زہیر عبّاس
محفلین
یہ کتاب مشہور زمانہ نظریاتی طبیعیات دان میچو کاکو کی کتاب"Physics of the Impossible" کا ترجمہ کرنے کی کوشش ہے ۔ کسی بھی کتاب کو ترجمہ کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے لہٰذا اس میں کافی زیادہ غلطیوں کا احتمال ہوگا ۔ ہرچند یہ ایک طویل کتاب ہے لیکن اس میں دلچسپی لینے والے لوگوں کی رائے میری حوصلہ افزائی کرتی رہی تو انشاء الله اس کو جلد مکمل کرکے یہاں پر شایع کرتا رہوں گا ۔
یہ کتاب تین حصّوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ پہلے حصّے میں دس باب ہیں ۔ دوسرے حصّے میں تین باب جبکہ آخری حصّے میں دو باب ہیں ۔ اس کے علاوہ ابتدائیہ اور اختتامیہ بھی ہے ۔
پوری کتاب کا ترجمہ کرتے وقت انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ اپنی جگہ ایک مسئلہ بنا رہا ہے ۔ میں نے ترجمہ کرتے ہوئے http://www.urduenglishdictionary.org سے مدد لی ہے ۔ اس کے علاوہ دوسری سائنسی کتب کا بھی فائدہ اٹھایا ہے ۔ ہر چند ہر مصنف نے ایک ہی اصطلاح کا مختلف انداز میں ترجمہ کیا ہے ۔ مثلاً "Uncertainty Principle" کا ترجمہ کسی نے "اصول تیقین" کیا ہے تو کسی نے "اصول عدم یقین "۔ "Singularity" کو کہیں "اکائیت " ترجمہ کیا گیا ہے تو کہیں "عدم "۔ بہرحال میں نے ان اصطلاحات کا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جن کا کثرت استعمال مختلف جگہوں پر دیکھا ہے ۔ میں نے کیونکہ اس کتاب کو ترجمہ کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی مدد لی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بہت ساری اصطلاحات کے ترجمے موجود ہوں لیکن میری ان تک رسائی نہیں ہوسکی ہو ۔ مزید براں یہ کہ میں نے شروع میں وکی پیڈیا میں استعمال ہونے والی اردو کی اصطلاحات کا استعمال کرنے کی کوشش بھی کی ۔ لیکن بعد میں اس کوشش کو ترک کر دیا کیونکہ وہ ایسی جناتی زبان میں ہیں جو کم از کم مجھ کم علم شخص کے پلے نہیں پڑیں ۔ بہرحال جہاں کہیں اصطلاح کا مناسب ترجمہ نہیں ملا تو عربی اور فارسی کی اصطلاح کی مدد لی ۔ اور جب بہت ہی مجبوری ہوئی تو پھر انگریزی سے ہی کام چلایا ۔
کافی جگہوں پر میں نے ڈائجسٹ اور بچوں کی کہانی میں ہونے والی اصطلاحات کا استعمال کیا ہے ۔ یہ سن کر ہو سکتا ہے کہ آپ کو حیرانی ہو رہی ہو۔ عمر و عیار کی سلیمانی ٹوپی سے کون واقف نہیں ہوگا ۔ لہٰذا میں نے “Invisibility Cloak”کو سلیمانی جبہ لکھنے میں کوئی شرم نہیں کی۔ اسی طرح سے “Telepathy” کو میں نے خیال خوانی لکھا ہے ۔ آپ میں سے جنہوں نے سسپنس ڈائجسٹ پڑھا ہوگا وہ "فرہاد علی تیمور" کے نام سے تو واقف ہوں گے ۔ جو محی الدین نواب صاحب کے مشہور زمانہ "دیوتا " کا ہیرو ہوتا ہے اور خیال خوانی کی طاقت کے بل بوتے پر بین الاقوامی استعمار کو نکیل ڈال کر رکھتا ہے ۔ تو جب نواب صاحب نے ٹیلی پیتھی کو لگ بھگ ٣٤ برس تک خیال خوانی لکھا تو پھر مجھے لکھنے میں کیوں دقت ہوگی ۔
اسی طرح ناموں کی "نقل صوتی " (Transliteration ) بھی کافی پریشانی کا باعث بنی رہی ۔"Einstein" کو کوئی آئن سٹائن لکھ رہا ہے تو کسی کتاب میں آئن اسٹائن لکھا ہوا ہے تو کہیں آئینسٹاین۔ اسی طرح کسی کتاب میں"Schrödinger" کو شروڈنگر لکھا ہے تو کسی رسالے میں شروڈنجر ۔ "Neutron" کو کوئی نیوٹران لکھ رہا ہے تو کوئی نیوٹرون ۔ اسی طرح"Neutrino" کو کوئی نیوٹرینو لکھ رہا ہے تو کسی رسالے میں آپ کو نیوٹرائینو لکھا ہوا ملے گا ۔
