجود ہے اور اس مقصد کے لئے ہم نے پورا ہوم ورک کیا ہے تمام متعلقہ فورمز پر اور صوبائی اسمبلی سے بھی رابطے کئے ہیں اس کے بعد اس فورم پر آئے ہیں اس لئے دوسرے لوگوں کو بھی کہا آئینی طریقہ کار اپنانا چاہئے موجودہ حکومت نئے صوبے بنانے کی ہرگز مخالفت نہیں کرے گی ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اس کے لئے طریقہ کار اختیار کیا جائے ہم صرف ہیڈ لائن نہیں لگوانا چاہتے معاملے کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کریگی۔
یہ بات تو اب طے ہے کہ موجودہ اسمبلیوں میں کامل اتفاق رائے کے بغیر نئے صوبوں کا معاملہ آگے نہیں بڑھ سکے گا اور اس اتفاق رائے کے لئے سب کو اپنے دل اور دماغ کھول کر عقلی اور منطقی بنیادوں پر گفت و شنید اور مذاکرات کر کے ہی اس معاملے کو حل کرنا ہو گا ورنہ موجودہ صورتحال میں یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
کیا موجودہ اسمبلیاں نئے صوبوں کا معاملہ پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہیں یا اس کام کے لئے تازہ مینڈیٹ حاصل کیا جائے؟
کیا سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کو سندھ کی تقسیم کا بھاری پتھر بھی اٹھانا پڑے گا؟
اگر صوبے لسانی بنیادوں پر بنتے ہیں تو حد بندی پر اتفاق رائے کیسے ہو گا؟
نیا این ایف سی ایوارڈ کیسے تشکیل پائے گا؟
پانی، بجلی، کیس و دیگر وسائل کی تقسیم کیسے ہو گی؟ کیا فارمولا پیش ہو گا؟ کیسے سب راضی ہوں گے؟
آپ بھی اپنے خیالات کا اظہار کیجئے۔
(مندرجہ بالا مواد جنگ اخبار سے نقل کیا گیا ہے۔ شمشاد)