ن
نامعلوم اول
مہمان
خاموشئیِ شب
۱
کیا ہوا کیوں خموشیئِ شب میں
آ رہی ہے صدا سسکنے کی
کس کے غم میں سیاہ پوش ہے رات
چاند نکلا ہے چودھویں کا مگر
روشنی کا نشاں نہیں ملتا
ڈھونڈتا ہوں مگر رگِ جاں میں
زندگی کا نشاں نہیں ملتا
۲
ہر طرف ہے سکوں کا راج تو پھر
بحرِ ہستی میں کیوں طلاطم ہے
خوں فشاں کس لیے ہے دیدۂ نم
کس کی یادیں برنگِ قوسِ قزح
جلوہ گر سامنے ہیں آنکھوں کے
کس کی باتوں کی بازگشت ہے یہ
جس نے ترسی ہوئی سماعت کو
اور ترسا دیا ہے اس پل میں
کیا یہ یادیں اسی کی ہیں جس نے
ہم سے باندھا تھا عہد الفت کا
کیا یہ باتیں اسی کی ہیں جس نے
ہم سے اک دن کہا تھا شام ڈھلے
کچھ بھی ہو ہم جدا نہ ہوں گے کبھی
۳
تم کہ تھے ہم سفر مرے جاناں
کیوں نئے راستے پہ چل نکلے
کیوں مجھے یوں بھٹکتے پھرنے کو
تشنہ لب، خستہ حال، آبلہ پا
زندگی کی ڈگر پہ چھوڑ گئے
ہاں مگر تم سے کیا گلہ کرنا
تم بھی تو میری طرح بے بس تھے !
۴
میں ہوں اب اور مری یہ تنہائی
اور ان ساعتوں کی یادیں ہیں
جو تمھاری حسین آنکھوں کے
ٹمتماتے دیوں سے روشن تھیں
۱
کیا ہوا کیوں خموشیئِ شب میں
آ رہی ہے صدا سسکنے کی
کس کے غم میں سیاہ پوش ہے رات
چاند نکلا ہے چودھویں کا مگر
روشنی کا نشاں نہیں ملتا
ڈھونڈتا ہوں مگر رگِ جاں میں
زندگی کا نشاں نہیں ملتا
۲
ہر طرف ہے سکوں کا راج تو پھر
بحرِ ہستی میں کیوں طلاطم ہے
خوں فشاں کس لیے ہے دیدۂ نم
کس کی یادیں برنگِ قوسِ قزح
جلوہ گر سامنے ہیں آنکھوں کے
کس کی باتوں کی بازگشت ہے یہ
جس نے ترسی ہوئی سماعت کو
اور ترسا دیا ہے اس پل میں
کیا یہ یادیں اسی کی ہیں جس نے
ہم سے باندھا تھا عہد الفت کا
کیا یہ باتیں اسی کی ہیں جس نے
ہم سے اک دن کہا تھا شام ڈھلے
کچھ بھی ہو ہم جدا نہ ہوں گے کبھی
۳
تم کہ تھے ہم سفر مرے جاناں
کیوں نئے راستے پہ چل نکلے
کیوں مجھے یوں بھٹکتے پھرنے کو
تشنہ لب، خستہ حال، آبلہ پا
زندگی کی ڈگر پہ چھوڑ گئے
ہاں مگر تم سے کیا گلہ کرنا
تم بھی تو میری طرح بے بس تھے !
۴
میں ہوں اب اور مری یہ تنہائی
اور ان ساعتوں کی یادیں ہیں
جو تمھاری حسین آنکھوں کے
ٹمتماتے دیوں سے روشن تھیں