نظم: خاموشیِ شب

ن

نامعلوم اول

مہمان
خاموشئیِ شب
۱
کیا ہوا کیوں خموشیئِ شب میں
آ رہی ہے صدا سسکنے کی
کس کے غم میں سیاہ پوش ہے رات
چاند نکلا ہے چودھویں کا مگر
روشنی کا نشاں نہیں ملتا
ڈھونڈتا ہوں مگر رگِ جاں میں
زندگی کا نشاں نہیں ملتا

۲
ہر طرف ہے سکوں کا راج تو پھر
بحرِ ہستی میں کیوں طلاطم ہے
خوں فشاں کس لیے ہے دیدۂ نم
کس کی یادیں برنگِ قوسِ قزح
جلوہ گر سامنے ہیں آنکھوں کے
کس کی باتوں کی بازگشت ہے یہ
جس نے ترسی ہوئی سماعت کو
اور ترسا دیا ہے اس پل میں
کیا یہ یادیں اسی کی ہیں جس نے
ہم سے باندھا تھا عہد الفت کا
کیا یہ باتیں اسی کی ہیں جس نے
ہم سے اک دن کہا تھا شام ڈھلے
کچھ بھی ہو ہم جدا نہ ہوں گے کبھی

۳
تم کہ تھے ہم سفر مرے جاناں
کیوں نئے راستے پہ چل نکلے
کیوں مجھے یوں بھٹکتے پھرنے کو
تشنہ لب، خستہ حال، آبلہ پا
زندگی کی ڈگر پہ چھوڑ گئے
ہاں مگر تم سے کیا گلہ کرنا
تم بھی تو میری طرح بے بس تھے !

۴
میں ہوں اب اور مری یہ تنہائی
اور ان ساعتوں کی یادیں ہیں
جو تمھاری حسین آنکھوں کے
ٹمتماتے دیوں سے روشن تھیں
 

مہ جبین

محفلین
میں ہوں اب اور مری یہ تنہائی
اور ان ساعتوں کی یادیں ہیں
جو تمھاری حسین آنکھوں کے
ٹمتماتے دیوں سے روشن تھیں
بہترین، حاصلِ کلام​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میں ہوں اب اور مری یہ تنہائی
اور ان ساعتوں کی یادیں ہیں
جو تمھاری حسین آنکھوں کے
ٹمتماتے دیوں سے روشن تھیں
بہترین، حاصلِ کلام​
نوازش ہے۔ آج بھی وہ رات اچھی طرح یاد ہے۔ تاریخ درج ہے 2 نومبر 1999۔ اس موسم میں رات کے وقت کوئٹہ میں اچھی خاصی سردی ہوتی ہے۔ رات گئے بستر سے اٹھ کر یہ لائنیں تحریر کی تھیں۔
 
کس کے غم میں سیاہ پوش ہے رات
چاند نکلا ہے چودھویں کا مگر
روشنی کا نشاں نہیں ملتا
ڈھونڈتا ہوں مگر رگِ جاں میں
زندگی کا نشاں نہیں ملتا
واہ کیا کہنے
محسوسات کی خوب ترجمانی کی ہے

ہر طرف ہے سکوں کا راج تو پھر
بحرِ ہستی میں کیوں طلاطم ہے
خوں فشاں کس لیے ہے دیدۂ نم
کس کی یادیں برنگِ قوسِ قزح
جلوہ گر سامنے ہیں آنکھوں کے
کس کی باتوں کی بازگشت ہے یہ
جس نے ترسی ہوئی سماعت کو
اور ترسا دیا ہے اس پل میں
کیا یہ یادیں اسی کی ہیں جس نے
ہم سے باندھا تھا عہد الفت کا
کیا یہ باتیں اسی کی ہیں جس نے
ہم سے اک دن کہا تھا شام ڈھلے
کچھ بھی ہو ہم جدا نہ ہوں گے کبھی

اللہ اللہ کیا روانی ہے قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے

میں ہوں اب اور مری یہ تنہائی
اور ان ساعتوں کی یادیں ہیں
جو تمھاری حسین آنکھوں کے
ٹمتماتے دیوں سے روشن تھیں

آخری بند بھی خوب ہے مگر کچھ تشنگی کا احساس ہوا جیسے ماضی الضمیر کی مکمل طور پر وضاحت نہ ہو سکی ہو
بحییثیت مجموئی بہت شاندار نظم
اللہ کرے زورِ قلم زیادہ
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
آخری بند بھی خوب ہے مگر کچھ تشنگی کا احساس ہوا جیسے ماضی الضمیر کی مکمل طور پر وضاحت نہ ہو سکی ہو
بحییثیت مجموئی بہت شاندار نظم
اللہ کرے زورِ قلم زیادہ

شکریہ۔ کہیں آپ "تنہائی" کے احساس کو تو تشنگی نہیں سمجھ بیٹھے؟
 
میری ناقص رائے میں آخری بند کچھ یوں ہو تو شائید بہتر ہو جائے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں
اور ان ساعتوں کی یادیں ہیں
جو تمھاری حسین آنکھوں کے
ٹمتماتے دیوں سے روشن تھیں
میں ہوں اب اور مری یہ تنہائی
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میری ناقص رائے میں آخری بند کچھ یوں ہو تو شائید بہتر ہو جائے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں
اور ان ساعتوں کی یادیں ہیں
جو تمھاری حسین آنکھوں کے
ٹمتماتے دیوں سے روشن تھیں
میں ہوں اب اور مری یہ تنہائی

میں تو پرانی صورت کو ہی اس نئی شکل سے بہتر سمجھوں گا۔ مگر آپ کی رائے کے پیشِ نظر، یہ کوشش ہو گی کہ کبھی نظرِ ثانی کر کے، نئے سرے سے خاتمہ لکھ سکوں۔ یاد رہے کہ یہ سب شاعری نوجوانی اور فکری پختگی سے پہلے کی دور کی ہے۔ ویسے بھی بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے!
 
میں تو پرانی صورت کو ہی اس نئی شکل سے بہتر سمجھوں گا۔ مگر آپ کی رائے کے پیشِ نظر، یہ کوشش ہو گی کہ کبھی نظرِ ثانی کر کے، نئے سرے سے خاتمہ لکھ سکوں۔ یاد رہے کہ یہ سب شاعری نوجوانی اور فکری پختگی سے پہلے کی دور کی ہے۔ ویسے بھی بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے!
ہاں بہتری کی گنجائیش تو ہمیشہ رہتی ہے :)
 
Top