مسئلہ صرف اصطلاحات اور نقل صوتی کا نہیں ہے بلکہ اردو کے بھی کئی الفاظ ایسے ہیں جو کچھ لوگ ایک طرح سے لکھ رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ دوسری طرح سے ۔ مثلاً کوئی "نظریے" لکھ رہا ہے تو کوئی "نظریئے"۔ کوئی "شے" لکھ رہا ہے تو کہیں "شئے" لکھا ہوا ہے ۔ کوئی "شہابیے" لکھ رہا ہے تو کہیں" شہابئے" لکھا ہوا ملے گا ۔
کمپیوٹر پر اردو لکھتے ہوئے مجھے ابھی کچھ زیادہ عرصے نہیں ہوا ۔ اور اس بات کے لئے مجھے شاید گوگل کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس کے “Google IME” کی بدولت ہی میں اس کتاب کا ترجمہ اتنی آسانی سے کمپیوٹر پر اردو میں لکھ سکا ۔ کم از کم میرے لئے تو یہ بات سچ ہے کہ اگر گوگل کا یہ ٹول نہیں ہوتا تو میں اس کتاب کا ترجمہ کبھی بھی کرنے کی ہمت نہیں کرتا ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کتاب کو تین حصّوں میں بانٹا گیا ہے ۔ اس کو تین حصّوں میں بانٹے کی وجہ تو آپ ابتدائیہ میں پڑھ لیجئے گا ۔ میں صرف ان ابواب کا ذکر کر دیتا ہوں۔ کیونکہ ان میں سے ہر باب کافی طویل ہے ۔ لہٰذا ہر باب کو تین سے چار اقساط میں شایع کرنے کو کوشش کروں گا ۔
ابتدائیہ
حصّہ اوّل
١۔ قوّتِ میدان (فورس فیلڈ)
٢۔ پوشیدگی ((Invisibility
٣۔ فیزرس اور سیارہ غارت کنندہ
٤۔ دور دراز منتقلی (Teleportation)
٥۔ خیال خوانی (Telepathy)
٦۔روحی حرکی قوّت (Psychokinesis)
٧۔ روبوٹس
٨۔ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں)
٩۔ بین النجم خلائی جہاز
١٠۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات
حصّہ دوم
١١۔ سریع از نور رفتار
١٢۔ گزرے وقت میں سفر
١٣۔متوازی کائناتیں
حصّہ سوم
١٤۔ پیش بینی (Precognition)
١٥۔ دائمی حرکی مشین (Perpetual Motion Machine)
اختتامیہ
----------------------------------------------------------------------------------------
ابتدائیہ (حصّہ اوّل )
اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول نہ لگے تو پھر اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے۔
- البرٹ آئن سٹائن
کیا کسی دن ممکن ہو سکے گا کہ ہم دیوار میں سے آر پار ہو کر آسانی کے گزر سکیں ؟ کیا ہم ایسے بین النجم خلائی جہاز(Starships) جو سریع از نور (Faster Than Light)رفتار سے چلتے ہوں بنا سکیں گے؟ کیا ہم حاضر ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے سے غائب ہو کر غیر مرئی(Invisible) ہو سکیں گے؟کیا مستقبل میں ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ اشیاء کو صرف اپنی دماغی طاقت سے ہلا سکیں ؟کیا ہم اپنے جسموں کو فی الفور خلاء کے دور دراز کے مقام میں منتقل کر سکیں گے ؟
میں اپنے بچپن سے ہی مذکورہ بالا تمام سوالوں میں دلچسپی لیتا تھا۔دوسرے کئی طبیعیات دانوں کی طرح جب میں نے بھی شعور کی منزل میں قدم رکھا تو مجھ پر، وقت میں ممکنہ سفر (Time Travel)، اشعاعی بندوق (Ray Guns)، غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈForce Filed - )، متوازی کائناتوں (Parallel Universes)اور اسی طرح کے دوسرے خیالات کی یلغار ہوتی رہتی تھی۔ جادو ، انوکھے خیال ، سائنسی قصّے یہ سب کے سب میرے تخیل کے کھیل کے میدان ہوتے تھے۔انہوں نے میرے پوری زندگی پر مشتمل ناممکنات(Impossibilities) کے ساتھ عشق کی ابتداء کی۔
