سید شہزاد ناصر
محفلین
آج سے 125برس قبل بکھرے ہوئے خیالات اور تحقیق کے بجائے اندازوں کی بنیاد پر قائم نظریات اور ان پر اڑے رہنے والے ماحول میں قلم اور دوات کی سیاہی سے ایک ایسی روشنی پھوٹی، جس نے جہل کی تاریکی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ایک ایسی چمک دار اور تاباں روشنی جس نے لفظ لفظ ذہنوں کو منور کیا۔ نہایت مختصر وقت میں کچھ پرعزم لوگوں کے ذہن رسا کی بدولت معاشرے کو اجالنے والی ان ضوفشاں کرنوں کو ہم ”نیشنل جیوگرافک میگزین“ کے نام سے جانتے
ہیں۔ ہر سطر میں علمی اور تحقیقی پیاس بجھانے والا نیشنل جیوگرافک میگزین رواں برس جنوری 2013میں اپنی ایک سو پچیسویں سال گرہ منائی۔
٭ابتدا:
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی 33 سرپھرے محققین کارنامہ ہے، جنہوں نے اس سوسائٹی کی داغ بیل 27 جنوری 1888کو ڈالی اور یہی وہ شجر ہے جس کی تناور شاخوں میں سے ایک نیشنل جیوگرافک میگزین ہے، جس کی اولین اشاعت سوسائٹی کے وجود میں آنے کے محض نو ماہ بعد اکتوبر 1888میں تشنگان علم کے سامنے آئی اور آج بھی نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور نیشنل جیوگرافک میگزین 125سال کا شان دار سفر طے کرنے کے بعد علم و جستجو کی نئی منزلوں کی سمت رواں دواں ہیں۔
٭نیشنل جیوگرافک سوسائٹی:
آج سے ٹھیک 125سال قبل امریکا کے شہر واشنگٹن ڈی سی کے چند امیر و کبیر مگر تعلیم یافتہ مہم جو افراد نے اپنی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے لیے ایک گروپ تشکیل دیا، جو1878سے واشنگٹن میں قائم ”کاسموس کلب“ میں جمع ہوکر اپنے عزائم کی منصوبہ بندی کرتا تھا۔ اس حوالے سے 33 مہم جو امراءکے اس گروہ نے 13جنوری1888کو فیصلہ کیا کہ وہ ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد ڈالیں جس کے ذریعے و ہ جغرافیائی حقائق سے دنیا بھر کو آگاہ کریں گے۔ ضروری لوازمات اور کاغذی تیاریوں کے بعد 27 جنوری 1888 کو ”نیشنل جیوگرافک سوسائٹی“ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، جس کا اولین صدر مشہور تاجر، قانون داں اور انسان دوست شخصیت Gardiner Greene Hubbardکو منتخب کیا گیا۔
گارڈینر گرین ہوب بارڈ، ٹیلیفون کے موجد الیگزنڈر گراہم بیل کے سسر تھے۔ بعد ازاں گارڈینر گرین ہوببارڈ کے انتقال کے بعد1897میں گراہم بیل نے اس سوسائٹی کی صدارت سنبھال لی اور محض دو سال بعد1899میں گراہم بیل کے داماد اور فوٹو جرنل ازم کے بانی Gilbert Howey Grosvenor نے اس اہم سوسائٹی کی صدارت سنبھالی جو متواتر پینتالیس برس(1954) تک جاری رہی اس دوران ”گلبرٹ ہووے گروسوینر“ کی وجہ شہرت نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے صدر کے بجائے نیشنل جیوگرافک میگزین کے پہلے کل وقتی ایڈیٹر کی تھی جس کے دوران نیشنل جیوگرافک میگزین کا شمار صف اول کے تحقیقی رسالوں میں کیا جانے لگا۔
٭نیشنل جیوگرافک میگزین:
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی اس کے منصوبہ سازوں نے محسوس کیا کہ سوسائٹی کے بینر تلے کوئی ایسا جرنل بھی شائع ہونا چاہیے، جس میں تحقیقی کاموں کی تفصیلات عام افراد تک پہنچ سکیں۔ چناںچہ اکتوبر1888میں نیشنل جیوگرافک میگزین کا پہلا شمارہ شائع کیا گیا۔ اس طرح نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کا تمام تحقیقی اور مہم جوئی سے بھرپور دریافتوں کا کام تحریر ی شکل میں نیشنل جیوگرافک میگزین میں شائع کیا جانے لگا اور یہ سلسلہ اس حد تک پسند کیا جانے لگا کہ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کو عوام نیشنل جیوگرافک میگزین کی ایک شاخ سمجھنے لگے اور یہ رسالہ کچھ ہی عرصے بعد سوسائٹی کی پہچان بن گیا۔
اشاعت کی ابتدا ہی سے نیشنل جیوگرافک میگزین میں جغرافیہ، پاپولر سائنس، دنیا کی تاریخ یا جنرل ہسٹری، ثقافت اور ایجادات کے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بعدازاں میگزین کے ایڈیٹر ”گلبرٹ ہووے گروسوینر“ کی کوششوں کی شکل میں تصاویر نے میگزین کو ا±س طبقے کے لیے بھی نہایت دل چسپ بنادیا جو پڑھنے کی صلاحیت سے محروم تھا، مگر تصاویر دیکھ کر دنیا اور کائنات کے پوشیدہ گوشوں سے واقف ہونے لگا۔ 25 سینٹ کی قیمت والے اس میگزین نے جلد ہی صحافتی سائنس سے بھی عام طبقے کو روشناس کرایا اور نیشنل جیوگرافک میگزین کے مضامین دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہونے لگے۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے 8.5ملین ممبر ہیں۔
2011کے اعداد وشمار کے مطابق نیشنل جیوگرافک میگزین دنیا کی 36 زبانوں میں شائع ہوتا ہے، جب کہ اس کی ماہانہ اشاعت8.3ملین ہے، جس میں سے پانچ ملین اشاعت امریکا میں ہوتی ہے۔ پیلے رنگ کے چوکھٹے میں گھرے سرورق والے اس میگزین کے اب تک تقریباً پندرہ سو سے زاید شمارے شائع ہوچکے ہیں، جن میں دنیا کے تقریباً ہر قابل ذکر موضوع پر تحقیقی مواد شائع ہوچکا ہے۔ واشنگٹن میں قائم اس کے صدر دفتر میں مشہور زمانہ فوٹوگرافرChris Johns ایڈیٹر ان چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میگزین کی ایک سو پچیس سالہ تاریخ میں کرس جان پہلے فوٹوگرافر ہیں جو اس عہدے تک پہنچے ہیں، جب کہ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹDeclan Moore میگزین کے تمام قانونی معاملات کے ذمے دار ہیں۔
میگزین کو اپنی اشاعت کے کچھ ہی عرصے بعد شہرت ملنا شروع ہوگئی تھی۔ بالخصوص 1905 کے جنوری کے شمارے میں تبت کے انتہائی پراسراریت میں ڈوبے شہر لہاسا کے مختلف مقامات کی تصاویر کی اشاعت نے رسالے کو عالمی سطح پر شہرت دلوادی تھی۔ اپنی متنوع طرز اشاعت کے باعث میگزین کو متعدد بار مختلف عالمی اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا ہے، جن میں 2011 میں میگزین نے ”میگزین آف دی ایئر“ کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔ اس کے علاوہ امریکن سوسائٹی آف ایڈیٹرز کی جانب سے ایکسی لینسی ایوارڈ، سال کا بہترین میگزین اور بہترین فوٹو جرنل ازم کے ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ بعض مخصوص حالات میں میگزین کا پورا شمارہ ایک موضوع پر بھی شائع کیا جاتا رہا ہے، جس میں کسی خاص خطے کا احاطہ کیا جاتا ہے یا ماضی کی کسی خاص تہذیب، معدومیت کا شکار ہوتی خاص نوع ، کسی خاص واقعے، حیاتیاتی عمل یا کائناتی سرگرمی وغیرہ کو موضوع بنایا جاتا ہے۔
جنوری 1967 کا شمارہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے سرورق پر مسلمانوں کے مذہبی تہوار عیدالفطر کے حوالے سے دو بچیوں کو خوشیاں مناتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب کہ میگزین کے اندرونی صفحات میں پاکستان کے حوالے سے ایک تحقیقی مضمون بہ عنوان Pakistan: Problems of a Two-part Landشائع کیا گیا تھا، جس میں پاکستان کے دولخت ہونے کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے گئے تھے اور محض چار سال بعد یہ خدشات درست ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ میگزین کے دیگر شماروں میں پاکستان میں دریافت ہونے والے آثار قدیمہ ہڑپا اور موہن جو دڑو کے بارے میں بھی قابل قدر معلومات شائع ہوچکی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے معاشی اور سماجی پس منظر پر ستمبر2007 میں آٹھ صفحوں پر مشتمل ایک تفصیلی مضمون بھی میگزین کی زینت بن چکا ہے۔
2006 میں نیشنل جیوگرافک میگزین کے ایک محقق اور رپورٹر Paul Salopekکو سوڈان میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا، جسے بعد میں رہا کردیا گیا۔ اس واقعے پر مبنی کہانی میگزین میں شائع کی گئی۔ اپنی اشاعت کے ستر سال بعد جولائی1959 میں میگزین نے سرورق پر پہلی مرتبہ رنگین تصویر شائع کی۔ یہ تصویر امریکا کے اس جھنڈے کی تھی، جس میں ریاست الاسکا کے امریکا میں شامل ہونے کے بعد 49ستارے بنائے گئے تھے۔ میگزین کا عربی زبان کا پہلا ایڈیشن اکتوبر2010میں شائع ہوا، جب کہ اولین غیرانگریزی ایڈیشن جاپانی زبان میں 1995میں شائع ہوا تھا۔
میگزین کے زیراہتمام اکثر نقشہ جات کے سپلیمنٹ بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ1918سے جاری ہے۔ 1918میں جنگ عظیم اول کے دوران The Western Theater of Warکے نام سے ایک سپلیمنٹ شائع کیا گیا جس میں متحارب فوجوں کی پیش قدمی کے حوالے سے نقشہ کشی کی گئی تھی۔ یہ نقشہ کشی فوجیوں کے خاندانوں کو ان کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے کی گئی تھی۔ تمام معلومات میگزین کے نامہ نگاروں کی میدان جنگ سے بھیجی گئی تفصیلات پر مبنی تھیں۔
٭میگزین کا شعبہ فوٹوگرافی:
