نظم : ”نفرت‘‘ ۔۔ از : فاتح الدین بشیر محمود ؔ

مغزل

محفلین
نفرت
----------​
ارے او قاتلو!
تم پر خدا کا قہر ہو
تم نے جہانِ دل کے سب کوچے محلے
سب گلی چوبارے تک ویران کر ڈالے
گلستانِ تبسم روند ڈالے
شہرِ جاں کی سب فصیلیں
ڈھا کے قبرستان کر ڈالیں
تم اپنی ذات میں خود ہی خداوندان و پیغمبر
تمہاری گفتنی و کردنی
جو تھی بزعمِ خود ہی یزدانی
جنہیں میں خضر سمجھا تھا
وہی شداد نکلے ہیں
میں جن کی ذات کا حصہ
وہی بدذات نکلے ہیں
تمہاری فتح میں تسلیم کر لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ اگر تم یہ شکستِ دل
شکستِ عشق میں تبدیل کر پاؤ
مگر اب تک
ضمیرِ قلب کے سینے پہ گویا ایستادہ ہے
علم اک قرمزی
جو اک علامت ہے
محبت جاودانی کے جلال و فتح مندی کی
وہیں اک اور بھی
اتنا ہی اونچا اور قد آور
علم بھی ایستادہ ہے
مگر اس سرخ جھنڈے سے
سیہ رنگت جھلکتی ہے
مگر بس فرق اتنا ہے
کہ اس کے روئیں روئیں سے
فقط نفرت چھلکتی ہے
وہی نفرت علامت ہے
مرے تم سے تعلق کی
تمہارے میرے رشتے کی
مگر دکھ کیا
ابھی الفاظ باقی ہیں
قلم کا ساتھ باقی ہے
مگر جب تک
مرے سینے میں اک بھی سانس باقی ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
---​
فاتح الدین بشیر محمود ؔ​
۔۔۔۔۔۔​
حاشیہ : یہ نظم پہلی بار فاتح بھائی کے دولت کدے پر کراچی میں سماعت و دل و چشم کو نصیب ہوئی تھی۔۔ (اس ملاقات کا احوال ۔۔۔)
محفل میں ’’ ہفتہ شعر وسخن‘‘ میں فرخ منظور بھائی کی ایما پر شامل ہے یہاں الگ سے پیش کرنے کا جی چاہا سو حاضر ہے ۔۔۔​
سلامت باشید روز بخیر​
 

جاسمن

لائبریرین
کیا کہیں!!!!!
بہت ہی خووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووب
 

فاتح

لائبریرین
کیا کہیں!!!!!
بہت ہی خووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووب
مغل بھائی نے تو یہ نظم ارسال کر کے پلٹ کے اس جانب دیکھا بھی نہیں لہٰذا ن کی جانب سے ہم شکریہ کہہ دیتے ہیں۔ آپ کا بھی اور باقی پسند کرنے والے دوستوں کا بھی :)
 
Top