مجھے وہ وقت یاد ہے جب پرانا فلیش گورڈن (Flash Gordon) ٹیلی ویژن پر نشر مکرر کیا گیا تھا ۔ ہر ہفتے کو میں ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے چپک کر بیٹھ جاتا تھا اور فلیش، ڈاکٹرزرکوف (Dr. Zarkov) اور ڈیل آرڈین (Dale Arden) کے جوکھموں اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی مستقبل کی ٹیکنالوجی(Technology): خلائی جہاز ، غیر مرئی حفاظتی ڈھال ، شعاعی بندوق اور آسمانوں میں قائم شہروں کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتا تھا۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جس میں اس سلسلے کی قسط نشر ہو اور میں اس کونہ دیکھوں ۔اس پروگرام نے میرے سامنے پوری ایک نئی دنیا کھول کر رکھ دی تھی ۔ یہ بات سوچ کر ہی مجھے تھر تھری آ جاتی تھی کہ میں کسی ایک دن کسی خلائی سیارے پر جا کر اس کے عجیب اجنبی میدانوں کی چھان بین کر رہا ہوں گا۔ ان تمام زبردست دریافتوں کی کشش نے یہ بات مجھ پر عیاں کردی تھی کہ میری منزل کسی طرح سے اس پروگرام میں دکھائی جانے والی سائنس کے عجوبوں میں لپٹی ہوئی ہے۔
پھر بعد میں مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ اس دشت کی سیاحی میں صرف میں ہی اکیلا نہیں تھا۔ کافی سارے اعلیٰ پائے کے سائنس دانوں نے سائنس میں دلچسپی ان سائنسی قصّوں کے ذریعہ ہی لی تھی ۔ عظیم فلکیات دان ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) جولیس ورن(Jules Verne) کے کام سے مسحور تھا۔ ورن کے کام کو پڑھ کر ہبل نے قانون میں امید افزا مقام کو چھوڑ کر اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کی خواہش کے برخلاف اپنا مستقبل سائنس کی دنیا میں شروع کیا۔ آخر کار وہ بیسویں صدی کا سب سے عظیم فلکیات دان بنا۔ کارل ساگاں (Carl Sagan) جو ایک ممتاز فلکیات دان اور کئی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتابوں کا مصنف تھا اس نے اپنے تخیل کی بنیاد ایڈگر رائس بروس (Edgar Rice Burroughs) کے ناول جان کارٹر آف مارس (John Carter of Mars)سے ڈالی۔ جان کارٹر کی طرح اس نے ایک دن مریخ کی مٹی کو کھوجنے کا خواب دیکھا تھا۔
جب البرٹ آئن سٹائن کی موت ہوئی تو اس وقت میں اپنے لڑکپن کے عہد سے گزر رہا تھا ، مگر مجھے یہ بات اچھی طرح سے یاد ہے کہ لوگ اس کی زندگی اور موت کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ آئن سٹائن کی موت کے اگلے دن میں نے اخبار میں اس کی میز کی تصویر کو دیکھا ، جس پر اس کا سب سے عظیم اور نامکمل کام کا مسودہ رکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا ایسی کونسی اہم چیز تھی جو اپنے دور کے مشاق سائنس دان سے مکمل نہیں ہو سکی ؟ اس مضمون میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ آئن سٹائن نے ایک ناممکن چیز کا خواب دیکھا تھا ، ایک مسئلہ جو اس قدر گھمبیر تھا کہ اس کا حل کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے یہ بات جاننے کے لئے برسوں لگ گئے کہ وہ مسودہ کس چیز کے بارے میں تھا ؟ وہ ایک عظیم وحدتی "ہر شئےکے نظریئے " (Theory of Everything)کے بارے میں تھا۔ اس خواب نے اس کے زندگی کے آخری تین عشروں کو پی لیا تھا ،اور اسی چیز نے مجھے اپنے تخیل پر مرتکز ہونے کے لئے مدد کی۔ میں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے میں بھی اپنا تھوڑا حصّہ آئن سٹائن کی ان کوششوں میں ڈالوں جس میں طبیعیات کے تمام مروجہ قوانین کو یکجا کرکے ایک نظریئے میں پرویا جا سکے۔