میگزین کا ایک انتہائی اہم اور پرکشش روپ اس میں شائع ہونے والی اعلیٰ معیار کی تصاویر ہیں۔ یہ جاذب نظر تصاویر دنیا بھر سے منتخب کردہ فوٹوگرافروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ نیشنل جیوگرافک میگزین میں شائع ہونے والی تصاویر ہی ”فوٹو جرنل ازم“ کی بنیاد بنی ہیں۔ 1930کی دہائی میں فوٹوگرافرLuis Marten میگزین کے لیے تصاویر فراہم کرکے عالمی سطح پر روشناس ہوئے تھے۔ اٹلی سے تعلق رکھنے والے لیوس مارڈین اگرچہ ایک بہت اچھے لکھاری، کھلاڑی، فلم ساز، غوطہ خور اور ماہرِلسانیات تھے، مگر ان کی وجہِ شہرت فوٹوگرافر ہی رہی بالخصوص ان کی زیرآب اتاری گئی تصاویر جب میگزین میں شائع ہوئیں تو دیکھنے والے ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ اس کے علاوہ1941میں سمندر میں موجود مرجانی چٹانوں کی تصاویر بھی قابل دید تھیں۔
نیشنل جیوگرافک میگزین وہ پہلا رسالہ تھا جس نے زیرآب رنگین تصاویر اتارکر عوام کے سامنے پیش کیں۔ جون 1985میں ایک تیرہ سالہ افغانی لڑکی ”شربت گلہ “ کی سرورق پر شائع ہونے والی تصویر بہ عنوان ”ایک افغان لڑکی“ میگزین کی سب سے پہچانی جانے والی تصوریر قرار دی گئی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پشاور کے افغان مہاجر کیمپ میں اتاری گئی اس تصویر کے بارے میں شربت گلہ کوسن 2002 تک علم ہی نہیں تھا کہ ا±س کی تصویر نیشنل جیوگرافک میگزین کے سرورق پر شائع ہوئی ہے اور نہ ہی فوٹوگرافرSteve Curry
کو علم تھا کہ سرورق پر شائع ہونے والی تصویر کس کی ہے اور یہ عورت کہاں ہے۔
تاہم نیشنل جیوگرافک میگزین کی انتظامیہ اور فوٹو گرافر ”اسٹیو مکری“ نے شربت گلہ کی تلاش جاری رکھی اور بالآخر شربت گلہ کو افغانستان میں 2002 میں دریافت کرلیا گیا۔ بائیومیٹرک تیکنیک کے باعث شناخت کی جانے والی شربت گلہ اپنی دریافت کے وقت تین بچیوں کی ماں بن چکی تھی۔ اس موقع پر اس نے خواہش ظاہر کی کہ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے چناں چہ میگزین کی انتظامیہ کی جانب سے ”افغان گرلز فنڈ“ قائم کیا گیا، جسے بعد میں ”افغان چلڈرن فنڈ“ کے نام سے کام یابی سے چلایا جارہا ہے۔ شربت گلہ کی 17سال تک تلاش کے واقعات پر مبنی دستاویزی فلم بھی نیشنل جیوگرافک چینل سے پیش کی جاچکی ہے۔
٭نیشنل جیوگرافک چینل:
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے زیراہتمام میگزین، کتابیں، نقشے، ویڈیو، سی ڈی، ڈی وی ڈی اور ٹیلی ویڑن چینل متحرک ہیں۔ ابتدا میں سوسائٹی نے اپنے تحقیقی مواد کو نشر کرنے کے لیے اس وقت کے دنیا کے سب سے بڑے میڈیا ہاﺅس ”نیوز کارپوریشن“ کی خدمات حاصل کی۔ تاہم ستمبر1997میں اپنا چینل ”نیشنل جیوگرافک چینل انٹرنیشنل“(NGCI)شروع کیا۔ اس چینل کو جسے اب نیٹ جیو بھی کہا جاتا ہے، کیبل یا سیٹلائٹ کے ذریعے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ چینل بھی نیوزکارپوریشن کے تعاون سے نشریات پیش کرتا ہے۔
جولائی1998 میں نیشنل جیوگرافک چینل ”ایشیاءاسٹار ٹی وی“ کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں بھی دیکھا جانے لگا، جب کہ 12جنوری2001 کو اس چینل کو ”نیشنل جیوگرافک ٹیلیویڑن فلم“ اور ”فوکس کیبل نیٹ ورک“ کے تعاون سے امریکا سے بھی شروع کردیا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر کی 27 زبانوں میں دکھائے جانے والا یہ چینل 160ممالک کے 260 ملین گھرانوں کو معلومات پہنچاتا ہے۔ نیشنل جیوگرافک چینل کے توسط سے نیٹ جیو میوزک، نیٹ جیو جونیئر، نیشنل جیوگرافک چینل HD، نیشنل جیوگرافک ایڈونچر، نیٹ جیو وائلڈ اور نیٹ جیو منڈو پیش کے جاتے ہیں۔
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے سنگ میل:
٭1890سے 1891کے درمیان سوسائٹی کے تعاون سے پہلی مہم الاسکا کے یخ بستہ علاقے کی طرف روانہ کی گئی سوسائٹی کے بانی اراکین میں سے ایک Israel Russellکی سربراہی میں جانے والی اس مہم نے نہ صرف علاقے کی نقشہ نویسی کی بلکہ کینیڈا کی سب سے بلند چوٹی ”ماﺅنٹ لوگان“ بھی دریافت کی۔
٭6 اپریل 1909کو میں ”رابرٹ ای پیری“(Robert E Peary) اور سیاہ فام امریکی میتھیوہینسن(Matthew Henson) وہ پہلے دو فرد تھے جنہوں نے سوسائٹی کی معاونت میں قطب شمالی پہنچ کر تاریخ رقم کی تھی۔
٭ 1912سے1915کے درمیان امریکا سے تعلق ر کھنے والے تعلیم داں اور مہم جو ”ہیرام بنگہام“(Hiram Bingham) کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے لاطینی امریکا کے ملک پیرو میں قدیم ”انکا تہذیب“ کا سطح سمندر سے 2430 میٹر بلند مدفن شہر ”ماچو پیچو“ کھود کر نکالا مہم کے اخراجات سوسائٹی نے برداشت کیے تھے۔ اس حوالے سے اپریل1913 کا نیشنل جیوگرافک میگزین کا مکمل شمارہ ”ماچو پیچو“ شہر کی دریافتوں سے متعلق تھا۔ مقامی آثار قدیمہ کی دریافت اور خدمات کے اعتراف میں پیرو حکومت نے جولائی2011میں اپنا سب سے بڑا شہری اعزاز “Orden del Sol del Peru” نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کو عطا کیا تھا۔
٭1912میں الاسکا میں واقع پہاڑKatmai سے لاوا نکلنے کے بعد ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے نباتاتی حیاتیات کے امریکی ماہر Robert F. Griggsنے 1916میں اس پ±رخطر علاقے کا دورہ کیا اور بیرونی دنیا کو یہاں کے لاوے میں سے اٹھتے محیرالعقول دھویں کے مرغولوں یا فواروں سے روشناس کرایا تھا۔ بعدازاں اس علاقے کو قومی یادگار قرار دے کر محفوظ کرلیا گیا۔ اس 1,700مربع میل پر محیط علاقے کو Valley of Ten Thousand Smokesکہا جاتا ہے۔
٭نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے زیرانتظام 29نومبر1929کوریئر ایڈمرل رچرڈ ای برڈ(Richard E Byrd)وہ پہلے شخص قرار پائے جنہوں نے قطب جنوبی کے اوپر فضائی چکر لگایا اور تقریباً ساٹھ ہزار مربع میل پر محیط علاقے کی تصویر اتاریں۔
٭1938کے اوائل میں ماہرِبشریات میتھیو اسٹرلنگ(Matthew Stirling) نے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی شراکت سے ایسی آٹھ مہموں کی سربراہی کی، جن کے دوران انہوں نے میکسیکو کی 1500قبل مسیح کی اولین تہذیب Olmecکے وقت کے چٹانی ٹکڑوں سے ڈھالے ہوئے گیارہ بڑے عدد چہرے یا سر دریافت کیے تھے۔ یہ سر یا چہرے پندرہ صدیوں سے زمین میں دفن تھے۔
٭اکتوبر1952کا شمارہ اس لحاظ سے یادگار ہے کہ پہلی مرتبہ بحری علوم کے فرانسیسی ماہرJacques-Yves Cousteau نے زیرسمندر دنیا کے حوالے سے اپنی معلومات دنیا کے سامنے لاکر سب کو حیرت زدہ کردیا۔
٭اگست 1956کے شمارے میں بحیرہ اوقیانوس کی تہہ میں واقع تیسری سب سے گہری کھائیRomancheکی تصاویر شائع کی گئیں۔ پچیس ہزار فٹ کی گہرائی میں واقع دنیا دکھانے والی یہ تصاویر اس وقت تک سمندر کے سب سے گہرے مقام کی تصاویر تھیں۔
٭ستمبر1960میں میگزین میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں ماہرآثاریات اور رکازیات (فوسلز) میاں بیوی جوڑے ”لوئیس اور میری لیکی“(Louis and Mary Leakey) نے انکشاف کیا کہ انہوں نے تنزانیہ کے نواح سے ایک ایسا ہڈیو ں کا فوسلز دریافت کیا ہے، جسے موجود انسان کا جد امجد شمار کیا جاسکتا ہے۔ سوسائٹی کے زیراہتمام کی جانے والی اس کھوج میں دریافت ہونے والے اس فوسلز کو Zinjanthropus کا نام دیا گیا جو تقریباً دو ملین سال قدیم تھا۔
٭یکم مئی1963وہ دن تھا جب پہلی مرتبہ کسی امریکی نے دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماﺅنٹ ایورسٹ کو سرکیا۔ یہ کارنامہ کوہ پیما Jim Whittaker نے انجام دیا تھا مہم کے تمام انتظامات سوسائٹی نے کیے تھے۔
٭1967میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے زیرانتظام وسطیٰ اور مشرقی افریقہ کے سنگم پر واقع ملک روانڈا کے پہاڑی جنگلات میں موجود معدومیت کا شکار ہوتے گوریلوں کے بارے میں آگاہی کے لیے مہم شروع کی گئی۔ اس انتہائی اہمیت کی حامل طویل تحقیق کی سربراہ امریکا کی خاتون ماہرَحیوانیات ڈین فوزی(Dian Fosse)تھیں غیر قانونی شکار اور
جادوٹونے اور ادویہ کے لیے گوریلوں کی ہلاکت روکنے کے پاداش میں18سال سے جنگل میں مقیم ڈین فوزی کو نامعلوم لوگوں نے اسی علاقے میں1985میں قتل کردیا تھا۔
٭20جولائی1969کو جس وقت چاند گاڑی ”اپالو گیارہ“ چاند پر اتری تو مشن میں مالی معاونت اور تعاون کرنے کے باعث خلانوردوں کے ساتھ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کا پرچم بھی تھا۔
٭اپریل 1979میں سوسائٹی کے زیرانتظام جاری ایک تحقیق کے دوران خاتون ماہرآثاریات Mary Leakey تقریباً ساڑھے تین ملین سال پرانے قدموں کے نشان ڈھونڈ نکالے۔ رکازات (Fossil) کی شکل میں پائے جانے والے یہ نشان مشرقی افریقہ کے ملک تنزانیہ کے علاقے Olduvai gorgeکے قریب آتش فشانی راکھ میں سے دریافت ہوئے تھے۔ Laetoli Footprintsکے نام سے پکارے جانے والے ان نشانات کو جدید انسان کے ابتدائی گروہوں سے جوڑا جاتا ہے۔
٭امریکا سے تعلق رکھنے والے George Bassکا شمار زیرِآب آثارقدیمہ کی تلاش کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔ 1984میں انہوں نے سوسائٹی کی مالی معاونت سے جنوبی ترکی کے علاقےCape Gelidonyaمیں ایک ڈوبے ہوئے تین ہزار چارسو سال قدیم بحری جہاز کی باقیات کی کھوج لگا کر تانبے کے عہد کا نادر اشیاءکا خزانہ دریافت کیا تھا۔
