راشد اشرف
محفلین
دو روز قبل سرشام سید معراج جامی صاحب ہمیشہ کی طرح شاداں و فرحاں تبسم زیر لب کے ساتھ غریب خانے پر تشریف لائے اور کہنے لگے "بھئی تمہارے لیے ایک تحفہ ہے اور ایسا بھاری بھرکم تحفہ اس سے قبل کسی نے نہ دیا ہوگا۔"
جہازی سائزتحفہ ہاتھ میں تھاما تو ان کی بات کی تصدیق اس طرح ہوئی کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ اسے پڑھا کیونکر جائے گا جناب ? میرا سوال تھا ۔ ۔ ۔ شاید ایک آدمی علاحدہ سے اسے تھامنے کے لیے رکھنا پڑے۔
کیا وفیات کی کتابوں کا وزن اسی لیے زیادہ ہوتا ہے کہ اس میں "ہر طرح" کی شخصیات کا احوال درج ہوتا ہے ? ڈاکٹر منیر احمد سلیج کی کتاب وفیات اہم قلم کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بھلا سیاسی شخصیات کی وفیات کی شمولیت سے کتاب ہلکی کیسے رہ سکتی ہے ?
ذکر ہے ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کی مرتب کردہ ماہنامہ معارف ،دارالمصنفین ،اعظم گڑھ کی 96 سالہ وفیات نگاری پر مشتمل کتاب "وفیات معارف" کا۔ مذکورہ کتاب میں جولائی 1916 تا دسمبر 2012 کا احوال محفوظ کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق ،شعبہ اسلامی تاریخ ،جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں. بقول معراج جامی "ایک نیک ،صالح، فعال، متحرک ،علم و ادب کے جویا ،محقق اور اردو،انگریزی اور عربی سے فیض یاب شخص۔
وفیات معارف میں اعزہ و احباب، علماء و فضلا، ادباء و شعراء، ارباب سیاست اور اصحاب کمال کے تذکروں کو جگہ دی جاتی رہی تھی۔ معارف کی وفیات نگاری میں زبان و مذہب کی تشخیص سے بالاتر ہوکر شخصیات کے تذکرے کیے جاتے تھے۔ بقول ڈاکٹر شفیق:
" ان میں ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، یہودی بھی ہیں، ہندوستان بھی ہیں ، انگریز بھی، مصری بھی ہیں اور ترکی بھی، امریکی بھی ہیں اور جرمن بھی، اسی طرح ان میں جج بھی ہیں بیرسٹر بھی، ملا بھی ہیں اور مسٹر بھی، سائنسدان بھی ہیں اور ماہر نفسیات بھی، ماہر جنسیات بھی ہیں، صوفی باصفا بھی، پیر بھی ہیں فقیر بھی، شاعر بھی ہیں خطیب بھی، سیاستداں بھی ہیں، گوشہ نشیں و گمنام بھی ہیں اور نامور مشاہیر بھی۔"
کہتے ہیں زندگی خود ہی سب سے بڑی بیماری ہے۔ بقول شخصے جس کو یہ لگ گئی، اس کو بہرحال مرنا ہی ہے"۔ قبرستان میں جب کبھی بھی جانا ہوا، قبور کو دیکھ کے یہی خیال آیا کہ جس دن ان کی میت تدفین کے لیے لائی گئی ہوگی، وہاں کیسا کہرام مچا ہوگا؟ کیا کیا نہ دلدوز مناظر دیکھے گئے ہوں گے۔ ناگہانی اموات کا شکار ہونے والوں کے کتنے ہی ایسے لواحقین ہوں گے جو اپنے پیاروں کو سپرد خاک کرکے، خود زندہ درگور ہو گئے ہوں گے۔