جب میں نے شعور کی کچھ منازل کو طے کر لیا اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگرچہ فلیش گورڈن ایک جانباز تھا اور ٹیلی ویژن ڈرامے میں ہمیشہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا ، اصل ہیرو تو سائنس دان تھے جنہوں نے ٹیلی ویژن کے اس سلسلے کو اس قابل بنایا تھا کہ اس کو نشر کیا جا سکے۔ ڈاکٹر زرکوف کے بغیر کوئی بھی خلائی جہاز نہیں بن سکتا تھا ، نہ ہی مانگو کا سفر (Trip to Mongo) کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی زمین کو بچایا جا سکتا تھا۔ جانبازی کو چھوڑ دیجئے ، سائنس کے بغیر تو سائنسی قصوں کا بھی وجود نہیں ہوتا۔
بعد میں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ کہانیاں تو سائنس کی رو سے تقریباً ناممکن تھیں یہ تو صرف انسانی تخیل کی پرواز ہی تھیں۔ شعور کی منازل کو حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ ایسی طلسمی کہانیوں کو اپنے ذہن سے دور کر دیا جائے۔ حقیقی دنیا میں مجھے بتایا گیا کہ ناممکنات کو چھوڑ کر قابل عمل چیزوں کو گلے لگانا ہوتا ہے۔
بہرحال میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر مجھے اپنے ناممکنات کی سحر انگیزی سے الگ نہیں ہونا تو یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب میں طبیعیات کی رو سے ان کو جاننے کی کوشش کروں۔ جدید طبیعیات کی ٹھوس معلومات کے بغیر میں صرف مستقبل کی ٹیکنالوجی کے بارے میں اندازے قائم کرتا رہوں گا اس بات کو سمجھے بغیر کہ آیا وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں۔ میں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ مجھے جدید ریاضی میں اپنے آپ کو غرق کرنا پڑے گا اور طبیعیات کو سیکھنا ہوگا۔ اور پھر میں نے یہ ہی کیا۔
میں نے کالج کے سائنس فیئر کے پروجیکٹ میں ، اپنے گھر کے گیراج میں ایک جوہری تصادم گر(Atom Smasher) بنایا۔ میں ویسٹنگ ہاؤس کمپنی گیا جہاں سے ٤٠٠ پونڈ ٹرانسفارمر کا بچا کچا سریا حاصل کیا۔ کرسمس کے دنوں میں٢٢ میل کے تانبے کی تاروں کو کالج کے فٹبال کے میدان میں لپیٹا۔ آخر کار میں نے ٢٣ لاکھ الیکٹران وولٹ برقی مسرع (اِنتہائی تیز رفتار الیکٹرون تیار کرنے کا آلہ جو ایک ٹرانسفارمر کی طرح کام کرتا ہے جس کو انگریزی میں بیٹا ٹرون – Betatron کہتے ہیں ) کا ذرّاتی اسراع گر(Particle Accelerator) بنا لیا جو ٦ کلو واٹ پاور استعمال کرتا تھا (یہ میرے گھر کی پوری بجلی کے برابر تھا ) اور زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ مقناطیسی میدان پیدا کرتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک گیما شعاعوں کی کرن کو پیدا کیا جا سکے جو اس قدر طاقتور ہو جس سے ضد مادّہ (Anti Matter)پیدا ہو جائے۔
میرے سائنس فیئر کے اس پروجیکٹ نے مجھے نیشنل سائنس فیئر میں جگہ دلوا دی اور ہار ورڈ کا وظیفہ حاصل کر کے آخرکار میرا خواب پورا ہوا جہاں میں اپنے مقصد یعنی کہ طبیعیات دان بننے کے لئے جدوجہد کر سکتا تھا اور اپنے مثالی سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے نقش قدم پر چل سکتا تھا۔