٭ستمبر1985میں سوسائٹی نے RMSٹائٹینک بحری جہاز کی کھوج کے لیے اپنی جاری مہم کی کام یابی کا اعلان کیا یہ اعلان مشہور ومعروف امریکی ماہر بحری آثاریات اور بحری ٹیکنالوجی کے ماہر رابرٹ ڈی بلارڈ(Robert Ballard ) نے کیا تھا۔ شمالی بحیرہ اوقیانوس میں15اپریل1912کو غرق ہونے والے اس سو سال قدیم مسافر بحری جہاز کی دریافت نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی ڈیزائن کردہ ڈیجیٹل تصویری ٹیکنالوجی کے باعث ممکن ہوسکی تھی۔ 1,502افراد کی موت کا باعث بننے والا یہ بحری جہاز 12500فٹ کی گہرائی میں جاکر ڈوب گیا تھا۔
٭یکم مئی1986کو پانچ مرد اور ایک خاتون پر مشتمل نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی ایک ٹیم مہم جو Will Stegerکی قیادت میں قطب شمالی تک پہنچی۔ اس مہم کا انوکھا پن یہ تھا کہ تمام ٹیم نے اپنا 1,600 سو میل پر مشتمل سفر ک±توں کی مدد سے دوڑنے والی گاڑیوں (Dog Sled) پر طے کیا تھا۔
٭اکتوبر1986کو میگزین کے سینئر ایسوسی ایٹ ایڈیٹر جوزف جیوڈ(Joseph Judge) نے پانچ سال کی تحقیق کے بعد اس بات کا انکشاف کیا کہ معروف سیاح کرسٹوفر کولمبس نے نئی دنیا یعنی ”امریکاز“ کی دریافت کے دوران پنے اولین قدم بہاماس کے جزیرے San Salvador کے بجائےSamana Cayکے مقام پر رکھے تھے۔
٭مئی1996میں پیرو کی قدیم تاریخی تہذیب ”انکا“ سے تعلق رکھنے والی ایک گیارہ سالہ لڑکیJuanita کے حنوط کیے گئے جسم کو سوسائٹی کے نمائش ہال میں پیش کیا گیا۔ اس نمائش کو پہلے دن ہی پچاسی ہزار افراد نے دیکھا۔
٭مارچ1998میں سوسائٹی کی جانب سے سفری مہموں کے لیے فنڈ قائم کیا گیا، جس کا مقصد کرہ ارض کے دوردراز اور ناقابل رسائی مقامات کو ڈھونڈنا اور ان کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنا تھا۔ اپنی تشکیل کے اولین سال ہی میں اس فنڈ کے لیے سوسائٹی نے ایک ملین ڈالر مختص کیے تھے۔
٭جون1998میں سوسائٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ڈائنو ساروں کے فوسلز کی کھدائی کے دوران چین کے علاقے Lionizing پروں والے ڈائنوسار Micro raptor کے فوسلز دریافت ہوئے ہیں۔ اس دریافت کا سہرا چین کے ماہر رکازیاتXu Xingکے سر ہے۔ اس دریافت سے ڈائنو سار اور پرندوں کے مابین جینیاتی تعلقات کے حوالے سے خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔
٭نومبر1998میں ماہرِآثاریات پال سیرینو نے اعلان کیا کہ انہوں نے سوسائٹی کے فنڈ سے شروع کی جانے والی ایک مہم میں ایک ایسے شکاری ڈائنوسار کے فوسلز دریافت کیے ہیں، جس کی مرغوب غذا مچھلیاں تھیں۔ Suchomimus Tenerensisکے نام سے منسوب مگرمچھ کی کھوپڑی سے مشابہہ یہ ڈائنوسار مغربی افریقہ کے صحرا ”صحارا“ میں واقع ملک جمہوریہ نائجر میں دریافت ہوا تھا۔
٭مارچ 1999میں ارجنٹائن میں واقع دنیا کے سب سے بلندی پر واقع آثارقدیمہ Mount Llullaillacoکی کھدائی کے دوران برف میں دبے پانچ سو سال قدیم انسانی جسم دریافت ہوئے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ان اجسام کے اوپر انکا تہذیب سے متعلق آرائش کا سامان نہایت بہترین حالت میں موجود پایا گیا۔
٭نومبر1999میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی زیرنگرانی ایک مہم میں مشہور امریکی فوٹوگرافر اور مہم جو Bradford Wash burn دنیا کے سب سے بلند پہاڑ ایورسٹ کی دوبارہ پیمائش کی، جو اس کی 1954 میں کی گئی۔ پیمائش سے 7فٹ زائد نکلی واضح رہے نئی پیمائش 29,035 فٹ ہے۔
٭نومبر1999ہی میں ماہر رکازیات پال سرینو نے صحرائے صحارا میں دنیا کے سب سے بڑے سبزی خور ڈائنوسارJobaria Tiguidensis کے فوسلز دریافت کیے ڈائنو سار کا وزن بیس ٹن اور لمبائی ستر فٹ تھی۔
٭اگست2000میں سوسائٹی نے گلوبل پوزیشننگ سسٹم ( GPS)کا استعمال کرتے ہوئے دریائے ایمزون کا درست منبع دریافت کیا پانی کا یہ منبع پیرو میں واقع پہاڑ Nevado Mismiسے شروع ہوتا ہے۔
٭مارچ2001میں سوسائٹی کے تعاون سے ”Mega transect برائے افریقہ“ پیش کیا گیا۔ مشہور ماہر ماحولیات اور بشریاتJ. Michael Fay کی نگرانی میں شروع کیے گئے اس پروگرام میں براعظم افریقہ کے 2000میل پر محیط علاقے کے جنگلی ماحولیاتی تنوع کو اعداد وشمار کی صورت میں جمع اور منظم کیا گیا۔ 455دن تک جاری رہنے والی اس تحقیق کی بدولت دریائے کانگو کے ساتھ ساتھ تیرہ نئے نیشنل پارکس کی حد بندی کی گئی۔ بعدازاں انہوں نے مڈغاسکر اور گبون کے علاوہ کیلی فورنیا اور اریگون ریاست تک پھیلے ہوئے تاریخی نوعیت کے عظیم الشان Redwood درختوں کا مکمل ڈیٹا جمع کیا۔ 333دنوں تک جاری رہنے والی اس انتہائی اہم مہم کی سرگزشت میگزین میں2009میں شائع کی گئی۔
٭مارچ2001میں ماہرآثاریاتMeave Leakeyنے اعلان کیا کہ انہوں نے سوسائٹی کی سرکردگی میں جاری ایک مہم کے دوران 3.5ملین سال قدیم انسان کے جد امجد کے فوسلز دریافت کیے ہیں۔
٭اپریل2002میں پیرو سے تعلق رکھنے والے ماہرِآثار قدیمہ ولی کوک (Willy Cook)کی سربراہی میں ایک ٹیم پیرو کے شہر لیما کے گردنواح میں Puruchucoکے تاریخی مقام پر کھدائی کررہی تھی کہ کھدائی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں حنوط شدہ اجسام دریافت ہوئے یہ تحقیق بھی سوسائٹی کے زیرانتظام کی جارہی تھی۔
٭جنوری 2005کے آغاز میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور سیمینس کمپنی نے ایک معاہدے کے تحت مصر میں دریافت ہونے والی حنوط شدہ ممیوں کی CTاسکینگ یعنی مخصوص زاویوں سے ایکس رے شعاعوں کے ذریعے تحقیق کا پروجیکٹ شروع کیا۔ اس پانچ سالہ پروجیکٹ میں مصر کے محض 19برس کی عمر میں وفات پاجانے والے بادشاہ Tutankhamen ممی بھی شامل تھی۔ 1323قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی اس ممی کا کھدائی کے دوران چہرہ خراب ہوگیا تھا، جسے ایکس رے امیج ٹیکنالوجی کی مدد سے درست کیا گیا۔ اس چہرے کی نمائش جون2005میں کی گئی۔
٭مارچ2005میں مشہور امریکی خاتون ماہرِبشریات Dean Falk کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ انہوں نے سوسائٹی کے تعاون سے انڈونیشیا میں جاری ایک مہم کے دوران قدیم انسانی دماغ کے رکازات پر تحقیق مکمل کرلی ہے Hobbitکے نام سے مشہور ان رکازات کو انہوں نے بنی نوع انسان کے قدیم پستہ قد افراد کے گروہوں سے منسوب کیا۔
٭اپریل2005 میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے ایک ایسے اہم کام کا بیڑا اٹھایا، جس کے تحت قدیم زمانے میں کی جانے والی انسانی ہجرت کے راستوں پر سے پردہ اٹھایا گیا۔ اس مقصد کے لیے دنیا کے چھے براعظموں میں سے دس ممالک کے ایسے گیارہ قبائل کے جینیاتی ( DNA) نمونے لیے گئے، جو ہزاروں سال سے الگ تھلگ ایک ہی جگہ مقیم ہیں۔ بعدازاں آسٹریلیا، برازیل، چین، فرانس، انڈیا، لبنان، روس، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور امریکی قبائل سے حاصل کیے گئے ان نمونوں کو بنیاد بناتے ہوئے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انسانوں کے DNA کے نمونے جمع کیے گئے او ر تبدیلیوں کے نتائج کی بنیاد پر انسانی ہجرت اور اقوام کا شجرہ جاننے کی کوشش کی گئی۔ اس منصوبے کے دوران بنیادی طور پر یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ کون سی انسانی نسل کہاں کہاں سے سفر کرتی گزری اور اب دنیا میں کن مقامات پر مقیم ہے۔ ابھی تک جاری اس تحقیق کو Geographic کا نام دیا گیا ہے، جس میں سوسائٹی کو کمپیوٹر ڈیٹا بیس ادارے IBMاور Wiatt فاﺅنڈیشن کا تعاون بھی حاصل ہے۔
٭اپریل2006میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے سوئٹزرلینڈ کی ”Maecenas فاﺅنڈیشن برائے قدیم آرٹ“ اور ”Wiatt ٹیوب فار ہسٹوریکل ڈسکوری“ کے باہمی تعاون سے اعلان کیا کہ انہوں نے قدیم مصری زبان Coptic میں تحریر کی ہوئی انجیل یہودا(Gospel of Judas)کے نسخے کی دریافت کے بعد اس کا ترجمہ اور ظاہری حالت کو درست کردیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ریڈیو کاربن تیکنیک کی مدد لی گئی، جس سے قدیم مصری تیکنیک سے بنائے گئے مخصوص کاغذ(Papyrus) اور روشنائی سے لکھے گئے نسخے کی قدامت کے بارے میں یقین دہانی ہوگئی کہ یہ 1700سال قدیم تحریری نسخہ ہے۔
٭اکتوبر2006 میں دنیا کے قدیم ترین آباد ملک ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے ماہربشریات Zeresenay Alemseged نے اعلان کیا کہ انہوں نے افریقی ملک ایتھوپیا کی سرزمین سے ایک ایسے انسانی بچے کے رکازات دریافت کیے ہیں جو تقریباً3.3ملین سال قدیم ہیں۔ سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے دریافت ہونے والے ان رکازات کو اب تک کی کسی بچے کے رکازات کے حوالے سے قدیم ترین دریافت تسلیم کیا گیا ہے۔
٭جنوری2007میں گولائی کی شکل میں ایستادہ پتھروں کے بھاری بھرکم عمودی ستون پر مشتمل آثار قدیمہ Stonehenge کے معماروں کی باقیات دریافت کی گئیں۔ انگلینڈ میں واقع ساڑھے چار ہزار سال قدیم اسٹون ہینج کے خالقوں کی باقیات کی دریافت برطانوی ماہرِآثار قدیمہMike Parker Pearsonنے انجام دی ہے۔