صاحبو! زندگی بڑی ظالم ہے۔ یہ پہلے دیتی ہے اور پھر چھین لیتی ہے۔ عمر کے ایک حصے میں آپ کو مخلص دوست اور دل سے چاہنے والے مہربان ملتے چلے جاتے ہیں جو زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں اور انسان انہی کو مکمل زندگی سمجھنے لگتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب وہ ایک ایک کر کے ان سے محروم ہونے لگتا ہے۔ محفل کے چراغ ایک ایک کر کے بجھنے لگتے ہیں، اردگرد تاریکی کے سائے بڑھنے اور پھیلنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن وہی انسان خود کو بالکل تنہا محسوس کرنے لگتا ہے
:
اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
وفیات معارف ایسے ہی کئی چراغوں کا پتہ دیتی ہے جو ‘مٹی میں رکھے گئے تھے‘ ۔ ۔ اور جن کو بجھے ایک زمانہ گزر گیا تھا۔ کتاب کے مطالعے سے ایسی کئی شخصیات کی یاد ایک مرتبہ پھر تازہ ہو کر سامنے آجاتی ہے جنہیں اب شاید یاد کرنے والا کوئی باقی نہ بچا ہو۔
کل 793 صفحات پر مشتمل "وفیات معارف" میں 783 شخصیات کے تذکروں کو جانفشانی سے محفوظ کیا گیا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی کے دوستوں و معاصرین کی یاد میں "یاد رفتگاں" کے عنوان کے تحت لکھے جانے یاد نامے ہوں یا مولانا عبدالماجد دریابادی کے تحریر کردہ تعزیتی شندرے، یہ اہم صنف ہمیشہ ہی سے مستند لکھاریوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔
ماہنامہ معارف ،دارالمصنفین ،اعظم گڑھ کا اجراء جولائی 1916 میں ہوا تھا۔ سید سلیمان ندوی اس کے سرخیل قرار پائے تھے جن کی ادارت میں معارف کا پہلا شمارہ شائع ہوا تھا۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے مذکورہ کتاب کے مقدمے میں معارف کی تاریخ حسن ترتیب سے بیان کی ہے جس کے مطالعے سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ علامہ ندوی نے 1916 سے 1949 تک معارف کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ معارف میں علامہ ندوی کے قلم سے لکھا پہلا شندرہ علامہ شبلی نعمانی کی رحلت پر شائع کیا گیا تھا۔ یہ 1916 کی بات ہے۔ لکھنے والے نے دنیا کی بے ثباتی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا
:
" چند مہینوں سے معارف کا پہلا صفحہ علم و فن کے بزرگوں کے ماتم کے لیے مخصوص ہوگیا ہے۔ آج ہم دوسروں پر ماتم کرتے ہیں، کل دوسرے ہمارا ماتم کریں گے۔ دنیا کی یہ بزم ماتم کائنات فانی کے وجود کے ساتھ قائم ہے اور اسی کے ساتھ قائم رہے گی۔" (سید سلیمان ندوی)
سن 1943 سے معارف میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے مشورے سے معارف میں مرحومین کے تذکروں کے حصے کو باقاعدہ طور پر وفیات کے عنوان کا نام دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ علامہ سلیمان ندوی نے سو سے زائد وفیات قلم بند کیں۔ علامہ ندوی کے ترک وطن کے بعد معارف کے مدیران کی تفصیل کچھ یوں ہے:
شاہ معین الدین ندوی - تیس برس تک مدیر رہے
مولانا عبدالسلام قدوائی - مارچ 1975 میں ادارت سنبھالی اور 1979 میں انتقال کیا
سید صباح الدین عبدالرحمن - ستمبر 1979 میں ادارت سنبھالی - 18 نومبر 1987 کو سڑک کے ایک حادثے میں انتقال کیا۔
مولانا ضیاء الدین اصلاحی - 1987 میں مدیر مقرر کیے گئے۔ 2 فروری 2008 کو انتقال کیا۔
معارف کے موجودہ مدیر حافظ محمد عمیر الصدیق ندوی دریابادی ہیں جو تادم تحریر ساٹھ سے زائد شخصیات کے وفیات نامے تحریر کرچکے ہیں۔
وفیات معارف میں شامل بعض تحریروں کو ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے تحقیقی مقالاجات کا درجہ دیا ہے۔ ان کے بقول:
" کتاب میں سرخیوں کی رعایت لفظی، پراثر، پردرد اور فصاحت کا مظہر ہے جیسے غم اکبر (اکبر الہ آبادی)، ہماری جماعت کا لعل شب چراغ گم ہوگیا (عبدالرحمن نگرامی ندوی)، خادمہ ملت و مخدومہ امت کا ماتم (والیہ بھوپال سلطان جہاں بیگم)، ماتم گسار برامکہ کا ماتم (مولوی عبدالرزاق کانپوری)، مسند شبلی و سلیمان اجڑ گئی (سید صباح الدین عبدالرحمن)، قافلہ کا آخری مسافر (نواب وقار الملک)، اردو کا سردار چلا گیا (علی سردار جعفری)، شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق تہی (رشید حسن خان)۔
ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے وفیات کے اس ریکارڈ کو مرتب کرنے کی سعی میں معارف کے 96 سال کے پرچوں کی ایک ایک سطر کا مطالعہ کیا تب جا کر یہ اہم و تاریخی دستاویز ہوسکی جس سے آئندہ آنے والے وقت مین استفادہ کیا جاتا رہے گا۔ اس کام کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ یہ انسائیکلو پیڈیا دیدہ زیب انداز میں سفید کاغذ پر طبع ہوا ہے -اس کا سائز کتاب سے بڑا یعنی 9X11 ہے۔ وفیات معارف کی قیمت 1500 روپے مقرر کی گئی ہے۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے اپنے ادارے قرطاس، کراچی سے اسے شائع کیا ہے۔ مذکورہ ادارے کا رابطہ نمبر یہ ہے
009221-34822480
جبکہ درج ذیل ویب سائٹ کی مدد سے ای میل پتے پر بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے:
www.qirtas.co.nr
سرورق:
http://www.flickr.com/photos/rashid_ashraf/9406461863/
جہازی سائزتحفہ ہاتھ میں تھاما تو ان کی بات کی تصدیق اس طرح ہوئی کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ اسے پڑھا کیونکر جائے گا جناب ? میرا سوال تھا ۔ ۔ ۔ شاید ایک آدمی علاحدہ سے اسے تھامنے کے لیے رکھنا پڑے۔
کیا وفیات کی کتابوں کا وزن اسی لیے زیادہ ہوتا ہے کہ اس میں "ہر طرح" کی شخصیات کا احوال درج ہوتا ہے ? ڈاکٹر منیر احمد سلیج کی کتاب وفیات اہم قلم کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بھلا سیاسی شخصیات کی وفیات کی شمولیت سے کتاب ہلکی کیسے رہ سکتی ہے ?