آج مجھے سائنسی کہانیوں کے مصنفین اور فلم نگاروں کے برقی خطوط ( ای میلز ) موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں وہ مجھ سے اپنی کہانیوں میں سچائی کا رنگ بھرنے کے لئے مدد مانگتے ہیں اور اس بات کو جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ناممکنات کی آخری حد کیا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ کتاب تین حصّوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ پہلے حصّے میں دس باب ہیں ۔ دوسرے حصّے میں تین باب جبکہ آخری حصّے میں دو باب ہیں ۔ اس کے علاوہ ابتدائیہ اور اختتامیہ بھی ہے ۔
پوری کتاب کا ترجمہ کرتے وقت انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ اپنی جگہ ایک مسئلہ بنا رہا ہے ۔ میں نے ترجمہ کرتے ہوئے http://www.urduenglishdictionary.org سے مدد لی ہے ۔ اس کے علاوہ دوسری سائنسی کتب کا بھی فائدہ اٹھایا ہے ۔ ہر چند ہر مصنف نے ایک ہی اصطلاح کا مختلف انداز میں ترجمہ کیا ہے ۔ مثلاً "Uncertainty Principle" کا ترجمہ کسی نے "اصول تیقین" کیا ہے تو کسی نے "اصول عدم یقین "۔ "Singularity" کو کہیں "اکائیت " ترجمہ کیا گیا ہے تو کہیں "عدم "۔ بہرحال میں نے ان اصطلاحات کا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جن کا کثرت استعمال مختلف جگہوں پر دیکھا ہے ۔ میں نے کیونکہ اس کتاب کو ترجمہ کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی مدد لی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بہت ساری اصطلاحات کے ترجمے موجود ہوں لیکن میری ان تک رسائی نہیں ہوسکی ہو ۔ مزید براں یہ کہ میں نے شروع میں وکی پیڈیا میں استعمال ہونے والی اردو کی اصطلاحات کا استعمال کرنے کی کوشش بھی کی ۔ لیکن بعد میں اس کوشش کو ترک کر دیا کیونکہ وہ ایسی جناتی زبان میں ہیں جو کم از کم مجھ کم علم شخص کے پلے نہیں پڑیں ۔ بہرحال جہاں کہیں اصطلاح کا مناسب ترجمہ نہیں ملا تو عربی اور فارسی کی اصطلاح کی مدد لی ۔ اور جب بہت ہی مجبوری ہوئی تو پھر انگریزی سے ہی کام چلایا ۔
کافی جگہوں پر میں نے ڈائجسٹ اور بچوں کی کہانی میں ہونے والی اصطلاحات کا استعمال کیا ہے ۔ یہ سن کر ہو سکتا ہے کہ آپ کو حیرانی ہو رہی ہو۔ عمر و عیار کی سلیمانی ٹوپی سے کون واقف نہیں ہوگا ۔ لہٰذا میں نے “Invisibility Cloak”کو سلیمانی جبہ لکھنے میں کوئی شرم نہیں کی۔ اسی طرح سے “Telepathy” کو میں نے خیال خوانی لکھا ہے ۔ آپ میں سے جنہوں نے سسپنس ڈائجسٹ پڑھا ہوگا وہ "فرہاد علی تیمور" کے نام سے تو واقف ہوں گے ۔ جو محی الدین نواب صاحب کے مشہور زمانہ "دیوتا " کا ہیرو ہوتا ہے اور خیال خوانی کی طاقت کے بل بوتے پر بین الاقوامی استعمار کو نکیل ڈال کر رکھتا ہے ۔ تو جب نواب صاحب نے ٹیلی پیتھی کو لگ بھگ ٣٤ برس تک خیال خوانی لکھا تو پھر مجھے لکھنے میں کیوں دقت ہوگی ۔
اسی طرح ناموں کی "نقل صوتی " (Transliteration ) بھی کافی پریشانی کا باعث بنی رہی ۔"Einstein" کو کوئی آئن سٹائن لکھ رہا ہے تو کسی کتاب میں آئن اسٹائن لکھا ہوا ہے تو کہیں آئینسٹاین۔ اسی طرح کسی کتاب میں"Schrödinger" کو شروڈنگر لکھا ہے تو کسی رسالے میں شروڈنجر ۔ "Neutron" کو کوئی نیوٹران لکھ رہا ہے تو کوئی نیوٹرون ۔ اسی طرح"Neutrino" کو کوئی نیوٹرینو لکھ رہا ہے تو کسی رسالے میں آپ کو نیوٹرائینو لکھا ہوا ملے گا ۔
مسئلہ صرف اصطلاحات اور نقل صوتی کا نہیں ہے بلکہ اردو کے بھی کئی الفاظ ایسے ہیں جو کچھ لوگ ایک طرح سے لکھ رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ دوسری طرح سے ۔ مثلاً کوئی "نظریے" لکھ رہا ہے تو کوئی "نظریئے"۔ کوئی "شے" لکھ رہا ہے تو کہیں "شئے" لکھا ہوا ہے ۔ کوئی "شہابیے" لکھ رہا ہے تو کہیں" شہابئے" لکھا ہوا ملے گا ۔