٭ستمبر2007 میں سوسائٹی کے رکن اور ماہرِلسانیات، فوٹوگرافر اور فلم سازChris Rainierاور ایک محقق David Harrisonنے اپنی تحقیق کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا بھر میں ان اہم مقامات کی نشان دہی کرلی گئی ہے، جہاں زبانیں تیزی سے معدومیت کا شکار ہورہی ہیں۔Enduring Voices پروجیکٹ کے نام سے جاری اس تحقیق کے باعث ممکن ہوسکا ہے کہ دم توڑتی زبانوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔ اس حوالے سے 2008 میں انڈیا میں قدیم قبائلی زبان Koro کے بولنے والے دریافت ہوئے تھے۔
٭فروری2012کے وسط میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی واشنگٹن میں واقع نمائش گاہ میں” 1001ایجادات، مسلمان معاشرے کا سنہری دور“ کے عنوان سے ایک زبردست نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں طب، ریاضی، نقشہ نویسی، سائنس، فلکیات، زراعت اور فن تعمیر سمیت دیگر کئی شعبوں میں مسلم ماہرین کی خدمات کا احاطہ کیا گیا تھا۔
٭گذشتہ سال مارچ 2012میں مشہور فلموں ”ٹائٹینک“ اور ”اوتار“ کے ڈائریکٹر ”جیمز کیمرون“ نے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور گھڑی ساز ادارے رولیکس کے باہمی تعاون سے DEEP SEA کا مشن مکمل کیا۔ اس مشن کی تکمیل کے بعد وہ دنیا کے پہلے شخص بن گئے، جو سمندر کی تہہ میں دس ہزار آٹھ سو اٹھانوے میٹر کی گہرائی تک گئے۔ یہ کارنامہ انہوں نے تن تنہا بارہ ٹن وزنی آب دوز میں بیٹھ کر بحرالکاہل میں واقع ”ماریانا کھاڑی“ میں سفر کرکے انجام دیا۔ اس دوران انہوں نے تحقیقی مقاصد کے لیے نایاب سمندری نمونے بھی جمع کیے۔
تعداد۔ قابل ذکر تحقیقی مہم:
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے زیراہتمام دنیا بھر میں اب تک دس ہزار ایک سو بیالیس پروجیکٹس یا تحقیقی مہم انجام دی جاچکی ہیں۔ ان تحقیقی مہمات کا تعلق جغرافیائی ایڈونچر، قدیم دنیا، مستقبلیات، جانوروں کی دنیا اور بقا، سماجی طب، ماحولیات، خلا، تجزیاتی رپورٹس، سماجیات اور ثقافت کے شعبوں سے ہے۔ اس لحاظ سے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے جس شعبے میں سب سے زیادہ مالی معاونت فراہم کی ہے۔ وہ شعب? جنگلات اور جانوروں کی دنیا کا ہے، جس میں مہین جرثوموں اور حشرات سے لے کربلند قامت کے موجودہ اور قدیم چوپایوں کی تحقیق پر 3409 پروجیکٹس شامل ہیں۔
جب کہ قدیم دنیا یا آثار قدیمہ پر 3256، ماحولیات پر 2536، سماج اور ثقافت پر 630، جغرافیائی ایڈونچرازم یا مہموں پر186اور خلائی تحقیقات کی125 مہمات سرانجام دی جاچکی ہیں۔ ان چھے مرکزی شعبوں کے ان گنت دیگر ذیلی شعبوں میں بھی کئی مہمات کام یابی سے ہم کنار ہوچکی ہیں، مثلاً لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک کے جنگلوں میں چھپی پراسرار اور قدیم مایا تہذیب، جس کے قیامت کی پیشین گوئی والے کیلنڈر کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ اس قدیم تہذیب کی چھان بین اور تلاش کے لیے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی تقریباً300مہموں کی مالی معاونت اور تکنیکی مشاورت میں شامل رہی ہے۔
مالی معاونت برائے مہم جوئی:
اگرچہ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی ایک غیرمنافع بخش ادارہ ہے، اس کے باوجود سوسائٹی کے زیراہتمام اب تک دس ہزار سے زاید تحقیقی کام یا پروجیکٹ روبہ عمل پاچکے ہیں۔ سوسائٹی اور اس کے ذیلی ادارے اپنی تشکیل کے وقت سے ہی کرہ ارض اور کائنات میں نت نئی تحقیق اور کرہ ارض کی بہتری کے لیے مختلف شعبوں میں مالی اور تیکنیکی امداد دیتے آرہے ہیں، جس کے لیے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی ”ریسرچ اینڈ ایکپلوریشن کمیٹی برائے امداد“ بنیادی کام کرتی ہے۔
کمیٹی کی شرائط کے مطابق اگر کوئی غیرامریکی ٹیم تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مالی معاونت حاصل کرنا چاہتی ہے، تو ضروری ہے کہ اس کی ٹیم میں ایک امریکی محقق لازمی شامل ہو۔ اسی طرح کمیٹی اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ تحقیقی کام محض لیبارٹری کی حد تک محدود نہ ہو، بل کہ فیلڈ ورک بھی اس میں شامل ہو۔ اس کے علاوہ کمیٹی کی جانب سے تحقیقی ٹیم کو اس بات کا بھی پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا تحقیق کام صرف نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے پلیٹ فارم ہی سے شائع یا نشر کرواسکتی ہے۔
کمیٹی کسی بھی قسم کی اسکالرشپ، ٹیوشن یا فیلوشپ نہیں دیتی، چوں کہ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اعلیٰ سطح کے تحقیقی کام کے حوالے سے سرگرم ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تحقیقی ٹیم میں پی ایچ ڈی یا اس کے مساوی علمی سطح کے ماہرین شامل ہوں، جو نہ صرف کسی معتبر تعلیمی یا تحقیقی ادارے سے وابستہ ہوں، بل کہ ان افراد کے کم از کم تین تحقیقی مقالے قابل قدر تحقیقی جرنلز میں بھی شائع ہوچکے ہوں۔ تحقیقی کمیٹی کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی سہولت یا مرضی کو مدنظر رکھتے ہوئے ابتدائی مالی معاونت جاری کرے، جو عموماً پندرہ ہزار سے بیس ہزار ڈالر کے درمیان ہوتی ہے۔
معاونت کی یہ رقم سالانہ تقریباً ڈھائی سو کے قریب تحقیقی ٹیموں کودی جاتی ہے، جن میں سے تقریباً اٹھانوے فیصد ایک سال کے پروجیکٹ یا تحقیقی کام ہوتے ہیں۔ تاہم بعد میں تحقیقی کام کی نوعیت اور ضرورت کے مطابق پروجیکٹ کی میعاد بڑھائی جاسکتی ہے۔ ابتدائی طور پر دوسال یا اس سے زاید عرصے کے لیے بنائے جانے والے پروجیکٹ عموماً رد کردیے جاتے ہیں، جہاں تک درخواستوں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں مالی معاونت کی درخواستوں کی کثرت کے باعث محققین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی درخواستیں پروجیکٹ شروع کرنے کی متوقع تاریخ سے دس ماہ قبل ارسال کریں۔ اس مقصد کے لیے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی ویب سائٹ پر آن لائن فارم بھرا جاسکتا ہے۔ تاہم اگر ڈاک کے ذریعے اپنے تحقیقی کام کی معلومات بھیجنی ہو تو اس کے لیے ”کمیٹی برائے ریسرچ اینڈ ایکسپلوریشن، نیشنل جیوگرافک سوسائٹی، 1145سترویں اسٹریٹ NWواشنگٹن ڈی سی20090-8249امریکا“ کے پتے پر درخواستیں ارسال کی جاسکتی ہیں۔
تحقیقی مہمات یا پروجیکٹس کے لیے فنڈز جمع کرنے اور دینے کے لیے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی سن 2000 تک خود ہی ذرائع پیدا کرتی تھی، جس کے تحت وہ 170ملین ڈالر کی امداد تحقیقی کاموں کے لیے دنیا بھر میں محققین کو فراہم کرچکی تھی۔ تاہم نئی صدی کی شروعات میں سوسائٹی نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے امداد کے حوالے سے مختلف شعبوں اور فلاحی اداروں کو شامل کیا ہے، جہاں سے محقق اپنے متعلقہ شعبے کے مطابق رابطہ کرسکتا ہے۔ فنڈز مہیا کرنے والے ان شعبوں میں ” All Roads Film گرانٹ“ کے تحت سماجی مسائل سے متعلق مختصر یا طویل ڈاکومنٹری، میوزک ویڈیو، اینیمیشن اور کہانیوں کے لیے مالی تعاون کیا جاتا ہے اس کے علاوہ چیتوں، تیندووں اور بڑی بلیوں کے تحفظ اور تحقیق کے لیے” Big Cats Initiative پروگرام“ سے مدد لی جاسکتی ہے۔
کرہ ارض کے قدرتی ماحول اور اس میں پنپنے والی مختلف نادر انواع کی حفاظت اور تحقیق کے لیے ”نیشنل جیوگرافک کنزرویشن ٹرسٹ (The Conservation Trust)سے مالی معاونت حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ ٹرسٹ 2001 میں قائم ہونے کے بعد سے اب تک 212پروجیکٹس کی مالی امداد کرچکا ہے، جس کی مالیت 6.4ملین ڈالر کے مساوی ہے۔ اسی طرح” Expeditions Council“ بھی امداد دینے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ ایکسپی ڈیشن کونسل ایڈونچر، ثقافت، پہاڑ، آتش فشانی عمل،جنگلات، زیرآب دنیا کی کھوج اور مہم جوئی کے حوالے سے تحقیق کرنے والوں کو گرانٹ فراہم کرتی ہے۔ انسانی ارتقاءاور مختلف قبائل میں بکھرے ہوئے لوگوں کے آباءو اجداد کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے والا پروجیکٹ ”جینو گرافک پروجیکٹ(Geographic)“ کہلاتا ہے۔
انسان کی کہانی بیان کرنے والے اس پروجیکٹ میں انسانی DNAکی تشخیص کی بنیاد پر ماضی سے آگاہی حاصل کی جاتی ہے۔ اس پروجیکٹ کو”Legacy Grant Fund Geographic“ کے تحت مالی معاونت فراہم کی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت ان آرگنائزیشن یا اداروں کو 25ہزار ڈالر تک مدد دی جاتی ہے جو ایسے طبقوں یا کمیونٹی سے رابطے میں رہتے ہوں، جو صدیوں سے ایک ہی علاقے میں آباد ہیں اور اب تیزی سے معدومیت کا شکار ہورہے ہوں۔
اس کے علاوہ قدرتی ماحول کے تحفظ اور تحقیق کے لیے امداد میں سرگرم ایک اہم کردار ”نیشنل جیوگرافک Buffet Awards“ کا ہے، جس کے روح رواں امریکی ارب پتی تاجر اور انسان دوست Howard Graham Buffet ہیں، جو ہر سال افریقہ اور لاطینی امریکا کے ان محققین کو ایوارڈ سے نوازتے ہیں، جن کے تحقیقی کام سے قدرتی ماحول کے بچاﺅ کی کوششیں ثمر آور ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ تحقیقی کاموں کو مہمیز دینے والے اس ایوارڈ کی رقم پچیس ہزار ڈالر ہے۔ اسی طرح نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی مشاورتی کونسل کے ارب پتی اور مخیر رکن Ted Wiatt خاندانی فاﺅنڈیشن بھی مختلف شعبوں میں امداد دینے کا انتظام کرتی ہے۔