ذکر ہے ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کی مرتب کردہ ماہنامہ معارف ،دارالمصنفین ،اعظم گڑھ کی 96 سالہ وفیات نگاری پر مشتمل کتاب "وفیات معارف" کا۔ مذکورہ کتاب میں جولائی 1916 تا دسمبر 2012 کا احوال محفوظ کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق ،شعبہ اسلامی تاریخ ،جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں. بقول معراج جامی "ایک نیک ،صالح، فعال، متحرک ،علم و ادب کے جویا ،محقق اور اردو،انگریزی اور عربی سے فیض یاب شخص۔
وفیات معارف میں اعزہ و احباب، علماء و فضلا، ادباء و شعراء، ارباب سیاست اور اصحاب کمال کے تذکروں کو جگہ دی جاتی رہی تھی۔ معارف کی وفیات نگاری میں زبان و مذہب کی تشخیص سے بالاتر ہوکر شخصیات کے تذکرے کیے جاتے تھے۔ بقول ڈاکٹر شفیق:
" ان میں ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، یہودی بھی ہیں، ہندوستان بھی ہیں ، انگریز بھی، مصری بھی ہیں اور ترکی بھی، امریکی بھی ہیں اور جرمن بھی، اسی طرح ان میں جج بھی ہیں بیرسٹر بھی، ملا بھی ہیں اور مسٹر بھی، سائنسدان بھی ہیں اور ماہر نفسیات بھی، ماہر جنسیات بھی ہیں، صوفی باصفا بھی، پیر بھی ہیں فقیر بھی، شاعر بھی ہیں خطیب بھی، سیاستداں بھی ہیں، گوشہ نشیں و گمنام بھی ہیں اور نامور مشاہیر بھی۔"
کہتے ہیں زندگی خود ہی سب سے بڑی بیماری ہے۔ بقول شخصے جس کو یہ لگ گئی، اس کو بہرحال مرنا ہی ہے"۔ قبرستان میں جب کبھی بھی جانا ہوا، قبور کو دیکھ کے یہی خیال آیا کہ جس دن ان کی میت تدفین کے لیے لائی گئی ہوگی، وہاں کیسا کہرام مچا ہوگا؟ کیا کیا نہ دلدوز مناظر دیکھے گئے ہوں گے۔ ناگہانی اموات کا شکار ہونے والوں کے کتنے ہی ایسے لواحقین ہوں گے جو اپنے پیاروں کو سپرد خاک کرکے، خود زندہ درگور ہو گئے ہوں گے۔
صاحبو! زندگی بڑی ظالم ہے۔ یہ پہلے دیتی ہے اور پھر چھین لیتی ہے۔ عمر کے ایک حصے میں آپ کو مخلص دوست اور دل سے چاہنے والے مہربان ملتے چلے جاتے ہیں جو زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں اور انسان انہی کو مکمل زندگی سمجھنے لگتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب وہ ایک ایک کر کے ان سے محروم ہونے لگتا ہے۔ محفل کے چراغ ایک ایک کر کے بجھنے لگتے ہیں، اردگرد تاریکی کے سائے بڑھنے اور پھیلنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن وہی انسان خود کو بالکل تنہا محسوس کرنے لگتا ہے
:
اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
وفیات معارف ایسے ہی کئی چراغوں کا پتہ دیتی ہے جو ‘مٹی میں رکھے گئے تھے‘ ۔ ۔ اور جن کو بجھے ایک زمانہ گزر گیا تھا۔ کتاب کے مطالعے سے ایسی کئی شخصیات کی یاد ایک مرتبہ پھر تازہ ہو کر سامنے آجاتی ہے جنہیں اب شاید یاد کرنے والا کوئی باقی نہ بچا ہو۔
کل 793 صفحات پر مشتمل "وفیات معارف" میں 783 شخصیات کے تذکروں کو جانفشانی سے محفوظ کیا گیا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی کے دوستوں و معاصرین کی یاد میں "یاد رفتگاں" کے عنوان کے تحت لکھے جانے یاد نامے ہوں یا مولانا عبدالماجد دریابادی کے تحریر کردہ تعزیتی شندرے، یہ اہم صنف ہمیشہ ہی سے مستند لکھاریوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔
ماہنامہ معارف ،دارالمصنفین ،اعظم گڑھ کا اجراء جولائی 1916 میں ہوا تھا۔ سید سلیمان ندوی اس کے سرخیل قرار پائے تھے جن کی ادارت میں معارف کا پہلا شمارہ شائع ہوا تھا۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے مذکورہ کتاب کے مقدمے میں معارف کی تاریخ حسن ترتیب سے بیان کی ہے جس کے مطالعے سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ علامہ ندوی نے 1916 سے 1949 تک معارف کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ معارف میں علامہ ندوی کے قلم سے لکھا پہلا شندرہ علامہ شبلی نعمانی کی رحلت پر شائع کیا گیا تھا۔ یہ 1916 کی بات ہے۔ لکھنے والے نے دنیا کی بے ثباتی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا
:
" چند مہینوں سے معارف کا پہلا صفحہ علم و فن کے بزرگوں کے ماتم کے لیے مخصوص ہوگیا ہے۔ آج ہم دوسروں پر ماتم کرتے ہیں، کل دوسرے ہمارا ماتم کریں گے۔ دنیا کی یہ بزم ماتم کائنات فانی کے وجود کے ساتھ قائم ہے اور اسی کے ساتھ قائم رہے گی۔" (سید سلیمان ندوی)
سن 1943 سے معارف میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے مشورے سے معارف میں مرحومین کے تذکروں کے حصے کو باقاعدہ طور پر وفیات کے عنوان کا نام دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ علامہ سلیمان ندوی نے سو سے زائد وفیات قلم بند کیں۔ علامہ ندوی کے ترک وطن کے بعد معارف کے مدیران کی تفصیل کچھ یوں ہے:
شاہ معین الدین ندوی - تیس برس تک مدیر رہے
مولانا عبدالسلام قدوائی - مارچ 1975 میں ادارت سنبھالی اور 1979 میں انتقال کیا
سید صباح الدین عبدالرحمن - ستمبر 1979 میں ادارت سنبھالی - 18 نومبر 1987 کو سڑک کے ایک حادثے میں انتقال کیا۔
مولانا ضیاء الدین اصلاحی - 1987 میں مدیر مقرر کیے گئے۔ 2 فروری 2008 کو انتقال کیا۔
معارف کے موجودہ مدیر حافظ محمد عمیر الصدیق ندوی دریابادی ہیں جو تادم تحریر ساٹھ سے زائد شخصیات کے وفیات نامے تحریر کرچکے ہیں۔
وفیات معارف میں شامل بعض تحریروں کو ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے تحقیقی مقالاجات کا درجہ دیا ہے۔ ان کے بقول:
" کتاب میں سرخیوں کی رعایت لفظی، پراثر، پردرد اور فصاحت کا مظہر ہے جیسے غم اکبر (اکبر الہ آبادی)، ہماری جماعت کا لعل شب چراغ گم ہوگیا (عبدالرحمن نگرامی ندوی)، خادمہ ملت و مخدومہ امت کا ماتم (والیہ بھوپال سلطان جہاں بیگم)، ماتم گسار برامکہ کا ماتم (مولوی عبدالرزاق کانپوری)، مسند شبلی و سلیمان اجڑ گئی (سید صباح الدین عبدالرحمن)، قافلہ کا آخری مسافر (نواب وقار الملک)، اردو کا سردار چلا گیا (علی سردار جعفری)، شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق تہی (رشید حسن خان)۔
ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے وفیات کے اس ریکارڈ کو مرتب کرنے کی سعی میں معارف کے 96 سال کے پرچوں کی ایک ایک سطر کا مطالعہ کیا تب جا کر یہ اہم و تاریخی دستاویز ہوسکی جس سے آئندہ آنے والے وقت مین استفادہ کیا جاتا رہے گا۔ اس کام کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ یہ انسائیکلو پیڈیا دیدہ زیب انداز میں سفید کاغذ پر طبع ہوا ہے -اس کا سائز کتاب سے بڑا یعنی 9X11 ہے۔ وفیات معارف کی قیمت 1500 روپے مقرر کی گئی ہے۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے اپنے ادارے قرطاس، کراچی سے اسے شائع کیا ہے۔ مذکورہ ادارے کا رابطہ نمبر یہ ہے
009221-34822480
جبکہ درج ذیل ویب سائٹ کی مدد سے ای میل پتے پر بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے:
www.qirtas.co.nr
سرورق:
http://www.flickr.com/photos/rashid_ashraf/9406461863/