مغزل
محفلین
گزشتہ رات ممتاز اسٹوڈیو میں ” شہید بینظیر“ کے حوالے سے ایک مشاعرہ ریکارڈ کیا گیا،
جبکہ ہمیں بہاریہ مشاعرے کا کہہ کر دعوت دی گئی ، وہا ں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ جناب ” بی بی “
کی مدح خوانی کرنی ہے۔۔ پہلے تو میں نے اپنا نام اس فہرست سے حذف کروادیا کہ جناب
میرے پاس ایسا کوئی کلام نہیں ، مگر جب بات عزت کی آگئی تو ۔۔ ہم نے انگارے چباتے ہوئے
یہ نظم لکھی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم میری یہ حرکت ٹھیک تھی یا غلط ۔۔۔۔ اور یہ کہ نظم ہے بھی یا نہیں
فیصلہ آپ کیجئے ۔۔ آپ کی آراءمیرے لیے حوصلے اور رہنمائی کاسبب ہے ۔
والسلام
ناطقہ
عجلت میں لکھی گئی ایک نظم
بھوک غربت ہو چار جانب جب
وحشتیں ناچتی ہوں گلیوں میں
اور عفریت نفرتوں کے یہاں
خونِ ناحق سے سرخ رو ہوجائیں
ایسے میں حکم ِ شاہ ہوجائے
شاہ کی شان میں قصیدہ لکھو
اور لکھو کہ چین ہے ہرسو
آدمی ، آدمی سے خوش ہے بہت
یہ بھی لکھو کہ رہنماؤں میں
ملک و ملت کا درد ہے ، غم ہے
یہ بھی لکھو کہ بے نظیر کے جز
”کوئی بھی رہنما نہیں بے شک “
میں نے ایسا سبق پڑھا ہی نہ تھا
کوئی بتلائے کیسے لکھتا میں ؟
کیسے لکھتا کہ ہے کوئی امید
کیسے لکھتا کہ ، دم غنیمت ہے
جھوٹ کو سچ کہوں نہیں ممکن
بے یقینی کو کیوں یقین لکھوں
بدگمانی کو کیوں کروں معمول
میں کہ شاعر ہوں ناطقہ ہوں میں
کیسے ممکن ہے قصہ خوانی کروں
شاہ کا مدح خواں نہیں ہوں میں
لاکھ چاہا مگر نہ سوجھا کچھ
دفعتاً ہوگیا جھماکا سا
میں نے کاغذ پہ لکھ دیا محمود
”حق“ یہی ہے کہ ” بے نظیر “ تھی وہ !
م۔م۔مغل
جبکہ ہمیں بہاریہ مشاعرے کا کہہ کر دعوت دی گئی ، وہا ں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ جناب ” بی بی “
کی مدح خوانی کرنی ہے۔۔ پہلے تو میں نے اپنا نام اس فہرست سے حذف کروادیا کہ جناب
میرے پاس ایسا کوئی کلام نہیں ، مگر جب بات عزت کی آگئی تو ۔۔ ہم نے انگارے چباتے ہوئے
یہ نظم لکھی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم میری یہ حرکت ٹھیک تھی یا غلط ۔۔۔۔ اور یہ کہ نظم ہے بھی یا نہیں
فیصلہ آپ کیجئے ۔۔ آپ کی آراءمیرے لیے حوصلے اور رہنمائی کاسبب ہے ۔
والسلام
ناطقہ
عجلت میں لکھی گئی ایک نظم
بھوک غربت ہو چار جانب جب
وحشتیں ناچتی ہوں گلیوں میں
اور عفریت نفرتوں کے یہاں
خونِ ناحق سے سرخ رو ہوجائیں
ایسے میں حکم ِ شاہ ہوجائے
شاہ کی شان میں قصیدہ لکھو
اور لکھو کہ چین ہے ہرسو
آدمی ، آدمی سے خوش ہے بہت
یہ بھی لکھو کہ رہنماؤں میں
ملک و ملت کا درد ہے ، غم ہے
یہ بھی لکھو کہ بے نظیر کے جز
”کوئی بھی رہنما نہیں بے شک “
میں نے ایسا سبق پڑھا ہی نہ تھا
کوئی بتلائے کیسے لکھتا میں ؟
کیسے لکھتا کہ ہے کوئی امید
کیسے لکھتا کہ ، دم غنیمت ہے
جھوٹ کو سچ کہوں نہیں ممکن
بے یقینی کو کیوں یقین لکھوں
بدگمانی کو کیوں کروں معمول
میں کہ شاعر ہوں ناطقہ ہوں میں
کیسے ممکن ہے قصہ خوانی کروں
شاہ کا مدح خواں نہیں ہوں میں
لاکھ چاہا مگر نہ سوجھا کچھ
دفعتاً ہوگیا جھماکا سا
میں نے کاغذ پہ لکھ دیا محمود
”حق“ یہی ہے کہ ” بے نظیر “ تھی وہ !
م۔م۔مغل