کمپیوٹر پر اردو لکھتے ہوئے مجھے ابھی کچھ زیادہ عرصے نہیں ہوا ۔ اور اس بات کے لئے مجھے شاید گوگل کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس کے “Google IME” کی بدولت ہی میں اس کتاب کا ترجمہ اتنی آسانی سے کمپیوٹر پر اردو میں لکھ سکا ۔ کم از کم میرے لئے تو یہ بات سچ ہے کہ اگر گوگل کا یہ ٹول نہیں ہوتا تو میں اس کتاب کا ترجمہ کبھی بھی کرنے کی ہمت نہیں کرتا ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کتاب کو تین حصّوں میں بانٹا گیا ہے ۔ اس کو تین حصّوں میں بانٹے کی وجہ تو آپ ابتدائیہ میں پڑھ لیجئے گا ۔ میں صرف ان ابواب کا ذکر کر دیتا ہوں۔ کیونکہ ان میں سے ہر باب کافی طویل ہے ۔ لہٰذا ہر باب کو تین سے چار اقساط میں شایع کرنے کو کوشش کروں گا ۔
ابتدائیہ
حصّہ اوّل
١۔ قوّتِ میدان (فورس فیلڈ)
٢۔ پوشیدگی ((Invisibility
٣۔ فیزرس اور سیارہ غارت کنندہ
٤۔ دور دراز منتقلی (Teleportation)
٥۔ خیال خوانی (Telepathy)
٦۔روحی حرکی قوّت (Psychokinesis)
٧۔ روبوٹس
٨۔ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں)
٩۔ بین النجم خلائی جہاز
١٠۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات
حصّہ دوم
١١۔ سریع از نور رفتار
١٢۔ گزرے وقت میں سفر
١٣۔متوازی کائناتیں
حصّہ سوم
١٤۔ پیش بینی (Precognition)
١٥۔ دائمی حرکی مشین (Perpetual Motion Machine)
اختتامیہ
----------------------------------------------------------------------------------------
ابتدائیہ (حصّہ اوّل )
اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول نہ لگے تو پھر اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے۔
- البرٹ آئن سٹائن
کیا کسی دن ممکن ہو سکے گا کہ ہم دیوار میں سے آر پار ہو کر آسانی کے گزر سکیں ؟ کیا ہم ایسے بین النجم خلائی جہاز(Starships) جو سریع از نور (Faster Than Light)رفتار سے چلتے ہوں بنا سکیں گے؟ کیا ہم حاضر ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے سے غائب ہو کر غیر مرئی(Invisible) ہو سکیں گے؟کیا مستقبل میں ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ اشیاء کو صرف اپنی دماغی طاقت سے ہلا سکیں ؟کیا ہم اپنے جسموں کو فی الفور خلاء کے دور دراز کے مقام میں منتقل کر سکیں گے ؟
میں اپنے بچپن سے ہی مذکورہ بالا تمام سوالوں میں دلچسپی لیتا تھا۔دوسرے کئی طبیعیات دانوں کی طرح جب میں نے بھی شعور کی منزل میں قدم رکھا تو مجھ پر، وقت میں ممکنہ سفر (Time Travel)، اشعاعی بندوق (Ray Guns)، غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈForce Filed - )، متوازی کائناتوں (Parallel Universes)اور اسی طرح کے دوسرے خیالات کی یلغار ہوتی رہتی تھی۔ جادو ، انوکھے خیال ، سائنسی قصّے یہ سب کے سب میرے تخیل کے کھیل کے میدان ہوتے تھے۔انہوں نے میرے پوری زندگی پر مشتمل ناممکنات(Impossibilities) کے ساتھ عشق کی ابتداء کی۔