رپورٹ بشکریہ
عتیق احمد عزمی
ربط
http://karachiupdates.com/v3/khasoosi-reports/18939-khusosi-reprots.html
٭ابتدا:
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی 33 سرپھرے محققین کارنامہ ہے، جنہوں نے اس سوسائٹی کی داغ بیل 27 جنوری 1888کو ڈالی اور یہی وہ شجر ہے جس کی تناور شاخوں میں سے ایک نیشنل جیوگرافک میگزین ہے، جس کی اولین اشاعت سوسائٹی کے وجود میں آنے کے محض نو ماہ بعد اکتوبر 1888میں تشنگان علم کے سامنے آئی اور آج بھی نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور نیشنل جیوگرافک میگزین 125سال کا شان دار سفر طے کرنے کے بعد علم و جستجو کی نئی منزلوں کی سمت رواں دواں ہیں۔
٭نیشنل جیوگرافک سوسائٹی:
آج سے ٹھیک 125سال قبل امریکا کے شہر واشنگٹن ڈی سی کے چند امیر و کبیر مگر تعلیم یافتہ مہم جو افراد نے اپنی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے لیے ایک گروپ تشکیل دیا، جو1878سے واشنگٹن میں قائم ”کاسموس کلب“ میں جمع ہوکر اپنے عزائم کی منصوبہ بندی کرتا تھا۔ اس حوالے سے 33 مہم جو امراءکے اس گروہ نے 13جنوری1888کو فیصلہ کیا کہ وہ ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد ڈالیں جس کے ذریعے و ہ جغرافیائی حقائق سے دنیا بھر کو آگاہ کریں گے۔ ضروری لوازمات اور کاغذی تیاریوں کے بعد 27 جنوری 1888 کو ”نیشنل جیوگرافک سوسائٹی“ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، جس کا اولین صدر مشہور تاجر، قانون داں اور انسان دوست شخصیت Gardiner Greene Hubbardکو منتخب کیا گیا۔
گارڈینر گرین ہوب بارڈ، ٹیلیفون کے موجد الیگزنڈر گراہم بیل کے سسر تھے۔ بعد ازاں گارڈینر گرین ہوببارڈ کے انتقال کے بعد1897میں گراہم بیل نے اس سوسائٹی کی صدارت سنبھال لی اور محض دو سال بعد1899میں گراہم بیل کے داماد اور فوٹو جرنل ازم کے بانی Gilbert Howey Grosvenor نے اس اہم سوسائٹی کی صدارت سنبھالی جو متواتر پینتالیس برس(1954) تک جاری رہی اس دوران ”گلبرٹ ہووے گروسوینر“ کی وجہ شہرت نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے صدر کے بجائے نیشنل جیوگرافک میگزین کے پہلے کل وقتی ایڈیٹر کی تھی جس کے دوران نیشنل جیوگرافک میگزین کا شمار صف اول کے تحقیقی رسالوں میں کیا جانے لگا۔
٭نیشنل جیوگرافک میگزین:
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی اس کے منصوبہ سازوں نے محسوس کیا کہ سوسائٹی کے بینر تلے کوئی ایسا جرنل بھی شائع ہونا چاہیے، جس میں تحقیقی کاموں کی تفصیلات عام افراد تک پہنچ سکیں۔ چناںچہ اکتوبر1888میں نیشنل جیوگرافک میگزین کا پہلا شمارہ شائع کیا گیا۔ اس طرح نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کا تمام تحقیقی اور مہم جوئی سے بھرپور دریافتوں کا کام تحریر ی شکل میں نیشنل جیوگرافک میگزین میں شائع کیا جانے لگا اور یہ سلسلہ اس حد تک پسند کیا جانے لگا کہ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کو عوام نیشنل جیوگرافک میگزین کی ایک شاخ سمجھنے لگے اور یہ رسالہ کچھ ہی عرصے بعد سوسائٹی کی پہچان بن گیا۔
اشاعت کی ابتدا ہی سے نیشنل جیوگرافک میگزین میں جغرافیہ، پاپولر سائنس، دنیا کی تاریخ یا جنرل ہسٹری، ثقافت اور ایجادات کے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بعدازاں میگزین کے ایڈیٹر ”گلبرٹ ہووے گروسوینر“ کی کوششوں کی شکل میں تصاویر نے میگزین کو ا±س طبقے کے لیے بھی نہایت دل چسپ بنادیا جو پڑھنے کی صلاحیت سے محروم تھا، مگر تصاویر دیکھ کر دنیا اور کائنات کے پوشیدہ گوشوں سے واقف ہونے لگا۔ 25 سینٹ کی قیمت والے اس میگزین نے جلد ہی صحافتی سائنس سے بھی عام طبقے کو روشناس کرایا اور نیشنل جیوگرافک میگزین کے مضامین دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہونے لگے۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے 8.5ملین ممبر ہیں۔
2011کے اعداد وشمار کے مطابق نیشنل جیوگرافک میگزین دنیا کی 36 زبانوں میں شائع ہوتا ہے، جب کہ اس کی ماہانہ اشاعت8.3ملین ہے، جس میں سے پانچ ملین اشاعت امریکا میں ہوتی ہے۔ پیلے رنگ کے چوکھٹے میں گھرے سرورق والے اس میگزین کے اب تک تقریباً پندرہ سو سے زاید شمارے شائع ہوچکے ہیں، جن میں دنیا کے تقریباً ہر قابل ذکر موضوع پر تحقیقی مواد شائع ہوچکا ہے۔ واشنگٹن میں قائم اس کے صدر دفتر میں مشہور زمانہ فوٹوگرافرChris Johns ایڈیٹر ان چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میگزین کی ایک سو پچیس سالہ تاریخ میں کرس جان پہلے فوٹوگرافر ہیں جو اس عہدے تک پہنچے ہیں، جب کہ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹDeclan Moore میگزین کے تمام قانونی معاملات کے ذمے دار ہیں۔
میگزین کو اپنی اشاعت کے کچھ ہی عرصے بعد شہرت ملنا شروع ہوگئی تھی۔ بالخصوص 1905 کے جنوری کے شمارے میں تبت کے انتہائی پراسراریت میں ڈوبے شہر لہاسا کے مختلف مقامات کی تصاویر کی اشاعت نے رسالے کو عالمی سطح پر شہرت دلوادی تھی۔ اپنی متنوع طرز اشاعت کے باعث میگزین کو متعدد بار مختلف عالمی اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا ہے، جن میں 2011 میں میگزین نے ”میگزین آف دی ایئر“ کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔ اس کے علاوہ امریکن سوسائٹی آف ایڈیٹرز کی جانب سے ایکسی لینسی ایوارڈ، سال کا بہترین میگزین اور بہترین فوٹو جرنل ازم کے ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ بعض مخصوص حالات میں میگزین کا پورا شمارہ ایک موضوع پر بھی شائع کیا جاتا رہا ہے، جس میں کسی خاص خطے کا احاطہ کیا جاتا ہے یا ماضی کی کسی خاص تہذیب، معدومیت کا شکار ہوتی خاص نوع ، کسی خاص واقعے، حیاتیاتی عمل یا کائناتی سرگرمی وغیرہ کو موضوع بنایا جاتا ہے۔
جنوری 1967 کا شمارہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے سرورق پر مسلمانوں کے مذہبی تہوار عیدالفطر کے حوالے سے دو بچیوں کو خوشیاں مناتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب کہ میگزین کے اندرونی صفحات میں پاکستان کے حوالے سے ایک تحقیقی مضمون بہ عنوان Pakistan: Problems of a Two-part Landشائع کیا گیا تھا، جس میں پاکستان کے دولخت ہونے کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے گئے تھے اور محض چار سال بعد یہ خدشات درست ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ میگزین کے دیگر شماروں میں پاکستان میں دریافت ہونے والے آثار قدیمہ ہڑپا اور موہن جو دڑو کے بارے میں بھی قابل قدر معلومات شائع ہوچکی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے معاشی اور سماجی پس منظر پر ستمبر2007 میں آٹھ صفحوں پر مشتمل ایک تفصیلی مضمون بھی میگزین کی زینت بن چکا ہے۔
2006 میں نیشنل جیوگرافک میگزین کے ایک محقق اور رپورٹر Paul Salopekکو سوڈان میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا، جسے بعد میں رہا کردیا گیا۔ اس واقعے پر مبنی کہانی میگزین میں شائع کی گئی۔ اپنی اشاعت کے ستر سال بعد جولائی1959 میں میگزین نے سرورق پر پہلی مرتبہ رنگین تصویر شائع کی۔ یہ تصویر امریکا کے اس جھنڈے کی تھی، جس میں ریاست الاسکا کے امریکا میں شامل ہونے کے بعد 49ستارے بنائے گئے تھے۔ میگزین کا عربی زبان کا پہلا ایڈیشن اکتوبر2010میں شائع ہوا، جب کہ اولین غیرانگریزی ایڈیشن جاپانی زبان میں 1995میں شائع ہوا تھا۔
میگزین کے زیراہتمام اکثر نقشہ جات کے سپلیمنٹ بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ1918سے جاری ہے۔ 1918میں جنگ عظیم اول کے دوران The Western Theater of Warکے نام سے ایک سپلیمنٹ شائع کیا گیا جس میں متحارب فوجوں کی پیش قدمی کے حوالے سے نقشہ کشی کی گئی تھی۔ یہ نقشہ کشی فوجیوں کے خاندانوں کو ان کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے کی گئی تھی۔ تمام معلومات میگزین کے نامہ نگاروں کی میدان جنگ سے بھیجی گئی تفصیلات پر مبنی تھیں۔
٭میگزین کا شعبہ فوٹوگرافی:
میگزین کا ایک انتہائی اہم اور پرکشش روپ اس میں شائع ہونے والی اعلیٰ معیار کی تصاویر ہیں۔ یہ جاذب نظر تصاویر دنیا بھر سے منتخب کردہ فوٹوگرافروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ نیشنل جیوگرافک میگزین میں شائع ہونے والی تصاویر ہی ”فوٹو جرنل ازم“ کی بنیاد بنی ہیں۔ 1930کی دہائی میں فوٹوگرافرLuis Marten میگزین کے لیے تصاویر فراہم کرکے عالمی سطح پر روشناس ہوئے تھے۔ اٹلی سے تعلق رکھنے والے لیوس مارڈین اگرچہ ایک بہت اچھے لکھاری، کھلاڑی، فلم ساز، غوطہ خور اور ماہرِلسانیات تھے، مگر ان کی وجہِ شہرت فوٹوگرافر ہی رہی بالخصوص ان کی زیرآب اتاری گئی تصاویر جب میگزین میں شائع ہوئیں تو دیکھنے والے ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ اس کے علاوہ1941میں سمندر میں موجود مرجانی چٹانوں کی تصاویر بھی قابل دید تھیں۔
