عبدالرزاق قادری
معطل
نصیحت والی توبہ کی ضرورت افکارِمسلم (عبدالرزاق )
ہمارے معاشرے میں موجودہ دور میں بد اعمالیوں کا دور دورہ ہے ۔لیکن اللہ کاشکر ہے کہ ابھی تک مسلم معاشرہ دیگر قوموں سے بدر جہابہتر ہے ۔ مثلا مغربی مما لک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی نسبت ہمارے ہاں امن پایا جاتا ہے ۔اس کے باوجود ہم آج اُس نہج پر خود کو ایک اعلیٰ اور بہتر قوم ثابت کرنے سے قاصر ہیں جو امت مسلمہ کی امتیازی شان ہے ۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ اجتماعی سوچ اور فکر کا ختم ہو جانا ہے جب تک کوئی قوم اپنے نظریے کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہو کر اپنی زندگیوں کو اسی نظریے کے رنگ میں نہیں ڈھال لیتی تب تک ملک اس نظریے کی مکمل حمایت نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس نظریے کی حفاظت کر سکتی ہے ہمارے اسلامی نظریے میں انسانی ہمدردی ،ایثار ،قربانی ،باہمی محبت ،عدل وانصاف ،صلہ رحمی ،باہمی حمایت جیسی عظیم تعلیمات پائی جاتی ہیں اور آج ہم ان روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔یہی لمحہ فکریہ ہے ۔باہمی خدمت کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔اسی جذبہ خدمت کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم نے دوسروں کی خدمت وحمایت کو چھوڑ کر لوٹ مار کو اپنی چالاکی سمجھ لیا ہے ۔ہمیں مصیبت کے وقت میں مصیبت زدہ لوگوں کا سہارا بننا چاہیے جبکہ ہم اُس وقت مہنگی چیزیں بیچتے ہیں جب عوام الناس کی طلب زیادہ ہو ۔حالانکہ مجبور وبے بس افراد کو سستی اور مفت امداد پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اور ہم اس ضرورت کے اُلٹ (برعکس) صرف چند روپے زیادہ کمالینے کی غرض سے مطلوبہ روزمرہ استعمال کی چیزیں جان بوجھ کر مہنگی کر کے غریب عوام کا خون نچوڑ نا شروع کر دیتے ہیں تو ان غفلتوں ،کوتاہیوں اور دینی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں ہم کبھی سیلاب جیسی آفتوں میں پھنس جاتے ہیں اور کبھی جان لیوا ڈینگی جیسے وائرس کی زد میں آجاتے ہیں ۔ اس کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یا یھاالذین اٰمنواتوابواالی اللہ توبۃ النصوحا(سورۃ التحریم
ترجمہ :۔
’’اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہو جائے ‘‘
یعنی ہمیں ایک پختہ (پکی ) توبہ کرلینے کی ضرورت ہے اور توبہ ایسی ہونی چاہیے جس سے نصیحت بھی حاصل ہو اور دوبارہ توبہ ٹوٹنی بھی نہیں چاہیے کیونکہ جب ہمارے دل کا معاملہ اللہ عزوجل کے ساتھ درست ہو جائے گا تب ہمارے دیگر معاملات کو اللہ تعالیٰ خود بخود ٹھیک فر مادے گا ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے مسلم بہن بھائیوں کو سیلاب اور موذی بیماریوں سے نجات عطا فرمائے اور ہماری قوم نے جس طرح 1947میں اور 1965ء کی جنگ کے دوران ایک جسم کی مانند ایک دوسرے کا سہارا بن کر ملک وقوم کی خدمت کی تھی اسی جذبے کے ساتھ اپنے دکھی ساتھیوں کی خدمت کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے ۔نبی کریم ﷺنے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو یہ تعلیم عطافرمائی کہ جب تم کسی کو کسی مرض میں مبتلا دیکھو تو یہ دعا پڑھ لیا کرو اللہ تعالیٰ اس دعا کی برکت سے تمہیں اس مرض سے محفوظ رکھے گا۔دعا یہ ہے ۔
الحمد للہ الذی عافانی مما بتلا ک بہ و فضلنی
علی کثیر ممن خلق تفضیلا
ہمارے معاشرے میں موجودہ دور میں بد اعمالیوں کا دور دورہ ہے ۔لیکن اللہ کاشکر ہے کہ ابھی تک مسلم معاشرہ دیگر قوموں سے بدر جہابہتر ہے ۔ مثلا مغربی مما لک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی نسبت ہمارے ہاں امن پایا جاتا ہے ۔اس کے باوجود ہم آج اُس نہج پر خود کو ایک اعلیٰ اور بہتر قوم ثابت کرنے سے قاصر ہیں جو امت مسلمہ کی امتیازی شان ہے ۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ اجتماعی سوچ اور فکر کا ختم ہو جانا ہے جب تک کوئی قوم اپنے نظریے کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہو کر اپنی زندگیوں کو اسی نظریے کے رنگ میں نہیں ڈھال لیتی تب تک ملک اس نظریے کی مکمل حمایت نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس نظریے کی حفاظت کر سکتی ہے ہمارے اسلامی نظریے میں انسانی ہمدردی ،ایثار ،قربانی ،باہمی محبت ،عدل وانصاف ،صلہ رحمی ،باہمی حمایت جیسی عظیم تعلیمات پائی جاتی ہیں اور آج ہم ان روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔یہی لمحہ فکریہ ہے ۔باہمی خدمت کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔اسی جذبہ خدمت کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم نے دوسروں کی خدمت وحمایت کو چھوڑ کر لوٹ مار کو اپنی چالاکی سمجھ لیا ہے ۔ہمیں مصیبت کے وقت میں مصیبت زدہ لوگوں کا سہارا بننا چاہیے جبکہ ہم اُس وقت مہنگی چیزیں بیچتے ہیں جب عوام الناس کی طلب زیادہ ہو ۔حالانکہ مجبور وبے بس افراد کو سستی اور مفت امداد پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اور ہم اس ضرورت کے اُلٹ (برعکس) صرف چند روپے زیادہ کمالینے کی غرض سے مطلوبہ روزمرہ استعمال کی چیزیں جان بوجھ کر مہنگی کر کے غریب عوام کا خون نچوڑ نا شروع کر دیتے ہیں تو ان غفلتوں ،کوتاہیوں اور دینی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں ہم کبھی سیلاب جیسی آفتوں میں پھنس جاتے ہیں اور کبھی جان لیوا ڈینگی جیسے وائرس کی زد میں آجاتے ہیں ۔ اس کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یا یھاالذین اٰمنواتوابواالی اللہ توبۃ النصوحا(سورۃ التحریم
ترجمہ :۔
’’اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہو جائے ‘‘
یعنی ہمیں ایک پختہ (پکی ) توبہ کرلینے کی ضرورت ہے اور توبہ ایسی ہونی چاہیے جس سے نصیحت بھی حاصل ہو اور دوبارہ توبہ ٹوٹنی بھی نہیں چاہیے کیونکہ جب ہمارے دل کا معاملہ اللہ عزوجل کے ساتھ درست ہو جائے گا تب ہمارے دیگر معاملات کو اللہ تعالیٰ خود بخود ٹھیک فر مادے گا ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے مسلم بہن بھائیوں کو سیلاب اور موذی بیماریوں سے نجات عطا فرمائے اور ہماری قوم نے جس طرح 1947میں اور 1965ء کی جنگ کے دوران ایک جسم کی مانند ایک دوسرے کا سہارا بن کر ملک وقوم کی خدمت کی تھی اسی جذبے کے ساتھ اپنے دکھی ساتھیوں کی خدمت کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے ۔نبی کریم ﷺنے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو یہ تعلیم عطافرمائی کہ جب تم کسی کو کسی مرض میں مبتلا دیکھو تو یہ دعا پڑھ لیا کرو اللہ تعالیٰ اس دعا کی برکت سے تمہیں اس مرض سے محفوظ رکھے گا۔دعا یہ ہے ۔
الحمد للہ الذی عافانی مما بتلا ک بہ و فضلنی
علی کثیر ممن خلق تفضیلا