مجھے وہ وقت یاد ہے جب پرانا فلیش گورڈن (Flash Gordon) ٹیلی ویژن پر نشر مکرر کیا گیا تھا ۔ ہر ہفتے کو میں ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے چپک کر بیٹھ جاتا تھا اور فلیش، ڈاکٹرزرکوف (Dr. Zarkov) اور ڈیل آرڈین (Dale Arden) کے جوکھموں اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی مستقبل کی ٹیکنالوجی(Technology): خلائی جہاز ، غیر مرئی حفاظتی ڈھال ، شعاعی بندوق اور آسمانوں میں قائم شہروں کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتا تھا۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جس میں اس سلسلے کی قسط نشر ہو اور میں اس کونہ دیکھوں ۔اس پروگرام نے میرے سامنے پوری ایک نئی دنیا کھول کر رکھ دی تھی ۔ یہ بات سوچ کر ہی مجھے تھر تھری آ جاتی تھی کہ میں کسی ایک دن کسی خلائی سیارے پر جا کر اس کے عجیب اجنبی میدانوں کی چھان بین کر رہا ہوں گا۔ ان تمام زبردست دریافتوں کی کشش نے یہ بات مجھ پر عیاں کردی تھی کہ میری منزل کسی طرح سے اس پروگرام میں دکھائی جانے والی سائنس کے عجوبوں میں لپٹی ہوئی ہے۔
پھر بعد میں مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ اس دشت کی سیاحی میں صرف میں ہی اکیلا نہیں تھا۔ کافی سارے اعلیٰ پائے کے سائنس دانوں نے سائنس میں دلچسپی ان سائنسی قصّوں کے ذریعہ ہی لی تھی ۔ عظیم فلکیات دان ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) جولیس ورن(Jules Verne) کے کام سے مسحور تھا۔ ورن کے کام کو پڑھ کر ہبل نے قانون میں امید افزا مقام کو چھوڑ کر اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کی خواہش کے برخلاف اپنا مستقبل سائنس کی دنیا میں شروع کیا۔ آخر کار وہ بیسویں صدی کا سب سے عظیم فلکیات دان بنا۔ کارل ساگاں (Carl Sagan) جو ایک ممتاز فلکیات دان اور کئی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتابوں کا مصنف تھا اس نے اپنے تخیل کی بنیاد ایڈگر رائس بروس (Edgar Rice Burroughs) کے ناول جان کارٹر آف مارس (John Carter of Mars)سے ڈالی۔ جان کارٹر کی طرح اس نے ایک دن مریخ کی مٹی کو کھوجنے کا خواب دیکھا تھا۔
جب البرٹ آئن سٹائن کی موت ہوئی تو اس وقت میں اپنے لڑکپن کے عہد سے گزر رہا تھا ، مگر مجھے یہ بات اچھی طرح سے یاد ہے کہ لوگ اس کی زندگی اور موت کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ آئن سٹائن کی موت کے اگلے دن میں نے اخبار میں اس کی میز کی تصویر کو دیکھا ، جس پر اس کا سب سے عظیم اور نامکمل کام کا مسودہ رکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا ایسی کونسی اہم چیز تھی جو اپنے دور کے مشاق سائنس دان سے مکمل نہیں ہو سکی ؟ اس مضمون میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ آئن سٹائن نے ایک ناممکن چیز کا خواب دیکھا تھا ، ایک مسئلہ جو اس قدر گھمبیر تھا کہ اس کا حل کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے یہ بات جاننے کے لئے برسوں لگ گئے کہ وہ مسودہ کس چیز کے بارے میں تھا ؟ وہ ایک عظیم وحدتی "ہر شئےکے نظریئے " (Theory of Everything)کے بارے میں تھا۔ اس خواب نے اس کے زندگی کے آخری تین عشروں کو پی لیا تھا ،اور اسی چیز نے مجھے اپنے تخیل پر مرتکز ہونے کے لئے مدد کی۔ میں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے میں بھی اپنا تھوڑا حصّہ آئن سٹائن کی ان کوششوں میں ڈالوں جس میں طبیعیات کے تمام مروجہ قوانین کو یکجا کرکے ایک نظریئے میں پرویا جا سکے۔