نیشنل جیوگرافک میگزین وہ پہلا رسالہ تھا جس نے زیرآب رنگین تصاویر اتارکر عوام کے سامنے پیش کیں۔ جون 1985میں ایک تیرہ سالہ افغانی لڑکی ”شربت گلہ “ کی سرورق پر شائع ہونے والی تصویر بہ عنوان ”ایک افغان لڑکی“ میگزین کی سب سے پہچانی جانے والی تصوریر قرار دی گئی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پشاور کے افغان مہاجر کیمپ میں اتاری گئی اس تصویر کے بارے میں شربت گلہ کوسن 2002 تک علم ہی نہیں تھا کہ ا±س کی تصویر نیشنل جیوگرافک میگزین کے سرورق پر شائع ہوئی ہے اور نہ ہی فوٹوگرافرSteve Curry
تاہم نیشنل جیوگرافک میگزین کی انتظامیہ اور فوٹو گرافر ”اسٹیو مکری“ نے شربت گلہ کی تلاش جاری رکھی اور بالآخر شربت گلہ کو افغانستان میں 2002 میں دریافت کرلیا گیا۔ بائیومیٹرک تیکنیک کے باعث شناخت کی جانے والی شربت گلہ اپنی دریافت کے وقت تین بچیوں کی ماں بن چکی تھی۔ اس موقع پر اس نے خواہش ظاہر کی کہ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے چناں چہ میگزین کی انتظامیہ کی جانب سے ”افغان گرلز فنڈ“ قائم کیا گیا، جسے بعد میں ”افغان چلڈرن فنڈ“ کے نام سے کام یابی سے چلایا جارہا ہے۔ شربت گلہ کی 17سال تک تلاش کے واقعات پر مبنی دستاویزی فلم بھی نیشنل جیوگرافک چینل سے پیش کی جاچکی ہے۔
٭نیشنل جیوگرافک چینل:
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے زیراہتمام میگزین، کتابیں، نقشے، ویڈیو، سی ڈی، ڈی وی ڈی اور ٹیلی ویڑن چینل متحرک ہیں۔ ابتدا میں سوسائٹی نے اپنے تحقیقی مواد کو نشر کرنے کے لیے اس وقت کے دنیا کے سب سے بڑے میڈیا ہاﺅس ”نیوز کارپوریشن“ کی خدمات حاصل کی۔ تاہم ستمبر1997میں اپنا چینل ”نیشنل جیوگرافک چینل انٹرنیشنل“(NGCI)شروع کیا۔ اس چینل کو جسے اب نیٹ جیو بھی کہا جاتا ہے، کیبل یا سیٹلائٹ کے ذریعے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ چینل بھی نیوزکارپوریشن کے تعاون سے نشریات پیش کرتا ہے۔
جولائی1998 میں نیشنل جیوگرافک چینل ”ایشیاءاسٹار ٹی وی“ کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں بھی دیکھا جانے لگا، جب کہ 12جنوری2001 کو اس چینل کو ”نیشنل جیوگرافک ٹیلیویڑن فلم“ اور ”فوکس کیبل نیٹ ورک“ کے تعاون سے امریکا سے بھی شروع کردیا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر کی 27 زبانوں میں دکھائے جانے والا یہ چینل 160ممالک کے 260 ملین گھرانوں کو معلومات پہنچاتا ہے۔ نیشنل جیوگرافک چینل کے توسط سے نیٹ جیو میوزک، نیٹ جیو جونیئر، نیشنل جیوگرافک چینل HD، نیشنل جیوگرافک ایڈونچر، نیٹ جیو وائلڈ اور نیٹ جیو منڈو پیش کے جاتے ہیں۔
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے سنگ میل:
٭1890سے 1891کے درمیان سوسائٹی کے تعاون سے پہلی مہم الاسکا کے یخ بستہ علاقے کی طرف روانہ کی گئی سوسائٹی کے بانی اراکین میں سے ایک Israel Russellکی سربراہی میں جانے والی اس مہم نے نہ صرف علاقے کی نقشہ نویسی کی بلکہ کینیڈا کی سب سے بلند چوٹی ”ماﺅنٹ لوگان“ بھی دریافت کی۔
٭6 اپریل 1909کو میں ”رابرٹ ای پیری“(Robert E Peary) اور سیاہ فام امریکی میتھیوہینسن(Matthew Henson) وہ پہلے دو فرد تھے جنہوں نے سوسائٹی کی معاونت میں قطب شمالی پہنچ کر تاریخ رقم کی تھی۔
٭ 1912سے1915کے درمیان امریکا سے تعلق ر کھنے والے تعلیم داں اور مہم جو ”ہیرام بنگہام“(Hiram Bingham) کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے لاطینی امریکا کے ملک پیرو میں قدیم ”انکا تہذیب“ کا سطح سمندر سے 2430 میٹر بلند مدفن شہر ”ماچو پیچو“ کھود کر نکالا مہم کے اخراجات سوسائٹی نے برداشت کیے تھے۔ اس حوالے سے اپریل1913 کا نیشنل جیوگرافک میگزین کا مکمل شمارہ ”ماچو پیچو“ شہر کی دریافتوں سے متعلق تھا۔ مقامی آثار قدیمہ کی دریافت اور خدمات کے اعتراف میں پیرو حکومت نے جولائی2011میں اپنا سب سے بڑا شہری اعزاز “Orden del Sol del Peru” نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کو عطا کیا تھا۔
٭1912میں الاسکا میں واقع پہاڑKatmai سے لاوا نکلنے کے بعد ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے نباتاتی حیاتیات کے امریکی ماہر Robert F. Griggsنے 1916میں اس پ±رخطر علاقے کا دورہ کیا اور بیرونی دنیا کو یہاں کے لاوے میں سے اٹھتے محیرالعقول دھویں کے مرغولوں یا فواروں سے روشناس کرایا تھا۔ بعدازاں اس علاقے کو قومی یادگار قرار دے کر محفوظ کرلیا گیا۔ اس 1,700مربع میل پر محیط علاقے کو Valley of Ten Thousand Smokesکہا جاتا ہے۔
٭نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے زیرانتظام 29نومبر1929کوریئر ایڈمرل رچرڈ ای برڈ(Richard E Byrd)وہ پہلے شخص قرار پائے جنہوں نے قطب جنوبی کے اوپر فضائی چکر لگایا اور تقریباً ساٹھ ہزار مربع میل پر محیط علاقے کی تصویر اتاریں۔
٭1938کے اوائل میں ماہرِبشریات میتھیو اسٹرلنگ(Matthew Stirling) نے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی شراکت سے ایسی آٹھ مہموں کی سربراہی کی، جن کے دوران انہوں نے میکسیکو کی 1500قبل مسیح کی اولین تہذیب Olmecکے وقت کے چٹانی ٹکڑوں سے ڈھالے ہوئے گیارہ بڑے عدد چہرے یا سر دریافت کیے تھے۔ یہ سر یا چہرے پندرہ صدیوں سے زمین میں دفن تھے۔
٭اکتوبر1952کا شمارہ اس لحاظ سے یادگار ہے کہ پہلی مرتبہ بحری علوم کے فرانسیسی ماہرJacques-Yves Cousteau نے زیرسمندر دنیا کے حوالے سے اپنی معلومات دنیا کے سامنے لاکر سب کو حیرت زدہ کردیا۔
٭اگست 1956کے شمارے میں بحیرہ اوقیانوس کی تہہ میں واقع تیسری سب سے گہری کھائیRomancheکی تصاویر شائع کی گئیں۔ پچیس ہزار فٹ کی گہرائی میں واقع دنیا دکھانے والی یہ تصاویر اس وقت تک سمندر کے سب سے گہرے مقام کی تصاویر تھیں۔
٭ستمبر1960میں میگزین میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں ماہرآثاریات اور رکازیات (فوسلز) میاں بیوی جوڑے ”لوئیس اور میری لیکی“(Louis and Mary Leakey) نے انکشاف کیا کہ انہوں نے تنزانیہ کے نواح سے ایک ایسا ہڈیو ں کا فوسلز دریافت کیا ہے، جسے موجود انسان کا جد امجد شمار کیا جاسکتا ہے۔ سوسائٹی کے زیراہتمام کی جانے والی اس کھوج میں دریافت ہونے والے اس فوسلز کو Zinjanthropus کا نام دیا گیا جو تقریباً دو ملین سال قدیم تھا۔
٭یکم مئی1963وہ دن تھا جب پہلی مرتبہ کسی امریکی نے دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماﺅنٹ ایورسٹ کو سرکیا۔ یہ کارنامہ کوہ پیما Jim Whittaker نے انجام دیا تھا مہم کے تمام انتظامات سوسائٹی نے کیے تھے۔
٭1967میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے زیرانتظام وسطیٰ اور مشرقی افریقہ کے سنگم پر واقع ملک روانڈا کے پہاڑی جنگلات میں موجود معدومیت کا شکار ہوتے گوریلوں کے بارے میں آگاہی کے لیے مہم شروع کی گئی۔ اس انتہائی اہمیت کی حامل طویل تحقیق کی سربراہ امریکا کی خاتون ماہرَحیوانیات ڈین فوزی(Dian Fosse)تھیں غیر قانونی شکار اور
٭20جولائی1969کو جس وقت چاند گاڑی ”اپالو گیارہ“ چاند پر اتری تو مشن میں مالی معاونت اور تعاون کرنے کے باعث خلانوردوں کے ساتھ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کا پرچم بھی تھا۔
٭اپریل 1979میں سوسائٹی کے زیرانتظام جاری ایک تحقیق کے دوران خاتون ماہرآثاریات Mary Leakey تقریباً ساڑھے تین ملین سال پرانے قدموں کے نشان ڈھونڈ نکالے۔ رکازات (Fossil) کی شکل میں پائے جانے والے یہ نشان مشرقی افریقہ کے ملک تنزانیہ کے علاقے Olduvai gorgeکے قریب آتش فشانی راکھ میں سے دریافت ہوئے تھے۔ Laetoli Footprintsکے نام سے پکارے جانے والے ان نشانات کو جدید انسان کے ابتدائی گروہوں سے جوڑا جاتا ہے۔
٭امریکا سے تعلق رکھنے والے George Bassکا شمار زیرِآب آثارقدیمہ کی تلاش کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔ 1984میں انہوں نے سوسائٹی کی مالی معاونت سے جنوبی ترکی کے علاقےCape Gelidonyaمیں ایک ڈوبے ہوئے تین ہزار چارسو سال قدیم بحری جہاز کی باقیات کی کھوج لگا کر تانبے کے عہد کا نادر اشیاءکا خزانہ دریافت کیا تھا۔
٭ستمبر1985میں سوسائٹی نے RMSٹائٹینک بحری جہاز کی کھوج کے لیے اپنی جاری مہم کی کام یابی کا اعلان کیا یہ اعلان مشہور ومعروف امریکی ماہر بحری آثاریات اور بحری ٹیکنالوجی کے ماہر رابرٹ ڈی بلارڈ(Robert Ballard ) نے کیا تھا۔ شمالی بحیرہ اوقیانوس میں15اپریل1912کو غرق ہونے والے اس سو سال قدیم مسافر بحری جہاز کی دریافت نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی ڈیزائن کردہ ڈیجیٹل تصویری ٹیکنالوجی کے باعث ممکن ہوسکی تھی۔ 1,502افراد کی موت کا باعث بننے والا یہ بحری جہاز 12500فٹ کی گہرائی میں جاکر ڈوب گیا تھا۔
٭یکم مئی1986کو پانچ مرد اور ایک خاتون پر مشتمل نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی ایک ٹیم مہم جو Will Stegerکی قیادت میں قطب شمالی تک پہنچی۔ اس مہم کا انوکھا پن یہ تھا کہ تمام ٹیم نے اپنا 1,600 سو میل پر مشتمل سفر ک±توں کی مدد سے دوڑنے والی گاڑیوں (Dog Sled) پر طے کیا تھا۔
٭اکتوبر1986کو میگزین کے سینئر ایسوسی ایٹ ایڈیٹر جوزف جیوڈ(Joseph Judge) نے پانچ سال کی تحقیق کے بعد اس بات کا انکشاف کیا کہ معروف سیاح کرسٹوفر کولمبس نے نئی دنیا یعنی ”امریکاز“ کی دریافت کے دوران پنے اولین قدم بہاماس کے جزیرے San Salvador کے بجائےSamana Cayکے مقام پر رکھے تھے۔
٭مئی1996میں پیرو کی قدیم تاریخی تہذیب ”انکا“ سے تعلق رکھنے والی ایک گیارہ سالہ لڑکیJuanita کے حنوط کیے گئے جسم کو سوسائٹی کے نمائش ہال میں پیش کیا گیا۔ اس نمائش کو پہلے دن ہی پچاسی ہزار افراد نے دیکھا۔
٭مارچ1998میں سوسائٹی کی جانب سے سفری مہموں کے لیے فنڈ قائم کیا گیا، جس کا مقصد کرہ ارض کے دوردراز اور ناقابل رسائی مقامات کو ڈھونڈنا اور ان کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنا تھا۔ اپنی تشکیل کے اولین سال ہی میں اس فنڈ کے لیے سوسائٹی نے ایک ملین ڈالر مختص کیے تھے۔
٭جون1998میں سوسائٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ڈائنو ساروں کے فوسلز کی کھدائی کے دوران چین کے علاقے Lionizing پروں والے ڈائنوسار Micro raptor کے فوسلز دریافت ہوئے ہیں۔ اس دریافت کا سہرا چین کے ماہر رکازیاتXu Xingکے سر ہے۔ اس دریافت سے ڈائنو سار اور پرندوں کے مابین جینیاتی تعلقات کے حوالے سے خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔
٭نومبر1998میں ماہرِآثاریات پال سیرینو نے اعلان کیا کہ انہوں نے سوسائٹی کے فنڈ سے شروع کی جانے والی ایک مہم میں ایک ایسے شکاری ڈائنوسار کے فوسلز دریافت کیے ہیں، جس کی مرغوب غذا مچھلیاں تھیں۔ Suchomimus Tenerensisکے نام سے منسوب مگرمچھ کی کھوپڑی سے مشابہہ یہ ڈائنوسار مغربی افریقہ کے صحرا ”صحارا“ میں واقع ملک جمہوریہ نائجر میں دریافت ہوا تھا۔
٭مارچ 1999میں ارجنٹائن میں واقع دنیا کے سب سے بلندی پر واقع آثارقدیمہ Mount Llullaillacoکی کھدائی کے دوران برف میں دبے پانچ سو سال قدیم انسانی جسم دریافت ہوئے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ان اجسام کے اوپر انکا تہذیب سے متعلق آرائش کا سامان نہایت بہترین حالت میں موجود پایا گیا۔
٭نومبر1999میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی زیرنگرانی ایک مہم میں مشہور امریکی فوٹوگرافر اور مہم جو Bradford Wash burn دنیا کے سب سے بلند پہاڑ ایورسٹ کی دوبارہ پیمائش کی، جو اس کی 1954 میں کی گئی۔ پیمائش سے 7فٹ زائد نکلی واضح رہے نئی پیمائش 29,035 فٹ ہے۔
٭نومبر1999ہی میں ماہر رکازیات پال سرینو نے صحرائے صحارا میں دنیا کے سب سے بڑے سبزی خور ڈائنوسارJobaria Tiguidensis کے فوسلز دریافت کیے ڈائنو سار کا وزن بیس ٹن اور لمبائی ستر فٹ تھی۔
٭اگست2000میں سوسائٹی نے گلوبل پوزیشننگ سسٹم ( GPS)کا استعمال کرتے ہوئے دریائے ایمزون کا درست منبع دریافت کیا پانی کا یہ منبع پیرو میں واقع پہاڑ Nevado Mismiسے شروع ہوتا ہے۔
٭مارچ2001میں سوسائٹی کے تعاون سے ”Mega transect برائے افریقہ“ پیش کیا گیا۔ مشہور ماہر ماحولیات اور بشریاتJ. Michael Fay کی نگرانی میں شروع کیے گئے اس پروگرام میں براعظم افریقہ کے 2000میل پر محیط علاقے کے جنگلی ماحولیاتی تنوع کو اعداد وشمار کی صورت میں جمع اور منظم کیا گیا۔ 455دن تک جاری رہنے والی اس تحقیق کی بدولت دریائے کانگو کے ساتھ ساتھ تیرہ نئے نیشنل پارکس کی حد بندی کی گئی۔ بعدازاں انہوں نے مڈغاسکر اور گبون کے علاوہ کیلی فورنیا اور اریگون ریاست تک پھیلے ہوئے تاریخی نوعیت کے عظیم الشان Redwood درختوں کا مکمل ڈیٹا جمع کیا۔ 333دنوں تک جاری رہنے والی اس انتہائی اہم مہم کی سرگزشت میگزین میں2009میں شائع کی گئی۔
٭مارچ2001میں ماہرآثاریاتMeave Leakeyنے اعلان کیا کہ انہوں نے سوسائٹی کی سرکردگی میں جاری ایک مہم کے دوران 3.5ملین سال قدیم انسان کے جد امجد کے فوسلز دریافت کیے ہیں۔
٭اپریل2002میں پیرو سے تعلق رکھنے والے ماہرِآثار قدیمہ ولی کوک (Willy Cook)کی سربراہی میں ایک ٹیم پیرو کے شہر لیما کے گردنواح میں Puruchucoکے تاریخی مقام پر کھدائی کررہی تھی کہ کھدائی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں حنوط شدہ اجسام دریافت ہوئے یہ تحقیق بھی سوسائٹی کے زیرانتظام کی جارہی تھی۔
٭جنوری 2005کے آغاز میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور سیمینس کمپنی نے ایک معاہدے کے تحت مصر میں دریافت ہونے والی حنوط شدہ ممیوں کی CTاسکینگ یعنی مخصوص زاویوں سے ایکس رے شعاعوں کے ذریعے تحقیق کا پروجیکٹ شروع کیا۔ اس پانچ سالہ پروجیکٹ میں مصر کے محض 19برس کی عمر میں وفات پاجانے والے بادشاہ Tutankhamen ممی بھی شامل تھی۔ 1323قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی اس ممی کا کھدائی کے دوران چہرہ خراب ہوگیا تھا، جسے ایکس رے امیج ٹیکنالوجی کی مدد سے درست کیا گیا۔ اس چہرے کی نمائش جون2005میں کی گئی۔
٭مارچ2005میں مشہور امریکی خاتون ماہرِبشریات Dean Falk کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ انہوں نے سوسائٹی کے تعاون سے انڈونیشیا میں جاری ایک مہم کے دوران قدیم انسانی دماغ کے رکازات پر تحقیق مکمل کرلی ہے Hobbitکے نام سے مشہور ان رکازات کو انہوں نے بنی نوع انسان کے قدیم پستہ قد افراد کے گروہوں سے منسوب کیا۔
٭اپریل2005 میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے ایک ایسے اہم کام کا بیڑا اٹھایا، جس کے تحت قدیم زمانے میں کی جانے والی انسانی ہجرت کے راستوں پر سے پردہ اٹھایا گیا۔ اس مقصد کے لیے دنیا کے چھے براعظموں میں سے دس ممالک کے ایسے گیارہ قبائل کے جینیاتی ( DNA) نمونے لیے گئے، جو ہزاروں سال سے الگ تھلگ ایک ہی جگہ مقیم ہیں۔ بعدازاں آسٹریلیا، برازیل، چین، فرانس، انڈیا، لبنان، روس، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور امریکی قبائل سے حاصل کیے گئے ان نمونوں کو بنیاد بناتے ہوئے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انسانوں کے DNA کے نمونے جمع کیے گئے او ر تبدیلیوں کے نتائج کی بنیاد پر انسانی ہجرت اور اقوام کا شجرہ جاننے کی کوشش کی گئی۔ اس منصوبے کے دوران بنیادی طور پر یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ کون سی انسانی نسل کہاں کہاں سے سفر کرتی گزری اور اب دنیا میں کن مقامات پر مقیم ہے۔ ابھی تک جاری اس تحقیق کو Geographic کا نام دیا گیا ہے، جس میں سوسائٹی کو کمپیوٹر ڈیٹا بیس ادارے IBMاور Wiatt فاﺅنڈیشن کا تعاون بھی حاصل ہے۔
٭اپریل2006میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے سوئٹزرلینڈ کی ”Maecenas فاﺅنڈیشن برائے قدیم آرٹ“ اور ”Wiatt ٹیوب فار ہسٹوریکل ڈسکوری“ کے باہمی تعاون سے اعلان کیا کہ انہوں نے قدیم مصری زبان Coptic میں تحریر کی ہوئی انجیل یہودا(Gospel of Judas)کے نسخے کی دریافت کے بعد اس کا ترجمہ اور ظاہری حالت کو درست کردیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ریڈیو کاربن تیکنیک کی مدد لی گئی، جس سے قدیم مصری تیکنیک سے بنائے گئے مخصوص کاغذ(Papyrus) اور روشنائی سے لکھے گئے نسخے کی قدامت کے بارے میں یقین دہانی ہوگئی کہ یہ 1700سال قدیم تحریری نسخہ ہے۔
٭اکتوبر2006 میں دنیا کے قدیم ترین آباد ملک ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے ماہربشریات Zeresenay Alemseged نے اعلان کیا کہ انہوں نے افریقی ملک ایتھوپیا کی سرزمین سے ایک ایسے انسانی بچے کے رکازات دریافت کیے ہیں جو تقریباً3.3ملین سال قدیم ہیں۔ سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے دریافت ہونے والے ان رکازات کو اب تک کی کسی بچے کے رکازات کے حوالے سے قدیم ترین دریافت تسلیم کیا گیا ہے۔
٭جنوری2007میں گولائی کی شکل میں ایستادہ پتھروں کے بھاری بھرکم عمودی ستون پر مشتمل آثار قدیمہ Stonehenge کے معماروں کی باقیات دریافت کی گئیں۔ انگلینڈ میں واقع ساڑھے چار ہزار سال قدیم اسٹون ہینج کے خالقوں کی باقیات کی دریافت برطانوی ماہرِآثار قدیمہMike Parker Pearsonنے انجام دی ہے۔
٭ستمبر2007 میں سوسائٹی کے رکن اور ماہرِلسانیات، فوٹوگرافر اور فلم سازChris Rainierاور ایک محقق David Harrisonنے اپنی تحقیق کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا بھر میں ان اہم مقامات کی نشان دہی کرلی گئی ہے، جہاں زبانیں تیزی سے معدومیت کا شکار ہورہی ہیں۔Enduring Voices پروجیکٹ کے نام سے جاری اس تحقیق کے باعث ممکن ہوسکا ہے کہ دم توڑتی زبانوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔ اس حوالے سے 2008 میں انڈیا میں قدیم قبائلی زبان Koro کے بولنے والے دریافت ہوئے تھے۔
٭فروری2012کے وسط میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی واشنگٹن میں واقع نمائش گاہ میں” 1001ایجادات، مسلمان معاشرے کا سنہری دور“ کے عنوان سے ایک زبردست نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں طب، ریاضی، نقشہ نویسی، سائنس، فلکیات، زراعت اور فن تعمیر سمیت دیگر کئی شعبوں میں مسلم ماہرین کی خدمات کا احاطہ کیا گیا تھا۔
٭گذشتہ سال مارچ 2012میں مشہور فلموں ”ٹائٹینک“ اور ”اوتار“ کے ڈائریکٹر ”جیمز کیمرون“ نے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور گھڑی ساز ادارے رولیکس کے باہمی تعاون سے DEEP SEA کا مشن مکمل کیا۔ اس مشن کی تکمیل کے بعد وہ دنیا کے پہلے شخص بن گئے، جو سمندر کی تہہ میں دس ہزار آٹھ سو اٹھانوے میٹر کی گہرائی تک گئے۔ یہ کارنامہ انہوں نے تن تنہا بارہ ٹن وزنی آب دوز میں بیٹھ کر بحرالکاہل میں واقع ”ماریانا کھاڑی“ میں سفر کرکے انجام دیا۔ اس دوران انہوں نے تحقیقی مقاصد کے لیے نایاب سمندری نمونے بھی جمع کیے۔
تعداد۔ قابل ذکر تحقیقی مہم:
نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے زیراہتمام دنیا بھر میں اب تک دس ہزار ایک سو بیالیس پروجیکٹس یا تحقیقی مہم انجام دی جاچکی ہیں۔ ان تحقیقی مہمات کا تعلق جغرافیائی ایڈونچر، قدیم دنیا، مستقبلیات، جانوروں کی دنیا اور بقا، سماجی طب، ماحولیات، خلا، تجزیاتی رپورٹس، سماجیات اور ثقافت کے شعبوں سے ہے۔ اس لحاظ سے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے جس شعبے میں سب سے زیادہ مالی معاونت فراہم کی ہے۔ وہ شعب? جنگلات اور جانوروں کی دنیا کا ہے، جس میں مہین جرثوموں اور حشرات سے لے کربلند قامت کے موجودہ اور قدیم چوپایوں کی تحقیق پر 3409 پروجیکٹس شامل ہیں۔
جب کہ قدیم دنیا یا آثار قدیمہ پر 3256، ماحولیات پر 2536، سماج اور ثقافت پر 630، جغرافیائی ایڈونچرازم یا مہموں پر186اور خلائی تحقیقات کی125 مہمات سرانجام دی جاچکی ہیں۔ ان چھے مرکزی شعبوں کے ان گنت دیگر ذیلی شعبوں میں بھی کئی مہمات کام یابی سے ہم کنار ہوچکی ہیں، مثلاً لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک کے جنگلوں میں چھپی پراسرار اور قدیم مایا تہذیب، جس کے قیامت کی پیشین گوئی والے کیلنڈر کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ اس قدیم تہذیب کی چھان بین اور تلاش کے لیے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی تقریباً300مہموں کی مالی معاونت اور تکنیکی مشاورت میں شامل رہی ہے۔
مالی معاونت برائے مہم جوئی:
اگرچہ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی ایک غیرمنافع بخش ادارہ ہے، اس کے باوجود سوسائٹی کے زیراہتمام اب تک دس ہزار سے زاید تحقیقی کام یا پروجیکٹ روبہ عمل پاچکے ہیں۔ سوسائٹی اور اس کے ذیلی ادارے اپنی تشکیل کے وقت سے ہی کرہ ارض اور کائنات میں نت نئی تحقیق اور کرہ ارض کی بہتری کے لیے مختلف شعبوں میں مالی اور تیکنیکی امداد دیتے آرہے ہیں، جس کے لیے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی ”ریسرچ اینڈ ایکپلوریشن کمیٹی برائے امداد“ بنیادی کام کرتی ہے۔
کمیٹی کی شرائط کے مطابق اگر کوئی غیرامریکی ٹیم تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مالی معاونت حاصل کرنا چاہتی ہے، تو ضروری ہے کہ اس کی ٹیم میں ایک امریکی محقق لازمی شامل ہو۔ اسی طرح کمیٹی اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ تحقیقی کام محض لیبارٹری کی حد تک محدود نہ ہو، بل کہ فیلڈ ورک بھی اس میں شامل ہو۔ اس کے علاوہ کمیٹی کی جانب سے تحقیقی ٹیم کو اس بات کا بھی پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا تحقیق کام صرف نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے پلیٹ فارم ہی سے شائع یا نشر کرواسکتی ہے۔
کمیٹی کسی بھی قسم کی اسکالرشپ، ٹیوشن یا فیلوشپ نہیں دیتی، چوں کہ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اعلیٰ سطح کے تحقیقی کام کے حوالے سے سرگرم ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تحقیقی ٹیم میں پی ایچ ڈی یا اس کے مساوی علمی سطح کے ماہرین شامل ہوں، جو نہ صرف کسی معتبر تعلیمی یا تحقیقی ادارے سے وابستہ ہوں، بل کہ ان افراد کے کم از کم تین تحقیقی مقالے قابل قدر تحقیقی جرنلز میں بھی شائع ہوچکے ہوں۔ تحقیقی کمیٹی کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی سہولت یا مرضی کو مدنظر رکھتے ہوئے ابتدائی مالی معاونت جاری کرے، جو عموماً پندرہ ہزار سے بیس ہزار ڈالر کے درمیان ہوتی ہے۔
معاونت کی یہ رقم سالانہ تقریباً ڈھائی سو کے قریب تحقیقی ٹیموں کودی جاتی ہے، جن میں سے تقریباً اٹھانوے فیصد ایک سال کے پروجیکٹ یا تحقیقی کام ہوتے ہیں۔ تاہم بعد میں تحقیقی کام کی نوعیت اور ضرورت کے مطابق پروجیکٹ کی میعاد بڑھائی جاسکتی ہے۔ ابتدائی طور پر دوسال یا اس سے زاید عرصے کے لیے بنائے جانے والے پروجیکٹ عموماً رد کردیے جاتے ہیں، جہاں تک درخواستوں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں مالی معاونت کی درخواستوں کی کثرت کے باعث محققین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی درخواستیں پروجیکٹ شروع کرنے کی متوقع تاریخ سے دس ماہ قبل ارسال کریں۔ اس مقصد کے لیے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی ویب سائٹ پر آن لائن فارم بھرا جاسکتا ہے۔ تاہم اگر ڈاک کے ذریعے اپنے تحقیقی کام کی معلومات بھیجنی ہو تو اس کے لیے ”کمیٹی برائے ریسرچ اینڈ ایکسپلوریشن، نیشنل جیوگرافک سوسائٹی، 1145سترویں اسٹریٹ NWواشنگٹن ڈی سی20090-8249امریکا“ کے پتے پر درخواستیں ارسال کی جاسکتی ہیں۔
تحقیقی مہمات یا پروجیکٹس کے لیے فنڈز جمع کرنے اور دینے کے لیے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی سن 2000 تک خود ہی ذرائع پیدا کرتی تھی، جس کے تحت وہ 170ملین ڈالر کی امداد تحقیقی کاموں کے لیے دنیا بھر میں محققین کو فراہم کرچکی تھی۔ تاہم نئی صدی کی شروعات میں سوسائٹی نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے امداد کے حوالے سے مختلف شعبوں اور فلاحی اداروں کو شامل کیا ہے، جہاں سے محقق اپنے متعلقہ شعبے کے مطابق رابطہ کرسکتا ہے۔ فنڈز مہیا کرنے والے ان شعبوں میں ” All Roads Film گرانٹ“ کے تحت سماجی مسائل سے متعلق مختصر یا طویل ڈاکومنٹری، میوزک ویڈیو، اینیمیشن اور کہانیوں کے لیے مالی تعاون کیا جاتا ہے اس کے علاوہ چیتوں، تیندووں اور بڑی بلیوں کے تحفظ اور تحقیق کے لیے” Big Cats Initiative پروگرام“ سے مدد لی جاسکتی ہے۔
کرہ ارض کے قدرتی ماحول اور اس میں پنپنے والی مختلف نادر انواع کی حفاظت اور تحقیق کے لیے ”نیشنل جیوگرافک کنزرویشن ٹرسٹ (The Conservation Trust)سے مالی معاونت حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ ٹرسٹ 2001 میں قائم ہونے کے بعد سے اب تک 212پروجیکٹس کی مالی امداد کرچکا ہے، جس کی مالیت 6.4ملین ڈالر کے مساوی ہے۔ اسی طرح” Expeditions Council“ بھی امداد دینے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ ایکسپی ڈیشن کونسل ایڈونچر، ثقافت، پہاڑ، آتش فشانی عمل،جنگلات، زیرآب دنیا کی کھوج اور مہم جوئی کے حوالے سے تحقیق کرنے والوں کو گرانٹ فراہم کرتی ہے۔ انسانی ارتقاءاور مختلف قبائل میں بکھرے ہوئے لوگوں کے آباءو اجداد کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے والا پروجیکٹ ”جینو گرافک پروجیکٹ(Geographic)“ کہلاتا ہے۔
انسان کی کہانی بیان کرنے والے اس پروجیکٹ میں انسانی DNAکی تشخیص کی بنیاد پر ماضی سے آگاہی حاصل کی جاتی ہے۔ اس پروجیکٹ کو”Legacy Grant Fund Geographic“ کے تحت مالی معاونت فراہم کی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت ان آرگنائزیشن یا اداروں کو 25ہزار ڈالر تک مدد دی جاتی ہے جو ایسے طبقوں یا کمیونٹی سے رابطے میں رہتے ہوں، جو صدیوں سے ایک ہی علاقے میں آباد ہیں اور اب تیزی سے معدومیت کا شکار ہورہے ہوں۔
اس کے علاوہ قدرتی ماحول کے تحفظ اور تحقیق کے لیے امداد میں سرگرم ایک اہم کردار ”نیشنل جیوگرافک Buffet Awards“ کا ہے، جس کے روح رواں امریکی ارب پتی تاجر اور انسان دوست Howard Graham Buffet ہیں، جو ہر سال افریقہ اور لاطینی امریکا کے ان محققین کو ایوارڈ سے نوازتے ہیں، جن کے تحقیقی کام سے قدرتی ماحول کے بچاﺅ کی کوششیں ثمر آور ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ تحقیقی کاموں کو مہمیز دینے والے اس ایوارڈ کی رقم پچیس ہزار ڈالر ہے۔ اسی طرح نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی مشاورتی کونسل کے ارب پتی اور مخیر رکن Ted Wiatt خاندانی فاﺅنڈیشن بھی مختلف شعبوں میں امداد دینے کا انتظام کرتی ہے۔
رپورٹ بشکریہ
عتیق احمد عزمی
ربط
http://karachiupdates.com/v3/khasoosi-reports/18939-khusosi-reprots.html