جب میں نے شعور کی کچھ منازل کو طے کر لیا اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگرچہ فلیش گورڈن ایک جانباز تھا اور ٹیلی ویژن ڈرامے میں ہمیشہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا ، اصل ہیرو تو سائنس دان تھے جنہوں نے ٹیلی ویژن کے اس سلسلے کو اس قابل بنایا تھا کہ اس کو نشر کیا جا سکے۔ ڈاکٹر زرکوف کے بغیر کوئی بھی خلائی جہاز نہیں بن سکتا تھا ، نہ ہی مانگو کا سفر (Trip to Mongo) کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی زمین کو بچایا جا سکتا تھا۔ جانبازی کو چھوڑ دیجئے ، سائنس کے بغیر تو سائنسی قصوں کا بھی وجود نہیں ہوتا۔
بعد میں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ کہانیاں تو سائنس کی رو سے تقریباً ناممکن تھیں یہ تو صرف انسانی تخیل کی پرواز ہی تھیں۔ شعور کی منازل کو حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ ایسی طلسمی کہانیوں کو اپنے ذہن سے دور کر دیا جائے۔ حقیقی دنیا میں مجھے بتایا گیا کہ ناممکنات کو چھوڑ کر قابل عمل چیزوں کو گلے لگانا ہوتا ہے۔
بہرحال میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر مجھے اپنے ناممکنات کی سحر انگیزی سے الگ نہیں ہونا تو یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب میں طبیعیات کی رو سے ان کو جاننے کی کوشش کروں۔ جدید طبیعیات کی ٹھوس معلومات کے بغیر میں صرف مستقبل کی ٹیکنالوجی کے بارے میں اندازے قائم کرتا رہوں گا اس بات کو سمجھے بغیر کہ آیا وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں۔ میں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ مجھے جدید ریاضی میں اپنے آپ کو غرق کرنا پڑے گا اور طبیعیات کو سیکھنا ہوگا۔ اور پھر میں نے یہ ہی کیا۔
میں نے کالج کے سائنس فیئر کے پروجیکٹ میں ، اپنے گھر کے گیراج میں ایک جوہری تصادم گر(Atom Smasher) بنایا۔ میں ویسٹنگ ہاؤس کمپنی گیا جہاں سے ٤٠٠ پونڈ ٹرانسفارمر کا بچا کچا سریا حاصل کیا۔ کرسمس کے دنوں میں٢٢ میل کے تانبے کی تاروں کو کالج کے فٹبال کے میدان میں لپیٹا۔ آخر کار میں نے ٢٣ لاکھ الیکٹران وولٹ برقی مسرع (اِنتہائی تیز رفتار الیکٹرون تیار کرنے کا آلہ جو ایک ٹرانسفارمر کی طرح کام کرتا ہے جس کو انگریزی میں بیٹا ٹرون – Betatron کہتے ہیں ) کا ذرّاتی اسراع گر(Particle Accelerator) بنا لیا جو ٦ کلو واٹ پاور استعمال کرتا تھا (یہ میرے گھر کی پوری بجلی کے برابر تھا ) اور زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ مقناطیسی میدان پیدا کرتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک گیما شعاعوں کی کرن کو پیدا کیا جا سکے جو اس قدر طاقتور ہو جس سے ضد مادّہ (Anti Matter)پیدا ہو جائے۔
میرے سائنس فیئر کے اس پروجیکٹ نے مجھے نیشنل سائنس فیئر میں جگہ دلوا دی اور ہار ورڈ کا وظیفہ حاصل کر کے آخرکار میرا خواب پورا ہوا جہاں میں اپنے مقصد یعنی کہ طبیعیات دان بننے کے لئے جدوجہد کر سکتا تھا اور اپنے مثالی سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے نقش قدم پر چل سکتا تھا۔
آج مجھے سائنسی کہانیوں کے مصنفین اور فلم نگاروں کے برقی خطوط ( ای میلز ) موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں وہ مجھ سے اپنی کہانیوں میں سچائی کا رنگ بھرنے کے لئے مدد مانگتے ہیں اور اس بات کو جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ناممکنات کی آخری حد کیا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
آخری تدوین: